کہانی ایک گاؤں کی

ایک روزن لکھاری
ذولفقار علی

کہانی ایک گاؤں کی

ذوالفقار علی لُنڈ

میرا نام کنڈی والا ہے۔ میں ڈیرہ غازیخان کی یونین کونسل احمدانی کا حصہ ہوں۔ میں کئی صدیوں سے اپنی جگہ پر ٹکا ہوا ہوں۔وقت کی دھول میں گُم ماضی کے منظر کُریدنے کو جی چاہ رہا تھا کیونکہ اکیسویں صدی ڈیجیٹل اور شہروں کی صدی ہے۔ شہر اور دیہات کے بڑھتے تعمیراتی (Structural) اور غیر تعمیراتی (Non-structural) فاصلوں میں  وہ مسائل اُجاگر کرنا چاہتا ہوں جن کی وجہ سے خاص طور پر تیسری دُنیا کے دیہات اپنی زندگی اور جدید دُنیا کےمرکزی دھارے سے کٹتے چلے گئے۔

میرا مقصد شہروں کی جان لیوا اور تیز زندگی کی چیخوں میں دیہاتوں کی جامد اور ٹھہراو کا شکار زندگی کی آہ کو ریکارڈ پر لانا ہےشاید کوئی اہل دل یا اہل اقتدار ‘چیخوں اور ‘ آہوں ‘ کی گرد میں جھانک کر شہروں اور دیہاتوں کے  مسائل کو سمجھنے کے اہل ہو پائے۔

پہلا منظر (پاک ہند تقسیم سے پہلے کالونیل دور)

دیہات کی زندگی کی ایک جھلک

صبح کا منظر ہے ہوا میں تازگی اور ٹھنڈک کا حسین امتزاج ہے۔ سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی زندگی جاگ اُٹھی ہے۔ گھر کی عورتیں پتھر کی چکی  (گھرُٹ) پر جوار ، گندم اور باجرہ کے دانے پیس رہی ہیں۔ ہاتھ سے گھومنے والی چکی کی موسیقی کانوں میں رس گھول رہی ہے۔

درخت یا ‘ٹاں ویں ‘ ( ٹاواں سرائیکی زبان کا لفظ ہے جو  سوکھی ہوئی کم از کم دس بارہ فٹ کی لکڑی ہوتی ہے جس کے اوپر کانٹے دار جھاڑیاں باندھ دی جاتی ہیں تاکہ رات کو بلی یا گیدڑ اُن پر بیٹھی مُرغیوں تک نہ پہنچ سکے) پر بیٹھے مُرغ کی اذان سونے والوں کو ایک نئی صبح کے لیے چتاؤنی دے رہی ہے۔

مُختلف مذاہب کو ماننے والے اپنی اپنی عبادت گاہوں میں کسی خوف کے بغیر عبادت میں مصروف ہو گئےہیں۔ کسانوں نے اپنے بیل جوت  لیے اور اُن کے گلوں میں لٹکتی ہوئی ٹلیوں کی آواز نے پرندوں کو بھی جگا دیا ہے۔

نیلگوں آسمان پر چمکتے ستاروں کی روشنی مدھم پڑ رہی ہے دور اُفق پر اُبھرتے ہوا سورج ایک اور دن کو جنم دے رہا ہے۔

مٹی کے برتنوں ‘ دکھی ‘ (دکھی مٹی کا برتن ہے جس میں دودھ جمایا جاتا ہے)  میں جمی دہی کو دادی اماں نے مٹی(ایسا برتن جس میں دہی ڈال کر لسی اور مکھن بنایا جاتا ہے) کے اندر ڈالا تو سونے جیسی دہی کی خوشبو نے بچوں کو جگا دیا۔بچے لال رنگ کے کُمہار کے ہاتھ سے بنے پیالے لے کر دادی سے دہی لینے پہنچ گئے۔

مٹی کے گُھبکار اور پرندوں کی چہچہاہٹ نے آس پاس کے ماحول میں سماں باندھ دیا ہے۔

چاروں طرف لہلہاتی فصلوں کے کھیتوں کے بیج مقامی مٹی کی کوکھ سے جنمے ہیں۔اس  لیے وہ ماحول دوست اور ذائقے میں باکمال ہیں۔ سب لوگ جاگ چُکے ہیں اور اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے ہیں۔گھر کی عورتیں ناشتہ بنانے میں لگ گئی ہیں، تندور اور پتھر کی بنی ہوئی تھوبی پر تازہ روٹیوں کی مہک نے بھوک کو اور دوبالا کر دیا ہے۔گھر کی پتھاری پر بیٹھ کر سب نے مل کر مکھن، دہی اور ساگ سے ناشتہ کیا اور معمول کے کاموں پر جُت گئے۔

چرواہے بکریوں، بھیڑوں اور گائے کے ریوڑوں کے ساتھ ہو  لیے۔ وہ آس پاس کی چراگاہوں میں اپنے مویشیوں کے ساتھ خوش ہیں ۔اس خوشی کا اظہار وہ لوک گیتوں کی سُریلی تان گا کر  کرتے ہیں۔

ہندو کمیونٹی کے لوگ اپنے کاروبار اور دُکانوں پر چلے گئے، کُمہار، ترکھان، موچی اور نائی بھی رزق روزی کی تلاش میں نکل پڑے ہیں۔وہ اپنے فن اور اشیا کے بدلے بارٹر سسٹم کے تحت  زراعت کے پیشے سے جُڑے کسانوں سے فصل پکنے کےسیزن پر گندم، جوار اور باجرہ لیں گے۔

شام کے سائے گہرے ہوتے ہی سب اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ گاؤں کے چوپال (بیٹھک) پر سب مرد اکٹھے ہو رہے ہیں گہما گہمی بڑھ رہی ہے، وہ دن بھر کا حال احوال دیں گے، بستی کے مسائل اور چھوٹے موٹے جھگڑے بھی وہیں پر نمٹائیں گے۔ حُقے کی گُڑ گُڑاہٹ میں ہنسی مذاق چل رہا ہے اور زندگی سے بھر پور قہقہے گونج رہے ہیں۔

گھر کی عورتیں بھی دن کے کام کاج سے تھک کر ” رفع حاجت” ( گاؤں سے باہر کھیتوں میں سب عورتیں اکٹھی ہو کر باتھ روم کے لیے جاتی تھیں) کے لیے جا رہی ہیں۔ وہاں بیٹھ کر وہ ایک دوسرے کو اپنا حال احوال سُنا رہی ہیں۔اس مشق سے وہ اپنا کتھارسز کر رہی ہیں۔ ایک آدھ گھنٹے بعد جب وہ گھر لوٹیں گی تو ہلکی پُھلکی ہو کر آئیں گی۔

وقت لگے بندھے ضابطوں اور فطری اصولوں کے تحت  ہنسی خوشی آگے بڑھتا ہے تو بچے گھر میں موجود بزرگوں کے پہلو میں لیٹ کر قصے کا لُطف لے رہے ہیں۔ رات کے گہرے ہونے سے پہلے سب گہری نیند سو جائیں گے یوں زندگی کا دائرہ چلتا رہتا ہے۔

شادی کے گیت، مقامی تہوار اور کھیل، خالص اور دیسی پکوان دیہات کی اس زندگی میں پوری طرح رچے بسے ہیں۔

غُربت اور وسائل کی کمیابی کے باوجود زندگی میں رمق اور ردھم ہے۔ لوگوں کا آپس میں تال میل ہے ۔ماحول ، مٹی اور ثقافت کے دھاگوں نے اُنہیں  پوری طرح سے جوڑ رکھا ہے۔ وہ نئے ریاستی جبر اور منظم طاقتور ریاستی اداروں کی موذی وبا سے ابھی پراگندہ نہیں ہوئے۔

دوسرا منظر (پاک ہند کی تقسیم کے بعد )

دھرتی کی تقسیم

وقت یوں ہی گُزر رہا تھا کہ  تقسیم کی باتیں ہونے لگیں۔ صدیوں کے رشتے کمزور پڑنے لگے اور سماجی ہم آھنگی کی تصویر پھیکی لگنے لگی۔رشتوں کے رنگ ماند پڑنے لگے بالاخر ‘ غدر ‘ ( پُرانے بزرگ سینتالیس کی تقسیم کو غدر کے واقعے سے یاد کرتے ہیں)  کی وہ منہوس گھڑی آن پہنچی جس نے صدیوں کے سماجی بندھن میں بندھے لوگوں کو ایک دوسرے سے جُدا کر دیا تو دیہاتوں کی فضا بھی سوگوار ہوگئی۔

مذہب کی بُنیاد پر ہجرت کی کالی رات نے میری روح کو تار تار کیا تو انسانی تاریخ کے ایسے المیوں نے جنم لیا جس کو بیان کرتے ہوئے میرا کلیجہ منہ کو آتا ہے۔

تقسیم کی اس لکیر نے مُجھ سے میرے باسی چھین  لیے تو باقی ماندہ لوگوں میں بوجھل دل کے ساتھ میں بھی زندہ رہا۔ ٹوٹ پھوٹ کا جو عمل سینتالیس میں شروع ہوا اُسے کوئی ” نیا قانون” نہیں روک سکا۔ نئے سماجی اور انتظامی ڈھانچوں کی بحث میں اس دھرتی پر ہزاروں سالوں سے بسے باشندوں پر نئی ریاستوں کے وجود نے کیا کیا ظُلم کے پہاڑ توڑے اور کس پر کیا بیتی وہ تاریخ کے سُرخ چہرے پر کُنداں  ہے۔

اگرچہ اس تقسیم کے کرداروں کو بھی سمجھ آگئی تھی کہ اس اُتھل پُتھل کا انجام کیا ہوگا۔ اکا دُکا کرداروں  نے اپنے تئیں مزید بربریت کو روکنے کی کوشش تو کی مگر وہ اس قابل نہ ہوئے کہ نفرت اور لوٹ مار کی آگ کو بُجھا سکیں۔اس آگ کو بُجھانے والے ایک کردار کو تو گولی مار کر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔جبکہ دوسرا اہم کردار بھی بے بسی کے عالم میں ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ اللہ کو پیارے ہو گئے۔

نئے قانون اور نظام کی رسیوں میں جکڑنے کی تگ و دو میں طاقت ور طبقے نے مقامی ثقافت، ریتی رواج اور مقامی ادراروں کو روند کے رکھ دیا۔  اقتدار کی رسہ کشی میں مُلائیت اور رجعتی بُنیادوں کی حامل ‘ قرار داد مقاصد ‘ کے خالق مُلک کے پہلے مُنتخب وزیراعظم کو بھی اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ تشدد اور مار پیٹ کی لہر جب پیدا ہوتی ہے تو وہ اپنے سامنے آنے والی ہر چیز کو بہا کر لے جاتی ہے۔ انسانی نفسیات کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ درد اور تکلیف کا باعث بننے والے عناصر کو آسانی سے یاداشتوں سےکُھرچا نہیں جا سکتا بلکہ یہ رہتی عمر تک زندہ رہتی ہیں۔

تیسرا منظر

آئین پاکستان کی تیاری

بد قسمتی سے اس خطے کی طاقت اور اقتدارپر قابض زیادہ تر لوگ غیر مقامی اور کالونیل دور کی روایتوں کے رکھوالے اور عادی تھے، جب انہوں نے ریاست کے نئے خدو خال طے کئے تو  اپنی حُکمرانی کے جواز کے لیے  اُن کو ایک بائنڈنگ فورس کی ضرورت محسوس ہوئی کیونکہ زمانہ قدیم سے غیر مقامی حُکمرانوں نے مقامی لوگوں کو دیوتا، خُدا اور مذہب کے باعث  اپنی حُکمرانی کو نہ صرف طوالت دی بلکہ مذاہب کے نُمائندوں سے ملکر اپنی حُکمرانی کے جواز کی گُنجائش بھی پیدا کی، کیونکہ  غیر مقامیت کے فطری نفسیاتی اثرات جس میں خوف اور اندیشوں کے بیج پرورش پاتے رہتے ہیں جن کو دو طریقوں سے کم کیا جا سکتا ہے پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ مقامی رنگوں کو اپنا لیا جائے جبکہ دوسرا طریقہ اپنے اندر کے خوف کو انہونی طاقتوں سے جوڑ کر ایک اور خوف کا سہارا لیا جائے۔

لہٰذا انہوں نے اپنے اندیشے کو کم کرنے کے لیے دوسرے قسم کے خوف کا استعمال کیا ۔اس پس منظر میں آئین میں ایسی ایسی شقیں ڈالیں جن کا تعلق مقامی تہذیب و ثقافت، تاریخ، رجحانات اور روزمرہ کے رہن سہن سے نہیں تھا۔ نو سال بعد ” نیا قانون” تو بن گیا مگر وہ قانون “تانگے کے کوچوان” کو کسی قسم کا تحفظ ہرگز نہیں دیتا تھا(تانگے کا کوچوان منٹو کا ایک کردار ہے جس سے مُراد غریب اور پسے ہوئے  مقامی طبقات ہیں)۔

قانون اور پالیسیوں کی اس بھیڑ چال میں دیہاتوں کی زندگیوں میں جو دور رس منفی رجحانات اور اثرات مُرتب ہوئے اُس میں خود ساختہ فیلڈ مارشل اور ڈکٹیٹر ایوب خان کی   ” سبز انقلاب ” کی پالیسی سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔

سبز انقلاب ایسی پالیسی تھی جس کا تعلق عالمی کارپوریٹ ایجنڈے سے تھا۔اُس ایجنڈے نے سماجی، سیاسی اور ماحولیاتی مسائل کو بے حد نقصان پہنچایا تھا۔

سبز انقلاب کو دراصل سیاست اور ٹیکنالوجی کے حاصلات کے طور پر لاگو کیا گیا تھا۔ فطرت کی بندشو ں  اور سماجی ڈھانچےکو توڑ کر زراعت میں زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے سائنس کا استعمال کیا گیا جس کا مقصد معاشرے میں خوشحالی اور امن لانا بتایا گیا تھا۔ سائنس کو اگر سماجیات سے الگ کر دیا جائے تو یہ اکثر اوقات آفت کا روپ دھار لیتی ہے۔

اس پالیسی کے تحت  زمینوں کی تقسیم، (اسی زمانے میں فوجیوں کو زمیندار بننے کی لت پڑی تھی جو آج تک جاری ہے) ہائبرڈ بیج، مشینری ، فرٹیلائزر ، زہریلی ادویات کے استعمال کے ساتھ ساتھ آبپاشی کے نظام کو نئے سرے سے جدید خطوط پر استوار کرنے کا کام شروع ہوا۔ جن میں نئے ڈیمز، دریاؤں کی بندر بانٹ اور نہروں کا جال بچھایا گیا۔

اس سارے عمل نے سماجی ، ماحولیاتی اور سیاسی رشتوں کو نئے سرے سے پنپنے کا موقع فراہم کیا جس کے اثرات لوگوں کی معیشت، ثقافت، آپسی رشتوں اور ماحول پر پڑنا شروع ہوئے تو تیسری دُنیا کے بہت سارے خطوں میں جہاں اسے لاگو کیا گیا تھا بے چینی پھیلنے لگی جسمیں انڈین پنجاب میں سکھوں کا احتجاج اور ریاستی تشدد قابل ذکر ہے۔

سائنس کا ایک المیہ رہا ہے یہ ایجادات تو دے دیتی ہے مگر جب اُن ایجادات کی وجہ سے سماجی، سیاسی یا ماحولیاتی مسائل جنم لیتے ہیں تو اُن کے حل کے لیے سائنس کے پاس کوئی بیک اپ نہیں ہوتا بلکہ یہ  اپنے آپ کو الگ کر لیتی ہے اور پھر عوامی سطح پر نہ تو اسے جوابدہ ٹھہرایا جا سکتا ہے، نہ اس پر کوئی سوال اُٹھایا جا سکتا ہے اور نہ ہی معاشرتی عمل میں اسکو ذمہ دار گردانا جا سکتا ہے۔

سائنس کے منفی اور مثبت پہلو ؤں کو  سماجیات اور سیاست ہی ڈیل کرتی ہے، اس  لیے سائنس سے زیادہ اہمیت سیاست اور سماجیات کی ہونی چاہیے مگر ایسا عام طور پر ہوتا نہیں ہے۔

خیر واپس آتے ہیں اس انقلاب کے نتیجے میں مُجھ پر کیا بیتی۔ سب سے پہلے مقامی لوگوں کے سماجی رشتے کمزور پڑنے لگے کیونکہ جو کام بیل سے ہوتا تھا وہ ٹریکٹر سے ہونے لگا، بیل رکھنے والا چھوٹا کاشتکار جو ٹریکٹر نہیں خرید سکتا تھا وہ آہستہ آہستہ زراعت سے دور ہوتا گیا۔ اُسے کوئی اور کام آتا نہیں تھا سو اُس نے ٹریکٹر والے کا مذارع بننے میں اپنی بقا سمجھی۔

اس طرح ترکھان، کُمہار، موچی اور نائی سے روایتی زراعت کا جو تعلق بنتا تھا وہ بھی زوال پذیر ہونے لگا ۔ ان پیشوں سے وابستہ لوگ بھی دیہات کی زندگی سے غائب ہونا شروع ہو گئے۔ اُن کی جگہ اب بیج، کھاد، زرعی ادویات کی کمپنیوں نے سمبھال لی  کیونکہ ان کمپنیوں کو صرف اپنے منافع سے غرض تھی اس  لیے ان کا رشتہ کیپٹلزم کے سوا کُچھ نہیں تھا۔

یوں فطرتی رونقیں ماند پڑنے لگی ۔ جدید زرعی  معیشت نے ایک نئی کلاس کو بھی جنم دیا جس کو ہم مڈل مین ، آڑھتی یا بیوپاری کہہ سکتے ہیں۔ اس مڈل مین کا تعلق مقامی رشتوں سے کم کاروباری کمپنی سے زیادہ تھا جس کی وجہ سے اُسے پیداوار اُگانے والے سے کوئی غرض نہیں تھی۔

اس نئے سماجی ڈھانچے میں سرمایہ دار اور جاگیر دار کا فطری اتحاد بنتا ہے جس میں ریاست بھی اُس کے ساتھ تھی۔ اس سارے قضیے میں سب سے زیادہ اثر مقامی ہنر مند طبقے اور چھوٹے کسان پر بہت بُری طرح سے پڑا ۔ دیہات کی زندگی میں طبقاتی مسئلہ زیادہ شدت سے سامنے آیا جس کا اثر وہاں کے باشندوں کے باہمی تعلقات پر بھی پڑا اور ” سانجھ” کی روایتیں کمزور ہوئیں۔ خاص طور پر کسان عورت جو روایتی زرعی نظام میں مرد کسانوں کے شانہ بشانہ کام کرتی تھی اُس کا تو سرے سے کردار ہی ختم کر دیا گیا۔

اس سماجی ٹوٹ پھوٹ نے بیٹھکوں اور مقامی تہواروں کو نگل لیا جس کی وجہ سے دیہات کی زندگی میں تلخ قسم کی بیگانگی در آئی۔ اس بیگانگی نے شدت پسندی کی راہ ہموار کی جس نے مذہبی عدم رواداری کو جنم دیا۔

چوتھا منظر

ضیا کا کالا دور

مقامی کلچر کے زوال کو مذہبی بیانئے سے پُر کرنے کی کوشش میں ‘ مولوی’ کو اہم رول دے دیا گیا ۔ سماجیات کے علم سے نابلد مولوی نے لوگوں کی خالی  زندگیوں کو مذہب کی تنگ گلیوں میں دھکیل دیا اور یوں سائنس کا یہ اقدام عقیدوں اور اندھی تقلید کا بالواسطہ باعث بن گیا۔

ضیا نے اُس وقت کے سیاسی ماحول کو اپنے اقتدار کی طوالت سے مشروط کر دیا اور دیہاتوں میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار زندگیوں کو تشدد کی دلدل میں دھکیل دیا۔ پہلے سے بے چین اور غُربت کا شکار دیہات اُن کے پُر تشدد بیانئے کی ترویج کے لیے تر نوالہ ثابت ہوئے ۔ رہی سہی زندگی کو کلاشنکوف، تفرقہ بازی، نشہ اور جہاد کی گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ اس آگ نے کئی گھر جلا کر راکھ کر دئے ۔

مذہبی شدت پسندی نے ثقافتی گھُٹن کے ایسے ایسے گُل کھلائے کہ اُن کو یاد کرکے دل دہل جاتا ہے۔ اس  لیے میں اُس سیاہ دور کو لفظوں کے پہناوے پہنانے سے قاصر ہوں۔

پانچواں منظر

ماحول پر اثرات

ثقافتی گُھٹن کے ساتھ ساتھ اس کے اثرات ماحول پر بھی بُرے طریقے سے پڑنے لگے۔ زیادہ سے زیادہ پیداوار اور منافع کے چکر میں کھادوں اور زرعی ادویات کا استعمال بڑھ گیا جس نے پورے ایکالوجیکل نظام کو تباہ کر دیا۔ مقامی پرندے، درخت، پودے اور قیمتی جڑی بوٹیاں بھی آہستہ آہستہ نا پید ہونے لگیں جس کا اثر انسانی صحت، رویوں اور فوک دانش پر بھی منفی انداز میں ظاہر ہوا۔

مشینری کے استعمال کی وجہ سے زمین کے وہ قطعے جن پر دیہات کے لوگوں کے مال مویشی چرتے تھے کاشتکاری کے لیے استعمال ہونے لگے جس کی وجہ سے چراگاہیں کم ہوئیں تو دیہات کی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والے مویشی بھی کم ہوگئے جس کی وجہ سے وسیع آبادی میں غُربت کی شرح بڑھنے لگی ۔نئی معاشی اقدار نے وسائل کا رُخ شہروں کی طرف موڑ دیا کیونکہ اب جنس کے بدلے وہ باہر کی کمپنیوں سے مُختلف اشیا (بیج کھاد زرعی ادویات ) خرید رہے تھے جس کی وجہ سے شہروں میں خوشحالی کا گراف بڑھا اور وہاں نئی کالونیاں اور تعمریاتی کام کی رفتار میں تیزی آئی۔یوں مزدوری کی غرض سے دیہاتیوں نے شہروں کا رُخ کیا۔ کیونکہ دیہات میں لٹریسی ریٹ بہت کم تھا اس  لیے زیادہ تر دیہاتی دیہاڑی پر کام کرنے لگے یا وہ فوج میں بطور سپاہی بھرتی ہونے لگے۔

سبز انقلاب جس کا مقصد خوشحالی ، ذرائع پیداوار میں اضافہ اور پائیدار ترقی کا معجزہ دکھانا تھا ایک نئے بحران کا پیش خیمہ بن گیا تھا۔

 

About ذوالفقار زلفی 63 Articles
ذوالفقار علی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا ہے۔ آج کل کچھ این جی اوز کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایکو کنزرویشن پر چھوٹے چھوٹے خاکے لکھتےہیں اور ان کو کبھی کبھار عام لوگوں کے سامنے پرفارم بھی کرتے ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاعری بھی کرتے ہیں، مگر مشاعروں میں پڑھنے سے کتراتے ہیں۔ اس کے علاوہ دریا سے باتیں کرنا، فوک کہانیوں کو اکٹھا کرنا اور فوک دانش پہ مبنی تجربات کو اجاگر کرنا ان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے۔ ذمہ داریوں کے نام پہ اپنی آزادی کو کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتے۔