کراچی پر قبضے کا نیا نقارہ
(ڈاکٹر علمدار حسین بخاری)
وطن عزیز میں وقت دائروں میں سفر کرتا ہے اور یہاں ماضی کے لمحوں کو یاد کرتے ہوئے یہ خواہش کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کہ:
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
ہم پاکستانی ماضی کی یادوں کے رسیا ہیں اور بظاہر ماضی ہی کے کسی نقشے پر حال کی تعمیر و تشکیل کرنے کے خواہشمند رہتے ہیں۔ یہاں ماضی کے کسی نقشے کی بات کی گئی۔ اس لئے کہ یہاں ہر گروہ بلکہ ہر فرد کا اپنااپنا نقشہ ہےجس کےلئے کوئی سردھڑ کی بازی لگائے پھرتا ہے۔
پاکستانی معاشرت اورسیاست کے طور اطوار کا غائر مطالعہ بتائے گا کہ اس ملک کے شہریوں میں بہت خوبیاں ہیں۔ ذہانت ہے، محنت اور ریاضت کی وافر صلاحیت ہمیشہ موجود رہتی ہے جس کا بھر پور مظاہرہ خاص طور پر پاکستان سے باہر جاکر خوب ہوتا ہے اور یہاں حد سے بڑھا ہوا سیاسی شعوربھی ہےاور وہ بھی ایسا کہ گلی کوچوں بازاروں کھیتوں کھلیانوں گھروں ریستورانوں چائے خانوں اور ٹی وی چینلوں وغیرہ میں ہر پل ہوتا رہتا ہے۔ ہر جگہ ملک کی سیاسی صورت حال اور حکومتی معاملات پر ہر بڑا چھوٹا کلام کرتا نظر آتا ہے۔ حتٰی کہ آج کل امریکی صدارتی انتخابات تک پر سیرحاصل تبصرے بھی سنے جاسکتے ہیں۔یوں لگتا ہے کہ ہر چھوٹے بڑے کو ملک کے سیاسی و معاشی معاملوں کی فکر کھائے جارہی ہے لیکن اس کے باوجود شکی مزاج لوگ یہ کہتے سنائی دیں گے کہ یہاں کمی ہے تو اس دھرتی کے ساتھ اس کے باسیوں کے اندر اس دھرتی سے اٹل وابستگی اور احساس ملکیت کی کیوں کہ ہر کوئی یا تو ولایت یا پھر مشرق وسطٰی جانے کےلئے پا دررکاب ہے لیکن جو کہیں نہیں جا پاتا یہ دہائی دیتا نظر آتا ہے کہ اس ملک کو فلاں فلاں لوگ لوٹ کر کھا گئے لیکن اگر خود ہمارےاور ان محب وطن شہریوں کی کھلی آنکھوں کے سامنے ہی کوئی ناجائز تجاوز کر رہا ہو کسی عوامی پارک پر کسی بھی مقصد کے لئے غیرقانونی قبضہ کر رہا ہوچوکوئی بھی بظاہر چھپ چھپاکر لیکن اپنے محلہ داروں کے سامنے نہایت دیدہ دلیری سے منشیات بیچ رہا ہو بچوں کے ہاتھ پاؤں توڑ کر ان سے بھیک منگوا رہا ہو تو ہم آنکھ نیچاکر گزر جائیں گے کہ پرائے پھڈے میں کون پڑے! ایسا کوئی بھی معاملہ جس میں ایسے لٹیروں کو ٹوکنے یا ان کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہو تو یہ بھی ہمیں پرایا پھڈا لگتا ہے۔ اگر خود ہمارے اپنے گھر کے باہر کچرے اور گندگی کا ڈھیر لگ جائے اور اس میں روزبروز اضافہ ہوتا رہے ہم ناک پر رومال رکھ کر گزر جائیں گے لیکن ہم اور ہمارے ہمسائے یہ نہیں سوچیں گے کہ خود اپنے گھر کے ساتھ ساتھ اپنے ہی گلی محلے کالونی اور شہر کو صاف رکھنا ہماری بھی ذمہ داری ہے۔
ہم کبھی پتہ نہیں کرتے کہ بلدیہ شہر میں یہاں صفائی رکھنے کی ذمہ داری کس ادارے کی ہے اور اس کیلئے تنخواہ کون کون لے کر کھا ر رہا ہے اور وہ دراصل کہاں اور کس کی کیاکیا خدمت کر رہا ہیے؟ ساتھ والے سکول کی عمارت کیوں بوسیدہ ہو کر ڈھائی جارہی ہے ؟ اور یہاں کوئی استاد آتا بھی یے یا نہیں؟ اسی سلسلے میں کوئی یہ بھی نہیں سوچتا کہ ایک پرائیویٹ سکول کی محض چند سو روپے ماہوار لینے والی ان ٹرینڈ استانی اور استاد آخر کیوں بہتر پڑھاتے ہیں اور ہزاروں روپے ماہوار کی معقول تنخواہ اینٹھنے والے باقاعدہ تربیت یافتہ اساتذہ کرام کیوں نا اہل سمجھے جاتے ہیں اور ان کی لیاقٹ اور اہلیت پر پر عام آدمی کا اعتماد کیوں نہیں ہے کہ وہ گلی کوچوں میں بنے کہیں مہنگے سکولوں میں اپنا پیٹ کاٹ کر فیسیں بھرتے اور اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں؟ سرکاری خزانے سے معقول مشاہرہ لینے والے ہمارے محافظوں کو خود ہماری ہی چمڑی ادھیڑنے اور ہماری جیبیں خالی کرنے کا حق کس نے دے دیا ؟پولیس کے پاس یہ اختیار کہاں سے آگیا کہ اس کے اہل کار مجرم اور سادھ سب کو ایک ہے لاٹھی سے ہانکتے رہیں اور کوئی داد فریاد نہ ہو؟اور ہم برس ہا برس شکار ہونے والے جانوروں کی طرح ان کے اس ہانکے کے آگے پسپا کیوں ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
اس طرح دوسرے سبھی ریاستی ملازمین کے انداز حاکمیت کا معاملہ ہے جو ہماری ہی جیبوں سے نکالے گئے، پیسےسے تنخواہ لےکر ہمیں پر حکم چلاتے اور ہمارا استحصال کرتے ہیں۔ اسی طرح بلیک مارکیٹنگ سمگلنگ اور گراں فروشی سے دولت کمانے والے بھی یماری ہی جیب پر ڈاکہ ڈال رہے ہوتے ہیں لیکن ہم آخر خود اپنی کمائی کی لوٹ سے امیر ہونے والے ان لوگوں کو معزز کیوں مان لیتے ہیں؟ تھوڑا سوچنے کی زحمت گوارا کر لی جائے تو پتہ چل جائے گا کہ سارا مسئلہ اس بیگانہ پن اور مغائرت سے پیدا ہوا ہے جو لوٹ کھسوٹ کے اس ہمہ جہت نظام کے باعث ہم میں بحثیت مجموعی پیدا ہو گئے ہیں۔ ہم اپنے ہی ملک میں خود اپنے گھر سے باہر ہر شے سے وابستگی اور اس کی ملکیت کے ہر احساس سے محروم کر دیئے گئے ہیں اور ہمیں اس کا کوئی قلق بھی نہیں۔
کراچی میں بھی بظاہر ملکیت اور احساس ملکیت ہی کا مسئلہ لگتاہے لیکن جنگ قبضے کی چل رہی ہے۔ ذرا سوچئے تو قبضہ اس چیز پر کیا نہیں چاتا جو پہلے ہی آپ کی ملکیت میں ہو ۔ یوں کہہ لیجئے کہ ملکیت دراصل ہوتی ہی وہی ہے جس پر آپ کو کلی اختیار حاصل ہو ۔ قبضہ دوسروں کی شے پر زبردستی کیا جاتا ہے یا پھر خود اپنی چیز کو دوسرے کے قبضے سے چھڑانے کے لئے لڑنا پڑتا ہے۔ قبضہ زور آزمائی اور دبکے یا تشدد کی دہشت سے ملتا ہے اسی لئے کراچی ہی میں نہیں پورے ملک میں یہ سارا غل غپاڑہ زور آزمائی اور دہشت گردی ہوتی رہی ہے اور اس بستی پر خوف کا راج طویل تر ہوا ہے۔
ہمارے خطے کی تاریخ کے بیانیے کے مطابق تحریک آزادئ پاکستان و ہند زیادہ تر ایک پرامن سیاسی جدوجہد رہی تھی جس میں بیشتر قانونی ذرائع کچھ احتجاج کچھ مطالبات تھوڑی بہت دھونس کسی طرف سے کچھ منت سماجت اور ساتھ ہی حکمران تاجر قوم کی یہ ترجیح کہ اب بھوکوں ننگوں کی اکثریت والے شورش زدہ اس خطے میں حکمرانی پہلے کی طرح بھاری منافع کا سودا نہیں رہاتھا اس لئے تو خود اپنے ہی طے کردہ وقت سے بھی لگ بھگ ایک برس قبل انہوں نے رخت سفر باندھ لیا تھا۔ یہ ان کی بدحواسی ہرگز نہیں تھی اور نہ ان پر کوئی ایسا دباؤ تھا کہ قبل از وقت یہاں سے نکل بھاگتے۔ تاجروں کی اس قوم نے یہاں سے قبل از وقت واپسی کی اس خود ساختہ افراتفری میں بظاہر عجلت میں انہوں نے آزادی کے مضطرب طلب گاروں سے کچھ ایسے فیصلے کروا لئے کہ جن کا بھگتنا اب تک ان کے سماجی اور قومی وجود کا آسیب بناہوا ہے جو ہر مرحلے پر بالآخر ان کو لندن کی چوکھٹ پر لا پھینکتا ہے اور صدیوں کے اس رہزن ہی کو منصف ماننے پر مجبور کر دیتا ہے اور اہل سیاست باربار صرف لندن پلان کا واویلا کرکے پھر کسی نئے مفروضہ یا حقیقی پلان کے انکشاف تک چپ سادھ لیتے ہیں۔
ہم بھی بزعم خود ایک جمہوریہ ہیں اور بقول برادرم عمران خان برطانوی جمہوری ماڈل ہمارا آئیڈیل ہے یا ہونا چاہئے۔ چلو ماں لیا کبھی ایسا ہوہی جائے کہ ہم اپنے سابق آقاوں کے جیسے بن بھی جائیں تو کیا ہم اپنے ہاں برطانیہ کے کسی شوریدہ سر شہری کو اپنے ملک میں پناہ دے کر اور پھر شہریت عطا کرکے برطانیہ میں سکاٹ لینڈ یا کسی اور علاقے کی آزادی کےلئے بیان دینے یا ایسا مستانہ ٹیلی فونک خطاب کرنے کی اجازت دینے کی جسارت کر سکتے ہیں جس میں مرگ بر برطانیہ کے پرجوش نعروں کا تڑکا بھی لگا ہو؟ اور اگر اس کے کہنے پر گوروں کے دیس میں تشدد کی کوئی لہر بھی پھوٹ پڑے تو کیا برطانوی حکومت ہماری طرح عجز و نیاز کے ساتھ ہم سے قانونی کارروائی کی اپیلیں کرتی پھرے گی یا ہماری مثالی جمہوری حکومت کے دامن کو حریفانہ کھینچ کر تار تار کر دیا جائے گا ؟چاہے اس مجوزہ مثالی جمہوریہ پاکستان کے سرپراہ عمران خان ہی کیوں نہ ہوں اور برطانیہ کا وزیر اعظم محترمہ جمائما خان کا سگا بھائی جونئیر گولڈ سمتھ ہی ہو۔
ان دنوں ایک بات بھی لائق توجہ ہےاور وہ یہ کہ غیر مساوی گروہوں اورطبقوں پر مشتمل اور مختلف النوع متنوع بولیاں بولنے والے ان لوگوں کو جو تقسیم ہند کے نتیجے میں ظلم کے پہاڑ توڑ کر پاکستان میں دھکیل دئیے گئے تھے اسی بے دخلی اور مہاجرت کے نتیجے میں ایک ہی زمرے یعنی مہاجر کے لیبل میں باندھ کر ایک یکساں قومیت قرار دینے کا ڈول ڈالا گیااور ہریانی، پنجابی، گجراتی، میواتی، راجستھانی، برج بنگالی اور اسی طرح کی کئی دیگر چھوٹی بڑی زبانوں اور ثقافتوں کے دلکش متنوع رنگوں کو تباہ کرکے مٹا دینے کی انتہائی خوف ناک اور انتہائی چالاک سازش کی گئی جس کےذریعے خود ان زبانوں اور ثقافتوں کے حامل لوگوں میں عدم تحفظ کا شدید احساس پیدا کرکے انہیں اردو زبان اور کلچر اپنانے کی ترغیب دی گئی۔ پاکستان کے دیگر شہروں اور دیہاتی علاقوں میں تو ہندوستان کے مختلف اور دوردراز علاقوں سے آ کر بسنے والے یہاں کی قدیمی مقامی زبانوں اور ثقافتوں سے آہستہ آہستہ ہم آہنگی اختیار کرنے لگے لیکن قیام پاکستان کے لگ بھگ چالیس برس بعد کراچی اور حیدرآباد میں خاص طور پر یہ حربہ کارگر ثابت ہوا اور سیاسی و معاشی دباو تلے یار لوگ اپنی اپنی بولیاں بولتے ہوئے بھی اردو سپیکنگ کہلوانے لگے حالانکہ ان شہروں کے محلوں گلیوں بازاروں میں اب بھی ان رنگ رنگ کی بولیوں اور ثقافتوں کا میلہ سجا ہوا ملتا ہے۔
کوئی بندہ خدا یہ نہیں سوچ رہا کہ ممکن ہے مفادات کی اس لڑائی میں زیر سطح کشاکش و کشمکش ان چھوٹے بڑے گروہوں میں بھی بھی شروع ہو چکی ہو جس کا انجام مزید تقسیم اور گلی محلوں کی جتھہ بندی اور محاذآرائی کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔ تو اے بندگان دانش سیاست و سرکار! دہلوی لکھنوی گجراتی مارواڑی پنجابی بہاری دکنی حیدرآبادی بنگالی ہریانی میواتی بوہرے میمن وغیرہ کی تاریخی اور ثقافتی تقسیم اور ان کی معروف تاریخی سیاسی و لسانی آویزشوں کے ساتھ ساتھ غریب اور امیر کی ازلی تقسیم کو بھی مت بھولو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ استحصال کرنے والے اصل اور مراعات یافتہ طبقوں کی باچھیں تمہارے اطوار پر کھلی جارہی ہیں۔ تو اے اہل کراچی و حیدرآباد اور اے فیصلہ سازو ہوشیار باش۔!
اسی نئی قومیت سازی کے حوالے سےتاریخ کا ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کراچی کو آخر پاکستان کا دارالحکومت یہ سوچے سمجھے بغیر کیوں بنادیا گیا کہ یہ ( اس وقت )ایک چھوٹا سا شہر ہزاروں میل کے فاصلے رکھنے والے ایک وسیع و عریض خطے کی ایک انتہا پر واقع ہے اور یہاں سے حکومت چلانا کس قدر مشکل ہوگا اور عام آدی کے لئے بوقت ضرورت یہاں تک رسائی کتنی دقتوں کا سبب ہوگی۔ شاید فیصلہ سازوں کو مشرقی پاکستان کے ایک ہزار میل کے فاصلے پر ہونے نے مغربی پاکستان میں بھی اس مسئلے کو نظر انداز کر نے پر آمادہ کیا ہو ۔ بعد میں جنرل ایوب خان نے بھی دارلحکومت اسلام آبار منتقل کرنے کے فیصلے میں اتنی ہی عقلمندی دکھائی جتنی کہ اس میں اور اس کے مشیروں اور ساتھیوں میں تھی۔ اس احمقانہ فیصلے اور عمل کے تکلیف دہ سیاسی معاشی و معاشرتی نتائج اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ پہر حال کراچی کے دارالحکومت اور بین الاقوامی بندر گاہ ہونے کے باعث آبادی کا بے تحاشا بہاؤ اس طرف شروع ہو گیا اور چند ہی برسوں میں پغیرکسی پلاننگ کا موقع دیئے ایک بے حد بے ڈھبا اور بے ترتیب شہر ہر سو پھیلتا چلا گیا اور اب کروڑوں تک پہنچا جس میں مردم شماری ہی اے اہل اقتدار خوفزدہ ہیں۔
ہندوستان سے اکھڑ کر آنے والوں کے لئے اب علاقے وطن اور برادری سے تاریخی و معاشرتی وابستگی اور قید کی کوئی زنجیر باقی رہ نہیں گئی تھی اس لئے کراچی ان گے قیام اور معاش کے لیے موزوں ترین بستی تھی دیگر بے حد پسماندہ علاقوں کے لوگوں کو بھی یہاں روزگار کے بہتر مواقع دکھائی دینے لگے تو وہ بھی لاکھوں کی تعداد میں ادھر کھنچے چلے آئے اور یہاں انہوں نے اپنی اپنی بستیاں بسا لیں۔ اگرچہ یہاں سبھی ترک وطن و مقام کرکے آئے تھے لیکن فرق یہ تھا کہ مختلف پاکستانی علاقوں سے آنے والوں کا خود اپنے آبائی خطے سے رابطہ قائم تھا مگر ہندوستانی علاقوں سے آنے والوں سے یہ سہولت کاروبار سیاست نے چھین لی تھی۔
یہاں آنے والے پڑھے لکھے اردو بولنے والوں کیلئےاس دور میں اردو بولنے والے وزیر اعظم کی برکت سےسرکاری ملازمتوں کے سارے دروازے کھول دیئے گئے تھے اور اب بلا شبہ سرکاری ملازمت ہی حصول زر و جاہ کا بہت بڑا وسیلہ بن گئی تھی اس لئے دہلی لکھنئو الہ آباد اور حیدرآباد دکن وغیرہ سے تو زیادہ تر لوگ 1950 کی دہائی میں روذگار کے مواقع کی خبر پاکر آتے رہے اور آہستہ آہستہ انہوں نے تیزی سے پھیلتے اس شہر کی قیادت سنھال لی اور اس شہر کے قدیمی باسی پس پا ہو کر لیاری جیسے علاقوں میں پناہ گزیں اور پسماندہ تر ہوتے چلے گئے۔
ستر کے عشرے میں صوبائی سطح پر اس خطے کی قدیمی زبان سندھی کو سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ ہوا تو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے لائق فائق کزن اور اور اس وقت کے سندھ کے وزیراعلٰی ممتاز بھٹو کی احمقانہ پالیسیوں اور طرزعمل کی بنا پر اردو سندھی تنازعہ ہو گیا جو کسی طور وقتی طور پر تحلیل تو ہوگیا لیکن اس دوران میں اردو کی مظلومیت کے جو نوحے گائے گئے تھے وہ تو کراچی والوں کی زبانوں پر چڑھ ہی چکے تھے جن کی لے اور سر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اونچے ہوتے چلے گئے۔ اور کراچی کا عجیب وغریب شہر جو ستر اور اسی کی دہائیوں میں ایک بین الاقوامی میٹروپولیٹن شہر بن جانے کے باوجود انتہائی قدامت پرست مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کے پیچھے کھڑا تھا لیکن یہ اب اردو کی مظلومیت کے نوحوں کی لے پر بین کرنے لگا اور اور ساری مذہبیت بھول بھال کر نودریافت شدہ لسانیت پرستی کے پیچھے صف آرا ہونے لگا۔ روز بروز بگڑتے معاشی حالات اور بےروزگاری کے عفریت نے خاص طور پر نوجوانوں کو اس مجلس نوحہ گری کی طرف دھکیلا کہ سبھی دکھی لوگ بہت جلد یکجا ہو جایا کرتے ہیں۔
اسی تسلسل میں جیسا کہ پہلے بھی اشافہ کیا گیا ایک مزے کا واقعہ یہ ہوا کہ پاکستان میں اب تک قوم پرستی کی تحریکوں کی شدید مخالفت اور مذمت کرنے والے اہل زبان اردو نے ادھر ادھر سے بکھرے مختلف اللسان لوگوں کو آوازہ لگا کر خود ایک الگ قوم ہونے کا دعوٰی دائر کردیا اور خود اپنی جڑوں سے اکھڑے ہوئے اور نئی بستی کے روز افزوں معاشرتی اور معاشی مسائل سے بدحواس یہ لوگ اس نئے نعرے کی گونج میں اکٹھے ہونے لگے۔ اس دوران میں یہاں آ کر بسنے والے پشتون پنجابی اور سنھی سرائیکی اور بلوچ بھی اپنے اپنے اتحاد اور گڑھ بنانے لگے۔ ایک اچھے بھلے اسلام پسند شہر کو اس طرح سیکولر قوم پرستی کی تقسیم میں بٹتا دیکھ کر ہر مسلک کا مولوی انگشت بدنداں تھا اور کف افسوس مل رہا تھا لیکن اسے اس کا کوئی علاج نہیں سوجھ رہا تھا دیکھتے ہی دیکھتے پورا شہر مولوی صاحبان کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ یہ ضیاالحق کے اسلامی برانڈ مارشل لاء کا دور تھا اور ہر طرف اسلامی نظام کے نفاذ کے چرچے تھے لیکن خود ساختہ امیرالمومنین نے اپنے اقتدار کو طول دینے کےلئے یہاں اک عجب کھیل شروع کردیاتھا۔ مارشل لاء کے شروع کے برسوں میں اس کا ساتھ دینے والی مذہبی جماعتوں کی بجائے سیکولر نظریات کا اعلان اور پرچار کرنے والی نئی تنظیم مہاجر قومی موومنٹ کی نہ صرف خاطر خواہ آبیاری کی بلکہ شہرہ تو یہ ہے کہ اس کا ڈول ہی جنرل صاحب ہی نے ڈالا تھاکہ وہ حسب ضرورت خود بھی مہاجر ہونے کی سرگوشیاں کیا کرتے تھے یار لوگ تو بعد ازاں جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل پرویز مشرف پر بھی اسی حوالے سے انگشت نمائی کرتے رہے ہیں۔
القصہ اب کراچی کا قبضہ مولویوں سے لے کراس نئی متحدہ طاقت کو دے دیا گیا۔ اس دور میں جماعت اسلامی سے منسلک اسلامی جمیعت طلبہ کی متشددانہ اسلامی تطہیر پسندی کے زخم خوردہ ترقی پسند نوجوانوں نے بھی ادھر ہی آکر پناہ لی اور خوب ترقی کی ۔علاج مثل بالمثل کے مصداق اس نئی تنظیم نے ان اسلام پسندوں کا مقابلہ کرنے کیلئے خود انہی کے سے انداز اپنائے اور اپنا ایک باقاعدہ عسکری ونگ بنا لیا جس نے کچھ ہی عرصے میں اسلامی جمیعت طلبہ اور جماعت اسلامی کی طاقت کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیا اورایک سخت متشددانہ مزاحمت کے بعد اہل جماعت نے امن کی فاختاوں کی پرورش کے دعوے اوراعلان شروع کردئیے اور اپنے عقاب پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی طرف اور پھر اسامہ بن لادن اور گلبدین حکمت یار کی سرکردگی میں ہونے والے اسلامی جہاد کے لئے افغانستان کی طرف اڑا دئیے کہ وہاں ان عقابوں کے لئے خون گرم رکھنے کا بہانہ بھی تھا اور مستقبل کی ممکنہ ضروریات کےلئے ان عقابوں کی موزوں ترین تربیت کے لئے جدید ترین امریکی اسلحہ اور بیشمار ڈالروں کا بندوبست بھی تھا۔
اب جب کہ کراچی میں بانی و قائد تحریک متحدہ الطاف حسین کے اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان پر ایک خود کش حملے کی سرمستانہ کوشش کے بعد ایم کیو ایم پسپا ہورہی ہے اور اس شہر غرباء وامراء پر قبضے کی جنگ شروع ہونے کا نقارہ ایک بار پھر بج رہا ہے دیکھئے یہ اسلامی عقاب اگر اب تک القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس کی وسع تر جولاں گاہوں میں نہیں پہنچ چکے تو ادھر کب لوٹتے ہیں کہ اب وہاں ممکن ہے انہیں کافی فرصت ہو ۔ ورنہ دفاع پاکستان کونسل کے سرفروش اور جہادی تو ہیں ہی۔ حیرت ہے ابھی تک اس محب پاکستان تنظیم صالحین و وعابدین نے کیوں انگڑائی تک نہیں لی ! ایک واقف حال کا خیال ہے کہ یہ اس کا میدان نہیں اور اس کے سامنے آسماں اور ہی ہیں ۔واللہ اعلم !
بات وطن عزیز میں قومی و وطنی سطح پر احساس ملکیت کی ہورہی تھی جس کو شاید قبضہ گروپوں کی بہتات اور زور آوری نے عام امن پسند اور مصلحت کیش لوگوں میں بہت کمزور کر دیا اور قبضے کی اس جنگ میں وہ محض نقد جاں بچا لے جانے کو ہی کافی سمجھتے ہیں اس لئے اے اہل دانش۔۔۔! عمران خان، علامہ طاہرالقادری، شیخ رشید جوتشی راولپنڈی والے اور محترمہ فردوس عاشق اعوان سمیت باربار یہ دہائی دے رہے ہیں کہ لوگوں کو فوری اور ہنگامی طور پر غیر محفوط سڑکوں پر آ کر دمادم مست قلندر کا دھمال شروع کر دینا چاہئے ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔ دیر کس بات میں ہوگی؟ یہ جاننے کے لئے ان رہبروں سے رابطہ کریں یا پھر عزیزم بلاول زرداری کے سات سمندر پار بیٹھے بابصیرت اور جہاں دیدہ والد محترم کے چلے کے اختتام کا انتظار کریں! اے مصلحت پسندو! بھلائی اسی میں ہے۔ اور ادھر شریفوں کے وعدوں کی تکمیل میں بھی بس ڈیڑھ ایک برس ہی تو رہ گیا ہے پھر ممکن ہے کہ شریفانہ وعدوں کے مطابق واقعی ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں اور ہم ان نہروں میں نہانے اور تیرنے کے لئے ۔ نوتعمیر شدہ موٹرویز اور میٹروز پر اڑتے پھریں۔۔۔! بلا شبہہ معجزے بھی اسی دنیا ہی میں ہوتے ہیں اور ہمیں معجزوں کا ہمیشہ ہی انتظار رہتاہے۔ اس انتظار کا چسکا بھی عجیب لذیذ ہے اور یہی سب سے آسان کام بھی ہے۔