یہ قصور کو کیا ہوگیا ہے؟
از، خضرحیات
ہمارے ذہنوں میں آج تک قصور شہر بابا بلّھے شاہ کی وجہ سے زندہ رہا ہے۔ مگر پچھلے تین سال میں بُلھے والی پہچان ماند پڑتی جا رہی ہے۔ 2015ء میں قصور کے نزدیک حسین خان والا گاؤں میں بچوں کے اغواء، ان کے ریپ اور پھر ریپ کی ویڈیوز سے متعلق خبروں کے منظرعام پر آنے کے بعد کون ہوگا جس کا دل نہ دہلا ہوگا۔ مگر اس وقت دل کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ ہمارے ‘قنون’ نافذ کرنے والے ادارے ہر جگہ موجود ہیں اور ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچا کے ہی دم لیں گے یا اس گروہ کو بے نقاب کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے یا اس طرح کا واقعہ دہرانے کی اجازت نہیں دیں گے یا جنسی اسکینڈل میں ملوث مجرمان کو عبرت کا نشان بنا دیں گے وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
یہ خبر میڈیا میں بس کچھ ہی دن زندہ رہ سکی اور پھر جب میڈیا میں بیٹھے ‘زرخیز’ ذہنوں نے خود سے ہی فیصلہ کر لیا کہ اس خبر میں اب تازگی اور سنسنی نہیں رہی تو یہ میڈیا سے بھی غائب ہو گئی۔ ایک آدھ مرتبہ بی بی سی اور ڈان نیوز نے اس پر خبریں دیں اور اس طرح کی خبریں کہ ملزمان بظاہر بااثر لگ رہے ہیں جس کی وجہ سے پولیس ان پر ہاتھ ڈال کر اپنا وقار مزید برباد نہیں کرنا چاہتی۔ ایسی بھی خبریں آئیں کہ حسین والا گاؤں سے کام کے سلسلے میں لاہور آنے والے بچے نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ مگر کسی کا کیا جاتا ہے سارے جہاں کا درد پولیس والے ہی کیوں سنبھالتے پھریں، اور ویسے بھی انہونی کو وہ تھوڑی نہ روک سکتے ہیں۔
کسی گھناؤنے جرم کو ہونے سے روکنا تو خیر ہمارے بس کا کام نہیں ہے کیونکہ ایسا رواج پاکستان میں ہے ہی نہیں۔ یہاں جب بم دھماکہ ہو جاتا ہے تو بعد میں اس طرح کی منہ چڑاتی خبر بھی آتی ہے کہ انتظامیہ کو پہلے سے معلوم تھا کہ فلاں جگہ پہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ آج تک یہ سمجھ نہ آ سکی کہ اگر الہ دین کے جن نے آپ کو پہلے ہی بتا دیا تھا تو کوئی کاروائی کیوں نہ کی گئی؟ انتظار کس بات کا تھا؟ مگر یہ سب اضافی باتیں ہیں۔ میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ چلیں یہاں جرم یا حادثہ ہونے سے نہیں روکا جا سکتا لیکن جرم یا حادثہ ہونے کے بعد ہی کچھ نہ کچھ فنکاری دکھا لی جائے تو کیا حرج ہے اس میں؟
مگر کیوں کریں، ضرورت ہی کیا ہے۔ جیسے چل رہا ہے ہمیں بھی ایسا ہی چلتا ہوا ملا تھا اور آگے بھی ایسے ہی چلتا رہے گا۔ عوام کو ہم کیسے محفوظ بنا سکتے ہیں اور ویسے بھی جس کی آئی ہوتی ہے اس کے سامنے جتنے بند باندھ لیں وہ آ کے ہی رہتی ہے تو پھر شور واویلا کس لیے۔ جسے اللہ نے بچانا ہوگا بچا لے گا ہمیں خواہ مخواہ کیوں تنگ کرتے ہیں اور کیوں بیچ میں لاتے ہیں۔ بس دعا کریں اور جائیں اپنا کام کریں۔
اگر حادثہ ہونے کے بعد بھی قانون تھوڑا بہت حرکت میں آ جاتا تو تین سال میں قصور والے جنسی اسکینڈل میں ملوث ایک آدھ مجرم تو پکڑا ہی جا چکا ہوتا اور شاید یہ سلسلہ وہیں پہ ہی رک جاتا مگر یہ تو جاری و ساری ہے۔ اس دوران مجھے جب کوئی یہ کہتا ہے کہ ہمارا جاسوسی کا نظام دنیا میں پہلے نمبر پہ ہے تو میرا دل کرتا ہے اس کے منہ پر دو جڑ دوں۔ تمہارا جاسوسی کا نظام اگر اتنا ہی تگڑا ہے تو کیا 2050ء میں کام میں لاؤ گے، اگر کچھ ہے تو آج کیوں نہیں سامنے آتے، پکڑو ان کو۔ کہاں تک بھاگ سکیں گے یہ جنسی درندے۔
اگر تھوڑی بہت ذمہ داری دکھائی جاتی تو شاید قصور میں اس طرح کا واقعہ بعد میں نہ پیش آتا۔ مگر کیوں نہ پیش آتا جب ہمیں پتہ ہے کہ یار جو مرضی کرتے پھریں کسی نے پوچھنا تو ہے نہیں تو چلیں پھر لگے رہتے ہیں۔ اصل مجرموں کو سزائیں ملنا شروع ہو جائیں تو شاید کچھ فرق پڑ جائے مگر یہاں تو اصل مجرم پکڑنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی جاتی تو سزائیں کن کو اور کیسے دیں گے؟ اور جب یہ سزا اور جزا والا نظام سرے سے ہی مفقود ہو تو پھر ایسے کام رکتے نہیں، آئے روز نئی نئی شاخیں نکالتے رہتے ہیں۔
قصور میں مہینہ پہلے بھی ایک بچی اسی طرح غائب ہوئی تھی جو ایک ہفتے بعد گھر واپس تو آ گئی مگر اس کی معصومیت کبھی واپس نہیں آ سکے گی، وہ نفسیاتی طور پر مریض بن کر لوٹی ہے اور تازہ قسط میں زینب کے مقدر کھوٹے ہوگئے تھے۔ اغواء ہوئی حوسی، پولیس کو بتایا گیا، ڈالے ادھر ادھر دوڑائے گئے مگر پولیس کا جب یہ ماننا ہو کہ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے تو پھر وہی ہوتا ہے جسے دیکھ سن کے روح ہی دہل جاتی ہے۔
ہم کہاں آن پہنچے ہیں کچھ سمجھ نہیں آتی۔ جنسی انسان کو اس قدر بھی سفاک بنا سکتی ہے یہ بات بہت خوفناک ہے۔ زینب جیسی بچیوں کو اغواء کرنے اور اس کے بعد ظلم کرنے والے شخص کی نفسیات کس قسم کی ہوگی، وہ اپنے آپ کو کس طرح اس سب کے لیے تیار کرتا ہوگا، اس کا ضمیر ذرا بھی بیچ میں نہیں آتا ہوگا، اس کو اپنی ماں بہن بیوی بیٹی کا خیال ایک لمحے کے لیے بھی نہیں آتا ہوگا، وہ کس سے بدلہ لینا چاہتا ہوگا، خود سے یا معاشرے سے، اگر وہ پاگل ہو چکا ہے تو اس کی نشاندہی وقت پر کیوں نہیں ہو سکتی، ذہنی پستی اور بیمار ذہنی کا اس سے اگلا لیول بھی کوئی کیا ہوگا، ایسے واقعات کو آسمان اپنی آنکھوں سے دیکھ کیسے لیتا ہے اور دھرتی کا سینہ کیسے پھٹ جانے سے محفوظ رہتا ہے، اب ایسے واقعات پہ کالی آندھیاں کیوں نہیں چلتیں، زلزلے اگر اسی وجہ سے آتے ہیں تو پھر قصور میں کیوں نہیں آ گئے، ہم اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ ہمارے لیے یہ محض ایک اور واقعہ ہے اور بس۔
اچٹتی نظروں کے ساتھ بھاگتے بھاگتے بیچ میں ایسا ایک آدھ منظر جب آتا ہے تو تھوڑی دیر کے لیے دیدے پھاڑ کر اس طرف دھیان دیتے ہیں اور اگلے ہی لمحے پھر دوڑ لگ جاتی ہے۔ کیا معاشرہ نفسیاتی طور پر مر نہیں چکا؟ کیا بے حسی انسانی ضمیروں پر جال نہیں بچھا چکی؟ کیا ہم وحشی نہیں بن چکے؟ کیا ہم کبھی خود سے معافی حاصل کر سکیں گے؟ کیا ہم ہر بار اسی طرح گھڑی دو گھڑی کو لرز کر پھر سے خاموشی اور بے حسی کی قبر میں لیٹ جایا کریں گے؟
قانون نام کی اگر کوئی چیز یہاں ہے تو وہ نظر کیوں نہیں آتی؟ پولیس عدالتیں ہر جگہ ہیں مگر قانون انصاف کہیں نظر نہیں آتا۔ اندھیر نگری کا ایسا آسیب ہم پر اپنے پنجے کَس چکا ہے کہ ہر کوئی محض سانس لینے جتنی آزادی پا کر بھی خدا کا شکر ادا کرتا ہے۔ ہمیں ڈرایا ہی اس قدر گیا ہے کہ ہمیں محض زندہ رہنا بھی بہت بڑی نعمت لگنے لگا ہے۔ میں تو حیران ہوں ہماری پولیس پر کہ جو تین سال میں حسین والا گاؤں کے واقعے میں ملوث ایک بھی بندے کو نہیں پکڑ سکی۔ یار اگر اتنی سنجیدہ اور گھناؤنی صورت حال میں بھی آپ کچھ نہیں کر سکتے تو آپ کو گھر چلے جانا چاہیے۔
اسی طرح کے مکروہ واقعات اس نظریہ کو تقویت بخشتے ہیں کہ یہاں قانون صرف کمزور کے لیے ہے، طاقتور کا آج تک کیا اکھاڑ لیا ہے اس نے۔ اتنی بڑی ناکامی کے بعد آپ کے پاس کیا جواز بچتا ہے کہ آپ بدستور خود کو پولیس والے کہلانے پر فخر محسوس کریں۔ ناجائز کاروائی مطلوب ہو تو راتوں رات بندہ اٹھانے میں آپ کو ذرا دیر نہیں لگتی مگر زینب ایک ہفتے لاپتہ تھی آپ سے ایک بھی تیر نہیں مارا گیا۔ ہمیں بحیثیت معاشرہ اپنے آپ سے شرم آنی چاہیے۔ ہم مجموعی طور پر بدبودار ہو گئے ہیں اور اس سے بھی شرم ناک بات یہ ہے کہ اس بدبو کے عادی بھی ہو گئے ہیں۔ ہمیں خود سے گھن آنا بھی بند ہو گئی ہے، ہم کب کے گزر چکے ہیں۔
قصور کی پہچان ہمارے ذہنوں میں بابا بلھے شاہ ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ یہ پہچان اب مزید دیر تک قائم رہ سکے گی۔ مجھے لگ رہا ہے کہ قصور اب زیادتیوں والا شہر کہلانے لگے گا اور یہاں کے چوہدری بدستور قنون نافذ کرنے والے ادارے ہی ہوں گے۔