کراچی کی میگا ہاؤسنگ اسکیمیں اور ہمارے خوب صورت جنگلات
از، عومر درویش
کراچی میں مون سون کے دوسری بارش کے بعد میرے کزن نے کہا کہ اس موسم میں کراچی (ملیر) کے وائلڈ لائف ایریا (wild life area) میں صرف مقامی پرندے ہونگے ان مقامی پرندوں کے فوٹو شوٹ کرنا ہیں اور میں یہاں بتاتا چلوں کہ میرے کزن وائلڈ لائف فوٹو گرافی کرتے ہیں وہ ایک پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں جس میں کراچی کے مختلف علاقوں کے پرند چرند کی عکاسی کرتے ہیں کہ کراچی کے گرد و نواح میں کون کون سے پرندے پائے جاتے ہیں۔
کن موسموں میں کراچی میں کون سے پرندے ہجرت کر کے آتے ہیں اور کتنے عرصے تک یہاں رہتے ہیں اور آنے والے وقتوں میں کون سے پرندوں کے ناپید ہونے کا خطرہ ہے اوریہ خدشہ موجو د بھی ہے کیوں کہ کراچی کے انہی علاقوں (Wildlife Area Khirthar National Park) میں پاکستان کے تین بڑے میگا ہاؤسنگ پروجیکٹ (بحریہ ٹاؤن، فضائیہ، ڈی ایچ اے) ان کا مجموعی رقبہ اسی ہزار ایکڑ سے زائد ہے (ان کی تعمیر سے ماحولیات پر کیا اثرات ہونگے اس پرایک روزن میں میرا کالم ’’ملیر کے مسقبل کے سلم ڈاگ‘‘ موجود ہے) جو مکمل طور پر کراچی کے کیرتھر نیشنل پارک اور اس کے وائلڈ لائف پروٹیکشن ایریا میں تعمیر ہو رہے ہیں۔
اس دن ہم ضلع ملیر اور ضلع جامشورو کے حدود میں پہنچے کافی دیر تک مختلف جگہوں پر فوٹو شوٹ کرتے رہے مگر ایک جگہ پر فوٹو شوٹ کرنے سے منع کیا گیا۔ اس بندے نے خود تعارف گیم واچر کے طور پر کروایا۔ حالانکہ ہمارا ان علاقوں میں آنا جانا رہتا ہے اور ان علاقوں میں ہم پکنک کرنے جاتے ہیں اور فوٹو گرافی کرتے ہیں۔
اس علاقے میں جان پہچان اور سماجی روابط بھی ہیں۔ اس دن ہم نے کافی بحث کی کہ ہم فوٹو گرافی کر رہے ہیں مگر شکار تو نہیں کر رہے۔ بہرحال وہ اپنی بات کرکے چلا گیا، یہ علاقہ قومی اسمبلی کے رکن سردار ملک اسد سکندر کے زیر اثر ہے اور یہاں پر انہی کا حکم ہی چلتا ہے۔ گیم واچر کے منع کی وجہ صرف برساتی نالوں سے ریتی بجری کی چوری (چوری اسی لیے کہ یہ علاقہ نیشنل پارک ہے اور اس طرح کے ایکٹیوٹی قانونی جرم ہے اور ملیر میں section 144 بھی لگا ہوا ہے مگر اس کے باوجود بھی) زوروں پر ہے یہی برساتی نالے اس جنگل کی خوبصورتی ہیں کیوں کہ یہاں پانی کے بہت سے ذخائر ہیں جو صاف و شفاف پانی کی صورت میں سال ہا سال بہتا ہے۔
ریتی بجری کی چوری سے پانی زیر زمین چلا جائے گا اور تباہی ان جنگلات کی مقدر ہوگی جیسے ملیر اور کراچی کے دوسرے برساتی نالوں سے ریتی بجری کے چوری سے ملیر کی زراعت آخری سانسیں لے رہی ہے اور جانوروں کی یہاں سے ہجرت ضروری ٹھہرے گی اور ساری ریتی بجری بحریہ ٹاؤن کراچی میں سپلائی ہورہی ہے۔
مگر اُنہی دنوں میں آصف علی زرداری اور ملک اسد سکندر کی چپقلش بھی چل رہی تھی اور ریتی بجری کی چوری بند تھی اور اب معاملہ حل ہوگیا اور آصف علی زرداری اور ملک اسد سنکدر پھر سے ایک ہوگئے کیوں کہ آصف علی زرداری ضلع جامشورو کے تین دیھ (سندھ میں انتظامی یونٹ کا سب سے چھوٹا یونٹ پاکستان میں کئی جگہوں پر انہیں چک یا موضع کہا جاتا ہے) انہیں کراچی میں شامل کرنا چاہتا تھا اور ملک اسد سکندر انکاری تھا۔
یہ وہ علاقے ہیں جو کیرتھر نیشنل پارک کا حصہ ہیں یہ علاقے کراچی میں رہیں یا جامشورو میں اس سے فرق نہیں پڑنا مگر یہاں معاملہ کچھ اور ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بھی یہ ہے کہ بحریہ ٹاؤن جامشورو کے حدود تک پہنچ گیا ہے اور اُسے مذید علاقہ قبضہ کرنا ہے حقیقی معنوں میں بحریہ ٹاؤن پروجیکٹ آصف زرداری کا ہے۔ ایک بات یہاں میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی نے بحریہ ٹاؤن کراچی کو 1330 ایکڑ دیے ہیں مگر بحریہ ٹاؤن 45000 ہزار ایکڑ سے تجاوز کر چکا ہے مگر ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو کسی بھی ہاؤسنگ اسکیم کو زمین الاٹ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اور یہ علاقہ وائلڈ لائف پروٹیکشن (Wild life Protection) علاقہ ہے اور یہ علاقہ محکمہ جنگلات سندھ گورنمنٹ کے حدود میں ہے۔ بحریہ ٹاؤن کے خلاف 72 سے زائد سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی طرف سے stay orders ہیں ان کے باوجود بھی تعمیراتی کام میں کمی کے بجائے مزید تیزی آگئی ہے۔
کہا یہ جاتا ہے کہ ملک اسد سکندر ریتی بجری کے اس کاروبار سے اربوں روپے کما چکا ہے کیوں کہ سردار ملک اسد سکندر کئی سالوں سے ضلع جامشورو(کیرتھر نیشنل پارک) سے ریتی بجری کراچی اور اور حیدرآباد میں سپلائی کر رہا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ضلع ملیر سے پولیس مہینے میں لاکھوں روپے رشوت سے کماتا ہے مقامی NGOs کے بھرپور احتجاج پر 1996 میں کراچی کے حدود میں sand and gravel mining پر section 144 لگا ہوا ہے 2014 تک بالکل بند تھا۔ جب بحریہ ٹاؤن کراچی کا پروجیکٹ شروع ہو اتو اچانک سے ہر طرف ریتی بجری کی چوری ہونا شروع ہوئی اور اس کو mines and minerals department Sindh کنٹرول کرتا ہے محکمہ میں اعلی عہدے داروں کو ماہوار لاکھوں روپے رشوت ملتی ہے۔
میں یہاں واضح کرتا چلوں کہ کیرتھر نیشنل پارک کو یہ اعزاز حاصل کہ انہیں1977 میں UNO نے عالمی نیشنل پارک کے فہرست میں شامل کیا تھا۔ کیرتھر نیشنل پارک پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے جو بحریہ ٹاؤن، فضائیہ اور ڈی ۔ایچ۔اے جیسے میگا ہاؤسنگ اسکیم کے وجہ سے تباہی کی طرف گامزن ہے صدیوں پرانے جنگلات کو کاٹا جارہا ہے ندیوں کو برباد کیا جارہاہے قدرتی آبی ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔
When all the trees are cut down,
When all the animals are dead,
When all the waters are poisoned,
When all the air is unsafe for breath,
Only then you will discover…
You cannot eat money
میری اُن تمام ماحول دوست تنظیموں، دانش وروں، فنکاروں سے گذارش ہے کہ آئیں ہمارا ساتھ دیں کہ ہم اپنے جنگلات، ندیوں پہاڑوں کی حفاظت کریں اور ان قبضہ مافیا کے خلاف بھرپور احتجاج کریں اور حکومت وقت اور سپریم کورٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ ان ہاؤسنگ اسکیموں کو فوری طور پر بند کر دیں۔ جب تک آپ لوگ ہمارا ساتھ نہیں دیں گے کچھ نہیں ہو گا اور ہم مزید شدید اور طویل دورانیے کے heat stroke کے لیے تیار رہیں کیوں کہ جنگلات، جھرنے ندیاں ہی ہمارے خوب صورت زندگی کے ضامن ہیں۔ کنکریٹ کے جنگل نہیں۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.