نقیب اللہ محسود کے اہلِ دل دوستو، منطقی ہو جاؤ نا
از، یاسر چٹھہ
آج جائے روزگار سے واپس آ رہا تھا۔ گاڑی میں سفر کے دوران بہت خاموش رہتا ہوں۔ سوچیں کبھی ادھر، کبھی ادھر گھومتی پھرتی ہیں۔ شکر باری تعالی ہے کہ یہاں اس چھوٹی سی جگہ جو گاڑی کا کل رقبہ ہوتا ہے اپنے آپ سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ اپنے آپ کے گلے لگنا بہت ضروری ہے۔ ہم غم روزگار میں خود کو بھول جاتے ہیں۔ یہ کہنا کہ خوش قسمت ہوں جو دن میں کم از کم دو مرتبہ اپنے آپ سے ملتا ہوں، یا ناخوشئی قسمت کا شکار ہوں کہ کئی بار اپنے سے ملاقات کے دوران خود کے زیادہ حساس انسانی پہلوؤں سے دوچار ہونا پڑ جاتا ہے۔
آج کے دن کے المیہ کھیل کے دوسرے ایکٹ، یعنی اپنے آپ سے ملاقات کی دوسری بار، خود سے ملاقات کیا ہوئی، خود سے دوچار ہونا پڑ گیا۔
روز صبح کے وقت سورج اور یہ سورج سے سیراب ہونے والا راقم بستروں سے ساتھ ساتھ اٹھتے ہیں۔ مطلب غم روزگار صبح ہی اپنی اور بلا لیتا ہے۔ اس لیے دوپہر سے کچھ دو ایک گھنٹے بعد ہی گھر کی طرف لوٹ آنا ہوتا ہے۔ آج بھی یہی معمول رہا۔
کشمیر ہائی وے پر گھر کی طرف آنے والے رستے کی دوسری طرف کچھ لوگوں کا قافلہ سیاہ اور سفید جھنڈے اٹھائے صورت ماتمی سنگت آہستہ آہستہ اسلام آباد کی طرف آ رہا تھا۔
شہر کے محافظ چوکنا تھے۔ شہر کے محافظوں کا اس بار کا چوکنا ہونا اور ضروری تھا۔ پہلے بھی حالیہ کچھ سالوں میں “کہیں پہ نگاہیں، کہیں پر نشانہ” اور شست باندھے اصلی سرکاری مقاصد کے پیام بر اور سند یافتہ محبان وطن آتے تھے۔ کوئی حالیہ سلسلہ دسمبر 2012 اور اوائل 2013 کا شروع ہوا تھا۔
پہلے “سیاست نہیں، ریاست بچاؤ” کا الاپ تھا، لیکن کسی غیر سیاسی کی سیاست کی ضمانت بننا تھا۔ پھر قصاص لینے، چار حلقے کھولنے سے پنکچروں کی دکان کھولنے، اور پانامہ کے تھیلے سے مافیائی بلیاں کھولنے، فیض آباد میں فیض پین دی سری پہنچانے تک… کہانی مضحکہ خیز ہے، کہانی دل اچاٹ کر دینے والی ہے، پر کیا کریں ہمارے یہاں کہانی ایسی ہی ہے۔ بہرحال یہ سب اپنے لوگ تھے۔ ان سے کچھ خاص مسئلہ نہیں تھا۔
اتنے میں ایک مناسب شکل و حُلیہ کے متوسط طبقے کے صاحب لفٹ مانگ کر ساتھ بیٹھ گئے۔ تپاک سے ملے۔ سلام دعا کے بعد ایسے ہی پوچھ لیا کہ آپ کچھ دیر سے یہاں سڑک پر تھے، یہ سڑک کی دوسری طرف کون اور کس کا ماتمی جلوس جا رہا ہے۔ ملک کی آزاد عدالتیں ہر طرف نوٹسوں کے تھیلے سے صبح، دوپہر، شام، ںوٹس پر نوٹس لیتی جاتی ہیں۔ تو پھر فکر کس بات کی تھی؟ جو یہ انصاف، انصاف کہتے جا رہے ہیں۔
وہ صاحب بولے، دیکھیے آزاد عدالتیں اور کیا کریں جب یہ دھاندلی کی پیداوار حکومت اور اس ملک کو پچھلی ساڑھے تین سو سال سے کھا جانے والی پارٹی کچھ نہیں کر رہی۔ (راقم سمجھ گیا کہ ساتھ والے صاحب کوئی با شعور انقلابی ہیں، لہذا صرف سننے میں ہی سلامتی ہے؛ پس وہ کہتے گئے اور ہم سنتے گئے۔)
“جی وہ محسود پختون ہیں۔ غیر محب وطن۔ ان میں سے ایک نوجوان، بڑے فیشنوں کی حالت میں رہتا تھا، اس کو اپنے ایک انوار کے ہاتھوں سے گولیاں لگ گئیں۔ اب رولا ڈالے ہوئے ہیں کہ ہمیں انصاف چاہیے۔ بھئی کچھ خدا کا نام لو، کچھ وطن سے محبت سیکھو۔ غلطی ہو جاتی ہے۔ راؤ انوار وطن کا سپاہی ہے۔ جمہوریت کو مضبوط کرنے والوں اور جانیں دینے والوں کا بھی خادم رہا ہے۔ لیکن خیر جمہوریت کے لیے جانیں دینے والوں کی خدمت تو اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ مسئلہ یہ ہے راؤ انوار محب وطن پولیس افسر ہے۔ قومی اثاثہ ہے۔ خدمت وطن میں زمین سے ثریا پر پہنچ آنے والا انسان خالص ہے۔ قومی اثاثہ ہے۔
اب اثاثے اتنی چھوٹی موٹی غلطیوں پر تو کھلی عدالتوں کے ہاتھوں ذلیل و رُسوا ہونے کے لیے نہیں دیے جا سکتے۔ ایسا تو ان ملک کو لوٹ کھانے والے سیاست دانوں کے لیے ہی واجب ہے۔ پہلے ہی ہمیں ان ایئر پورٹ کے سیکورٹی سٹاف پر بہت غصہ ہے جو معاملے کو آرام سے سلجھنے نہیں دیا۔ ورنہ آرام سے پرویز مشرف صاحب کے آس پاس رہ کر راء وغیرہ کی سازشوں کا قلع قمع کرتا رہتا۔ دیکھیے جی، تھوڑی بہت اونچ نیچ ہو جاتی ہے۔ اب مقصد کسی کو ذلیل کرنا تو نہیں ہونا چاہیے نا۔ دیت وغیرہ جائز طریقے ہیں۔ دیکھیے راؤ انوار کو سزا دے لینے سے نقیب اللہ کے وارثوں کو کیا مل جانا ہے۔ منطقی یہی ہے کہ کچھ بیچ کا رستہ نکالا جائے۔
کچھ فاصلے بعد ان صاحب نے کہا کہ بس مجھے یہیں تک آنا تھا۔”
سو سخت ہاتھ سے پُرجوش کرختگی والا مصافحہ کر کے اتر گئے۔ لگا کہ جیسے وہ صاحب جلدی میں چلے گئے۔ ان کی منزل آ گئی۔ وہ شاید یہ کہنے ہی والے تھے کہ راؤ انوار کو چاہیے تھا کہ پرانے فارمولے سے نہ ہٹتے؛ پہلے نقیب اللہ پر کوئی توہین وغیرہ ڈالتے اور مومن اخبارات سے خوب خبر، خبریں لگواتے، خبروں کو فیس بک پر چڑھاتے، اس کے بعد اب کام آٹو پر ہو جانا تھا۔
اس طرح اس کی دنیا و آخرت دونوں کا حساب چکتا کرتے۔ پھر تو نقیب کے گرد پھرتے چلتے انسان نما، نامیاتی ہتھیاروں میں بدل جاتے۔ اس طرح قتل کا کاروبار بھی چلتا رہنا تھا اور عدالتوں نے بھی خواہ مخواہ پیچھے نہیں پڑنا تھا۔ آخر عدلیہ اس قدر بھی آزاد نہیں کہ….(…) بعد ازاں چند انسانوں کی جانب سے اٹھنے والے سارے شور و غل کو لنڈے کے لبرلوں، کمیونسٹ ملحدوں اور بیرونی ایجنٹوں وغیرہ پر محمول کر کے کام فارغ کرنا تھا۔ سویلین محب وطنوں میں تھوڑا سا مینوفیکچرنگ نقص رہ ہی جاتا ہے۔
راقم پھر سے اپنے آپ سے دوچار ہوگیا۔ کئی سوال ابھرے کہ کیا نقیب اللہ کے دوستوں، رشتہ داروں، عزیزوں اور اہل دل انسانوں کو ہمارے سفری شریک کی منطق کو مان لینا چاہیے؟
نقیب اللہ محسود کے اس دنیا میں وارث راؤ انوار جیسے قومی اثاثے کے ہاتھوں ظلم کے طویل خونی کھیل کو نقیب کی مثال بنا کر کئی اور زندہ انسانوں کو ماورائے عدالت “کاروباری قتل” سے بچانے کے لیے، انصاف لینے اور انصاف کی آس کا پیام پھیلانے، اسلام آباد آئے ہیں۔ کیا انہوں نے غلط کیا ہے، یا وہ غیر منطقی رویے پر ضد کیے ہوئے ہیں؟
مجھ سے لفظوں میں جواب نہ رقم ہو سکا۔ اس دوران البت میرا دل کب پگھل گیا، اور میری پنجابی آنکھوں میں پتا نہیں آنسو کیوں آ گئے؟
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.