کاملہ شمسی کا ہوم فائر

زاہدہ حنا

کاملہ شمسی کا ہوم فائر

از، زاہدہ حنا

وہ اچھے دن تھے جب امن کے موضوع پر ادبی کانفرنسیں ہوتی تھیں اور اس میں پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال اور بھوٹان کی ادیب خواتین اکٹھا ہوتی تھیں۔ اجیت کور اور ان کی سارک لٹریری فاؤنڈیشن نے اس حوالے سے بہت کام کیا۔ اکیسویں صدی آغاز ہو چکی تھی اور ہمارا خیال تھا کہ یہ صدی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایسے امن تعلقات کا آغاز کرے گی جس کے بعد ہمارے دلدّر دور ہو جائیں گے۔

پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھوٹان اور خود ہندوستان بھر سے آئی ہوئی مختلف زبانوں کی لکھنے والیاں موجود تھیں۔ 60، 50 لکھنے والیوں کاایک جھرمٹ تھا جس میں سب ایک دوسرے سے مل رہی تھیں اور اپنی اپنی کہانی سنا رہی تھیں۔ ہم سب دِلّی سے خاصی دور’آنند گرام‘ میںٹہ رائے گئے تھے۔

چار دیواری کے چاروں طرف پیڑوں کا پہرا۔ اونچے اونچے ٹیرا کوٹا مجسمےچمپا، چنبیلی، گلاب اور گیندے کے تختے، ان پھولوں کی خوشبو سے بوجھل ہوائیں، مدھو مالتی اور شیولی کے درمیان جھنکارتے ہوئے مور۔ آسمان پراڑان بھرتی ہوئی فاختائیں،گوریاں اور طوطے، جنت کا سماں اوراس کے درمیان ہم، بھولے بسرے گیت گاتے ہوئے، قہقہے لگاتے ہوئے۔

اسی ماحول  میں پہلی مرتبہ میں نے اسے دیکھا۔ میدہ شہابی رنگت، دل کش نقوش اور ذہین آنکھیں۔ یہ چہرہ میرا دیکھا ہوا تھا۔ میں ذہن پر زور ڈالتی رہی اور تب مجھے یاد آیا کہ یہ لڑکی منیزہ شمسی سے کس قدر مشابِہ ہے۔

یہ کاملہ شمسی تھی۔ اس کا تعلق ہماری اس نئی نسل سے تھا جو انگریزی میں لکھتی تھی اورانعام پر انعام لیے جارہی تھی۔ اور پھر یاد کی تمام کڑیاں، ایک دوسرے سے ملتی گئیں۔ مجھے بیگم جہاں آرا حبیب اللہ یاد آئیں جنہوں نے زہرہ کریم کے اردو ’شی‘ میگزین کے لیے یادوں کاایک مُرقّع لکھا تھا۔ میں اس رسالے کی ایڈیٹر تھی اور میری خوشی کی انتہا نہیں رہی تھی جب بیگم جہاں آرا نے ریاست رام پورکے حوالے سے ’’زندگی کی یادیں‘‘ ایک مختصر تاثراتی مضمون لکھا جس میں نادر و نایاب تصویریں بھی شامل تھیں۔

کچھ دنوں بعد بیگم جہاں آرا نے ہماری فرمائش پر ان یادوں کو بہت سے صفحوں پر پھیلا دیا۔ یہ کتاب ’’زندگی کی یادیں: ریاست رام پور کا نوابی دور‘‘ کے عنوان سے 2003 میں شایع ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔ اس میں غیر منقسم ہندوستان کی سیکڑوں برس پرانی روایات کوسمیٹ کرایک ایسا کولاژ بنایا گیا تھا جوہماری تہذیبی تاریخ کا روشن باب ہے۔

کاملہ شمسی کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جو برّ صغیر میں برٹش راج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہا۔ آکسفرڈ اور کیمبرج سے فارغ التحصیل نوجوان اور اسی کے ساتھ اردو، فارسی، عربی اور سنسکرت کی علمی اور ادبی روایات سے جُڑے ہوئے، لیکن بات یہیں پر تمام نہیں ہوتی تھی۔ یہ وہ خاندان تھا جس کی عورتیں بیسویں صدی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں اور اس کے ساتھ ہی لکھنے کا شوق رکھتی تھیں۔


مزید دیکھیے: نو آبادیاتی نظام کے فوائد کی حقیقت از، ششی تھرور


منیثرہ شمسی انگریزی میں ادبی اور سماجی کالم لکھتی ہیں۔ وہ جہاں آرا حبیب اللہ کی بیٹی ہیں اور ہندوستان کی مشہور ناول نگار عطیہ حسین کی بھانجی یا شاید بھتیجی۔ یہ وہی عطیہ حسین ہیں جنہوں نے انگریزی میں ایک معرکہ آرا ناول لکھا جسے ابھی چند برس پہلے انتظار صاحب نے ’شکستہ ستونوں پر دھوپ ‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا۔ اس ناول میں عطیہ حسین نے لکھنؤکے تعلقہ داروں کی اس زندگی کا نقشہ کھینچا ہے جو موجود تھی تو محسوس ہوتا تھا کہ یہ کبھی ختم نہیں ہوگی اور جب ختم ہوئی تو تقسیم کے ساتھ ہی یاد فراموشی کے طاق پر رکھی گئی اور تاریخ کے دھندلکوں میں کھوگئی۔

عطیہ اس بات پر ناز کرتی تھیں کہ میری رگوں میں ان اجداد کا خون دوڑ رہا ہے جو 800 برس سے ہندوستانی تھے۔ انھوں نے تقسیم کی برچھی کھا کر رہائش کے لیے برطانیہ کے شہر لندن کو اختیارکیا اور وہیں کی ہو رہیں۔ وہ ایک ایسی قصّہ گو تھیں کہ جن کی باتیں سننے والے ان کے سِحَر میں ڈوب جاتے تھے۔

کاملہ شمسی کے خاندان کی عورتوں کا قصہ کچھ یوں ہے کہ ان کی پر نانی بیگم انعام فاطمہ حبیب اللہ نے 1924 میں ’تاثراتِ سفرِ یورپ‘ لکھی  ادیبوں کی کئی پُشتیں ہیں جو کاملہ تک آتی ہیں اور تسلسل نہیں ٹوٹتا۔ انگلستان جا کر بس جانے والے عامر حسین بھی ان کے خاندان سے ہیں۔ وہ بھی انگریزی میں لکھنے والے ایک اہم ایشیائی ادیب ہیں۔ اس  تناظر میں دیکھیے توکاملہ ادیبوں کے جدی پشتی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔

کاملہ 1973 کے پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ کراچی ان کی جنم بھومی ہے۔ کراچی گرائمر اسکول سے انھوں نے اے لیول کیا اور پھر امریکا چلی گئیں جہاں سے انھوں نے گریجویشن کیا۔ وہ واپس کراچی آئیں اور اب لندن اور کراچی کے پھیرے لگاتی ہیں ۔کراچی ان کے لیے یادوں کا ایک خزانہ ہے اوراس کے ساتھ ہی لندن انھیں اپنا گھر لگتا ہے۔ وہ لندن، کراچی اور دِلّی کے درمیان سفر میں رہتی ہیں۔ اسی طرح جیسے بپسی سدھوا امریکا، کراچی اور دلی کواپنا گھر خیال کرتی ہیں۔

ہم جب ادب اور امن کانفرنس کے سات دن دلی میں گزار رہے تھے تو یہ خوش قسمتی صرف کاملہ کے حصے میں آئی تھی کہ دلی میں ان کا نیھیال، ان کا گھر تھا۔ وہ دن کے کئی گھنٹے کانفرنس کے سیشنوں میں گزارتیں، پھر گھر سے کار آتی اور وہ اپنے خاندان میں چلی جاتیں۔

اس وقت کاملہ کے صرف 2 ناول شایع ہوئے تھے اور دونوں انعام کے لیے شارٹ لسٹ ہو چکے تھے۔ اسی حوالے سے وہ مشہور ہو چکی تھیں۔ دِلّی میں ہندوستانی ادیبوں کے حلقے میں وہ معروف  تھیں اور مقبول بھی۔ ہم خوش ہوئے کہ ارُون دھتی رائے اور وکرم سیٹھ کی طرح ہمارے یہاں بھی انگریزی میں لکھنے والوں کی نئی نسل سامنے آ رہی ہے۔ بپسی سدھوا، سارہ سلہری ان سے پہلے کی نسل تھی۔ محسن حامد اور محمد حنیف، کاملہ شمسی اور عظمیٰ اسلم خان کی نسل ان کے بعد آئی اور یورپی ادبی حلقوں میں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی تھی۔

کاملہ کی زندگی میں کراچی بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ وہ یہاں پیدا ہوئیں، ان کی ابتدائی تعلیم بھی یہیں ہوئی۔ سہیلیاں، دوست، رشتے کے بھائی بہن ۔ وہ گلیاں جن سے وہ گزریں، وہ بازار جہاں سے انھوں نے چوڑیاں اور چُنے ہوئے دوپٹے خریدے۔ شاید گول گپے اور مرچ کی تیز چٹنی ڈال کر دہی بڑے بھی کھائے ہوں اور سُوسُوکرتی پھری ہوں۔ وہ تمام کام جو ہم سب لڑکپن میں کرتے ہیں اورپھر وہ ہمارے اندر جادوئی منظرکی طرح نقش ہوجاتے ہیں۔

نو عمری میں ہی کاملہ نے ا علان کردیا تھا کہ وہ ایک ادیب بننا چاہتی ہیں۔ ان کے اس دعوے پر کسی کوبھی حیرت نہیں ہونی چاہیے تھی۔ ان کی رگوں میں انیس فاطمہ، جہاں آرا حبیب اللہ، عطیہ حسین اورمنیژہ شمسی کاخون دوڑتا تھا، ایسے میں وہ مولوی اسمٰعیل میرٹھی کی اس نظم کی تصویر کیسے بن سکتی تھیں کہ ’’ایک لڑکی بگھارتی ہے دال۔‘‘

ان کا ناول’کارٹوگرافی‘ ریت میں پتھرا جانے والے سکندر اعظم کے نقش قدم کی تلاش سے شروع ہوتا ہے۔ کروکولا کی بندرگاہ جو کراچی کی ابتدا تھی۔ شاید یہ سکندر اعظم کا لشکر تھا جس نے بحیرۂ عرب کے مشرقی ساحل کی ریت کو روندایا یہ اس کے امیرالبحر نیارکس کے قدم تھے؟ الیکزنڈرایف بیلی کی کتاب ’ کوراچی، پاسٹ، پرزنٹ اینڈ فیوچر‘ اس ناول پر اپنا سایہ ڈالتی ہے۔ اس ناول میں تشدد، غداری اور قربانیوں کا تذکرہ ہے، اس کے ساتھ ہی ہمیں اس میں آوارہ گولیاں بھی ملتی ہیں۔ آوارہ گولیاں جو ننھے بدن چاٹ جاتی ہیں اور بیٹوں سے بے پناہ محبت کرنے والے باپ کا سینہ چِیر جاتی ہیں۔ کراچی میں، 90،80 اور ہزاریہ کے اختتامی برسوں  میں زندگی گزارنے والے ’کارٹوگرافی‘ کوقدم قدم پہچانتے ہیں۔

ان کا ناول’برنٹ شیڈوز‘ ’جلے ہوئے سائے‘ 1945 میں 9 اگست کی سوختہ بخت تاریخ سے شروع ہوتا ہے۔ امریکا کی عنایت سے ایٹمی آگ جو ہیروکوتناکا ’کے کمونو‘ کی پشت پر تین سیاہ کوبخوں کاسایہ چھوڑ جاتی ہے، وہ ہیرو کوتنا کا کواس دنیا میں دھکیل دیتی ہے جس میں سفر اس کا مقدر ہے۔ ہندوستان، پاکستان، افغانستان، امریکا۔ ملک در ملک اور شہر در شہر وہ سفرمہینے اس کاسفر 9 اگست 1945سے شروع ہوا تھا اوراب اس دنیا کو دیکھتی ہے جو نائن الیون کے  بعد کی دنیا ہے۔ ایک ایسی دنیا جو سر کے بل کھڑی ہو چکی ہے۔

کاملہ کا نیا ناول ’’ہوم فائر‘‘ اپنے ساتھ شہرت اور 30 ہزار پونڈ کی رقم لے کر آیا ہے۔ میں نے یہ ناول نہیں پڑھا لیکن اس کے بارے میں جو تبصرے پڑھے ہیں جی چاہتا ہے کہ اس کے نام کا ترجمہ ’’گھرکا چراغ‘‘ کیا جائے۔

اب سے 2400 برس پرانی بے مثال کہانی’اَنٹِیگَنی‘ Antigone کے کرداروں کو کاملہ نے اٹھایا ہے اور آج کی سیاست سے پیوستہ ایک ناول کی شکل دے دی ہے۔ یہ المیہ ڈراما جسے سوفوکلیز نے لکھا تھا اور جو دو بھائیوں اور دو بہنوں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ایک بھائی، ایک بہن کی کہانی ہے۔ نوجوان، نوخیز، بادشاہ کی ہونے والی بہو اور ولی عہدکی منگیتر جس کے دونوں بھائی ایک جنگ میں مارے جاتے ہیں۔

وہ بھائی جو بادشاہ کے ساتھ تھا، اسے ہیرو اور شہید کے نام سے پکارا جاتا ہے اور سرکاری اعزاز کے ساتھ اس کی تجہیز و تکفین ہوتی ہے جب کہ دوسرا بھائی’غدار‘ قرار دے کر میدان جنگ میں ہی چھوڑ دیا جاتا ہے، مردار خور پرندوں کی ضیافت کے لیے۔ بہن کے لیے یہ صدمہ ناقابل برداشت ہے۔

وہ اپنے دوسرے بھائی کوعزت و تکریم کے ساتھ دفن کرنا چاہتی ہے لیکن بادشاہ نے مُنادی کرا دی ہے کہ غدار کو دفن کرنے کی جرأت کرنے والا بھی غدار ٹھہرے گا اور موت اس کا مقدر ہوگئی۔

’غدار‘کی بہن بادشاہ کے اس حکم کی تعمیل کے لیے تیار نہیں۔ وہ بادشاہ کی نظر میں غدار ہوگا لیکن اس کی بہن کا حق ہے کہ وہ اسے عزت احترام سے دفن کرے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جسے اس کی دوسری بہن بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔

’’ہوم فائر‘‘ اس دنیا کی کہانی ہے جس میں جمہوریت، جہاد، غداری، وفا داری، حب وطن اور حبّ جاہ سب ہی گڈ مڈ ہوگئے ہیں۔ بیٹے باپ کی سیاست سے اختلاف کرتے ہیں اور بیٹیاں باپ کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ گھر کو گھر کے چراغ سے آگ لگ چکی ہے لیکن عشق کی آگ بھی سینوں میں بھڑکتی ہے۔ عشق جس سے کسی کو فرار نہیں، اس زمانے میں بھی نہیں جب عراق میں انسانیت کا قتلِ عام ہو رہا ہو اور افغانستان کے خود کش بمبار، کابل سے کراچی اور داتا کے دربار تک اپنے پرچم لہرا رہے ہوں۔

بشکریہ ایکسپریس اردو