جس خاک کے ضمیر میں ہے آتش چنار
(حسین جاوید افروز)
وادی کشمیر کی تاریخ، سیاست، جغرافیہ اور لٹریچر میں چنار کے درخت کی ایک رومانوی حیثیت رہی ہے۔ جون جولائی میں جب سارا برصغیر بدن کو جھلسا دینے والی قہر انگیز گرمیوں کو جھیل رہا ہوتا ہے، تو ایسے میں وادی کشمیر میں تراگبل سے پہلگام تک پھیلے زعفران کے کھیتوں کے ساتھ چنار کے سرسبز درخت وادی میں آنے والے سیاحوں کو ایک خوشگوار موسم کا سندیسہ دیتے ہیں۔
یوں وادی کی تروتازہ فضا کشمیر کو حقیقت معنوں میں جنت نظیر ثابت کرتی ہے۔ لیکن کشمیر میں موجود ان چناروں کا منظر اکتوبر اور نومبر کے موسم خزاں میں ایک جدا ہی رنگ فضا میں بکھیردیتا ہے۔ گرمیوں میں سرسبز لبادہ اوڑھے چنار اب گہرے سرخ، پیلے اور امبر رنگوں میں ملبوس ہوجایا کرتے ہیں۔ اس حدت کو دور کرنے والی پیرپنجال سے آنے والے ٹھنڈی ہوا ئیں اب سرد ہوا میں بدل جاتی ہیں۔
ایسے میں زبروان کے دامن میں ڈل جھیل کے کنارے شکاروں میں براجمان ہوکر کر قہوہ اور کشمیری کلچے کا مزہ لینا اپنے آپ میں ایک حیات آفریں تجربہ ہے۔ کشمیر کے یہ چنار دراصل کشمیر کے باسیوں کے ان مصائب کے صدیوں سے گواہ ہیں۔ یہ گواہ ہیں کہ کیسے شاہ ہمدان کے دور میں کشمیر میں اسلام کتنی سرعت سے پھیلتا گیا؟ حضرت بل کے ساتھ چناروں کی موجود قطار روحانیت کو جہاں جلا بخشتی ہے، وہیں وادی میں بھوانی مندر کے کنارے یہی چنار ہندوؤں کے لیے بھی خاصے متبرک مانے جاتے ہیں۔
کیسے کشمیری حکمرانوں کا دور اکبر اعظم کے ہاتھوں بزور شمشیر ختم کیا گیا، جب انہی چناروں کے گرد حبا خاتون ، یوسف چک کی یاد میں ماری ماری پھرتی رہی۔ یہ چنار گواہ ہیں شہنشاہ جہانگیر کے کشمیر کی وادیوں، مرغزاروں سے والہانہ محبت کے۔
انہی چناروں نے اہل کشمیر پر افغانوں اور سکھوں کے مظالم کا بھی گہرا مشاہدہ کیا۔ خصوصا کشمیر پر ڈوگرہ راج جس نے اپنی بربریت کے سبب کشمیریوں کو ایک نہ ختم ہونے والے آزار میں مبتلا کردیا۔ جب کشمیری مسلمان محض جانور سمجھے جاتے تھے۔ بیگار کی زندگی جس میں بیوی ٹیکس اور چولہا ٹیکس جیسی لعنتیں موجود تھیں۔ جب ایک کشمیری مسلمان کی موت پر چند روپوں کے جرمانے سے معاملہ ختم ہو جایا کرتا تھا۔
یہ چنار گواہ ہیں کس طرح قبائلیوں نے تقسیم ہند کے موقع پر وادی کشمیر پر ہلہ بول دیا اور پونچھ کے سابق فوجیوں کی اعانت سے کشمیر کا ایک حصہ آزاد کرایا گیا۔ لیکن سری نگر تک پہنچنے میں اس قبائلی لشکر کے مجرمانہ تساہل نے لمحوں میں ملنے والی آزادی کو مزید ساٹھ ستر سال کے تاریک دور میں بدل دیا۔ جب سیکولر شناخت کے حامی شیخ عبداللہ نے کشمیریوں کو بھارتی فوجوں کی آمد پر لبیک کہنے کا درس دیا۔ اور یوں کشمیری خاندان آزاد اور مقبوضہ جموں کشمیر میں بٹ گئے۔ شیخ صاحب کی ڈوگرہ سامراج کے خلاف جدوجہد لائق تحسین رہی لیکن ہندوستانی فوج اور جواہر لال نہرو پر ان کے اندھے اعتماد نے کشمیری قوم کو بہت گمراہ کیا۔
شروع میں تو شیخ صاحب کشمیر کی آزاد حیثیت پر دلالت کرتے رہے مگر بعد ازاں ایک طویل قید کاٹ کر کشمیر کو ہندوستانی ہاتھوں میں سونپ کر شیر کشمیر نے اب وزارت عظمیٰ کشمیر کے مزے لوٹنے کو ہی اپنا مقدر سمجھ لیا اور یوں چناروں کو آتش کی نذر کر دیا گیا۔ کیا شیر کشمیر کی سیکولر سوچ کی معراج محض بھارتی عملداری کو من و عن تسلیم کرنے تک ہی تھی۔
شیخ عبداللہ کی تاریخی لغزشوں کی سزا کشمیری عوام نے ایک لمبی آسیب زدہ رات کی طرح کاٹی۔ اس کے بعد اب حالات بدلتے ہیں اور80 کی دہائی کے آخر میں عسکریت پسندی کی بدولت وادی کو لہو لہان کردیا جاتا ہے۔ بھارتی ایجنسیوں اور فوج کے مظالم، کریک ڈاؤن ، سرچ آپریشنز، کرفیو، سب سے بڑھ کر ہزاروں کشمیری نوجوانوں کی گمشدگی، ان سب نے کشمیری عوام کو سمجھا دیا کہ اب دلیل سے نہیں بندوق کی سنگین کے ذریعے ہی آزادی کا دیا جلانا ہوگا۔
آج پچھلے بیس سے پچیس سالوں میں وادی کشمیر نامعلوم قبروں سے اٹی پڑی ہے۔ وقت کے ساتھ عسکریت پسندی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ لیکن گزشتہ ایک دہائی سے کشمیریوں کا سٹریٹ ایجی ٹیشن اورپتھر بازی کا عنصر اب نئی دلی کے لیے ایک نہ ختم ہونے والی آزمائش میں بدل چکا ہے۔
گزشتہ جولائی میں پلواما کے جواں سال برہان وانی کی شہادت کے بعد سے کشمیر میں زندگی معطل ہے۔ حتی کہ انٹر نیٹ، ریل سروس اور سیاحتی سرگرمیاں اکثر ٹھپ رہتی ہیں۔ بھارتی دانشور، کشمیریوں کی جس جدوجہد کو محض 8 اضلاع کا ہیجان قرار دیتے ہیں وہی ہیجان چھ لاکھ ہندوستانی فوج سے کنٹرول نہیں ہو پا رہا۔
برہان وانی مزاحمت کا استعارہ بن چکا ہے۔ نامور بھارتی تجزیہ کار جاوید نقوی کا دعویٰ بالکل باطل ثابت ہوا کہ برہان وانی کی شہادت پر کشمیری احتجاج محض چند دن کا کھیل ہے جو اپنی موت آپ مر جائیگا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پچھلے ایک سال میں سو سے زائد افرادجاں بحق، پندرہ ہزار سے زائد کشمیری زخمی ہو چکے ہیں اور ایک ہزار سے زائد کشمیری زیر حراست ہیں۔ جبکہ کشمیری مزاحمت کے نتیجے میں چار ہزار اہلکار زخمی اور سو سے زائد اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
کشمیر میں فاروق عبداللہ کا حالیہ ضمنی چناؤ ہی دیکھ لیں جہاں ٹرن آؤٹ شرمناک حد تک کم رہا۔ شہرہ آفاق ناول
’’ The ministry of utmost happiness‘‘ میں کشمیر میں ارون دتی رائے کے ذاتی مشاہدات بتاتے ہیں کہ کیسے بھارتی افواج کا مورال ہر لمحے کرفیو اور بندوقوں کی سنگینوں تلے پستی کو چھو رہا ہے۔ کشمیر روز بروز بھارتی ہاتھوں سے پھسل رہا ہے۔
کامل آزادی اب کشمیریوں کا بیانیہ بن چکی ہے۔ انڈین آرمی چیف جنرل راوت کشمیر میں جتنی مرضی فوج جھونک دے اب ان کے لئے کشمیر رستا ہوا ناسور بن چکا ہے۔ موسم خزاں میں گہرے سرخ ، پیلے اور امبر رنگوں سے مزین چنار، وادی میں پھیلی گہری اداسی، زیست اور آزار کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کی روایتی رومان انگیزی کشمیر میں موجود سیاسی بے یقینی، تشدد اور کرب کی بدولت اندر ہی اندر سلگ رہی ہے۔ ان سلگتے چناروں کی تپش کشمیرمیں موجود ناپسندیدہ جمود کو جلد ہی پگھلا دے گی۔ بقول اقبال
جس خاک کے ضمیر میں ہے آتش چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند