کشمیریت زخمی ہے
از، حسین جاوید افروز
5 اگست 2019 کشمیر کی تاریخ میں جبر اور قید و بند کی صعوبتوں میں ایک بھیانک اضافہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے جب نریندر مودی نے ایک ہی دم میں ہندوستانی دستور کے کشمیر کے سپیشل سٹیٹس سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35a کو غیر قانونی اور یک طرفہ طور پر نکال باہر پھینکا۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ کشمیری پہلے ہی ستر برسوں سے بندوقوں کی سنگینوں تلے مجبوراً شناخت پریڈ کرتے خاصی مشکل تر زندگی گزار رہے تھے مگر کم از کم یہ مذکورہ آرٹیکلز ایک بھرم تو تھے ہی جن کی بَہ دولت ریاست جموں و کشمیر کا ایک الگ جھنڈا، اسمبلی اور قوانین بہ ہر طور موجود تھے۔
اب ایک برس ہونے کو آیا مگر کشمیری استقلال میں روزانہ کی بنیاد پر جاری سخت ترین کرفیو، سرچ آپریشنز اور دیگر شدید بندشوں کے با وجود کوئی کم زوری دکھائی نہیں دی۔ بل کہ گویا مودی سرکار نے نئی ابھرتی ہوئی کشمیری نسل کو بھی ترنگے کے خلاف لا کھڑا کیا جو شاید آزادی کی تڑپ سے اس حد تک آشنا نہیں تھے جتنی قربانی ان کے بزرگوں نے ماضی میں دیں۔
یہاں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی جیسی بھارت نواز کشمیری سیاسی جماعتیں بھی دفاعی پوزیشن اختیار کرتی نظر آئیں جب عبداللہ فیملی اور محبوبہ مفتی کو بھی جبری طور پر نظر بند کر دیا گیا۔ یوں ایک برس سے کشمیر میں عالمی تاریخ کا بد ترین اور بے رحم لاک ڈاؤن جاری ہے۔ وادی میں کاروبار، روزگار انٹرنیٹ اور تعلیمی سرگرمیاں مکمل طور پر بند ہیں۔
مودی جب 2014 میں اقتدار میں آئے تو بہت ہی جذباتی انداز میں بیان دیا کرتے کہ کشمیر کا ”مسئلہ انسانیت، کشمیریت اور جمہوریت“ کے دائرے میں حل کیا جانا چاہیے۔ مگر وقت کے ساتھ جموں و کشمیر پر سیاسی غلبہ پانے کے لیے انھوں نے ریاستی الیکشن میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس پلان کو ”مشن 44“ کا نام دیا گیا، مگر جب نتیجہ آیا تو جموں ریجن میں تو بی جے پی کو اکثریت ملی مگر کشمیر وادی میں یہ ایک بھی سیٹ نہ لے سکے اس طرح مشن 44 نا کام ہو گیا۔
اب اس فرسٹریشن میں مودی سرکار اس حد تک دھنس گئی کہ کشمیری عوام کی جانب سے آزادی کے حصول کے لیے پر امن جد و جہد اور مظاہرے بھی اسے قبول نہیں۔ نوجوان کشمیری مزاحمت کار برہان وانی کی وفات کے بعد سے وادئِ کشمیر سراپا احتجاج ہے۔ اس معاملے پر را کے سابق سربراہ ایس کے دولت بھی کہہ چکے ”ہم برہان وانی کو دہشت گرد کہتے رہیں مگر مت بھولیں اہل کشمیر کے لیے وہ ایک مثال رہے ہیں۔ ان کی شہادت نے کشمیر میں دبی چنگاریوں کو شعلوں میں بدل دیا ہے۔“
اب تک مودی سرکار ہزاروں بھارتی فوجیوں کو وادی میں بھیج چکی تا کہ قوت کے بل بوتے پر کشمیری عوام کو زیر کیا جا سکے۔ جب کہ اس کے ساتھ ساتھ بھارتی فوج نے بار ہا بے رحمی کے ساتھ پیلٹ گنز کا استعمال بھی کیا جس سے مظاہرین کے چہرے مسخ ہوئے اور ان کی بینائی کو بھی نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا۔
ہمیشہ سے ہی کشمیر، پاکستان بھارت کے درمیان ایک سلگتا ہوا مسئلہ رہا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ہے کیا؟ بھارت کا مؤقف یہ ہے کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے اسے داخلی آزادی تو دی جاسکتی ہے مگر ہم کشمیریوں کو ان کا حقِّ خودارادیت نہیں دے سکتے، بل کہ ہمیں پاکستان کے زیر انتظام کشمیرکو بھی بھارت کا حصہ بنانا ہے۔
دوسری جانب پاکستانی مؤقف یہ ہے کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت ملنا چاہیے، اور کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں طے کیا جانا چاہیے۔ جب کہ کشمیری عوام کی اکثریت آزادی کی خواہش مند ہے۔ مگر اب پانچ اگست 2019 کے بعد سے کشمیر کا تنازعہ پہلے سے کئی گنا زیادہ متنازِع اور پیچیدہ ہو چکا ہے اور مودی ڈوول مافیا اب کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تیزی سے بھارت کے حق میں کرنے کی مذموم سرگرمیوں کا آغاز بھی کر چکا ہے۔ جیسے اب تک پچیس ہزار افراد کو کشمیری ڈومیسائل جاری کیا جا چکا ہے اور اس عمل میں مزید تیزی بھی متوقع ہے، جب کہ 1990 کے بعد سے کشمیری پنڈتوں کی واپسی کے عمل کا بھی آغاز کیا جا چکا ہے۔
تاہم اس عمل میں سب سے تشویش ناک پہلو یہ رہا ہے کہ اب انڈین فوج کو چھاؤنیوں میں توسیع پر بھی مکمل فری ہینڈ دیا جاچکا ہے۔ یوں ایک عام بھارتی کے لیے بھی کشمیر میں جائیداد خریدنا بہت آسان ہو چکا ہے اب تک ابتدائی طور پر تقریباً چار لاکھ لوگوں کو کشمیر میں بسانے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے، جب کہ لداخ اور اس میں شامل کارگل ضلع کو پہلے سے یونین ٹیریٹری بنا کر وادی سے کاٹ دیا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں نہایت ہی بھونڈے طریقے سے نئی حلقہ بندیاں شروع کرنے کا شرم ناک عمل بھی شروع کیا جا رہا ہے جس سے کشمیری مسلمان کی اہمیت دن بدن کم تر ہوتی جائے گی۔
حال ہی میں سابق مہا راجہ کشمیر ہری سنگھ کے بیٹے ڈاکٹر کرن سنگھ نے بھی بھارتی پارلیمنٹ میں بیان دے دیا، ”کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے کیوں کہ کشمیر بھارت میں ضم ہی نہیں ہوا۔“ دوسری جانب نیشنل کانفرنس کے قائد عمر عبداللہ بھی کہہ چکے ہیں، ”اس وقت وادئِ کشمیر میں احتجاج کی جو لہر جاری ہے اس کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ نہیں ہے۔“ جب کہ محموبہ مفتی بھی اپنے حالیہ ٹویٹ میں بر ملا کہہ چکیں کہ ہم کشمیریوں کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔
بی جے پی اقلتیوں کو کسی طرح کی رعایت دینے کی خواہاں نظر نہیں آتی۔ مجھے اعتراف ہے کہ جناح کا دو قومی نظریہ ایک بار پھر حقیقت بن کر ابھرا ہے۔ ان تمام حقائق کے با وُجود بھارتی حکم ران، میڈیا یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں کہ کشمیر کوئی مسئلہ ہے۔ حالات یہ ہیں کہ وادی میں مسلسل کرفیو نافذ ہے اور سیاحتی مقامات جیسے پہلگام، سون مرگ، ٹن مرگ، گل مرگ ویران پڑے ہیں۔ یاد رہے کہ اسی سیاحت کی بَہ دولت کشمیری سیزن میں کمائی کرتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جمہوریت کشمیریت اور انسانیت کے عنوان سے سجی مودی کی کشمیر پالیسی فیل ہو چکی ہے کیوں کہ مسائل کا حل تو نکالا نہیں جا رہا محض طاقت کے بے جا استعمال کو ہی حل سمجھ لیا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وادی میں ہر طرف پاکستانی جھنڈے لہرا رہے ہیں۔
حال ہی میں بھارتی یومِ آزادی پر بھی یومِ سیاہ منایا گیا، جب کہ بھارتی فوج، جموں کشمیر پولیس اورسینٹرل ریزرو پولیس فورس پر، سنگ باری کا سلسلہ بھی ہنوز جاری ہے۔
دلی سرکار حیران ہے کہ ایک طرف تو کشمیریوں کو جموں کشمیر سپیشل فورس میں ہزاروں کی تعداد میں شامل کیا جا رہا ہے اور سینٹرل ریزرو پولیس فورس میں بھی ان کے لیے بارہ سو آسامیاں رکھی گئی ہیں مگر اس پر بھی کشمیری مطمئن نہیں۔
حکومت نے ان کے لیے گیہوں اور چاول بھی سستے کیے اور جموں و کشمیر ریل وے کا جال بھی بچھایا گیا جس میں پچیس ہزار کروڑ کی لاگت سے قاضی گنڈ تا بانہال ٹنل بھی بنائی گئی۔ علاوہ ازیں سڑکوں پر بھی کام جاری ہے اور تقریباً پچاس ہزار کروڑ کی لاگت سے جموں سری نگر شاہ راہ کو چار لین کیا جا رہا ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سب اقدامات کے با وجود حالات بھارت کے حق میں کیوں نہیں جا رہے؟ اگر ایک سال کے طویل لاک ڈاؤن کے با وجود بھی کشمیر میں بانہال سے لے کر بانڈی پورہ تک اور زوجیلا پاس سے کیرن تک حالات نارمل نہیں ہیں تو کیا یہ مودی سرکار اور اجیت ڈوول کی پالیسیوں کی کھلی نا کامی نہیں؟ کیا ایک سال میں مودی کے دعووں کے مطابق کشمیر وادی میں پچاس ہزار نوکریاں دی جا سکیں؟
حالت تو یہ ہے کہ اب بھی 84 ہزار سرکاری اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال سے اب تک وادی میں چالیس ہزار کروڑ کا کاروباری نقصان ہو چکا ہے اور ایک پیسے کی بھی سرمایہ کاری نہ ہو سکی ہے۔ جب کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پانچ لاکھ لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں جن میں سب سے زیادہ بے روزگاری سروس سیکٹر، سیاحت، جنرل ٹریڈ اور کشمیری ہینڈی کرافٹ کے شعبہ جات میں دیکھنے کو ملی۔
کشمیر لاک ڈاؤن کے بد ترین اثرات کی بہ دولت تقریباً 45 آبادی ذہنی تناؤ سے دوچار ہو چکی ہے جب کہ بھارتی پیرا ملٹری فورسز کے ہاتھوں لا پتا افراد کی تعداد 700 تک پہنچ چکی ہے اور قریباً ایک ہزار کے قریب کشمیری شہید کیے جا چکے ہیں۔
وادئِ کشمیر کے یاسیت بھرے ماحول کو محسوس کر کے ہی انڈین فوجی آج بھی بے اختیار کہتے ہیں، ”حیرت ہے یہ وہی جگہ ہے جہاں شمی کپور ناچتا پھرتا تھا۔“ در اصل مودی جی کو یہ سمجھ نہیں آ رہی اب یہ وہ کشمیری نہیں رہے جو دھوپ میں بندوق رکھ کر کہتے تھے، ”تپ سی تے ٹھس کرسی“ یعنی دھوپ سے بندوق تپ جائے گی تو خود ہی چل جائے گی۔ ایک عام کشمیری اب بھی یہ سوچتا ہے کہ وہ سنہ 1586 سے غلام ہے جب مغلوں نے کشمیر پر قبضہ کیا اور اس کے پھر بعد افغان، سکھ اور ڈوگرا راج بھی ان پر مسلط کیا گیا۔ جب کہ اب پچھلے ستر سال سے وہ بھارتی استبداد کو ہمت سے سہہ رہے ہیں۔
اس وقت وادی میں عسکریت کے بَہ جائے یہ کشمیریوں کی احتجاجی طاقت ہی ہے جس سے دلی میں بھونچال آ گیا ہے۔ تاہم اگر ہم مودی کے زیرِ اثر بھارتی گودی میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو ان کا ایک ہی منترا ہے کہ بھارتی کشمیر میں آزاد کشمیر کی نسبت زیادہ ترقی ہوئی ہے یہ بات قطعی طور پر غلط قرار نہیں دی جا سکتی مگر انھیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ نیلم سے لے کر میرپور تک کہیں خوف کی وہ فضا موجود نہیں جو کہ ہمیں سری نگر سمیت ساری مقبوضہ وادی میں دکھائی دیتی ہے۔
آخر میں انڈین انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ اویناش موہانا نے، جو کہ اپنی سروس کا طویل حصہ کشمیر میں بسر کر چکے ہیں کشمیر کی موجودہ صورت حال پر بے لاگ تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”گزشتہ سال 5 اگست کو نریندرمودی نے کشمیرمیں ننگی مداخلت کا ارتکاب کیا۔ میری دانست میں مودی کا بَہ طورِ وزیر اعظم یہ اقدام درست نہ تھا اس سے نہ تو دہشت گردی رکی اور ہی علیحدگی پسندی کو لگام دی جا سکی۔
“کشمیر ایک سپیشل کیس رہا ہے، لہٰذا اسے سپیشل توجہ درکار تھی جو دلی سرکار کی جانب سے نہ دی گئی۔ مودی کے پانچ اگست کے اقدام سے پاکستان کو بھی کھلی چھٹی ملی اور کشمیر کے بارے دلی میں جو بیانیہ اور تأثر بنایا گیا وہ درست نہیں، بل کہ نہایت منفی ہے۔
“میرا تجربہ ہے کہ کشمیری بہت ہی اچھے لوگ ہیں مگر ان کے ساتھ بہت ہی ہتک آمیز رویہ اپنایا گیا جس سے ریاست میں احساس بے گانگی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ کشمیریوں میں کرب اور انتشار جمع ہو رہا ہے اور دھیرے دھیرے یہ لاوا پھٹ رہا ہے۔ انڈین فوج میں بھی ایسے گندے انڈے موجود ہیں جو کہ اپنی جابرانہ خصلت کی بَہ دولت فوج کو کشمیر میں کٹہرے میں لا کھڑا کرتے ہیں۔
“ریاستی سٹیٹس کی تبدیلی اور ڈومیسائل ایشو نے حالات مزید ابتر کیے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہاں منصفانہ الیکشن ہونے چاہییں تو ہی حالات میں بدلاؤ آئے گا۔ مگر بَہ جائے کشمیری زخموں پر مرہم رکھنے کے وہاں ڈیموگرافی ہی بدلی جا رہی ہے۔ کشمیر اس وقت نہایت ہی خطرناک فیز میں داخل ہو چکا ہے۔“
زبروان پہاڑیوں کے دامن میں پھیلی سری نگر کی ڈل جھیل پر دل کش شکاروں پر مغلوں، سکھوں، ڈوگروں اور بھارت سرکار نے دھائیوں تک بہت لطف اٹھا لیا لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ان شکاروں پر اس مظلوم کشمیری ہاتو کو بھی لطف اندوز ہونے دیا جائے جو کہ صدیوں سے چپو چلاتا رہا ہے۔ اس زخمی کشمیریت کو اب آزادی کا مریم چاہیے۔