کشتی پر اچھلتی ہوئی مچھلیاں
افسانہ از، محسن خان
بابا جان ایک ہاتھ سرہانے رکھے، پَیروں کو پیٹ کی جانب سمیٹے اس طرح سو رہے تھے جیسے بچہ ماں کے پیٹ میں نشو و نما پا رہا ہو۔ ان کے سونے کا کوئی زاویہ مقرر نہیں ہے۔ کبھی کسی کروٹ سو جاتے ہیں کبھی تکیہ کی ٹیک لگا کے بیٹھے بیٹھے سو جاتے ہیں۔
اس طرح سوتے وقت اکثر ان کی گردن ٹیڑھی ہو جاتی ہے اور ان کے حلق سے نہایت دل خراش اور وحشت ناک خراٹے نکلتے ہیں۔ کبھی ہاتھ پاؤں سیدھے کر کے اس طرح سو جاتے ہیں جیسے کوئی جنازہ پڑا ہو۔ دیکھ کر دل میں ہول اٹھنے لگتی ہے وہ گہری نیند نہیں سوتے، ان کی نیند چڑیا کی نیند جیسی ہوتی ہے۔ اک ذرا آہٹ ہوئی نہیں کہ پَٹ سے آنکھ کھل گئی۔ کہتے ہیں جوانی میں خوب سو لیے سب نیند ختم ہو گئی۔
دل کو ذرا قرار آتا ہے تو بستر پر رکھی ہوئی دواؤں اور چورنوں کی پڑیوں اور پوٹلیوں کو اس طرح ٹٹول کر دیکھتے ہیں جیسے کوئی ایسی چیز تلاش کر رہے ہوں جو ان کے دل کو قرار بخش دے گی۔ مگر ان پڑیوں اور پوٹلیوں میں ان کے دل کا قرار کہاں۔ ان کے دل کا قرار تو ہمارے آبائی مکان کے ملبے میں دب کر رہ گیا ہے۔
بابا جان کی دنیا اب اپنے کمرے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ آنکھوں پر ہاتھ کی چھتری لگا کر دروازے سے ڈائننگ روم کی جانب اور باہر کی جانب کھلنے والی کھڑکی سے اتنا آسماں دیکھ لیا کرتے ہیں، جو اپنی وسعت میں کھڑکی کے فریم تک محدود ہے۔ ایک دن کہہ رہے تھے، “بینائی اس قدر کم زور ہو چکی ہے کہ آسمان میں اڑتے ہوئے پرندے اور پتنگیں بھی دکھائی نہیں دیتیں۔”
کسی زمانے میں بابا جان کو کبوتر اور پتنگیں اڑانے کا شوق تھا۔ ادھر کچھ دنوں سے تاریخی اور مذہبی کتابیں بڑی آمادگی سے پڑھنے لگے تھے مگر کم زور بینائی نے لا چار کر دیا۔
میں نے محسوس کیا ہے کہ اب بابا جان نمازیں اور وظیفے بھی پہلے کی طرح خشوع و خضوع کے ساتھ نہیں پڑھتے۔ نمازیں اور وظیفے پڑھتے وقت ان پر غنودگی طاری ہو جاتی ہے۔ ہاں صبح کے وقت کچھ تازہ دَم دکھائی دیتے ہیں۔ تکیہ کی ٹیک لگا کے قدرے اطمنان کے ساتھ تسبیح پڑھتے ہیں اور اسکول کے لیے تیاریاں اور چہلیں کرتے ہوئے بچوں کو شفقت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتے رہتے ہیں۔ بچوں کے اسکول جانے کے بعد جب سناٹا ہو جاتا ہے تو وہ دل بہلانے کے لیے آسمان کی جانب دیکھنے لگتے ہیں۔
کھڑکی سے دکھائی دینے والا آسمان کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا گویا ان کی زندگی کا ایک خوش رنگ حصہ ہے۔ جب بابا جان کی نگاہ تیز تھی تو وہ کھڑکی سے روشنی کی طرف دیکھ کر اور سورج کے قیام کا اندازہ لگا کر صحیح وقت بتا دیا کرتے تھے۔ مگر اب نہیں بتا پاتے۔ ساجدہ اور بچوں سے گھڑی گھڑی وقت پوچھا کرتے ہیں۔ ایک دن ساجدہ نے کہا، “اذان کی آواز تو آ ہی جاتی ہے تو پھر بابا جان ذرا ذرا دیر کےبعد وقت کیوں پوچھتے رہتے ہیں؟” میں نے ہنس کر کہا، “وقت ہی تو ہے جو انسان کو اس کے وُجود کا احساس دلاتا رہتا ہے۔”
اس وقت بابا جان تکیہ کی ٹیک لگائے اور گردن نیہوڑائے بڑے بے تکے ڈھنگ سے سو رہے تھے۔ ان کا مُنھ کھلا ہوا تھا اور کسی ذبح شدہ جانور کے حلق سے نکلنے والی آوازوں کی طرح ان کے مُنھ سے وحشت ناک خراٹے نکل رہے تھے۔ یہ مناسب وقت نہیں تھا۔ بکس کھینچنے سے بابا جان کی نیند ٹوٹ سکتی تھی۔ “جگا دیجیے، ویسے بھی وہ بے چینی کی نیند سو رہے ہیں،” ساجدہ نے کہا۔
میں نے آہستہ سے بابا جان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اس سے پہلے کہ انھیں آواز دیتا انھوں نےگھبرا کے آنکھیں کھولیں اور کھنکارتے ہوئے تشویش ناک لہجے میں پوچھا، “کیا بات ہے؟”
“بکس کی چابی کہاں ہے؟” میں نے پوچھا۔ بابا جان نے بلا تامل چابی تکیہ سے نکال کر میری جانب بڑھا دی۔ تعجب ہوا کہ بابا جاننے چابی مانگے جانے پر کوئی استفسار نہیں کیا۔
بکس سے بابا جان کی جذباتی وابستگی تھی۔ بکس کی چابی ہمیشہ بابا جانکے تکیے کے نیچے رہتی تھی اور وہ بکس کھولنے کی کسی کو اجازت نہیں دیتے تھے۔
ساجدہ اکثر کہتی، بابا جان کے بکس میں وصیت یا کوئی قیمتی چیز رکھی ہے جو ہمارے بچوں کے کام آ سکتی ہے۔ حالاں کہ بابا جان کے نام نہ تو کوئی جائیداد تھی اور نہ زندگی میں اتنے پیسے کمائے تھے کہ وہ ہمارے یا ہمارے بچوں کے مستقبل کے لیے کوئی قیمتی چیز خرید پاتے۔ سرکاری اسکول کے پرائمری سیکشن میں استاد کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد معمولی پینشن مقرر ہوئی تھی۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ بابا جان نے بڑے جتن کے بعد ایک چھوٹا سا مکان بنا کر ہمارے سَروں پر سائے کا انتظام کر دیا تھا۔
بابا جان کے بکس سے جو سامان بر آمد ہوا اس میں پرانے سِکّوں کی پوٹلی، کچھ مذہبی اور تاریخی کتابیں، کِرم خوردہ ڈائری کے کچھ اوراق، جن میں گھریلُو ٹوٹکے اور بے ربط تحریر میں لکھے گئے ان کی زندگی کے حالات و واقعات تھے؛ کچھ نسخے ایکس رے، ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانے، ایک موہوم سا شجرہ، جس کے نقش اور الفاظ کم و بیش نا بُود ہو چکے تھے۔ چند تصویریں اور خطوط کے دُھندلے اقتباسات موجود تھے۔ سِکّے محفوظ تھے۔
مگر سکّوں کی پوٹلی اور دوسری چیزوں کو دیمک نے اس طرح چاٹا تھا کہ وہ ماضی کا مرثیہ بن کر رہ گئی تھیں۔ بکس سے جو چیزیں بر آمد ہوئی تھیں وہ میں نے لڑکپن میں دیکھیں تھیں۔ ایک تصویر دادا جان کے زمانے کی تھی۔ اس میں دادا جان مولانا محمد علی، شوکت علی اور بعض دوسری سرکردہ سیاسی شخصیات کے ساتھ کرسیوں پر نہایت مدبرانہ انداز کے ساتھ بیٹھے تھے۔ بابا جان، چچا جان اور محلے کے دوسرے بچے پھندنے دار ٹوپیاں لگائے اور ہاتھوں میں خلافت پارٹی کے پرچم تھامے زمیں پر پالتھیاں مارے بیٹھے تھے۔
تصویر اپنے سیدھے رخ سے بکس کی تہہ میں چپک کر زنگ آلود اور اس قدر دھندلی ہو گئی تھی کہ چہروں کے نقش و نگار باقی نہیں رہے تھے۔ یہ سمجھ پانا بھی مشکل تھا کی ان کے بدن پہ کون سے لباس تھے۔ مسخ چہرے اور بُریدہ لباس حنوط شدہ لاشوں کا تاثر پیش کر رہے تھے۔
بابا جان کے بکس سے بر آمد ہونے والے چیزیں غیر دل چسپ اور بے کار تھیں۔ ہاں ان کی ڈائری میں محفوظ رہ جانے والے چند اوراق اور چچا جان کے خطوط پڑھےجا سکتے تھے۔ گو کہ ڈائری اور خطوط کے اکثر اوراق دیمک کی نذر ہو چکے تھے۔
ایک لفافے کی پیشانی پر جناح کی تصویر دھندلے نقوش کے ساتھ محفوظ رہ گئی تھی حالاں کہ دیمک نے ان کے چہرے کو چاٹ کر داغ دار کر دیا تھا اور ان کی کیپ کی جگہ ایک خلاء پیدا ہو گیا تھا۔ لفافے سے بر آمد ہونے والے خطوط کے چند اقتباسات ہی محفوظ رہ گئے تھے۔ ایک اقتباس کچھ اس طرح تھا:
“بے خبری کے اس طویل عرصے میں کیسے کیسے واقعات و سانحات رُو نما ہوئے۔ بابا جان اور چچا جان چلے گئے اور ہم ان کا آخری دیدار بھی نہ کر سکے۔ افسوس صد افسوس۔ اب ہمارا کوئی بزرگ باقی نہیں رہا اس خبر نے اور بھی ملول کر دیا کہ اب ہمارا مکان بھی باقی نہیں رہا۔ امید ہے کہ تم نے اس مقام پر پختہ مکان بنا لیا ہو گا۔ اپنے اس کچے مکان کے نقش و نگار اور وہ طاق میرے ذہن میں محفوظ ہے جس میں اماں جان چراغ رکھا کرتی تھیں۔ مرکزی جگہ پر بنے اس طاق میں رکھا ہوا چراغ سارے گھر کو روشن کر دیا کرتا تھا۔ افسوس اب ہم اس مکان کو خواب اور تصور میں ہی دیکھ سکیں گے۔ امید ہے تم نے بابا جان اور اماں جان کی قبروں کی مرمت کرا کہ ان پر دو بارہ کتبے لگا دیے ہوں گے۔
“اب زندگی میں بس ایک ہی آرزو رہ گئی ہے کہ مرنے کے بعد اپنے آبائی قبرستان میں اماں جان اور بابا جان کے پہلو میں دفنایا جاؤں۔ یہاں کے حالات پہ کیا تبصرہ کروں ہماری کیفیت تو اس مسافر کی سی ہو گئی ہے جو کسی جزیرے پر بیٹھ کر غیبی مدد کا انتظار کر رہا ہو۔ حال ہی میں تقسیم سے متعلق مولانا آزاد کی بصیرت افروز تقریر دو بارہ سنی۔ مولانا بھی کیسے صادق اور دور اندیش آدمی تھے۔”
اس کے بعد کے اقتباسات ضائع ہو چکے تھے۔
دوسرا خط غالباً میرے چچا زاد بھائی خالد کا تھا۔ جس کے ابتدائی اقتباسات ضائع ہو چکے تھے۔ ایک اقتباس کی ابتدا اس طرح ہوئی تھی:
“بابا جان کا مزاج بچوں کا سا ہو گیا ہے۔ بچوں کے ساتھ بچوں کی طرح کھیلتے ہیں۔ بچوں کے کھلونے چھین لیتے ہیں۔ کوئی بات مزاج کے خلاف ہو جائے تو بچوں کی طرح رونے لگتے ہیں۔ سائرہ کو اماں جان اور مجھے ابا جان کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کو اپنے ہندو دوستوں کے ناموں سے پکارتے ہیں۔ یہاں کے محلوں کو وہاں کے محلوں کے نام دے رکھے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انہیں کوئی ایسی بیماری ہو گئی ہے جس کا علاج ممکن نہیں۔”
میں نے اس شجرے کو کھولنے کی کوشش کی جو چار تہوں میں لپیٹ کر نہایت احتیاط کے ساتھ رکھا گیا تھا جو خستہ اور بُریدہ ہو چکا تھا۔ جب میں نے اس کی تہیں کھولنے کی کوشش کی تو شجرہ چار ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ میں نے ہر ٹکڑے کو آنکھوں کے قریب کر کے نہایت انہماک سے پڑھنے کی کوشش کی مگر کچھ سمجھ نہیں آیا۔ سب نام معدوم ہو چکے تھے اور اب اسے خورد بین سے بھی پڑھا جا سکنا ممکن نہیں تھا۔
جو چیزیں میں نے بکس سے نکالی تھیں دو بارہ بکس میں رکھ دیں۔ بکس کو مقفل کر کےچابی بابا جان کی طرف بڑھائی تو باباجان نے بے آب آنکھوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا، کیا ڈھونڈ رہے ہو۔ میں نے بابا جان کو موجودہ صورتِ حال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا، ایسے دستاویز کی ضرورت ہے جس سے ثابت ہو سکے کہ ہم ہندوستان کے باشندے ہیں۔
کیا ہمارے شجرے سے یہ بات ثابت نہیں ہو سکی، بابا جان نے بڑی معصومیت سے کہا اور ہم دونوں ایک دوسرے کی طرف یوں دیکھنے لگے جیسے کسی سراب کی جانب دیکھ رہے ہوں۔
سامنے کے کمرے میں ساجدہ بچوں کے ساتھ موبائل پر ڈیٹینش کیمپ سے متعلق خفیہ کیمرے سے بنائی گئی دستاویزی فلم دیکھ رہی تھی۔ میں اس کے پاس گیا اور اس کے ہاتھ سے موبائل لے کر فلم ڈیلیٹ کر دی۔