سانپوں کے قتل کی واردات

Farhan Khan
فرحان خان

سانپوں کے رومانوی جوڑے کا قتل

ایک اور بات یاد آئی۔ لوک روایت ہے کہ اگر دو سانپ آپس میں لپٹے نظر آئیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ منکے سے کھیل رہے ہیں۔ اگر اس معرکے کے دوران کوئی آدمی وہ مَنکا حاصل کر کے تو وہ بڑا خوش قسمت تصور ہوتا ہے۔   میرے ابو کا کہنا تھا کہ انہوں نے منکے کے ساتھ  لڑتا سانپوں کا جوڑا دیکھا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ منکے والی کہانی ایسے ہی گھڑی گئی ہے۔ در اصل یہ سانپوں کا مِلن ہوتا ہے جو اس واقعے میں ہو رہا تھا۔

از، فرحان خان

میرے لیے تو یہ کافی تکلیف دہ منظر ہے۔

دو سانپ جھاڑیوں سے نکل کر ناچ رہے ہیں اور یہ ان کے مِلن کا لمحہ ہے۔ قریبی بستی کے انسانوں کو ان کی بھنک پڑ جاتی ہے اور پھر وہی ہوتا ہے جو عموماً ہوتا رہا ہے۔

سانپوں کا جوڑا مار دیا جاتا ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ واقعہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع پلندری کے علاقے جنڈی موڑ افضل آباد کا ہے۔

میں ان سانپوں کے رقص اور مِلن کی ویڈیو دیکھ چکا ہوں۔ میرا بچپن پہاڑی علاقے میں گزرا ہے، وہاں سانپوں کا پایا جانا عام سی بات ہے۔ کبھی کھیلتے ہوئے تو کبھی سکول جاتے ہوئے راستے میں سانپ نظر آتے رہتے ہیں۔ بچپن سے ہی میرے دل میں سانپ کا بہت خوف ہے۔ سانپ نظر آ جائے تو دل سے چیخ سی برآمد ہوتی ہے۔

میرے ابو اور ان کے بھائیوں اور کزنوں نے بہت سانپ مارے ہیں۔ سانپ مارنے کے بعد ان کی لمبائی ماپی جاتی تھی اور اس پر فخر کیا جاتا تھا کہ دیکھو اتنے فٹ لمبائی کا سانپ مارا ہے۔

محلے کے چھوٹے لڑکے اس مردہ سانپ پر اپنا غصہ نکالتے تھے اور پھر لکڑی پر اُٹھا کر اسے نشیب میں کہیں پتھروں میں ڈال آتے تھے۔

کچھ لوگ گرمیوں میں گھاس کاٹتے ہوئے سانپ دیکھ لیتے تو اس کا تعاقب شروع کر دیتے تھے۔ کئی بار تو سَنپولیے بے خبری میں درانتی سے دو لخت بھی ہو جاتے تھے۔

لیکن میں نے اپنے بچپن میں ایک بار بھی نہیں سنا کہ گاؤں میں کسی پر سانپ نے حملہ کیا ہے۔ بس روایت تھی کہ جھاڑی ہو، جنگل ہو، کھیت ہو یا ندی کا کنارہ، جہاں سانپ نظر آ گیا، اسے مارنا لازمی اور شاید مذہبی فریضہ ہے۔ لوگ اُسے مار کر ہی دم لیتے تھے۔ سانپ کبھی کبھار گھروں میں گھس آتے تھے اور وہاں چھتوں اور کونوں کُھدروں میں موجود چوہوں وغیرہ کو اپنی خوراک بناتے تھے۔

گھروں میں آنے والے سانپوں کی موت تو یقینی تھی۔ میرے چچا نے ایسے کئی سانپ مارے جو گھر میں داخل ہوئے تھے۔ میں نے بہت بار سانپ مارنے کے مناظر دیکھے اور میری معلومات کے مطابق ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ سانپ نے آدمی پر پلٹ کر حملہ کیا ہو۔ وہ بے چارہ تو بھاگنے کی کوشش میں ہی مارا جاتا ہے۔

گھر کے سانپوں کے بارے میں میری دادی کا نظریہ البتہ مختلف تھا۔ وہ کہتی تھیں کہ یہ بے ضرر سانپ ہیں۔ شاید وہ انھیں جِن سانپ بھی قرار دیتی تھیں اور ان کے قتل کو اچھا نہیں سمجھتی تھیں۔ کہتی رہتی تھیں کہ اس گھر میں بھی برسوں سے ایک سانپ رہتا ہے جس سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔ اسے نہیں مارنا چاہیے۔

ایک اور بات یاد آئی۔ لوک روایت ہے کہ اگر دو سانپ آپس میں لپٹے نظر آئیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ منکے سے کھیل رہے ہیں۔ اگر اس معرکے کے دوران کوئی آدمی وہ مَنکا حاصل کر کے تو وہ بڑا خوش قسمت تصور ہوتا ہے۔

میرے ابو کا کہنا تھا کہ انہوں نے منکے کے ساتھ  لڑتا سانپوں کا جوڑا دیکھا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ منکے والی کہانی ایسے ہی گھڑی گئی ہے۔ در اصل یہ سانپوں کا مِلن ہوتا ہے جو اس واقعے میں ہو رہا تھا۔

گاؤں کے لڑکوں بالوں کے لیے گیدڑ، لومڑی، گوہ، چھپکلی اور سیھ وغیرہ کو مارنا تو ایک کھیل تھا، بَل کہ بعض جان داروں کو مار کر وہ چالیس شہیدوں کا  ثواب بھی حاصل کیا کرتے تھے۔

ایک جانور کو یہ کہہ کر مارتے تھے کہ جب ایک پیغمبر کو آگ میں ڈالا جا رہا تھا تو یہ جانور اپنی پھونکوں سے آگ دہکاتا رہا تھا لہٰذا اسے مارنا نیکی کا کام ہے۔ جب کبھی ایسے جانور کسی کو نظر آ جاتے تو تماشا سا لگ جاتا تھا۔

تِکلوں والی سیھ (مقامی زبان میں سیغ) کے تعاقب کا ایک واقعہ تو مجھے بھی یاد ہے۔ اندھیری رات میں ہوئے اس نا کام encounter کی رُوداد آج بھی کزن لوگ مزے لے لے کر سناتے رہتے ہیں۔


مزید دیکھیے:

یہ وقت دعا ہی نہیں وقتِ دوا بھی ہے  از، وسعت اللہ خان

 سائنس کی سیاست یا روحانیت؟  از، عاطف نثار نجمی

بین الاقوامی سیاسی ماحولیات کے تناظر از، اشرف جاوید ملک


اب میں سوچتا ہوں کہ اس کرّۂِ ارض کا جو حشر انسانوں نے کیا ہے،اس کے بعد انھیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ دیگر ذی روح یا جنگلی حیات سے ان کے جینے کا حق چھینیں۔ اگر کوئی جان دار انہیں بالفعل نقصان پہنچانے والا ہو تو اور بات ہے لیکن محض امکانِ ضرر کی بنیاد پر جنگلی حیات کا قتل زیادتی ہے۔ آپ کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ آپ اپنے علاوہ کسی اور ذی روح سے اس زمین کی سطح پر جینے کا حق چھین لیں۔

ایک اور حرکت یاد آئی، موسمِ سرما میں بَدیسی پرندوں کے غول کے غول ہجرت کر کے آیا کرتے تھے، اس وقت چند مقامی موسمی شکاری سرگرم ہو جاتے تھے اور پورا پورا دن بندوقیں اٹھائے جنگلوں میں مارے مارے پھرتے تھے۔ بہار کے دنوں میں کُکو اور فاختائیں آتیں تو ان کی جان پر بن جاتی ، ان کو مارنے مقصد غذائی ضروریات پوری کرنا ہرگز نہ تھا، محض تفریح تماشے کے لیے یہ سب ہوتا تھا۔

سکول کے لڑکے بھی غلیلیں بنا کر چڑیوں کا شکار کیا کرتے تھے۔ ایک بار مجھے غلیل بازی کا شوق چرایا، ربڑیں بازار سے لائیں اور کسی سے غلیل بنوائی۔ میرے ایک کزن نے اس غلیل سے گھر سامنے درخت پر بیٹھی ایک بلبل کو نشانہ بنایا اور اگلے ہی لمحے وہ زمین پر تھی، جب میرے دادی کو پتا چلا تو وہ سخت نا راض ہوئیں اور کہنے لگیں:

”ہائے اب اس کے بچوں کا کیا بنے گا!”

ایک بار ایک کلاس فیلو اور دوست نے (جو گزشتہ برس اس دنیا سے گزر گیا) زمین میں کھڈی لگانے کا طریقہ بتایا۔ میں نے گھر آ کر باغ میں کھڈی لگائی اور اس میں ایک بلبل پھنس گئی۔ میں بلبل پکڑے خوشی سے سرشار گھر کی طرف دوڑا تو اماں (دادی) نے دیکھ لیا اور اپنے مخصوص انداز میں مجھے وہ صلواتیں سنائیں کہ نا چار بلبل چھوڑنا پڑی۔

یہ تو خیر اپنے نا دانی کے دنوں کے قصے ہیں لیکن سمجھنا چاہیے کہ نیچر کا اپنا ایک نظام ہے جو جان داروں کی تعداد کو متوازن رکھتا ہے، ان کی موجودگی کے کئی طرح کے فوائد ہیں جن میں سے بیش تر ماحولیات سے جڑے ہوئے ہیں۔ جنگلی حیات کا اپنی خوراک کے لیے بھی ایک دوسرے پر انحصار ہے۔ وہ ان کی دنیا ہے وہ جانیں اور ان کے کام جانیں؛ ہم ان کے مامے چاچے نہیں ہیں کہ ان کی دائرے میں بے جا مداخلت کرتے پھریں، لیکن افسوس کہ ہم باز آنے والے نہیں ہیں۔

ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا، آسٹریلیا کے جنگلوں میں آگ بھڑک اٹھی، جنگلی حیات کی بے بسی کے دل دوز مناظر ہم نے دیکھے لیکن یہ بھی دیکھا کہ لوگ وہاں ان جانوروں کی مدد کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ابھی جنگلی حیات سے متعلق شعور کی بہت کمی ہے۔ حکومتوں اور وائلڈ لائف کے محکموں کو اس جانب بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

یہ جان دار اس دنیا کی خوب صورتی برقرار رکھتے ہیں۔ جس طرح آپ جینا چاہتے ہیں، انھیں بھی جینے دیجیے۔ اگر یہ رویہ نہ بدلا تو پھر یہ حقیقت طے ہو جائے گی کہ انسان ہی اس زمین پر سب سے زیادہ موذی جان دار ہے۔