کشمیر لاک ڈاؤن کے مضمرات
از، حسین جاوید افروز
کشمیر اب دہک اٹھا ہے۔ جی ہاں گزشتہ ستر برس سے ہی یہ جنت اراضی خطہ غلامی سے مزاحمت کے ایک لمبے دور سے گزرا ہے اور یہ طویل اور صبر آزما سفر ہنوز جاری ہے ۔لیکن اب کی بار پانچ اگست کو نریندر مودی نے کشمیر کے حوالے سے اپنا آخری پتا بھی پھینک دیا اور اپنے جماعتی منشور پر عمل کرتے ہوئے انڈین دستور کے آرٹیکل 370 اور 35A کو نکال باہر کیا ہے۔ یعنی جہاں جموں و کشمیر کا سپیشل اسٹیٹس ختم کیا اور اسے ریاست کے منصب سے تنزلی دیتے ہوئے محض ایک یونین علاقے میں بدلا ہے، وہاں اب بھارت بھر کے سبھی باشندوں کو بھی یہ حق دیا کہ کشمیرمیں جائیداد خریدنا اب ہرگز کوئی مسئلہ نہیں رہا۔
پانچ اگست کے اس کالے اقدام کے ساتھ ہی کشمیر کا الگ پرچم اور دستور بھی اپنا وجود کھو چکے ہیں اور وادی میں اس فیصلے کے خلاف رد عمل کے طور پر چالیس ہزار سے زیادہ افواج کو متعین کردیا گیا جب کہ کپواڑہ سے سانبہ اور راجوری سے زوجیلا پاس تک کرفیو لگا دیا گیا ہے اور تمام ذرائع مواصلات کو بھی جام کردیا گیا ہے جس کی بدولت ساری وادی کا رابطہ بیرونی دنیا سے مکمل طور پر کٹ چکا ہے اور لاک ڈاؤن کی کیفیت موجود ہے۔
اب ہوا یہ ہے کہ کشمیر گویا سیکورٹی الرٹ کے بلیک ہول میں گم ہوچکا ہے اور کسی کو کچھ علم نہیں کہ وہاں کس نوعیت کا کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے، شناختی پریڈ کے نام پر کیسے کشمیریوں کی عزت نفس پامال کی جا رہی ہے اور نو جوانوں کو کتنی بڑی تعداد میں کون کون سے عقوبت خانوں میں پہنچایا جا رہا ہے؟
یہاں مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس ملک کی جانب سے کیا جا رہا ہے جس کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے اور اسی جمہوریت نے بھارتی دستور کی بے توقیری کر کے بھارتی اعلیٰ عدلیہ کو بھی بے عزت کر کے رکھ دیا ہے۔ جب کہ جموں کشمیر سے منسلک لداخ ریجن کو ریاست سے جدا کرتے ہوئے یونین علاقے کا درجہ دیا جا چکا ہے جس سے شائد اب وہاں سولر پاور یا ہربل ادویات کی تیاری میں بہت پیش رفت ہونے کا امکان بھی پیدا ہو چلا ہے۔
یہاں بھی مودی غضب کی چال چل گیا جہاں ایک جانب لداخ کی بدھ مت کمیونٹی کو خوش کیا گیا ہے وہاں کارگل کے مسلمانوں کو بھی ایک آزار میں مبتلا کردیا گیا ہے جو کہ اب اپنی شناخت اور حقوق کے حوالے سے گومگو کی کیفیت میں ہیں۔
جس طرح نائن الیون کے بعد سے کہا جاتا تھا کہ اب بین الاقوامی تعلقات اور مفادات کی نوعیت ہی بدل چکی ہے اسی طرح پانچ اگست کا تاریک دن بھی خطہ کشمیر کے لیے زمینی حالات یکسر بدل چکا ہے۔ نریندرا مودی نے بنیادی طور پر اب کی بار کشمیریوں کے جذبہ حریت سے زچ ہوکر روایتی جبر کے طریقوں کو فراموش کر کے اسرائیلی ماڈل پر عمل درآمد شروع کیا ہے جس کی رو سے کشمیریوں کو غزہ اور مغربی کنارے کی مانند ایک جیل کی مانند کنٹرول کیا جائے گا اور دھیرے دھیرے وہاں ہندو آباد کاروں کو زمین ہھتیا ہتھیا کر بسایا جائیگا تاکہ اگلے پانچ سے دس سالوں میں وادی کی ڈیموگرافی ہی تبدیل کر دی جائے۔
اس کے بعد ہندوستان دنیا کے سامنے 56 انچ کا سینہ پھلا کر کہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہوچکا ہے اور سارے کشمیر ی بھارت کے ساتھ مدغم ہوچکے ہیں ۔شاید اپنے تئیں مودی خاصا مطمئن ہے کہ اس نے گویا بازی مار لی ہے ۔مگر یہ تصویر کا صرف رخ ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ بھارت کے اندر سیکولر طبقات کھل کر مودی کے اس اقدام کی بھرپور الفاظ میں مذمت کر رہے ہیں اور دلائل سے یہ ثابت بھی کرہے ہیں کہ مودی نے کشمیر کا مسئلہ حل تو خیر کیا کرنا تھا بلکہ اسے مزید الجھاؤ کا شکار کردیا ہے۔
یہاں ششی تھرورکا بیان نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ہم کشمیری نوجوانوں ،بھارت نواز سیاستدانوں کو ہی مقید کر لیں گے، ان کے سانس لینے پر ہی پابندیاں عائد کردیں گے تو ہمیں خود سوچنا ہوگا کہ آخر پھر کشمیر میں کون ہمارا ساتھ دے گا اور کیوں؟سوراب جی کے مطابق یقیناً مودی جی نے کشمیر جیسے حساس معاملے پر نہایت عجلت اور غیر دانشمندی سے کام لیا ہے اور وادی کشمیر اب بے یقینی کے ماحول میں غرقاب ہوچکی ہے جبکہ جواہر لال نہرو جامعہ کے پروفیسر امتیابھ مٹو بھی رقمطراز ہیں کہ عجیب بات ہے کہ ایک ریاست کو یونین علاقے میں بدل دیا گیا ہے ایسے اقدام سے اب وادی میں تشدد بڑھے گا۔ اور تو اور کانگرسی رہنما غلام نبی آزاد جن کو سری نگر ائیر پورٹ سے ہی واپسی دلی زبردستی بھیج دیا گیا ہے وہ نہایت ہی دل گرفتہ انداز میں کہتے ہیں کہ ہم نے ماضی میں ہندوستان کو پاکستان پر فوقیت دی مگر آج پانچ اگست کو ہمارے اس بھروسے کا خون کردیاگیا۔
پیپلز ڈیموکریٹ پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی جو کہ عبداللہ خاندان کی طرح بھارت نواز حلقوں کے حوالے سے کشمیر میں شہرت رکھتی تھیں ان کو بھی مجبوراً اعتراف کرنا پڑا کہ آج ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے بڑوں نے بھارت کو پاکستان پر ترجیح دے کر فاش غلطی کی ۔یہ جملے ہر اس بھارت نواز کشمیری سیاست دان کے لیے تکلیف دہ حقیقت بن کر ابھرے ہیں جو شیخ عبداللہ،بخشی غلام محمد، صادق، مفتی سعید ،فاروق اور عمر عبداللہ کے بھارت نواز بیانیے کے ساتھ کھڑے رہے تاکہ کشمیر میں اقتدار کے مزے لوٹے جاسکیں۔
جب کہ آج یہی بھارت نواز طبقہ کشمیر میں دو ٹکے کی حیثیت کا حامل ہوچکا ہے کیونکہ ایک جانب تو نئی دلی نے پانچ اگست کو ان کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا ہے تو دوسری جانب اب یہ حریت کے سامنے بھی شرمندہ ہوچکے ہیں کہ ہم نہ کہتے تھے بھارت کی نازبرداریوں سے کچھ حاصل نہ ہوگا ۔جبکہ دوسری جانب شدید ریاستی جبر کے باوجود آج علی شاہ گیلانی، یاسین ملک اور میر واعظ عمر فاروق کشمیری قوم کے لیے شجاعت، جد و جہد آزادی کا استعارہ بن کر ابھرے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایک ایسی صورت حال میں جب کشمیر سے ہندو یاتریوں اور سیاحوں کی بزور واپسی ہوچکی ہے اور وادی کے ہر چپے پرفوجی سنتری بھاری تعداد میں تعینات ہیں کیا مسئلہ کشمیر قصہ پارینہ بن چکا ہے؟ ہرگز نہیں۔اب کشمیر کے ہر گھر سے افضل گورو اور براہان وانی نکلیں گے اور وادی شائد 1987 کے ریاستی چناؤ میں دھاندلی کے بعد سے اٹھنے والی مسلح تحریک سے بھی زیادہ دہکتی ہوئی سامنے آئے گی ۔اب دنیا کشمیریوں کا نیا روپ دیکھی گی جو کہ مزاحمت ،شجاعت اور حریت سے بھرپور فیز کے آغازکریں گے۔
یہ وہ کشمیری نہیں رہے جو کہ گلاب سنگھ ڈوگرہ کی بیگار فورس کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کشمیریوں کے جذبے کو بدنام زمانہ معاہدہ امرتسر بھی دبا نہ سکا جس کے مطابق محض 75 لاکھ کی معمولی رقم کی ادائیگی پر ان کو انگریزوں نے ڈوگروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تھا۔ اس رقم کی ادائیگی کی رسیدیں آج بھی لاہور میں سیکر ٹریٹ میں محفوظ ہیں۔ لہٰذا اب کشمیریوں کے پاس کھونے کوصرف زنجیریں ہی بچی ہیں جبکہ پانے کو ایک جہاں ہے۔
مسئلہ کشمیر کے تیسرے فریق کے طور پر پاکستان بھی موجود ہے جو اس کڑے وقت میں کشمیری بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ پانچ اگست کو مودی نے پاک بھارت تعلقات کو ایک بار پھر تاریخ کی نچلی سطع تک پہنچا دیا ہے جس کے جواب میں عمران حکومت نے بھارت کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات معطل کر کے درست سمت میں پیش قدمی کی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمنٹ میں بجا طور پر واشگاف الفاظ میں کہا کہ میری پیش گوئی ہے کہ جلد بھارت پلواما جیسا واقعہ دُہرائے گا اور یوں برصغیر پر جنگ کے بادل چھائیں گے۔
دفاع وطن کے لیے ہم ہر حد تک جائیں گے۔ یہاں ہم کسی کو نیوکلئیر بلیک میلنگ کا شکار نہیں بنا رہے مگر واضح رہے کہ ہمارے تمام آپشن کھلے ہیں اور پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ دوسری جانب لائن آف کنٹرول بھی ایک پھر انڈین آرمی کی غیر معمولی نقل و حرکت کی بدولت گرم ہو چکی ہے۔ بھارتی فوج کی جانب سے وادی نیلم میں کلسٹر بم کا استعمال جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے طالب علم کی حیثیت سے میرے لیے سب سے زیادہ حساس بات یہ ہے کہ نئی دلی نے ایک ہی جھٹکے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں، شملہ معاہدے اور انڈین سپریم کورٹ کے فیصلوں کو اڑا کر رکھ دیا جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اعتماد سازی سے متعلق تمام اقدامات صفر کے مقام پر پہنچ گئے ہیں اور کشمیر 1947 کی پوزیشن پر آ کھڑا ہوا ہے۔
ایسے میں لائن آف کنٹرول کی بھی حیثیت بے وزن ہو چکی ہے جو کہ خاصی تشویش ناک صورت حال ہے۔ کشمیر کا حالیہ مہیب منظر نامہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یقیناً وادی میں آنے والے مہینوں میں تشدد میں گونا گوں اضافہ ہو گا اور حالات زیادہ سے زیادہ بے یقینی کی جانب مائل ہوں گے۔ کیوں کہ جب گیم کے رولز ہی یک سَر بدل دیے جائیں تو حالات نہایت ہی نازک صورت اختیار کر لیا کرتے ہیں۔