اسماء خضر
بچپن سے ہی ہم ٹی وی، اخبارات اور کتابوں میں نہتے کشمریوں پر ہونے والے ظلم وستم کو دیکھتے، سنتے اور پڑھتے آ رہے ہیں۔ گذشتہ کئی دنوں سے برہان وانی کی موت کے بعد کشمیریوں کی اپنے حق میں اٹھائی جانے والی آواز کو دبایا جا رہا ہے۔ اخبارات پرپابندی اور کرفیو لگایا جا رہا ہے، اور بھارت مقبوضہ کشمیرمیں موت کا گھناؤنا کھیل ہر انداز سے کھیل رہا ہے۔
ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق اب تک اڑتالیس سے زائد افراد اپنے آزادی کے حق کی خاطر لقمہ اجل بن چکے ہیں اور ڈیڑھ ہزار کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ زیادہ تر متاثرہ افراد کی عمریں سولہ سے چوبیس کے درمیان ہیں، اور متعدد افراد چھروں کے لگنے سے اپنی بینائی کھو بیٹھے ہیں۔
لیکن پھر بھی کشمیر کے باسی اس عزم سے جنگ لڑ رہے ہیں کے ایک دن ظلم اپنی آخری حد پر پر پہنچے گا اور آزادی کی صبح ضرور طلوع ہوگئی۔ اس ساری صورتحال کے پیش نظر ہمارے ذہنوں میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں کہ کشمیر صرف ایک زمین کے ٹکڑے کا نام ہے کہ وہاں پر بسنے والے لوگوں سے کشمیر ہے؛ یا کہ وہاں کے بسنے والے لوگوں کے رسم و رواج اور طرز زندگی اور احساسات کا نام کشمیر ہے۔ کشمریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود بھی حق خودرادیت کے سے کیوں محروم کیا جا رہا ہے۔
گو کہ فیس بُک نے کشمیریوں کو جدوجہد سے اپنی جہالت کا ثبوت دیتے ہوئے اس پر بلیک آؤٹ کیا ہوا ہے۔ آج تو صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم آر ایس ایف کے بقول وہاں سے صحافتی ذمے داریاں ادا کرنے پر پابندیاں عائد ہیں۔ آج کل ایک موثر متبادل ذریعہ ابلاغ تھری جی موبائل سروس بھی وادی میں مفلوج کردی گئی ہے۔ خبریں ہیں کہ صرف ایک موبائل کمپنی بی این ایس ایل کام کر رہی ہے۔ لیکن اس سب پابندیوں کے باوجود لگی آگ کا دھواں کیسے چھپایا جاسکتا ہے۔ اس سب کے باوجود بچی کھچی ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے نشر ہونے والے پروگراموں سے پوری دینا بظاہر جمہوری ریاست کہلانے والی ریاست کا جبر اور کشمریوں کو بربریت کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھ کر خاموش کیوں ہے۔ اس سے تو ایک بات ثابت نہیں ہوتی محسوس ہوتی کہ عالمی ضمیر صرف اور صرف اپنے معاشی مفادات کے عینک سے ہی آنسو اور مسکراہٹوں کے فیصلے کرتا ہے۔ یہ کیسا عالمی ضمیر ہے؟ عالمی انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمں گونگی، بہری کیوں ہو چکی ہیں۔
ایک بات طے ہے کہ اخباروں پر پابندی لگا دینے سے اور کرفیو نافذ کر دینے سے لوگوں میں موجود آزادی کے جذبے کو دبایا نہیں جا سکتا۔ آزادی کی خواہش و جذبہ تو ایک ایسی خوشبو سے عبارت ہے جو چھپانے سے چھپے نا اور دبانے سے دبے نا۔ سب پابندیوں اور گیدڑ بھبھکیوں کے باوجود سماجی رابطوں کی سائیٹس پر انتہا پسند بھارت کے خلاف ایک تحریک چل پڑی ہے جس کی طاقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
کشمیر کے سابقہ وزیر اعلٰی اورحزب اختلاف کے رہنما عمر عبداللہ نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ برہان وانی کی قبر سے لوگوں کو شدت پسندی کی طرف لانے کی صلاحیت، ان کی سوشل میڈیا کی طاقت سے کہیں زیادہ ہے۔ بھارتی سرکار کو اخبارات اورنجی ٹی وی چینلز کے ملازمیں کو ڈرانے دھمکانے سے اور سنسرشپ سے کوئی فائدہ نہیں ملے گا۔ اور دونوں ہمسایہ ملکوں کی جنگ سے بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔ کشمیر کے رہنے والے لوگوں کو مکمل آزادی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے بہتر مستقبل کا فیصلہ کریں۔ کشمیر صرف کشمیریوں کا ہے۔ کسی کا اٹوٹ انگ نہیں۔ اس اٹوٹ انگ کی رَٹ کو ختم ہونا چاہیے۔ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور اسے انسانی مسئلے کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔