ارون دھتی رائے، کشمیر، جنگ اور سلنڈر کی اصطلاح
از، علی ارقم
ارون دھتی رائے کا ناول “منسٹری آف اٹ موسٹ ہیپی نیس” جس کا اردو ترجمہ سہ ماہی آج میں “بے پناہ شادمانی کی مملکت” کے نام سے چھاپا ہے، اس میں دیگر موضوعات کے ساتھ کشمیر، وہاں بھارتی فوج کے انسانیت سوز مظالم، مقامی آبادی، ان کئی نسلوں پر اس جنگ کے اثرات کی منظر کشی کی ہے۔
اس ناول میں کشمیر کے وسائل، پھل اور جنگلات کی لوٹ مار کی داستان بھی ہے، جہادیوں سے لڑنے والے انڈین پراکسی جہادی گروپ اخوان کا تذکرہ بھی ہے، چیک پوسٹس پر ذلت آمیز سلوک، ایلین alien بھارتی فوج کے ہر کشمیری کو جہادی سمجھنے اور ان کے مخبر اخوانیوں کی آنکھ سے سب کو دیکھنے کا بھی ذکر ہے۔
جبری گم شدگیوں، بے نشاں قبروں، تشدد زدہ لاشوں کا ذکر بھی ہے، بھارت کی ریاست کی طرف شدید بد اعتمادی، ہر نئی نسل کے ساتھ اس میں بڑھتے اضافے کا ذکر بھی ہے۔
لامتناہی اور نہ ختم ہونے والی جنگ کے اس سلسلے کے مقابل تھکاوٹ اور اس سے باہر نکلنے کی راہ نہ پانے پر عاجز آ جانے کا احوال بھی ہے۔ جہادیوں سے تعلق کے شک کے دائرے میں آئے کشمیری کے لیے فرار کی کوئی راہ نہیں ہے۔
بھارتی فوج اسے دیگر کشمیریوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے، اسے انفارمر بننا پڑتا ہے۔ جنگ کے ایندھن میں دیگر کشمیریوں کو جھونکتے جانے، گرفتاریوں، جبری گم شدگیوں میں معاون بننا پڑتا ہے عام لوگ ان انفارمرز کو جو سابق جہادی ہوں، اور سرینڈر کر گئے ہوں، تھوڑی لفظی ترمیم کے ساتھ سلنڈر کہتے ہیں۔
ارون دھتی رائے کے ناول میں یہ دلچسپ لفظی ترمیم پڑھ کر میں حیران نہیں ہوا سمجھ گیا کہ جبر یعنی اوپریشن کی زبان کیا ہوتی ہے۔ وزیرستان میںُ بھی گڈ جہادیز کو سلنڈر کہتے ہیں