(آصف مالک)
آصف علی زرداری میرے لئے نواز شریف اور عمران خان کے مقابلے میں کم تر برائی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور مجھے اپنی رائے رکھنے کا جمہوری حق ہے، وجوہات بیان کرنے کا موقع نہیں۔ مجھے مسٹر زرداری کے دوست اور مبینہ فرنٹ مین انور مجید کے دفاتر پر رینجرز کی چھاپے اور وہاں سے اسلحے کی برآمدگی پر بھی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن اس چھاپے اور اسلحہ کی مبینہ برآمدگی پر بات کرنے سے پہلے مقطع میں ایک سخن گسترانہ بات آجاتی ہے کہ جب سے عزیز آباد میں پانی کی ایک چھوٹی سی ٹنکی میں دو جہازوں میں سمانے والا اسلحہ برآمد ہوا ہے؛ اور تھک ہار کر پولیس نے اس مقدمے کو تقریباً اے کلاس کردیا ہے۔ کیوں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ سراغ ہی نہیں لگا سکے کہ یہ اسلحہ کس کا تھا۔
ازراہ تفنن طع عرض کروں گا کہ یوں لگتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس برآمدگی کے لئے اسلحے کی ایک کھیپ رکھی ہے؛ وہ جب چاہتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں، جس کو ٹارگٹ کرنا ہوتا ہے، اس کی جائیداد سے برآمد کروادیتے ہیں۔ انور مجید کے دفاتر سے اسلحے کے برآمدگی میں سب سے بڑا لطیفہ یہ ہوا ہے کہ بعض رپورٹس کے مطابق چھاپا یو بی ایل پر مارا گیا، جہاں سائن بورڈ پر اومنی بھی لکھا تھا۔ انور مجید کا تعلق اومنی سروسز سے ہے، اس بینک سے انور مجید کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن رینجرز نے بینک سے بھی اسلحہ برآمد کرلیا ہے۔ اب یہ ہڈی گلے میں اٹک گئی ہے کہ اس بھنڈ کا ازالہ کس طرح کریں۔ اسی لئے جارج برنارڈ شا نے اپنے شہرۂ آفاق ڈرامے ’آرمز اینڈ دی مین‘ میں ایک کردار سے کہلوایا تھا کہ ’’نو میں سے دس سپاہی احمق ہوتے ہیں۔‘‘
اب آتے ہیں، اپنے اصل موضوع کی طرف۔ کیا انور مجید کے مبینہ جرائم کا رینجرز اور وزارت داخلہ کو عین اسی دن پتا چلا تھا، جس دن مسٹر زرداری نے ڈیڑھ سال بعد کراچی میں لینڈ کیا تھا۔ اصل اعتراض اس ٹائمنگ پر ہے، جو اتفاقی واقعہ نہیں ہوسکتا۔ اس کارروائی کا صاف مطلب مسٹر زرداری کو یہ پیغام دینا تھا کہ آپ کو کھیلنے کے لیے کھلا میدان نہیں ملے گا۔ رہی سہی لبرل،سیکولر فورسز پر یہ کھلا میدان دو ہزارتیرہ کے وقت سے بند ہے، جب طالبان کے ذریعے پیپلز پارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم کو آزادی سے اپنی انتخابی مہم نہیں چلوانے دی گئی تھی۔ ان انتخابات میں مرضی کے نتائج حاصل کرکے رجعت پسندوں کے حوالے یہ ملک کردیا گیا تھا۔
اب دو سال سے جاری آپریشن ضرب عضب اور کراچی آپریشن کا حاصل یہ ہے کہ گذشتہ ہفتے ہی کالعدم جہادی تنظیموں نے کراچی میں کھلے عام جلسہ کیا تھا۔ جھنگ سے ایک کالعدم تنظیم کا نمائندہ ضمنی الیکشن جیت کر اسمبلی میں پہنچ چکا ہے۔ المعروف شکریہ شریف اور وزیر داخلہ کی کامیابیوں کا پول جسٹس عیسیٰ کی سانحہ کوئٹہ پر چشم کشا رپورٹ نے کھول دیا ہے۔ اور جہاں تک کراچی آپریشن کی کامیابیوں کے دعوے کا تعلق ہے تو صورت حال یہ ہے کہ کراچی کے بعض علاقوں میں طالبان کی دوبارہ موجودگی کے شواہد مل چکے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ، اسٹریٹ کرائمز اور بھتہ خوری دوبارہ سے زور پکڑ چکے ہیں۔ نو دسمبر کو قومی اخبارات میں رپورٹ ہوا ہے کہ منگھو پیر اور پختون آباد میں طالبان کی دوبارہ سے وال چاکنگ نظر آرہی ہے۔ جس سے علاقے میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔ اسٹریٹ کرائمز، بھتا خوری اور ٹارگٹ کلنگ کا یہ حال ہے کہ سی پی ایل سی کی رپورٹ کے مطابق دو ہزار سولہ میں کراچی میں چودہ سو سے زائد موبائل فون گن پوائنٹ پر چھینے گئے، اغوا کے بیس اور بھتا خوری کے ایک سو سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے۔جب کہ ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کا احوال بھی روز اخبارات کی زینت بنتا ہے۔
پہلے تو ان جرائم کا الزام آنکھ بند کرکے متحدہ پر لگادیا جاتا تھا، متحدہ کو ختم کرنا آپ کے آپریشن کا واحد مقصد تھا اور اس مقصد میں آپ بہ ظاہر کامیاب بھی ہوچکے ہیں۔ اب کون یہ جرائم کررہا ہے؟ افسوس صد افسوس! اسٹبلشمنٹ قوم کو مسلسل دھوکا دے رہی ہے اور یہ لوگ جنرل ضیاء کے تزویراتی گہرائی اور بھارت دشمن پالیسی کے دور سے نکلے نہیں ہیں۔ جس کا ایک حوالہ جنگ میں وجاہت مسعود صاحب کے حالیہ کالم میں بھی ملتا ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق چیف نے وزیراعظم نواز شریف کو خط لکھ کر فرمائش کی تھی کہ جہادیوں کو غیر مسلح کرکے انھیں مختلف اداروں میں کھپانے کا پروگرام شروع کیا جائے۔ اگر یہ خط وزیر داخلہ چوہدری نثار کو لکھا جاتا تو اس پر عمل درآمد شروع ہوجاتا لیکن نواز شریف سے بہرحال اس حماقت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
شکریہ شریف کا پول بھی حامد میر نے اپنے حالیہ کالم میں کھول دیا ہے کہ موصوف اپنے منصب کی مدت میں توسیع اور فیلڈ مارشل بننا چاہتے تھے۔ مگر وزیراعظم نے سنی ان سنی کردی تھی۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ نہ تو بیانیہ بدلا ہے، نہ پالیسی اور نہ اقدامات میں تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ میرے منھ میں خاک دہشت گرد جب چاہیں گے، پاکستان کے کسی بھی علاقے میں کارروائی کریں گے اور دہشت گردوں کی کمر توڑنے اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک چین سے نہ بیٹھنے جیسے دعوے سامنے آتے رہیں گے۔