بس ڈرائیور صبح کو قوالی کیوں سُنتا تھا؟

Farhan Khan
فرحان خان

بس ڈرائیور صبح کو قوالی کیوں سُنتا تھا؟

گویا یہ سوا ڈیڑھ گھنٹے کا سفر انسانوں کی پُر امن بقائے باہمی کا ایک کام یاب اور دل چسپ تجربہ بن جاتا تھا۔ بسّوں کی چھتوں پر بیٹھنا بھی بھولنے والی چیز نہیں۔ تصور کیجیے کہ ایک بس کشمیر کی کسی سر سبز پہاڑی پر بنی بَل کھاتی ہوئی سڑک پر مسلسل دوڑ رہی ہو، اِردگرد گھنے جنگل اور خوب صورت دیہاتوں کا منظر ہو اور آپ کُھلی ہوا میں چھت پر بیٹھے ان سب چیزوں کا لطف لے رہے ہوں، وہ لمحے کیسے ہوں گے؟

از، فرحان خان

آج صبح صبح استاد نصرت فتح علی خاں کی آواز میں قوالی سنتے ہوئے اپنا لڑکپن یاد آیا۔ وہی قوالی کہ جس کے بول ہیں:

”مرے بعد کِس کو ستاؤ گے…!“

گاؤں اور شہر کے درمیان پرانے سَٹائل کی بیڈ فورڈ یا نِسّان بسیں چلا کرتی تھیں، صبح سویرے بہت ساری چڑھائی چڑھ کر دوسرے گاؤں میں بنے اڈے تک پہنچنا زندگی کا دل چسپ تجربہ رہا ہے۔

اگر کبھی بس نکلنے کا وقت ہو جائے لیکن ہمارے اور بس کے درمیان ابھی کچھ فاصلہ اور پہاڑ کی اُوٹ ہو تو ایسے میں بس کا الوداعی ہارن سننا دِل کی دھڑکنوں کو عجیب بے ربط اور سانسوں کو بے ہنگم کر دیا کرتا تھا، لیکن پھر بھی کسی طرح دوڑ لَپک کر ہم پہنچ ہی جاتے تھے۔

ڈرائیور لوگ دن کے آغاز میں قوّالی یا قوّالی کے طرز کے گانے سننا برکت کی چیز سمجھتے تھے۔ بس چلتی تو قوالی بھی شروع ہو جاتی، ڈھلوانی سڑک پر سفر کے دوران جہاں جہاں کوئی قبرستان آتا، ڈرائیور وہاں احتراماً میوزک کا والیم پست کر دیتا۔ ایک ہاتھ سے دعائیہ pose بنا کر ہاتھ مُنھ پر پھیر لیتا اور کچھ مسافر بھی اس کی تقلید کرتے، قبرستان گزر جانے کے بعد قوالی یا میوزک پھر چلنے لگتا۔

ٹوٹی پھوٹی سڑک پر ہچکولے کھاتی بس میں سب لوگ جُھومتے نظر آتے تھے۔ بس میں مرد، خواتین، مسٹر، صوفی اور مولوی سب بیٹھے ہوتے تھے، لیکن کسی کو ان قوالیوں پر مروڑ نہیں اُٹھتی تھی۔ علاقے کے معزز سمجھے جانے والے افراد (جیسے اساتذہ اور سماجی حیثیت رکھنے والے بزرگوں) کے لیے عموماً ڈرائیور کے پیچھے والی سیکنڈ سیٹ مختص ہوتی تھی۔ خاتون کوئی بھی ہو، اسے بہ ہر صورت سیٹ ملتی تھی، چاہے کسی لڑکے بالے کو اٹھنا ہی کیوں نہ پڑے۔

Bedfordbusbyfarhankhan
تصویر بَہ وساطت، فرحان خان کی فیس بک پروفائل

گویا یہ سوا ڈیڑھ گھنٹے کا سفر انسانوں کی پُر امن بقائے باہمی کا ایک کام یاب اور دل چسپ تجربہ بن جاتا تھا۔

بسّوں کی چھتوں پر بیٹھنا بھی بھولنے والی چیز نہیں۔ تصور کیجیے کہ ایک بس کشمیر کی کسی سر سبز پہاڑی پر بنی بَل کھاتی ہوئی سڑک پر مسلسل دوڑ رہی ہو، اِردگرد گھنے جنگل اور خوب صورت دیہاتوں کا منظر ہو اور آپ کُھلی ہوا میں چھت پر بیٹھے ان سب چیزوں کا لطف لے رہے ہوں، وہ لمحے کیسے ہوں گے؟

ایک اور بات جو یاد رہ گئی وہ سڑک کے کناروں پر چلنے والی گاؤں کی وہ عورتیں یا دوشیزائیں ہوتیں جو سر پر گھاگھریں، گھاس یا لکڑیوں کا گَٹھا اٹھائے چل رہی ہوتیں۔ وہ جُوں ہی کوئی چھوٹی بڑی گاڑی سامنے سے آتے دیکھتیں تو اپنے چہروں پر چادر سَرکا لیتیں، یا پھر دوسری جانب مُنھ کر کے گاڑی کے گزر جانے کا انتظار کرتیں۔ یہ ادا بھی اِنھی علاقوں کے ساتھ مخصوص ہے۔

کشمیر کی صبحوں کی ایک خاص چیز کا تصور تو آج بھی نہال کر دیتا ہے۔ بہار کے دِنوں میں اگر آپ صبح سویرے سکول جا رہے ہوں، یا اس بس میں سفر کر رہے ہوں تو آس پاس کے گھروں سے ناشتوں کی خوش گوار سی مہک آتی تھی۔

پراٹھوں کی مہک، سکول کا رَستہ کئی گھروں کے ساتھ، یا محلوں کے بیچ سے ہو کر گزرتا تھا۔ اس لیے مہک کا یہ احساس ذہن میں اس قدر راسخ ہو چکا ہے کہ یہ لفظ لکھتے ہوئے بھی میں وہ مہک محسوس کر رہا ہوں۔

بات قوالی سے نکلی اور پراٹھوں کی مہک تک نکلتی چلی گئی۔ لوگوں کو عموماً ماضی کو یاد کرنا اچھا لگتا ہے اور اگر اس کی جھلکیاں ایسی دل فریب ہوں تو آدمی ان یادوں کے رومان میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ نئے زمانے کی حقیقیں بڑی بے رحم ہیں، عہد موجود میں جینے والے لوگ اسی لیے ماضی پرستوں کو escapist قرار دیتے ہیں۔

لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ ماضی پرستی میں مبالغہ درست نہیں، لیکن کبھی کبھار اپنے قلب و ذہن میں یادوں کا میلہ لگا لینا اچھا ہوتا ہے۔

ماضی کو rewind کرنے کا آپشن نہیں ہوتا، لیکن اس کے کچھ دِل فریب عکس ذہن کی سَکرِین پر کبھی کبھار اُبھر ہی آتے ہیں۔ سمجھتا ہوں کہ ایسی یادیں بھی آج کے اُلجھے ہوئے آدمی کے لیے کسی treasure سے کم نہیں اور آج میں نے اس treasure کا لطف لیا ہے۔