پی ایس ایل میں کراچی کنگز کی دبنگ فتح
از، حسین جاوید افروز
کرکٹ ہم پاکستانیوں کے لیے ایک کھیل ہی نہیں بل کہ ایک جنون اور زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ درست ہے کہ انگلستان ہی کو کرکٹ کا گھر سمجھا جاتا رہا ہے اور انگریز راج کے دوران سِنہ 1844 کے بعد سے یہ کھیل کلکتہ، مدراس بعد ازاں بمبئی اور کراچی تک پہنچا۔
پاکستان میں لاہور کا باغِ جناح کرکٹ سٹیڈیم اور منٹو پارک جب کہ کراچی میں ہندو جِم خانہ میں کرکٹ سرگرمیوں کا آغاز ہوا اور پھر دھیرے دھیرے قیامِ پاکستان کے بعد، محض پانچ برس بعد ہی دورۂِ بھارت میں لکھنؤ ٹیسٹ کی دبنگ جیت کے بعد سے پاکستان کرکٹ ہر گزرتے وقت کے ساتھ عالمی کرکٹ میں اپنا مقام مستحکم کرتی گئی۔
بقاء جیلانی سے عبدالحفیظ کاردار، فضل محمود، حنیف محمد تک اور پھر وہاں سے آصف اقبال، ماجد خان، ظہیر عباس تک کام یابیوں کا ایک دل فریب سلسلہ چل نکلا۔ اسی سبز جتھے کو سرفراز نواز، عمران خان اور جاوید میاں داد نے دوام بخشا۔ گرین شرٹس کو مزید استحکام عمران اور جاوید میاں داد کے ہونہار شاگردوں وسیم اکرم، وقار یونس، انضمام الحق اور سعید انور نے عطاء کیا۔ جب کہ نوے کی دھائی میں ٹو ڈبلیوز کے بعد ثقلین، شاہد آفریدی، شعیب اختر اور محمد یوسف نے میدان سنبھالا اور ون ڈے کرکٹ سے ٹی ٹونٹی کرکٹ تک کامرانیوں کے جھنڈے گاڑے۔
سنہ 2000 کے بعد سے اب تک گریٹ یونس خان، عبدالرزاق، محمد آصف، محمد حفیظ، محمد عامر اور مصباح الحق نے دنیا بھر میں اپنی صلاحتیوں کا لوہا منوایا۔
لمحۂِ حاضر کی بات کی جائے تو پاکستان سپر لیگ کی آمد قومی کرکٹ کے لیے گلشن جاں فزاء ثابت ہوئی اور آن کی آن ہمیں حسن علی، شاہین شاہ آفریدی، بابر اعظم، عماد وسیم، حسنین، حیدر علی، نسیم شاہ، خوش دل شاہ اور عبداللہ شفیع جیسے ہونہار اور تاب ناک مستقبل کے حامل کھلاڑی ملتے گئے۔
پاکستان سپر لیگ مارچ 2020 میں کرونا وائرس کے باعث منسوخ کرنا پڑی اور کہیں نومبر میں جا کر ایسے حالات پیدا ہوئے جب باقی ماندہ سپر لیگ کو مکمل کرنے کا بِیڑا اٹھایا گیا۔ اس طرح لاہور قلندر اور کراچی کنگز جیسے دیرینہ حریف پہلی بار سپر لیگ کے فائنل تک جا پہنچے۔
لہٰذا، کرکٹ کے بخار نے تمام خبروں کو پسِ پشت ڈال دیا اور تمام شائقین کرکٹ بے تابی کے ساتھ سترہ نومبر فائنل ڈے کے منتظر ہو رہے۔ اب نیشنل سٹیڈیم کراچی میں میلا سج چکا تھا البتہ قابلِ افسوس بات یہ رہی کہ تمام تر craze کے با وجود کرونا کے باعث تماشائیوں کو محض ٹی وی پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔
تاہم اس سے جشنِ کرکٹ کے جذبے میں کوئی کمی واقِع نہیں ہوئی اور ہر لمحہ پُر جوش ہی محسوس ہوتا رہا۔ قلندر کے کپتان سہیل اختر نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا، مگر ایک بہتر آغاز کے با وُجود ساری ٹیم سکور بورڈ پر محض 135 رنز کا ہدف ہی جمع کر پائی۔
یہاں المیہ تب ہوا جب حفیظ کے جلدی آؤٹ ہونے کے بعد سہیل اختر خود بلے کے ساتھ میدان میں پہنچے۔ لیکن وہ اپنی سست دفاعی بیٹنگ کے باعث ایک تو سکور کی رفتار بھی نہ بڑھا سکے اور دوسرا جارحانہ ڈیوڈ ویزے کو بھی تاخیر سے بیٹنگ کے لیے بھیجا جس کی بَہ دولت لاہور قلندر کی بیٹنگ لائن نا کام ثابت ہوئی۔
یوں سہیل اختر لاہور قلندر کے لیے کم زور کڑی ثابت ہوئے اور مجموعی طور پر لاہور قلندر نے 52 ڈاٹ بالز کھیلیں جن سے کراچی کی ٹیم کے لیے ٹرافی کا حصول مزید آسان تر ہوتا چلا گیا ۔
لہٰذا دوسری اننگز شروع ہونے سے پہلے ہی لاہوریوں کی امید پر اوس پڑ چکی تھی اور وہ لبرٹی، فورٹریس اور مال روڈ پر جشنِ فتح برپا کرنے سے بھی عاری نظر آنے لگے۔ کراچی میں سِی وِیو پر کراچی کے پرستاروں کے جمگھٹے لگنا شروع ہو گئے۔
دوسری اہم وجہ یہ رہی کہ دو روز سے کراچی میں چلنے والی تیز ہواؤں نے بھی وکٹ سے نمی بالکل ہی ختم کر دی جس کی بَہ دولت کراچی کے محمد عامر اور لاہور کے شاہین شاہ آفریدی بھی اپنی ٹیموں کے لیے ٹرمپ کارڈ ثابت نہ ہو سکے۔
یوں بَہ تدریج دوسری اننگز میں بیٹنگ کراچی کنگز کے لیے سازگار ہوتی چلی گئی۔ یہاں دوسری بڑی غلطی سہیل اختر نے یہ کی جو ایک ہی سپنر سمت پٹیل کے ساتھ ہی میدان میں چلے گئے جن کی نپی تلی گیند بازی نے کراچی کو قدرے پریشان ضرور کیا مگر دوسرے اَینڈ پر سمت کی مدد کے لیے دوسرا سپنر موجود نہیں تھا جس کا مکمل فائدہ بابر اعظم اور والٹن نے اٹھایا۔
بابر اعظم نے اپنے مثالی ٹیمپرامنٹ اور ہوش مندی سے نہ صرف ایک اَینڈ سنبھالے رکھا، بل کہ رنز میں بھی متواتر اضافہ کرتے گئے؛ اور ایک بہترین فِنشر کے طور پر عماد وسیم کے وننگ شارٹ نے کراچی کنگز کو پہلی بار پاکستان سپر لیگ کا فاتح بنا کر ہی دم لیا۔
بابر کے نا قابلِ فراموش 63 رنز ان کے عزم اور مہارت کا مُنھ بولتا ثبوت رہے۔ یہی نہیں وہ پانچ نصف سنچریوں کے ساٹھ اِیوَنٹ کے ٹاپ سکورر بن کر بھی ابھرے۔ باؤلنگ میں شاہین شاہ آفریدی سترہ وکٹوں کے ساتھ سرِ فہرست رہے۔
کراچی کنگز کی ٹائٹل فتح میں کپتان عماد وسیم کی کیپٹن کُول اپروچ اور وسیم اکرم کی ماہرانہ کوچنگ نے بھی اہم کردار نبھایا۔ تاہم قابلِ فخر بات یہ رہی کہ کراچی کنگز نے اپنے ڈگ آؤٹ میں ڈین جونز کا پورٹریٹ نصب کر کے”ڈینو“ کو بھر پُور انداز سے خراجِ تحسین پیش کیا۔
اپنے دور کے سپیشلسٹ ون ڈے بلے باز کے طور پر ڈین جونز نے آسٹریلین کرکٹ کو بلندیوں تک پہنچنے میں جہاں مدد فراہم کی وہاں بَہ طور ایک زندہ دل کمنٹیٹر کے انھوں نے کھیل پر اپنے گہرے نقوش بھی چھوڑے۔ پاکستان کرکٹ کی بَہ حالی کے لیے بھی ڈین جونز نے شان دار کردار نبھایا۔
پاکستان سپر لیگ فائیو کا ایڈیشن اپنے اختتام کو پہنچا اور فروری میں چھٹے سیزن کے لیے بھی پی سی بی نے اپنا ہوم ورک شروع کر دیا ہے۔ یوں کراچی کنگز کے پاس محض تین ماہ ہی بَہ طور چیمپئن جشن منانے کا وقت ہو گا مگر یہی کرکٹ کی خوبی ہے کہ کھیل ہَمہ وقت رواں رہتا ہے۔
یہاں ایک تجویز یہ بھی دی جا سکتی ہے کہ جیسا کہ نجم سیٹھی کا لگایا گیا پودا پی ایس ایل جہاں ایک عالمی برینڈ بن کر ابھرا ہے وہاں اس میں بَہ تدریج مزید ٹیموں کی شمولیت پر بھی وسیم خان اور احسان مانی کو جنگی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے۔ فیصل آباد، سیال کوٹ، گلگت، کشمیر یا گوادر سے بھی نئی ٹیمیں سپر لیگ میں شامل کی جا سکتی ہیں۔
ہمیں وہ وقت اب بھی یاد ہے جب مارچ 2009 میں لاہور میں ایک دہشت گردانہ حملے کی وجہ سے پاکستان میں کرکٹ کی سرگرمیوں کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا اور تقریباً اگلے نو برس گرین شرٹس کو متحدہ عرب امارات میں ہوم سیریز کھیلنا پڑی۔
لمحۂِ شکر ہے کہ ایک بار پھر لاہور، پنڈی، کراچی اور ملتان سمیت کئی شہروں میں کرکٹ کی واپسی ہو چکی ہے۔ سب سے اہم بات کہ اب غیر ملکی ٹیمیں بھی بغیر ہچکچاہٹ کے پاکستان آنے کو تیار ہیں۔ امید ہے پاکستان سپر لیگ کا چھٹا ایڈیشن بھی شائقینِ کرکٹ کے لیے معیاری کرکٹ اور میلے کا سا سامان برپا کرے گا۔