کراچی کا میکدہِ سیاست
از، ملک تنویر احمد
مولانا ابوالکلام آزاد نے سیاست کو میکدے سے تشبیہ دی تھی کہ جس میں جام ہی نہیں ٹکراتے عمامے بھی اچھلتے ہیں۔ پاکستان کے کوچہ سیاست میں آج کل بعینہ یہی صورت حال پوری شدو مد سے جاری ہے کہ جہاں سیاستی مفادات کے جام آپس میں ٹکرا کر پورے ماحول کو ہنگامہ پرور بنا رہے ہیں تو دوسری جانب صاحبان سیاست کے عمامے بھی سروں سے گر پاؤں تلے روندے جا رہے ہیں۔
کراچی میں یہ ہنگامہ پروری اپنے عروج پر ہے جہاں ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی نے ایک ’’عظیم اسکرپٹ‘‘ کے تحت آپس میں بغل گیر ہونے کا فیصلہ کیا لیکن فقط چوبیس گھنٹوں کے اندر ہی اس ڈرامے کا بھانڈا اس طرح پھوڑ ڈالا کہ اپنی آقا و مربی اسٹیبلشمنٹ کو بھی شرمسار کر ڈالا۔ کراچی کی سیاست جو کبھی الطاف حسین کی ذات کے گرد گھومتی تھی اور ا س کے اشارہ ابرو پر بے ترتیب ہو ا کرتی تھی اب کٹی پتنگ کی طرح ہواؤں کے دوش پر ہے۔ الطاف حسین نے پاکستان مخالف نعرے لگا کر اپنی سیاست کے باب پر سیاہ لکیر پھیر دی اور اب ان کا نام کراچی میں شجر ممنوعہ کی مانند ہے۔
مصطفی کمال نے مارچ 2016 میں پاکستان واپس آکر کراچی کی سیاست میں جو تلاطم پیدا کیا تھا اس کے پس پردہ مقتدر حلقوں کی منصوبہ بندی تھی جس کے تحت کراچی میں اب ماضی کی طرح ایک پارٹی کی اجارہ داری کو قائم نہیں ہونے دینا جس نے اس شہر کو تباہی و بربادی کے گہرے کنوئیں میں دھکیل دیا تھا۔ ان مقتدر حلقوں سے اب کوئی یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوگا کہ محتر م آپ ہی نے مہا جر قومی موومنٹ سے متحد ہ قومی موومنٹ میں بدلنے والی اس جماعت کو اپنی آشیر باد تلے پروان چڑھایا تھا۔ پہلے آپ کا یہ منصوبہ بیک فائر کر گیا تو اب کیا ضمانت کہ دوبارہ آپ اس سے مطلوبہ نتائج بر آمد کرلیں گے۔
ملک کی موجودہ ہیئت مقتدرہ میں اب شاید اپنے گھوڑوں کے انتخاب میں اس خوبی کی کمی ہے جو ماضی میں ان کے پیشروؤں کا خاصہ تھی اب یہی دیکھ لیں کہ مصطفی کمال نامی گھوڑے کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے منتخب کرنے کے کچھ عرصے بعد ہی انہوں نے خود اپنی زبان سے اسٹیبلشمنٹ کے کردار کا اقرار کر ڈالا ۔پہلے اگرحریف اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر انگلیاں اٹھاتے بھی تھے تو اس کے حلیف ہر طرح اس تاثر کو جھٹلاتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار ہے لیکن مصطفی کمال نے تو اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر سے پردہ اخفاء سرکانے میں قطعی کوئی دیر نہیں کی کہ کس طرح کراچی کی سیاست میں اس کا کردار بڑھتا جا رہا ہے۔
کراچی کی سیاست بلا شبہ لسانیت کی بدبو اوور تعفن سے بوجھل ہو چکی ہے اور اب اس شہر میں لسانیت کی بجائے نظریات اور ایشوز پر سیاست کی جانی چاہیے لیکن جس طرح اسٹیبلشمنٹ اپنے مہروں کے ذریعے کراچی کی سیاست کو اپنے تابع رکھنا چاہتی ہے وہ شاید اکسیر نسخہ نہ ٹھہرے۔ شہر میں امن و امان بحال ہو چکا ہے اور کراچی کی سیاست اب تشدد اور دہشت سے پاک ہو چکی ہے جس میں ہر سیاسی جماعت کو اپنے نظریے اور منشور کے بل بوتے پر عوام کے دلوں کو مسخر ہونے کا حق ملنا چاہیے سوائے ان کے جو پاکستان مخالف نعروں سے دشمنوں کے عزائم کی تکمیل میں مصروف تھے۔
مصطفی کمال اور ڈاکٹر فارو ق ستار کو کراچی میں سیاست کرنی ہے تو انہیں ماضی کے گڑے مردے اکھاڑنے کی بجائے مستقبل کی سیاست کراچی کی فلاح و ترقی کے نظریات پر استوار کرنی چاہیے ۔ کراچی کی سیاست میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو چکا ہے جسے بھرنے کے لیے ہر جماعت سر توڑ کوشش کر چکی ہے۔ ماضی میں کراچی کی سیاست ایک جماعت کے ہاتھوں یر غمال بنی رہی جب کہ مخالفین کو سیاسی مہم چلانے کی بھی آزادی نہ تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں کراچی میں انتخابی حلقہ بندیوں بھی اس جماعت کے انتخابی عزائم کی آبیاری کے لیے کی گئی تھیں۔ کراچی میں اگر اردو اسپیکنگ کمیونٹی شہر کی آبادی کانصف ہیں تو باقی ماندہ کراچی میں بسنے والی دوسری لسانی اکائیاں ہیں لیکن انتخابی حلقہ بندیاں کچھ ایسا طرح کی گئی تھیں کہ ایم کیو ایم کو اس سے فائد ہ پہنچا اور دوسرے لسانی گروہ انتخابی نمائندگی سے محروم رہے۔
کراچی کی سیاست کو لسانیت سے نکل کر قومی دھارے میں شامل ہونا چاہیے کہ جہاں سیاسی نظریات کا آپس میں مقابلہ ہو نا کہ لسانی و گروہی جذبات کو ابھار کر اپنے انتخابی عزائم کی آبیاری کی جائے۔ایم کیو ایم پاکستان ابھی تک مہاجر کارڈ کو سینے سے لگائے ہوئے ہے جس نے کراچی میں ماضی میں نسلی و لسانی تقسیم کو گہرا کیا۔اسے مہاجر کمیونٹی سے با ہر نکل کر دوسرے لسانی گروہوں میں بھی اپنے نظریات کو پھیلانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ مصطفی کمال بھی اپنے بلند بانگ دعوؤں کے بر عکس ابھی تک کراچی کی سیاست تک ہی محدود ہیں اور وہ بھی اردو اسپیکنگ کمیونٹی میں۔ ان کے ارد گرد وہی لوگ موجود ہیں جو کبھی الطاف حسین کے نام کی مالا جپتے تھے اور مہاجر سیاست کے سرخیل تھے۔اگر وہ کراچی کی سیاست میں ایک جوہری تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو انہیں اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے سیاست سے چھٹکار ا پا کر کراچی کے تمام طبقات تک اپنا پیغام پہنچا نا چاہیے۔
کراچی میں پی پی پی کے لیے بہت اسپیس موجود ہے لیکن اس کی صوبائی حکومت ڈیلیور کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے اس لیے ابھی تک کراچی کی سیاست میں اپنے آپ کو مضبوط فریق کے طور پر پیش کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی سیاسی ترجیحات میں پنجاب کا انتخابی معرکہ ہے جسے جیتے بغیر مرکز میں حکمرانی کا خواب ادھورا ہی رہتا ہے اور دونوں جماعتوں کا نظر التفات کم ہی کراچی پر پڑتی ہے۔کراچی میں سیاسی حریف ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لیے بے شک برسر پیکار ہوں لیکن یہ ذاتیات کی جنگ کی بجائے نظریات کی جنگ ہونی چاہیے ۔آدمی مخالفوں سے الجھ کر کچھ پاتا نہیں کھوتا ہے۔ لڑائی افراد سے نہیں نظریات سے ہونی چاہیے ۔ جو اصولوں کی بجائے آدمیوں سے لڑتے ہیں وہ اپنے افکار و نظریات کو خود گزند پہنچاتے ہیں ۔ کراچی کی سیاست نے ہجو گوئی اور الزام تراشی سے کچھ حاصل نہیں کیا اور نہ مستقبل میں کچھ حاصل کر پائے گی اب اسے کراچی کے عوام کی فلاح و ترقی کومرکز نگاہ بنانا چاہیے جو بیچارے مسائل کے انبار تلے سسک سسک کر جینے پر مجبور ہیں۔