کرتار پور راہداری ایک امید افزا شروعات
از، حسین جاوید افروز
’’ہندوستان جیوے پاکستان جیوے میرا یار دلدار عمران خان جیوے‘‘۔ 28نومبر کونوجوت سنگھ سدھو کے یہ پرجوش اشعار اس وقت کئی امن پسندوں کے جذبے کو گرما رہے ہیں اور ایک امید سی پیدا ہوچلی ہے کہ کرتار پور راہداری کے کھلنے سے ستر سال سے سرحدوں پر پھیلے تناؤ کو کم کرنے میں خاطر خواہ مدد ملے گی ۔جبکہ صرف اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا جائیگا بلکہ کرتار پور راہداری کا یہ امیدافزاء سفر یہاں سے سکردو کارگل ،کھوکھرا پار موناباؤ ،سیالکوٹ سے جموں اور شاردا کشمیر کے راستے بھی کھولنے پر یوں ہی جار ی وساری رہے گا ۔اور ایسا اب کیوں نہ ہو جیسا کہ ہمارے ہردلعزیز وزیر اعظم عمران خان نے دل کی بات کھول کر رکھ دی کہ ہم کب تک ماضی سے لگے رہیں اور اپنے مستقبل کو یرغمال بنائے رکھیں اس سے کیا ملے گا ؟
ماضی سے انسان سیکھتا ہے تاکہ اگلی زندگی کو بہتر بنا سکے۔ ماضی کا قیدی بن جانا ہرگز دانشمند ی نہیں ہے ۔اب پاک بھارت تعلقات کو جرمنی اور فرانس کے تعلقات کی طرح خوشگواریت میں ڈھلنا ہوگا ۔تو دوسری جانب پٹیالے سے تعلق رکھنے والے جوشیلے اور ہر دم تازہ دم نوجوت سنگھ سدھو نے بھی اس بات پر بھرپور زور دیا کہ امید سے بڑی کوئی توپ نہیں ہوا کرتی ۔میرے دوست عمران خان اور اس کے جرنیلوں نے دونوں ممالک کے درمیان کرتار پور راہداری کو کھول کر امکانات کے نئے جہاں کو آباد کیا ہے ۔جب جنرل باجوہ نے مجھے بتایا کہ ہم زیارت کے لئے کرتار پور کی سرحد کھولنا چاہتے ہیں تو بطور سکھ میں اس عظیم پیشکش سے کیسے پیچھے ہٹ جاتا؟ میرے دوست اور وزیر اعظم عمران خان ایک فرشتہ ثابت ہوئے جنہوں نے ہم بارہ کروڑ سکھوں کے دل جیت لئے ہیں۔ ماضی میں دونوں کرکٹ کے میدان میں ایک دوسرے کے حریف رہے۔
ایسے موقع بھی آتے رہے جب سدھو ،عمران کے باؤنسر کی تاب نہ لا کر گر جاتا اور عمران اس پر جملے کستے ۔اور ایسے میچز بھی ہوتے جہاں عمران کو سدھو کی جارحانہ بیٹنگ سے خاصی کوفت بھی اٹھانا پڑتی ۔مگر میدان سے باہر ہمیشہ دونوں کے درمیان احترام اور دوستی کا گہرا رشتہ رہا ہے ۔بعد ازاں دونوں نے سیاست میں بھی سخت محنت کر کے اپنا نمایاں مقام بنایا ۔یہی وجہ ہے کہ اب مشرقی پنجاب کے وزیر سیاحت کے طور پر سدھو اوربطور وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے مل کر پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کے دوران امن کا واضح پیغام کرتار پور کی شکل میں دیا ہے ۔ ماضی میں جھانکیں تو 1969 میں اندرا گاندھی نے اس راستے کو کھولنے کی پیشکش کی تھی مگر پھر متواتر کشیدہ فضا کے سبب یہ کام ادھورا رہ گیا ۔کرتار پور میں بابا گرو نانک نے اپنی زندگی کے آخری اٹھارہ برس گزارے اور ذات پات اور چھوت چھات کے زہر کو ختم کرنے اور مساوات کا درس دیا۔انہوں نے یہاں لنگر کا بھی اہتمام کرایا جہاں ذات پات سے بالا ہوکر سب لوگوں کو کھانے کی دعوت دی جاتی جس سے مساوات کا درس ملتا۔
اپنی زندگی میں بابا گرو نانک نے چین سے جنوبی ایشیاء اور یہاں سے مشرق وسطیٰ کا طویل سفر کیا جو کہ تقریباٰ 38 ہزار میل کے قریب بنتا ہے ۔انہوں نے ہمیشہ بھائی چارے اور جڑ کر رہنے کی بات کی اور ہر طرح کے تعصبات کو ختم کرنے کی حمایت کی ۔یوں راوی کنارے کرتار پور کا یہ چھوٹا سا گاؤں صدیوں سے اتحادو یگانگت اور مساوات کی علامت بن کر ابھرا ۔1923 میں راوی میں خوفناک سیلاب سے یہ جگہ تباہ بھی ہوئی مگر مشرقی پنجاب کے موجودہ وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ کے دادا مہاراجہ پٹیالہ بھوپندر سنگھ نے اس وقت ایک لاکھ 35 ہزار کی خطیر رقم سے اسے دوبارہ تعمیر کرایا ۔جبکہ قیام پاکستان کے بعد بھی حکومت نے اس کی تزئین و آرائش جاری رکھی ۔تاہم اس حوالے سے دلچسپ بات یہ رہی کہ کرتار پور کی تقریب میں ہندوستان کے جانے مانے صحافیوں نے بھی پاکستان کا دورہ کر کے ان تاریخی لمحات کی عمدگی سے کوریج کی ۔اس صحافی جتھے میں راج دیپ سر ڈیسائی ،سوہاسنی حیدر اور برکھا دت جیسی کہنہ مشق شخصیات بھی شامل تھیں جن کو پاکستان کے اس دورے میں لاہور ،اسلام آباد اور کرتار پور جاکر وزیر اعظم عمران خان ،کرتار پور زیارت کے لئے پہنچے یاتریوں اور پاکستانی پبلک سے تبادلہ خیال کا بھرپور موقع ملا ۔خصوصاٰ راجدیپ ڈیسائی نے کھل کر جہاں اپنے خیالات کا اظہار کیا وہاں اتنے ہی حوصلے سے پاکستانی موقف کو بھی متانت اور شوق سے سنا ۔یہی وجہ ہے کہ برکھا دت اور راج دیپ کو سوشل میڈیا پر بھارتیوں کی جانب سے پاکستانی ایجنٹ کے طعنے بھی سننے پڑے مگر ماننا ہوگا کہ ان قد آور صحافیوں نے کامل ایمانداری سے اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دئیے اور نہایت خوشگوار یادیں لئے پاکستان سے رخصت ہوئے۔
مگر تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جو کہ ہمیں ہندوستانی میڈیا کے اندر دکھائی دیتا ہے ۔جہاں ارنب گوسوامی جیسے تعصب اور نفرت سے لتھڑے ہوئے اینکر پرسن اپنے چینل ریپبلک پر پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں نہایت سطعی اور گھٹیا نوعیت کے پروگرام کرتے ہیں۔ایسے پروگرامز کا فارمیٹ بہت سادہ ہوتا ہے کہ پانچ چھ متعصب تجزیہ کاروں کو دو یا تین پاکستانی تجزیہ کاروں کے ساتھ بٹھایا جائے اور پھر پاکستانی قوم اور فوج پر رکیک حملے کئے جائیں اور ہر وہ منفی حربہ استعمال کیا جائے جس سے پاک بھارت تعلقات میں مثبت پہلوؤں کو سبوتاژ کیا جاسکے ۔جبکہ اس سارے گھناؤنے فعل میں ارنب مکرجی بطور میزبان گستاخانہ آواز میں پاکستانی مہمانوں کو بولنے نہیں دیتا اور دوسری جانب بھارتی فوج کے متعصب دفاعی ماہرین اور سفارت کاروں کو ہلہ شیری دیتا ہے کہ وہ کھل کر ماحول کو زہریلا اور آلودہ کریں۔
جہاں ایک جانب کرتار پور کوریڈور کی مہک ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے وہاں اس خوشگوار ماحول کر خاکستر کرنے میں بولی وڈ بھی اپنا حصہ ڈالنے کو تیارہے جہاں جنوری 2019 میں’’اڑی‘‘ کے نام سے بھارتی فوج کے پاکستان پر سرجیکل سڑائیک کے تناظر میں فلم رہلیز کیلئے تیار ہے ۔اب بتائیے ایسے ماحول میں امن کی فاختہ کو تحفظ کیسے مل پائیگا ؟تاہم ان تمام تر شرمناک حرکات کے باوجود عمران اور سدھو کی سنگت نے جنوبی ایشیاء میں دائمی امن کے لئے ایک تاریخی قدم اٹھایا ہے جس کی خصوصاٰ سکھ برداری میں بہت عزت و ستائش کی جارہی ہے ۔جبکہ کرتار پور میں آئے سکھ یاتریوں نے بھی کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ عمران خان نے ہمارے دل جیت لئے ہیں جبکہ سدھو جی بھی تعریف کے قابل ہیں مگر اس سارے عمل میں نریندر مودی کا کوئی ہاتھ نہیں۔کیونکہ دوستانہ فضا ہی کچھ ایسے بن گئی تھی کہ مودی سرکار کو اس راہداری کو کھولنے کا اعلان کرنا ہی پڑا ۔مگر جس طرح سے وزیر خارجہ سشما سوراج اور مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ نے اس موقع پر آمد سے اجتناب برتا یہ عمل خاصا افسوسناک رہا ۔ وزیر اعظم عمران خان نے کھل کر کہا کہ ہم پاک بھارت تعلقات میں امن کیلئے نہ صرف سنجیدہ ہیں بلکہ اس عمل میں ریاست پاکستان کے تمام اداروں کی بھی رائے سانجھی ہے کہ خطے میں امن سے بہتر اور کوئی آپشن نہیں مگر ایسی کوششیں یکطرفہ کے بجائے دوطرفہ بنیادوں پر بھی کی جانی چاہیے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان دیگر بند راستے بھی کھولے جائیں تاکہ دونوں اطراف سے زائرین بلا خوف و خطر اپنے مقدس مقامات کی زیارت کر سکیں ۔کرکٹ میچز کا انعقاد باقاعدگی سے کیا جائے ۔سرحدوں پر بڑھتی حدت اور تناؤ کم کیا جائے اور عوامی رابطوں کو عام کیا جائے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ستر سال کے اغلاط کو جو دونوں اطراف سے ہوئے سمیٹ کر امن ،خوشحالی کو موقع دیا جائے ۔جب ایسی دوستانہ فضا قائم ہوگی تو کشمیر جیسے طویل مدت سے چلے آرہے مسلئے کا حل بھی نکل سکے گا۔
مجھے یہاں بھارت کی یونین منسٹر ہر سمرت کور کی کرتار پور پر کی گئی جذباتی گفتگو بھی یاد آ رہی ہے کہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اپنی زندگی میں ،میں کبھی کرتار پور آ پاؤں گی ۔میرا یہاں کوئی رشتہ دار نہیں مگر مجھے بابا نانک نے بلایا میں چلی آئی۔مالک نے جب بلانا ہوتا ہے تو سارے راستے کھل ہی جاتے ہیں۔امید ہے کہ یہ راہداری پاک بھارت تعلقات میں کڑواہٹ کو کم کرے گی۔ جبکہ سدھو جی نے تو سماں ہی باندھ دیا کہ جو کام ستر برسوں میں نہیں ہوا وہ تین ماہ میں ہوگیا ۔پاکستان نے ہماری جھولیاں بھر دیں ہیں جب بھی کرتار پور راہداری کا نام تاریخ میں لکھا جائیگا عمران خان کا نام پہلے صفحے پر لکھا جائیگا ۔ ہندوستان جیوے پاکستان جیوے۔ وزیر اعظم پاکستان میرا یار دلدار عمران خان جیوے۔