کیا کراچی لا وارث ہے؟
مُحرّکِ مکالمہ، سید کاشف رضا
کراچی کا درد محسوس کرنے والے شاعر عارف شفیق انتقال کر گئے۔ ان کی عمر تریسٹھ برس تھی۔ وہ تمام عمر صحافت کی ہوائی روزی سے وابستہ رہے۔ کبھی جاب ملتی کبھی چھوٹ جاتی۔
مجھے نہیں معلوم کے ان کی نسل کے باقی وابستگانِ ادب کی معاشی زندگی کیسی رہی۔ مگر آج کراچی کے علاوہ باقی ملک کے دوستوں کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں۔
کراچی میں پینتیس سال سے چھوٹی عمر کے میرے زیادہ تر وہ دوست جو ادب سے متعلق ہیں ان کے پاس کوئی مستقل جاب نہیں ہے۔
دس سال پہلے میں لاہور گیا تھا اور وہاں ادب کی جو نئی پود دیکھی تھی وہ اب کسی نہ کسی روز گار سے وابستہ ہے۔ ادب سے وابستہ بیش تر شریف لوگ سرکاری نوکری سے وابستہ ہوتے ہیں۔ پنجاب اور دیہی سندھ والوں کو سرکاری نوکریاں مل جاتی ہیں، مگر کراچی والوں کو نہیں ملتیں۔
میرے مہاجر ادیب دوستوں میں سے مجھے یاد نہیں کہ کوئی ایک بھی سرکاری ٹیچر ہو۔ کراچی کے لیے جو نام نہاد کوٹا ہے وہ بھی جانے کہاں چلا جاتا ہے۔ اگر کراچی کے ادب پڑھنے والے نو جوانوں کو نوکریاں نہیں ملتیں تو اس کی اور کیا وجہ ہے؟
اگر میں اہلِ علم و ادب کی بے روز گاری کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوں تو اَز رہِ کرم مجھے بتایا جائے۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں روز گار کی صورتِ حال مزید ابتر ہوئی ہے مگر میرا یہ خیال ہے کہ کراچی میں یہ صورتِ حال پہلے سے ہی تھی۔ کیا ملک کے دیگر حصوں سے کراچی کے لیے آواز بلند ہو گی یا کراچی لا وارث ہے؟
[اس مکالمے میں بہت سارے لوگوں نے حصہ لیا؛ لیکن یہاں تدوین شدہ مکالمے کے متن میں زیادہ تر سندھ اور کراچی کے مقیم افراد کو جگہ دی گئی ہے۔ اس پوسٹ کو شائع کرتے وقت تک مکالمے میں شامل سب خواتین کی آراء کو شامل کیا گیا۔ پروفنگ اور ہِجوں کو یک سان کرنے کا اہتمام کیا تو گیا، لیکن سو فی صدی اطمینان نہیں ہو سکتا۔ مدیرِ ایک روزن]
افشین اختر
(مقیم کراچی؛ محرکِ مکالمہ کے متن کے بخرے کو، حالات کی ستم ظریفی سے متفق ہو کر، نقل کرتی محسوس ہوتی ہیں)
کراچی لا وارث ہے۔
ناہید سلطان مرزا
(مقیم کراچی۔ ان کا جواب رومن اردو میں تھا، جس کو اردو رسم الخط میں ڈھالا گیا اور انتہائی تھوڑی سی تدوین کی گئی۔ مدیر… ناہید صاحبہ محرّکِ مکالمہ مخاطب کر کے کہتی ہیں)
شکر ہے تم نے اتنا سوچا۔ مزید گہرائی میں جا کر سوچو گے حقیقت معلوم ہو جائے گی۔ صرف ادب نہیں، کراچی کا ہر طبقہ گرائنڈر مشین میں پِسا ہوا ملے گا۔ نا انصافی کی کوئی حد نہیں، اور ان سب کی ذمے دار سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنماء ہیں۔ ہم نے وہ زمانہ دیکھا ہے جب کراچی دبئی سے بہت آگے تھا۔
محمد ریاست (حالیہ مقیم کراچی، ہری پوری خیبر پختون خوا)
جی آپ کی بات بالکل درست ہے۔ کراچی میں ایسی ہی صورتِ حال ہے۔ میرے کراچی میں دس سال ہو گئے۔ میں ایک پرائیویٹ فارما سوٹیکل کمپنی میں اعلی’ عہدے پر فائز ہوں۔ پہلے اسلام آباد تھا۔ دس سال پہلے کمپنی نے اگلے عہدے پر ترقی دی اور کراچی طلب کر لیا۔ ادب سے بھی وابستہ ہوں، کالم بھی لکھتا ہوں، مشاعرے بھی پڑھتا ہوں اور ادبی تقریبات میں بھی جاتا ہوں، لیکن زیادہ توجہ روز گار ہی ہے کہ ادیبوں، شاعروں، صحافیوں کی حالتِ زار دیکھ کر کل وقتی شاعر ادیب، صحافی بننے کا حوصلہ نہیں۔
کراچی میں جہاں مشاعرے میں جاؤ دو چار ادیب ایسے مل جاتے ہیں جو کئی کئی ماہ سے بے روز گار ہوتے ہیں۔ ادیبوں سے ہٹ کر بھی کراچی کے نو جوان کوئی اچھی سرکاری نوکری حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ معذرت اگر میرے فقرے سے کسی کی دل آزاری ہو، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس شہر کے باسیوں کا معاشی قاتل کوٹا سسٹم ہے۔ کاش ایم کیو ایم اپنے عروج کے زمانے میں صرف اس کوٹا سسٹم کو ختم کر کے میرٹ پر سرکاری نوکریوں کو یقینی بنا دیتی تو کراچی والوں پر احسان ہوتا۔ میرٹ سسٹم کا خاتمہ ہو، یا پھر آبادی کے تناسب سے کراچی کا کوٹا مقرر کیا جائے۔
پیرزادہ سلمان (مقیم کراچی)
کاشف آج آپ نے ایک ایسے موضوع پر رائے دی ہے جس پر ان دنوں لوگ بات کرتے ہوئے گبھراتے ہیں۔ میرے نزدیک آج کراچی ایک بہت بری صورتِ حال سے جوجھ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی دانستگی یا نا دانستگی میں کراچی کو ایک طرح کی racial marginalization کی طرف لے جا رہی ہے (گورنمنٹ جابز کے حوالے سے)؛ اردو بولنے والے اس پر بات کرتے ہوئے یوں کتراتے ہیں کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو انہیں ایم کیو ایم سے جوڑ دیا جائے گا؛ ایم کیو ایم ایک فاشسٹ جماعت تھی، اور ایسی جماعت کا ایجنڈا فلاح نہیں ہوتا، کچھ اور ہوتا ہے؛ (میں نے تھی کا لفظ جان کر استعمال کیا ہے)، لیکن اب کراچی کے اردو بولنے والوں کو صرف اسی lens سے دیکھا جاتا ہے، اور یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔
اس پر الجھن یہ کہ ہمارا لبرل طبقہ جو کراچی سے باہر رہتا ہے، میں ان کی بات نہیں کر رہا ہے جو سات سمندر پار رہتے ہیں، بَل کہ ان کی جو اسلام آباد اور لاہور جیسے شہروں میں رہتے ہیں، یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے۔ اور اب تو اردو بولنے والوں کے خلاف ایک مخصوص revulsion بھی پایا جانے لگا ہے۔
سید کاشف رضا
(پیرزادہ سلمان کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں)
یہ ویسا ہی revulsion ہے جیسا ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف ہے کہ جی ان کے آبا و اجداد نے پاکستان بنایا۔
کراچی پورے ملک سے اور سندھ سے بَہ وجوہ کٹا رہا، سو اب غلط فیصلے کرنے والوں کے بچے نفرت کا نشانہ ہیں۔
پہلے تو الطاف کا بہانہ تھا، اب دو سال سے کراچی open ہے۔ بڑی جماعتیں آئیں اور اسے own کریں! کس نے روکا ہے؟
بعد میں کراچی نے ایک اور الطاف حسین پیدا کر لیا تو کراچی کے ناقدین پھر رونا رو رہے ہوں گے کہ دیکھا کراچی والے تو ہیں ہی ایسے۔
میں تو خود کو سندھی بھی کہتا ہوں، سندھ کے ہر مسئلے پر ساتھ بھی دیتا ہوں۔ آج کراچی کی بات کی تو دانش ور فی کومنٹ ایک نیا الزام لگانے لگے۔ (ستم ظریفانہ مسکراہٹ کے ایموجی، emoji، سے جوابی بات کا اختتام کرتے ہیں۔)
سلیم انور عباسی
(ادیب، شاعر، مصنف، مترجم، کالم نویس، مقیم کراچی، لاڑکانہ)
کراچی کے شاعر کہلانے والے عارف شفیق کا جدا ہونا امرِ ربّی ہے۔ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ شاعر لکھنوی سے ورثے میں منتقل میری لائبریری میں عارف شفیق کا شعری مجموعہ یقیناً میرے لیے انمول تحفہ تھا۔
باقی رہے کراچی کے مہاجر تو وہ شاہ پرست اور اہلِ اقتدار کے در کے گدا ہوئے۔ اردو کو بھی مہاجر بنا کر اپنا حق جتایا۔ سندھی ہر بار انھیں اپناتے رہے، ہر بار ان کا زعم انھیں کہتا رہا، ہماری زبان بولو گے تو جیو گے۔
کراچی قیامِ پاکستان سے قبل سندھی اور انگریزی صحافت و ادب کا مرکز تھا۔ آپ آئے، تب سے لمحۂِ موجود تک قبضے کی سیاست چلتی رہی۔ برنس روڈ میں جو جلاؤ گھیراؤ ہوا، وہ تاریخ میں محفوظ ہے۔ یہ وہ شہر تھا جہاں مسافر خانہ، بیت الخلاء اور جانوروں کے لیے حوض لازم تھا۔ اب کہیں حاجت ہو جائے تو مسجد، یا مزار کی دوڑ، وہ بھی پیسوں پر۔
یہ کراچی جو کھیت کھلیان سا تھا یہاں کے سندھی، بلوچوں کو بے گھر کیا گیا۔ لاڑکانہ میں ہمارے پڑوسی مہاجر تھے، لیکن کبھی نہ سنا کہ کسی نے کہا ہو کیوں بھئی ہم کاہے کے مہاجر۔ ہم تو اہلِ زمین ہیں۔ ہم نے تو اردو کو اپنا لیا، آپ سے ہر زبان بولی جاتی ہے لیکن سندھی نہیں بولتے۔ اس رویے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ مادری زبان آپ کی بھی ہے ہماری بھی ہے۔ اپنی ماں سے محبت، دوسرے کی ماں سے نفرت! اب تو اردو بھی قصۂِ پارینہ ہوئی جاتی ہے: ابے، اوئے، دیکھتا نہیں کیا۔ مہاجروں کی زبان اور من بھر گٹکا… کوئی کہے تو جواب ملے چل اپنی راہ پکڑ۔ سندھی اب بھی محبت کے علم بردار ہیں لیکن اک نفرت ہے جو کبھی نہیں جاتی۔
محمد عارف سومرو
(مقیم کراچی، اردو وِکی پیڈیا سے وابستہ ہیں، کالم نگار بھی ہیں۔)
ایم کیو ایم کے اقتدار کے دوران چالیس فیصد کوٹا پر عمل درآمد کیا جاتا تھا۔ یہ سوال ایم کیو ایم سے کیا جائے کہ انہوں نے کِسے بھرتی کروایا؟
آپ سے 100 فیصد متفق ہوں۔ کوئی تو آواز اٹھائے۔
جواد شیرازی
(مقیم لاہور، خود اپنے آپ پیدا کردہ روز گار سے وابستہ ہیں)
بَہ صد معذرت، آپ کا جملہ کہ کراچی کے لیے جو کوٹا ہے وہ نا جانے کہاں چلا جاتا ہے، قطعی طور پر نا قابلِ فہم ہے۔ آپ تو خود صحافی ہیں، ذرا اس بابت ریسرچ تو کر لیتے۔ سرکاری نوکریوں کے اجراء کے وقت اس میں کتنا دیہی سندھ، اور کتنا شہری علاقوں کو ملتا ہے، اس کی تفصیل آپ کی پوسٹ سے عنقا ہے۔
میرا نہیں خیال کہ دیہی سندھ کو سو فیصد، اسی فیصد، یا ساٹھ فیصد کا کوٹا ملتا ہے؛ شاید پچاس فیصد کے آس پاس۔ تو باقی پچاس فیصد تو کراچی شہر کے لیے ہی ہوتا ہے نا! محترم دوست اس کو کیوں نہیں گرفت کرتے؟ بات چُوں کہ سچ ہے اس لیے تلخ ہو جائے گی کہ ان نوکریوں ہر بھی تو مہاجر ہی آتے ہوں گے۔
اگر ادیب دوست لا علمی کی بناء پر، یا امتحان، انٹرویو میں نا کامی کی وجہ سے وہ نوکری نہیں پا سکے، اور ان کا کوئی مہاجر بھائی اس نوکری کے لیے کام یاب ہو گیا تو اس میں قصور کس کا ہے؟
پیپلز پارٹی کا؟ صحیح ہے کہ اس کوٹا سسٹم کو نہ بدلنے کا قصور ہے، مگر جتنی نوکریاں مہاجروں کے لیے دست یاب ہوتی ہیں ان کو نہ پانے میں، ایک دفعہ پھر معذرت کے ساتھ، سو فی صد قصور ادیب دوستوں کا ہے۔
سید کاشف رضا
(جواد شیرازی کو جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں)
کراچی کا کوٹا پچاس فی صد نہیں۔ سندھ میں شہری کوٹا چالیس فی صد ہے۔ اور شہر میں حیدرآباد، سکھر، میرپور خاص بھی آتے ہیں۔
جواد شیرازی
(سید کاشف رضا کو جواب دیتے کہتے ہیں) کیا حیدر آباد، سکھر، میرپور خاص کے لیے علیحدہ کوٹا ہے؟ میرا خیال ہے نہیں، تو پھر کیا ان شہروں کے شہری کراچی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ، فارورڈ سوچ رکھنے والے شہریوں کے ہم پلّہ ہو سکتے ہیں؟ چلیے چھوڑیے ان مفروضات کو، حقائق پر آ جاتے ہیں۔ ان چالیس فی صد ملازمتوں میں کتنی ملازمتیں کراچی والوں نے حاصل کیں، اور کتنی سکھر، حیدر آباد والوں نے؟
اعداد و شمار ہی بتا دیں گے کہ ادیب دوست اپنی کاہلی، یا نا اہلی کی وجہ سے سرکاری ملازمتیں نہیں پا رہے، کسی استحصال کی وجہ سے نہیں۔
زاہد حسین
(سما ٹی وی کے سابقہ ڈائریکٹر نیوز ہیں، حالیہ مقیم کراچی ہیں)
اسلام آباد میں ڈیجیٹل پاکستان کی ایک تقریب میں آئی ٹی کے وزیر، خالد مقبول صدیقی کی تقریر سننے کا اتفاق ہوا۔ میرے نزدیک بہت ہی عمدہ تقریر تھی، الفاظ کا انتخاب اور مستقبل کی ڈیجیٹل ورلڈ کا خاکہ موصوف نے بہت ہی عمدگی سے بیان کیا تھا اور اس کے تقاضے بھی گنوائے تھے۔
اب ان سے درخواست ہے کہ کراچی میں اس خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے اپنی پوری توانائی استعمال کریں، تو جاب کا رونا بھی ختم ہو گا؛ knowledge world میں جنرل سائنس، اور سائنس پڑھنے والے اب آپ کے خاکے میں رنگ بھرنے کے بعد ہی کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے دور میں داخل ہوں گے۔
عرض یہ ہے کہ صرف سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں معیارِ تعلیم اور نصابِ تعلیم پر یک سُوئی کے ساتھ توجہ دی جائے، کمیونٹی ان سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی کارکردگی کا محاسبہ شروع کرے،
ایم این اے اور ایم پی اے اور کونسلر اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں داخل کرائیں اور پھر دیکھیں وہاں تعلیم کے شعبے میں کیا ہو رہا ہے۔
کراچی کو تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں نجی شعبے کے حوالے کر کے یہاں کے شہریوں سے صرف ٹیکس بٹورنے پر توجہ دی گئی ہے، اور ہم صرف مطالبات کرنے تک محدود ہیں۔
آگے بڑھنے اور اپنا حق مانگنے کے لیے علم پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم تو کسی نہ کسی صورت سب ہی حاصل کر لیتے ہیں۔ اس دنیا میں اپنا حق لینے کے لیے صرف ڈگری نا کافی ہے، بَل کہ تعلیم کے ذریعے علم و ہنر حاصل کرنا ہے۔
تمام اہلِ قلم سے گزارش ہے کہ کراچی میں تعلیمی انقلاب کے لیے کام کریں جس سے سرکار کے زیرِ انتظام اسکولوں اور کالجوں میں سدھار آئے، اور گلی گلی محلہ محلہ تعلیم کے نام پر چلنے والے کار و بار کی حوصلہ شکنی ہو۔
بات مشکل ضرور ہے لیکن اتنی بھی نہیں کہ اس پر کام نہ ہو سکے۔ بس اس کام کا بِیڑا اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے نو جوانوں کو علم و ہنر میں بے مثال بنانا ہے اگر ہم ایک بار سرکاری تعلیمی شعبے میں انقلاب برپا کرنے میں کام یاب ہو گئے تو سارے شکوے ختم ہو جائیں گے۔
آئیے اپنے اپنے علاقے کے سرکاری تعلیمی اداروں کی سماج سدھار مہم میں شامل ہوں کبھی جھانک کر دیکھیں تو سہی یہاں کیا ہو رہا ہے۔
شناور اسحٰق
پنجاب سے ہزاروں لوگ کراچی جا کے روزی کما رہے ہیں بے روز گاری، یا افلاس وجوہات ذاتی بھی ہو سکتی ہیں۔ میں نے کوئی محنتی اور نیک نیت آدمی مفلس، یا فارغ نہیں دیکھا۔
نشاط یاسمین خان
(مقیم کراچی؛ شنوار اسحٰق کو جواب دیتے ہوئے کہتی ہیں)
کراچی آ کر روزی کمانا دوسری بات ہے، اور یہاں کے رہنے والے پڑھے لکھے طبقے کا بے روز گار ہونا، سرکاری نوکری نہ ملنا علیحدہ مسئلہ ہے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا سے جو لوگ کراچی آتے ہیں وہ کچی بستیوں میں رہتے ہیں، اور جوتے گانٹھتے ہیں اور ٹھیلے لگاتے ہیں۔ ان کا مسئلہ صرف صرف پیسے کمانا ہوتا ہے، آپ کیسے ایک چودہ یا سولہ سال کا تعلیمی کیریئر قربان کر کے جوتے گانٹھے گا۔
شناور اسحٰق
(نشاط یاسمین خان کی بات کا جواب دیتے کہتے ہیں)
محترمہ یہ ہمارا ہی مسئلہ ہے؛ دوسرے ملکوں میں یہ لوک ٹیکسیاں بھی چلا لیتے ہیں اور پنجاب اور خیبر پختون خواہ سے صرف موچی ہی نہیں، مبین مرزا اور مشفق خواجہ بھی جاتے ہیں۔
نشاط یاسمین خان
(مقیم کراچی)
سید کاشف رضا اپ نے کراچی والوں کے درد کو محسوس کیا اور اس درد کو زبان دی اللہ اپ کو خوش رکھے؛ مگر یہی وجوہات ہیں جو ہمارے بچے اردو چھوڑ کر انگریزی پڑھ رہے ہیں اور ادب پڑھنے کی بَہ جائے ڈاکڑی اور انجینئر بننء کو ترجیح دیتے ہیں؛ کم از کم روٹی روزی کا آسرا تو ہو جاتا ہے۔
کراچی کا اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکا بے روز گار پھر رہا ہے، دیہی سندھ والے یہاں نوکریاں کرہے ہیں، اور بی بی سی جانے کے لیے وژن کی ضرورت ہوتی ہے کسی سفارش کی نہیں ہوتی، اور نجی یونی ورسٹیاں کسی وزیر وڈیرے، یا پارٹی لیڈر کی پرچی پر نوکری نہیں دیتیں۔ اس کے لیے قابلیت ضروری ہوتی ہے۔
فیصل ریحان
(شاعر، بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ پیشہ سے کالج کے استاد ہیں۔ بہ راہِ تعلیم حالیہ اسلام آباد میں ہیں؛ محرکِ مکالمہ کو مخاطب ہوتے کہتے ہیں)
بھائی کراچی میں سرکاری نوکری کے حوالے سے شروع ہی سے حالات خراب رہے ہیں۔ مجھے حال ہی میں اپنے استاد ڈاکٹر عزیز ابن الحسن صاحب کی عسکری پر شائع ہونے والی ایک کتاب سے معلوم ہوا کہ ان جیسے جینئس نقاد اور صاحبِ علم بھی ایک پرائیویٹ کالج ہی میں عمر بھر استاد رہے، اور وہ کچھ عرصہ عیوضی (عارضی طور پر کسی دوسرے کی جگہ کام کرنا) استاد بھی رہے۔ یہ خبر میرے لیے صدمے کا باغث ہے کہ بلوچستان میں آج بھی عیوضی استاد پائے جاتے ہیں کہ اصل دیگر اہم کاموں میں مصروف ہوتے ہیں۔ کراچی میں البتہ دوسرے صوبوں کے ہزاروں لوگوں نے کار و بار اور ٹھیکوں میں کروڑوں بَل کہ اربوں روپے کمائے ہیں۔ یہ المیہ ہے اور اس کا تدارک ہونا چاہیے کہ ادیبوں کو سرکاری نوکری کم از کم استادی مل جانی چاہیے۔
مطربہ شیخ
(مقیم کراچی، ڈیجیٹل لکھاری ہیں۔ محرکِ مکالمہ کو مخاطب ہوتی ہیں)
صرف اور صرف تعصب کی بناء پر سرکاری نوکری نہیں ملتی۔ کچھ اردو بولنے والے افراد کی ذاتی وجوہات بھی ہیں جو خوشامد اور چاپلوسی سے کام نہیں لیتے۔ دوسرے لوگ ان چیزوں سے کام لے کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
رہی بات سرکاری فنڈز کی تو اس کے لیے ہر سرکاری اہل کار جواب دِہ ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ ویسے اتنے بڑے شہر کر قلیل فنڈز دیے جاتے ہیں۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہو گا۔