کتاب، کشمیر کی کہانی ، کشمیر کا مستند تعارف
اطہر مسعود وانی
کشمیر لبریشن سیل آزاد کشمیر حکومت نے ریاست جموں و کشمیر کی ممتاز و معروف شخصیت خواجہ عبدالصمد وانی کی تحریر کتاب ”کشمیر کی کہانی” شائع (اگست2017)کی ہے۔ 168 صفحات پر مشتمل کتاب کا انتساب ان کشمیری حریت پسندوں کے نام ہے جو اپنی عزت، حقوق اور آزادی کے لیے ظالم غاصب قوتوں کے خلاف بے مثال قربانیاں دیتے ہوئے نسل در نسل مصروف جدوجہد ہیں۔
پہلے باب ‘کشمیرکا تعارف’ میں کشمیر کی تین قومیں، آبادی، نام اور رقبہ، قدیم دور،ہندو دور، مسلم دورمغلیہ دور، افغانوں کا راج، سکھوں کی بالا دستی،سکھ راج کے خلاف سدھن بغاوت،ڈوگرہ راج کے عنوان شامل ہیں۔ باب دوم ‘کشمیر میں آزادی کی جدوجہد’ میں عہد نامہ امرتسر، ڈوگروں کا انگریز فوج کی مدد سے سرینگر پر قبضہ ،ڈوگرہ دور میںکشمیری عوام کی ابتر حالت،ڈوگرہ راج کے خلاف گلگت بلتستان اور وادی میں بغاوت،ڈوگرہ راج کی پہلی کونسل، کشمیریوں کی طرف سے برٹش حکومت سے مطالبات،ریشم خانہ کی تحریک،جموں ینگ مینز ایسوسی ایشن کا قیام،جموں میں مداخلت فی الدین کا واقعہ،یوم شہدائے کشمیر،کشمیر کمیٹی،مجلس احرارالاسلام کی تحریک،گلانسی کمیشن۔
باب سوم ‘ریاست کی پہلی سیاسی جماعت مسلم کانفرنس کا قیام’ کے عنوان میں مسلم کانفرنس کا ریاست گیر تحریک چلانے کا فیصلہ،ڈوگرہ راج کی پہلی اسمبلی،مسلم کانفرنس میں چپقلش،ریاست میں ذمہ دار حکومت کے قیام کا مطالبہ،نیشنل کانفرنس کا قیام،مسلم کانفرنس کا انتشار مسلمانان ریاست کے لیے منحوس ترین دن، چودھری غلام عباس کا نیشنل کانفرنس سے استعفی،مسلم کانفرنس کی نشاة ثانیہ،قائد اعظم کا دورہ کشمیر،نیشنل کانفرنس کے لیے کانگرسی کمک،نیشنل کانفرنس کی ”کشمیر چھوڑ دو” تحریک۔
باب چہارم’تحریک آزادی کشمیر’میںقرار داد آزاد کشمیر،مسلم کانفرنس کی پارلیمانی پارٹی کا اسمبلی سے استعفی،مسلم کانفرنس کا تحریک چلانے کا فیصلہ،ڈوگرہ راج کی آخری اسمبلی،پونچھ میں ڈوگرہ راج کے خلاف مسلح بغاوت۔ باب پنجم’ریاست جموں و کشمیر کی متوازی حکومت کا اعلان’ ، آزاد فوج اور قبائلیوں کی یلغار،3 جون 47 ء کے قانون آزادی ہند میں ریاستوں کا حق الحاق، قرار داد الحاق پاکستان، کانگریسی سازش، ریاست میں مسلمانوں کو دبانے کی پالیسی،الحاق کا ڈرامہ،جموں میں مسلمانوں کا قتل عام۔
باب ششم’اقوام متحدہ اور کشمیر’،سلامتی کونسل کا ہندو پاک کمیشن کے قیام اور استصواب رائے پر اتفاق کا اعلان،اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کمیشن کی قرار داد، بھارتی ہٹ دھرمی، وادی کشمیر میں ظلم و تشدد کا بدترین دور،بھارت سے الحاق کی توثیق کے لیے نامزد اسمبلی کا قیام، جموں اور لداخ سے بھارت میں مدغم کا مطالبہ،دہلی معاہدہ، تنازعہ کشمیر کے بارے نیشنل کانفرنس کی تجاویز ، شیخ عبداللہ کی برطرفی،تنازعہ کشمیر پر پاکستان بھارت وزرائے اعظم کی بات چیت،شیخ عبداللہ کا سلامتی کونسل کو خط۔باب ہفتم’کشمیر لبریشن موومنٹ’ میں(کے ایل ایم)،لاہور کنونشن،سیز فائر لائین عبور کرنے کا اعلان،کشمیر لبریشن موو منٹ،سکندر مرزا حکومت کا تحریک کو سختی سے کچلنے کا فیصلہ، لندن حکومت کی پاکستانی فوج کو رضا کار روکنے کی ہدایت،پاکستان میں مارشل لاء کا نفاذ اور تحریک کا التوا، حصول آزادی تک جدوجہد کا سلسلہ جاری رہے گا،کے عنوان شامل ہیں۔
کتاب کا پیش لفظ میں نے تقریبا دس سال قبل لکھا تھا۔ ‘کشمیر کی کہانی’ ریاست جموں و کشمیر کی ایک مکمل داستان ہے جس میں کشمیر کے علاقے، آباد انسانی نسلوں، آبادی کی تعداد اور جغرافیہ کے بارے میں بنیادی حقائق بیان کرنے کے علاوہ مختلف ادوار پر محیط سیاسی تاریخ کا بھی اس انداز میں احاطہ کیا گیا ہے کہ اس کا اسلوب اور حوالہ جات اس کی صداقت کی خود گواہی ہے۔
ریاست کشمیر کی معروف شخصیت خواجہ عبدالصمد وانی (مرحوم)کو کشمیرکا انسائیکلو پیڈیا کہا جاتا تھا ۔وانی صاحب نے یہ کتا ب 1959ء میں تحریر کی۔اس کتاب کے کئی حصے ہفت روزہ” اقدام” لاہوراور ہفت روزہ ”کشیر”مظفر آباد /راولپنڈی میں شائع ہو ئے۔اس طرح تحریر کیے جانے کے پچاس سال کے بعد اسے کتاب کی شکل میں شائع کیا جارہا ہے۔ وانی صاحب کی شخصیت کے حوالے سے ” کشمیر کی کہانی” اور بھی معتبر قرار پاتی ہے۔پاکستان کے معروف صحافی میاں محمد شفیع(م ش) نے 7مئی 1961 ء کواپنے جریدہ ” اقدام ” لاہور میں ”کشمیر کی کہانی” قسط وار شائع کرتے ہوئے لکھا ،
”جناب خواجہ عبدالصمد وانی نے جس خوبصورتی کے ساتھ کشمیر کے تاریخی اور سیاسی ماحول کا جائزہ لیا ہے،وہ محتاج وضاحت نہیں۔وانی صاحب ایک محب وطن کشمیری فرزند ہیںاور انہوں نے کشمیر کی تاریخ کا غائر مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ آزادی کشمیر کی ہر تحریک میں ایک اہم کارکن کی حیثیت سے حصہ لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ”کشمیر کی کہانی”معلومات اور واقعات کا بیش بہا خزانہ ہے، ہم ”کشمیر کی کہانی” تحریر کرنے پر وانی صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ”
”کشمیر کی کہانی ”میں ریاست کشمیر کے حالات و واقعات کا یوں احاطہ کیا گیا ہے کہ دنیا کے دیرینہ و سنگین مسئلہ کشمیر کی مکمل صورتحال واضح ہو جاتی ہے۔کتاب کا بغورمطالعہ کرنے سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ 1958ء کے بعد سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کوئی نئی صورتحال یا مسئلے کے حل کی کوئی نئی تجویز سامنے نہیں آ ئی ہے۔چودھری غلام عباس(مرحوم) یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ”کشمیر مٹتا جا رہا ہے اور بھارت سے پوچھنے والا کوئی نہیں۔ کیا پاکستان صرف اس قدر چاہتا ہے کہ کشمیر کے بیٹے اور بیٹیاں شہادت کے جام نوش کر کے یہاں کے اخبارات کے لیے چار کالمی سرخیاں مہیا کرتے رہیں”۔یوں پاکستان کی حکومتوں کی کشمیر پالیسی اب تک اسی انداز میں بدستور قائم نظر آتی ہے۔ سابق مشرف حکومت نے بھارت کے ساتھ خفیہ مذاکرات کے دوران مسئلے کے حل کے حوالے سے چند تجاویز دیں جنہیں عالمی سطح پر اچھالا گیا۔
ایک طرف سابق صدر مشرف بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مختلف ”آپشنز”پیش کر رہے تھے اور دوسری طرف بھارت سیز فائر لائین(جسے پاکستان اور بھارت نے 1971ء کی جنگ کے بعد لائین آف کنٹرول کا نام دیا)پر خار دار تاروں کی باڑ لگاتے ہوئے سیز فائر لائین کی بنیاد پر تقسیم کشمیرکے اقدامات کو آگے بڑھا رہا تھا۔ کتاب یہ حقیقت بھی بیان کرتی ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے کشمیر سے متعلق مختلف ”آپشنز”وہی تھے جو 4 جون 53 19ء کو شیخ عبداللہ کی سربراہی میں نیشنل کانفرنس نے تفصیلی غور کے بعد بھارتی حکومت کو پیش کیے تھے۔یوں1932ء سے1958ء کے بعد مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق کوئی نیا فارمولہ یا تجویز سامنے نہیں آئی،بھارتی حکومت کا رویہ اسی انداز میں نظر آتا ہے کہ زور زبر دستی کشمیر پر قبضہ برقرار رکھا جائے۔اسی طرح پاکستان کی حکومتیں اس حکمت عملی پر گامزن نظر آتی ہیں کہ کشمیر کی تقسیم کو مسئلہ کشمیر کے حل سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔یہ دلچسپ امر ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کے تما م سیاسی رہنمائوں کے درمیان(جس میں بھارت نواز،پاکستان کے حامی اور آزاد ریاست کے حامی بھی شامل ہیں)”ریاستی تشخص’ ‘ پر اتفاق نظر آتا ہے۔اس طرح علاقائی تقسیم کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کا کوئی بھی حل کشمیریوں کی امنگوں کے منافی ہے۔
کتاب میںاہم تاریخی دستاویزات/معاہدے بھی شامل ہیں۔کشمیر کے کسی بھی علمی موضوع پر کام کرنے والے کسی بھی شخص کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے،یہ کتاب ایسی بنیادی معلومات اور حقائق بیان کرتی ہے جن سے آگاہی حاصل کیے بغیر کشمیر، کشمیریوں اور ان کی جدوجہد و تاریخ کو سمجھنا ممکن نہیں۔ کشمیر تاریخی، جغرافیائی اور تہذیبی طور پر اعلی ورثے کا حامل ہے۔ دنیا کی مختلف تہذیبوں سے موازنہ میں کشمیری تہذیب نمایاں اور برتر نظر آتی ہے۔ کشمیری سادگی اور قابلیت کی انتہا رکھتے ہیں۔ گزشتہ کئی سو سال کی بدترین غلامی، بھیانک مظالم اور گزشتہ 62 سالہ تقسیم نے اعلی تاریخی و تہذیبی ورثے اور اعلی انسانی اقدار کے حامل کشمیریوں کو ظلم اور مصائب کی بھٹی میں جھونک دیا ہے۔ یہ کتاب دنیا کی ہر قوم سے سوال کرتی ہے کہ انسانیت کے لیے ایک مثالی ثقافت کے حامل ریاست کشمیر کے لوگوں پر کیوں انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہے ہیںاور کیوں ان مظالم کو جائز قرار دیتے ہوئے کشمیریوں کے حق آزادی کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
”کشمیر کی کہانی” کشمیریوں کے اس عزم کے اظہار سے ختم ہوتی ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی جاری رہے گی۔اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق بھارتی زیر انتظام کشمیر(مقبوضہ کشمیر)میں کشمیری نوجوانوں نے 1988ء میں بھارت سے آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کا آ غاز کیا اور مختلف نشیب و فراز کے باوجود یہ تحریک جاری ہے۔ مسلح وسیاسی جدو جہد آزادی کے ان اکیس سالوں میں کشمیریوں نے ایک لاکھ سے زائد انسانی جانوں کی قربانی اور جہد مسلسل سے ثابت کر دیا ہے کہ یہ تحریک اقوام عالم کی طرف سے کشمیریوں کے عزت و وقار کے ساتھ حق آزادی کو تسلیم کیے جانے تک جاری و ساری رہے گی۔ اس میں یہ پیغام بھی ہے کہ
وقت آئے گا کشمیر اہل مشرق کو بیدار کرے گا
مجھے یہی پیغام کشمیریوں تک پہنچانا ہے
(مہجور)