عسکری ایڈونچرز کشمیریوں کے دُکھوں کا درماں کر سکتے ہیں؟
کشمیر میں اس وقت ایک زبردست قسم کے سیاسی شعور کو تحریک دینے کی ضرورت ہے۔ کسی ایسی وژنری قیادت کی ضرورت ہے جو نوجوانوں کو violence اور عسکری ایڈونچرز سے ہٹا کر ٹھوس بنیادوں پر نئی قسم جدوجہد کی بنیاد رکھے، ایسا لیڈر جو صرف وادی کے چند اضلاع کی بَہ جائے جموں، لیہ ، لداخ اور کرگل کا نام لیتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے۔
از، فرحان خان
بھارتی زیرِ انتظام کشمیر خاص طور پر وادی کے باشندوں نے ماضی میں عسکریت پسندی کے تباہ کن نتائج دیکھے ہیں۔ ان کا خیال یہ تھا کہ ان کاررائیوں سے بھارتی فورسز پر دباؤ بنے گا اور کشمیریوں کے لیے امکان کا کوئی در کھلے گا۔ لیکن در کھلنے کے بَہ جائے شناخت کا بحران پیچیدہ تر ہوتا چلا گیا۔ 5 اگست 2019 کی آئینی واردات کے بعد تو صورتِ حال بالکل ہی بدل چکی ہے۔
ماضی میں بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں جاری رہنی والی عسکری تحریک کو دوسری جانب سے خفیہ کُمک ملنے کی امید رہتی تھی اور وہ مل بھی جایا کرتی تھی مگر کافی محدود سی۔ نتیجے میں چھوٹے چھوٹے ایڈونچر ہو جاتے تھے اور پھر عام کشمیریوں پر فورسز کا عتاب اترتا تھا۔ کرفیو، گھر گھر تلاشی، مارھاڑ کا سلسلہ چلتا تھا اور پھر ایک وقفہ آ جاتا تھا۔ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی ماضی قریب کی تاریخ انہی ایڈونچرز اور ان کے بیچ پڑنے والے وقفوں سے عبارت ہے۔
آج کشمیری حلقوں میں ایک خبر کافی زیرِ بحث ہے۔ وہ یہ کہ سری نگر کی ایک آبادی میں فورسز کی جانب سے کیے گئے encounter میں حریت کانفرنس کے سرکردہ رہنما اشرف صحرائی کا بیٹا مارا گیا ہے۔ بتایا یہ جا رہا ہے اشرف صحرائی کے پڑھے لکھے بیٹے جنید نے 2016 کے بعد بنی صورتِ حال میں عسکری گروہ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا اور 2018 میں با قاعدہ طور پر حزبُ المجاہدین جوائن کر کے بندوق سنبھال لی، چند دن قبل ایک اِنکاونٹر میں جان کھو دینے والے ریاض نائیکو کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ وہ بھی پڑھے لکھء نوجوان تھے اور 2012 میں وہ اسی مسلح تنظیم میں شامل ہو گئے تھے۔
متبادل آراء:
ایک کشمیری کا تصور ہندوستان یقینا آپ سے مختلف ہے از، پروفیسر منوج کمار جھا
کشمیر اٹوٹ انگ ہے، یا شہ رگ؟ از، عمران مشتاق چوہان
کشمیر کی خود مختاری کی جد و جہد کی دینی حیثیت از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
اِس وقت لائن آف کنٹرول کے اس جانب یعنی کشمیر کے پاکستانی زیرِ انتظام حصے میں جنید صحرائی کی موت کو ایک عظیم مقصد کے لیے جان دینا قرار دیا جا رہا ہے۔ سری نگر میں بھی لوگوں نے ان کی موت کے بعد کافی غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ یہ کوئی نیا phenomenon نہیں ہے۔ ہمیشہ یہی ہوتا رہا ہے۔
ایسے واقعے کے بعد کچھ دن احتجاجوں کا ماحول بنتا ہے، نعرے لگتے ہیں، پرچم اور پُتلے جلتے ہیں اور پھر اسی نوع کے کسی اگلے واقعے تک سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔
محکوم قوموں کا یہ حق عالمی اہمیت رکھنے والی کچھ دستاویزات میں تو تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ مزاحمت کسی بھی شکل میں کر سکتے ہیں، لیکن عملی طور پر اب ایسی مزاحمت کی حمایت دنیا میں محدود ہو چکی ہے۔
بڑے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ پیچیدہ قسم کے معاہدوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ باہمی معاشی ventures بھی چل رہے ہیں جو ہر طرح کی پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت چُوں کہ ایٹمی قوتیں ہیں، اس لیے ان دونوں پر بھی بڑے ملکوں کی نظر رہتی ہے کہ ان کی دشمنی ایک حد سے آگے نہ بڑھ سکے۔ ایف اے ٹی ایف، FATF کی تلوار تو مسلسل سر پر لٹکتی رہتی ہے۔ ایسے میں یہ سمجھنا کہ پاکستان بھارتی زیرِ انتظام وادی میں موجود عسکری گروہوں کو پوری طرح own کرے گا، یا ان کی کھل کر مدد کرے گا، محض نا سمجھی ہے۔
آج دن کو لوگ سری نگر میں سرکاری فورسز کے تشدد، جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ کھسوٹ کی ویڈیوز شیئر کر کے غم و غصے کا اظہار کر رہے تھے، لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ یہ عسکری گروہ آبادیوں میں کرتے کیا ہیں، یہ عام لوگوں کے گھروں میں کیوں آتے ہیں، یا کیوں انہیں پناہ دی جاتی ہے۔
ایسا کیوں ہے جب سب کو یہ معلوم ہے کہ ایسی صورت میں مخبری ہونے پر عام آبادی کو بد ترین تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ مسلح لوگ پہاڑوں اور جنگلوں میں رہ کر بھی کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ آبادی میں ہو کر ایسی کارروائیاں کرنا کسی بھی طرح قرینِ عقل نہیں۔
قابض فورسز کو محکوم لوگ کسی اخلاقی ضابطے کا پابند تو نہیں بنا سکتے، لیکن بندوقیں اٹھانے والوں سے تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ بھئی! تمہاری کسی چھوٹی سی اور مجموعی نتائج کے اعتبار سے غیر اہم کارروائی کا خمیازہ عام لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے، اس لیے مہربانی کرو۔
ہاں اگر وادی کے سبھی لوگ مسلح مزاحمت کے حق میں ہیں تو اور بات ہے، اس صورت وہ اس کی قیمت سے بھی بَہ خوبی واقف ہوں گے، پھر ماتم کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا کیوں کہ اس راہ میں یہ سب ہوتا ہے۔
جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، موجودہ حالات میں وادئِ کشمیر میں مسلح گروہوں کے پاس اتنی قوت نہیں کہ وہ کوئی بڑی اور مؤثر کارروائی کر کے دنیا کو اس جانب متوجہ کر سکیں۔ ان کی تربیت بھی واجبی سی ہے اور کُمک تو محدود تر ہے۔ ان چھوٹے موٹے ایڈونچرز سے صرف کتھارسس کا سامان ہو سکتا ہے اور کچھ نہیں۔
کشمیر میں اس وقت ایک زبردست قسم کے سیاسی شعور کو تحریک دینے کی ضرورت ہے۔ کسی ایسی وژنری قیادت کی ضرورت ہے جو نوجوانوں کو وائیلنس سے ہٹا کر ٹھوس بنیادوں پر نئی قسم جدوجہد کی بنیاد رکھے، ایسا لیڈر جو صرف وادی کے چند اضلاع کی بَہ جائے جموں، لیہ ، لداخ اور کرگل کا نام لیتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے۔
وہ ’آزاد کشمیر‘ اور گلگت کی سیاسی قیادتوں کے ساتھ بھی ربط رکھنے کا اہل ہو۔ ریاست کے مذہبی، لسانی اور ثقافتی تنوع کو بھی سمجھتا ہو۔ ایسا لیڈر یا جماعت اگر کشمیریوں کو مل جاتی ہے تو بعید نہیں کہ وہ اپنا مقصد پانے کی راہ پر چل پڑیں گے۔
محدود قسم کے نظریاتی رُومانس، غیر منظم عسکری ونچرز اور علاقائی تعصبات کے ساتھ چلنے کا ریاست جموں و کشمیر کے محکوم باشندوں کو فائدہ نہیں ہو گا۔ ماضی سے سیکھنا چاہیے۔ حکمتِ عملی بدلنی چاہیے۔
جب متحارب ریاستیں اپنے اپنے قومی مفاد کے پیشِ نظر انتہائی بے رحمی سے پالیسی شفٹ لے سکتی ہیں تو آپ کو کیا مسئلہ ہے۔ آپ بھی اپنی نئی پالیسی تشکیل دے دیں۔ بَہ صورتِ دیگر یہی شور ہو گا، وفقوں وفقوں کے بعد یہی آہ وفغان ہو گی اور نہتے کشمیریوں کا لہو بہتا رہے گا۔
سمجھنا چاہیے کہ وژن، واضح رخ اور مناسب حکمتِ عملی کے بَہ غیر لہو بہانا اور اس عمل پر مختلف عنوانات کی labelling کر کے اسے glorify کرتے رہنا خود فریبی اور سعیِ لاحاصل کے سوا کچھ نہیں۔