کافکا تاریخ لکھتا ہے : مائیکرو فکشن
از، جنید الدین
ایک رات کافکا نے خواب دیکھا کہ وہ کوئی خواب نہیں دیکھ رہا۔ اس نے دیکھا کہ نظریہ ارتقاء قحط کے دنوں میں ڈارون کے پاس وافر غلہ ہونے کی نفسیاتی کشمکش تھی۔ جبکہ ایک گدھ نے مردار دیکھا اور پھر بھی پورے خاندان کو اس کی دعوت دے ڈالی۔ ان میں سے کسی نے کسی لاغر کو کھانے سے نہ روکا اور نہ کوئی پیمان باندھا کہ اگلی دفعہ کھانا کون ڈھونڈے گا۔
اس نے دیکھا کہ شیکسپئیر نے ڈرامہ کامیاب ہونے پر اپنا سارا سود معاف کر دیا تھا۔ اب لوگوں نے شراب کی بجائے اس کے جملوں سے گوہر اخذ کرنے شروع کر دیے تھے۔
اس نے دیکھا کہ جو ریلوے اسٹیشن پہ مرا تھا وہ ٹالسٹائی نہیں اس کا مومی مجسمہ تھا جسے ترگنیف نے ہزاروں روبل میں مادام تساؤ سے تیار کروایا تھا۔
اس نے دیکھا کہ گوگول یونیورسٹی سے بھاگا نہیں تھا مگر وہاں کے پروفیسروں نے اس پہ یوکرائنی غدار ہونے کا الزام لگایا تھا اور یہی روس کے یوکرائن سے علیحدہ ہونے کا سبب تھا۔
اس نے دیکھا کہ ہر شخص میجائی magi ہے جو دوسرے کی کامیابی پر خوش اور ہر شخص جو دوسرے کو کھانا کھانے میں شریک کرتا ہے، سانتا کلاز ہے۔ جس کا لباس اتنا بوسیدہ ہو چکا ہے کہ اتار کے دوسرا پہن لیا ہے، اور فرعون سب سے کوڑھ مغز تھا جس نے اپنے لوگوں پر سے اعتماد کھو دیا تھا۔
اس نے دیکھا کہ اس نے ان تمام واقعات کا درست وقت معلوم کر لیا ہے کہ وہ کب ہوئے تھے اور یہ بھی کہ تاریخ محض خوابوں کی تاریخ ہی تو نہیں ہے۔