کاش میں وزیر اعظم بن سکتا

aik Rozan writer
معصوم رضوی، صاحبِ مضمون

کاش میں وزیر اعظم بن سکتا

از، معصوم رضوی

کیا کبھی میں وزیر اعظم بن سکتا ہوں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ میرے والد محترم کی فولاد کی کوئی فیکٹری نہیں جو دن رات رنگا رنگ کڑک کرنسی کے انڈوں سے نواز رہی ہوتی۔ اتفاق ہی ہے کہ میرے پاس ایسی کوئی اسٹیل پائپ لائن بھی نہیں جو پاکستان سے روپوں کو براستہ قطر، سعودی عرب، دبئی اور پھر برطانیہ میں ریال اور پاؤنڈ کی صورت میں اگل سکے۔ جرنیل تو کیا کوئی لیفٹن بھی مجھے منہ بولی اولاد بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتا، حتیٰ کہ کوئی تھانیدار بھی میرا کھونٹا مضبوط ہونے کی گواہی دینے پر تیار نہیں۔ کسی کمبخت نے مجھے جلاوطن بھی نہیں کیا کہ کم از کم عرب شہزادوں کی بارات کو تلور کے شکار پر مدعو کر سکوں، تو پھر میں کیا کروں؟

صدر بھی نہیں بن سکتا کیونکہ میری بیوی نہ صرف ماشااللہ حیات ہے بلکہ سینے پر مونگ دل رہی ہے باقی ساری بیویوں کی طرح۔ اب آپ ہی بتائیے اگر اس سے وصیت کی فرمائش کروں تو کیا حشر ہو گا۔ کبھی کبھار سنیما ضرور گیا ہوں لیکن حلف اٹھا سکتا ہوں کہ میرا کوئی سنیما گھر نہیں نہ ہی ٹکٹیں بلیک کرنے کا تجربہ ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ میرے والد نے خسر کی موت پر مٹھائی نہیں بانٹی اور میں نے احتراما اپنی اولاد کو خسر کا اعزازی نام بھی نہیں دیا۔ ٹین پرسنٹ، ہنڈریڈ پرسنٹ تو دور کی بات کوئی مجھے زیرو پرسنٹ بھی نہیں سمجھتا۔ بتائیے اب چوکیدار جیسی ذھنیت کے ساتھ زردار تو بن نہیں سکتا۔ پھرابھی عمر کے اس مرحلے پر بھی نہیں پہنچا جہاں خواتین بے ضرر جان کر پردہ چھوڑ دیں۔ ذھن اور گھٹنے دونوں اپنا اپنا کام کرتے ہیں، دہی بھلے بھی بالکل پسند نہیں۔ گھر کا سادہ کچن نہیں چلا پاتا تو جیل میں ترتراتے پراٹھے، گولہ کباب، سری پائے اور یخ ربڑی بھجوانے کے استطاعت کہاں، ممنون ہونگا اگر آپ بتائیں کہ کیا کروں میں؟


مزید دیکھیے: سلطانئِ عمران کا آتا ہے زمانہ  از، سید کاشف رضا


کمانڈو تو خیر کیا بنتا کبھی فوج میں جانے کا سوچا بھی نہیں۔ آپ سے کیا چھپانا فوجی وردی دیکھ کر حلق خشک ہو جاتا ہے بے شک ہینگر پر ہی کیوں نہ لٹکی ہو، تو بھلا وردی کو کھال کیسے قرار دوں۔ سیاچن اور کارگل تو دور کی بات مری کی برف باری بھی ٹی وی پر ہی اچھی لگتی ہے۔ نہ تو امریکہ نے مجھے کوئی کمیشن آفر کیا اور نہ ہی کسی عرب شہزادے میری رہائشگاہ تعمیر کروانے کی منت مانی۔ مشرف بہ جمہوریت ہونے کے باوجود میرے پاس ایسی کوئی سلیمانی ٹوپی نہیں کہ برے وقت میں ملک سے رفوچکر ہو جاؤں اور عدالت و حکومت منہ تکتے رہ جائیں، تو پھر کروں کیا؟

جب صدر اور وزیر اعظم کے عہدے کے لیے دال گلنے کا کوئی امکان نظر نہیں آیا تو یہ بھی سوچا کہ چلو اعزازی عہدے سے بھی کام چلا لوں، مگرکبھی ورلڈ بینک میں بھی نہیں رہا۔ دل میں شان و شوکت کی خواہش تو ہے مگر عزت بھی عزیز ہے۔ میرا شناختی کارڈ بھی بنا ہوا ہے لہذا یہ سوچنا بھی فضول ہے کہ لاٹری نکلی تو شناختی کارڈ بنوا کر تازہ سلی شیروانی میں ملفوف وزیر اعظم معین کر دیا جائے۔ پھر بلخ نہ بخارا بلکہ چھجو کے چوبارے کا قائل ہوں، نہ بائیں بازو کی معراج نہ جتوئیوں جیسا وڈیرہ، چلیں اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کر چپ بھی ہو جاؤں، صدر اور وزیر اعظم بننے کا خواب چھوڑ بھی دوں مگر سچ تو یہ ہے کہ کبھی میٹر ریڈر تک نہیں رہا کہ اپوزیشن لیڈر ہی بن سکوں۔

صحافی ضرور ہوں خبر حاصل کرنے کا فن بھی جانتا ہوں مگر لیک کرنے کے فن سے بالکل ناواقف، بھلا ایسے پھوہڑ صحافی کو کوئی وزیر اطلاعات کیوں بنائے گا۔ کسی وزیر اعظم کا سمدھی بھی نہیں کہ خزانے کا سانپ بن کر بین کے آگے جھومتا رہوں۔ چلیں وزیروں کی بھی چھوڑیں ایسا کوئی برادر یوسف بھی نہیں جو کم از کم وزیر اعلیٰ ہی بنوا دے۔ سوچتا ہوں کہ اگر منصف رہا ہوتا، پاؤں قبر میں ہوتے تو کم از کم گورنر تو تعینات ہو ہی سکتا تھا مگر ہائے افسوس صد افسوس ایسا کچھ بھی نہیں، مجھے پتہ نہیں کہ کیا جتن کروں؟

دوست بھی سب نا کارہ، لاکھ کہا بھائی میری کرپشن کی داستانیں پھیلاؤ مگر صحافی ہونے کے با وجود برادری کا ایک شخص کام نہیں آیا۔ اب آپ ہی سوچیں اگر میری کرپشن کی داستانیں عام ہوں اور کوئی وڈیو شڈیو بھی لیک کر دی جائے تو کم از کم مشیر تو بن ہی سکتا تھا۔ کئی قریبی صحافی دوستوں کی ٹھوڑیوں پر ہاتھ لگا لگا کر منت سماجت کی بھیا میرا نام پاناما لیکس میں شامل کروا دو۔ کوئی آف شور کمپنی کی خبر چھاپ دو مگر یہ سب جلتے ہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ عین والے عرب کو تو پہچانتا ہوں مگر الف والا ارب مجھے ہضم نہیں ہوتا اس لیے سکریٹری خزانہ بھی نہیں لگ سکتا۔

کسی مذہبی جماعت سے بھی تعلق نہیں کہ کم از کم ڈیزل اور عقیدت کی ملی جلی خوشبو سے لطف اندوز ہو سکوں اور تو اور صاحب نام کے ساتھ کن کٹا، لنگڑا، کانا بھی نہیں لگا کہ کچھ اور نہیں تو سیکٹر کمانڈ کر لوں۔ دیکھیئے ہنسیے نہیں ۔۔۔ خواہش تو انسان کا بنیادی حق ہے، سمجھنے والی بات یہ ہے کہ خواہش، خواب اور خبر بندے کے اختیار میں تو ہوتی نہیں، بندہ جیسی چاہے خواہش کرے، جس کا چاہے خواب دیکھے پھر خواہش اور خواب کو خبر بنانے پر کوئی آئینی و قانونی قدغن بھی نہیں۔

آپ اب بھی مسکرا رہے ہیں. ضرور میری خواہشات کو دیوانے کا خواب سمجھ رہے ہیں مگر ایسی کوئی بات نہیں۔ یقین جانیں میرا ذھنی توازن بالکل ٹھیک ہے۔ مجھے عقل دیر سے آئی مگر آ ہی گئی۔ جب ارادوں کی نا کام ہوا تو خدا کو پہچانا۔ دعائیں قبول ہو جاتیں تو باپ دادا کا نام عدالتوں میں اچھل رہا ہوتا۔ خاندان پر گھناؤنے الزامات لگتے اور آس پاس چاہنے والوں کے بجائے جونک نما درباری ہوتے۔ لوگ مجھ سے نہیں میری دولت اور جائیداد کی الفت میں مبتلا ہوتے، سامنے ستائش اور پیچھے۔

اللہ کا بڑا کرم ہے میرے بچے عام پاکستانی اسکول میں پڑھتے ہیں،علاج بھی گھر کے قریب ڈاکٹر سے کرواتا ہوں، مہینے کے آخر بیچارہ قرض میں بھی کر دیتا ہے۔ خاندان، دوست احباب دکھ، سکھ کے ساتھی ہیں، رشتہ زمین سے جڑا ہے محبت اور خلوص کی فصل بن مانگے ملتی رہتی ہے۔

اب سوچتا ہوں بڑا بننے کا خبط انسان سے کیا کچھ کرواتا ہے حالاں کہ زندگی ہنسی خوشی گزارنا اور اولاد کو اپنے سے بہتر انسان بنانا ہی سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عام انسان ہونا خداوند تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت ہے۔ پروردگار تیرا شکر ہے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں۔ رات سکون سے سوتا ہوں دن محنت مزدوری کرتا ہوں۔ بیوی بچے سب خوش باش۔ بے شک بارب تو ہی عزتوں کا رکھوالا ہے، تیری ہی پناہ مانگتا ہوں، بس دعا ہے کہ سر تیرے علاوہ کبھی کسی چوکھٹ پر نہ جھکے۔