
افسانہ کسوٹی
از، آسیہ ججّہ
عصفورہ! میری چڑیا! میری گڑیا!
بیٹا مت بھولنا کہ تمھیں یہاں تک پہنچانے کے سفر میں تمھاری ماں کے پیر کیسی بری طرح جھلسے ہیں۔ نہیں میرا بچہ! احسان نہیں جتا رہی۔ بس چاہتی ہوں کہ تم یاد رکھو۔ ماضی کی میری کوئی غلطی تمھارا مستقبل نہ ہو۔ میں نے دنیا کو جھیلا ہے۔ میرے تجربے کو کبھی رد نہ کرنا۔ میری نصیحتوں کو دقیانوسی سمجھ کر اڑا نہ دینا۔ دنیا کا طریقۂ واردات بدل سکتا ہے، واردات نہیں۔ خدا تمھیں اپنی امان میں رکھے میری جان۔ دن بدن بوڑھی ہوتی ان ہڈیوں کا واحد اثاثہ تم ہو۔
….
عصفورہ! عصفورہ! عصفورہ!
پہلو میں بیٹھی لڑکی اُس کو کہنی مارتے ہوئےلیکچرار کی جانب متوجُّہ کر رہی تھی جو باری باری سب سے مختصر سا تعارف لے رہے تھے۔ آج یُونی ورسٹی میں اُس کا پہلا باقاعدہ دن تھا اور ماں صاحب کی باتیں ذہن کے میدان میں ادھر اُدھر پھدکتی پھر رہی تھیں۔ “ہاں ہمیں محتاط رہنا ہو گا۔ لیکن ضروری تو نہیں نا کہ ماں صاحب کے خدشے درست ہوں؟زمانہ بدل گیا ہے۔ یا شاید وہ ٹھیک ہی کہتی ہوں، ہم نے ابھی دنیا کو دیکھا ہی کہاں ہے۔ لیکن پھر بھی وہ اپنے ماضی کو، ہمارے مستقبل کے موازنے میں کیوں لاتی ہیں؟ یا پھر وہ ہمیں آج بھی وہی دو پونیوں والی ان کے آنچل سے ہمہ وقت چمٹی رہنے والی بچی ہی سمجھتی ہیں۔ یہ ماں صاحب بھی نا۔ ” وہ انہی خیالات کی اُدھیڑ بُن میں تھی کہ جب رمشہ عین اُس کی پسلیوں کے نشانے پر اپنی کُہنی مارتے ہوئے اُس کو زمانۂ حال میں لے آئی۔ رمشہ سے ابھی کچھ دیر پہلےہی اُس کا تعارف ہوا تھا اور اب وہ سرگوشی کرتے ہوئے عصفورہ کو شاید کسی تعارف کرواتے شخص کی طرف دیکھنے کا کہہ رہی تھی کہ لیکچرار اُن کی جانب متوجُّہ ہوگیا۔
“آپ کھڑی ہوجائیں منفرد لڑکی!” انہوں نے عصفورہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا اور عصفورہ نے ایک دم ،مُڑی گردنوں اور تمام نگاہوں کا مرکز خود کو بنتے پایا۔
“صبح بخیر سر! ہمارا نام عصفورہ مہرالنساء ہے۔ ” اُس نےکھڑے ہوکر قدرے سنبھلتے ہوئےاپنا تعارف کروانا شروع کیا۔
“تو گویا آپ ایک نہیں دو ہیں، عصفورہ بھی اور مہرالنساءبھی۔ شاید اسی لیے آپ نے اپنے لیے میں کی بجائے ہم استعمال کیا؟” لیکچرار نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا جس میں کچھ طالب علموں کی گھٹی گھٹی ہنسی کا عنصر بھی شامل تھا۔
“اپنا اپنا نظریہ ہے نا سر! آپ عصفورہ مہرالنساء سن کر ایک فرد کو دو افراد میں بانٹنا چاہ رہے ہیں اور ہم یعنی میں، عصفورہ مہرالنساء کہہ کر دو شخصیتوں کو ایک شخص یعنی خود میں جمع کر لیتے ہیں۔ مہرالنساء ہماری والدہ کا نام ہے۔ اور دوسری بات: آپ بھی تو واحد آدمی ہیں لیکن ہم سب طالب علم آپ کے لیے صیغۂ واحد متکلم یعنی ‘تم’ کی بجائے’آپ’ استعمال کر رہے ہیں کیوں کہ آپ کو عزت دینا مقصود ہے۔ تو اگر اردو کی تعظیم دیتی اس رعایت سے سامنے والا فائدہ اٹھا سکتا ہے تو پھر میں بھی تو خود کو احتراماً “ہم” کہہ سکتی ہوں نا۔ ہاں البتہ انگریزی میں معاملہ مختلف ہو گا۔ آپ معتبر ہو کر بھی تم ہی رہیں گے اور میں خاص ہو کر بھی میں۔ ” وہ اپنے حواس میں آچکی تھی۔
“بہت خوب! لیکن “محترم” مس عصفورہ! دنیاتو شناخت کے لیے باپ کا نام چُنتی ہے، پھر آپ کا انتخاب والدہ کیوں؟” لیکچرار نے اب دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔ لگ بھگ سب طالب علم بھی پوری طرح متوجُّہ اس انتظار میں تھے کہ اب کی بار وہ اپنے پٹارے سے کیا جواب نکالتی ہے۔
“سر یوں تو ہم ‘میرا نام، میری مرضی’ کہہ کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ لیکن آپ نے پوچھا تو ہم بتائیے دیتے ہیں، ہمارے والد ہماری پیدائش سے قبل ہی انتقال کر گئے تھے۔ ہم نے ہمیشہ، ہر حال میں بس اپنی ماں صاحب کو ہی اپنے ارد گرد پایا ہے۔ سو ہم ان کا نام اپنے نام سے جوڑے رکھنا چاہتے ہیں کہ بظاہر وہ ہمارے پاس نہ بھی ہوں تو بھی ان سے منسوب ہونے کا احساس ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے۔ ” اب وہ خیالات میں اُلجھی غائب دماغ لڑکی سے بالکل مختلف نظر آ رہی تھی۔
“آپ سے گفتگو خوش گوار معلوم ہو رہی ہے۔ میں نے تو بس آپ کا ظاہری حلیہ دیکھ کر آپ کو منفرد لڑکی کہا تھا لیکن اب لگ رہا ہے کہ آپ واقعی منفرد ہیں۔” پروفیسر نے اُس کے عبایا اور نقاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ “آپ ہم سے شئیر کرنا چاہیں گی کہ اپنے نام کی طرح آپ نے اس حلیے کا انتخاب کیوں کیا؟ یا کس کے کہنے پر کیا؟”چونکہ کلاس کی اکثریت لڑکیاں مغربی طرز کا لباس پہنے ہوئے تھیں اور جو چند ایک شلوار قمیص میں تھیں وہ بھی یوں کہ دوپٹے سے عاری یا برائے نام۔ ایسے میں اُس کا عبایا میں ہونا، اُس پر مستزاد کہ دو روشن حجابی آنکھوں کے سوا چہرہ بھی نقاب میں ڈھکا ہوا، منفرد تو تھا۔
“بہت شکریہ! ہم بھی یہی چاہتے ہیں، کہ ہمارے ظاہر کی بنا پر ہمارے اچھے یا بُرے ہونے کا تعین نہ کیا جائے۔ کیوں کہ ہم کسی کو بھی ظاہری کسوٹی پر پرکھنے کے قائل نہیں۔ کہ ظاہر کی کسوٹی بڑی ناقص ہے۔ کہ ظاہر تو بس ایک ملمع ہے۔ اور دوسری بات: ضروری نہیں کہ ہر حجابی لڑکی کے پیچھے ایک ظالم مرد ہی ہو جو اسے ایسا کرنے پر مجبور کرے۔ یہ ہمارا ذاتی انتخاب ہے۔ بغیر کسی مذہبی بحث میں پڑے ہم صرف اتنا کہنا چاہیں گے کہ کچھ خواتین جو ہماری آئیڈیل ہیں، اُن کا لباس بھی یہی تھا اور ہیروز کو فالو کرنا تو ٹرینڈ ہوتا ہے نا۔ اور پھر کیا یہ سوچ لطف نہیں دیتی کہ کوئی آپ کو اُس سے بڑھ کر نہیں دیکھ سکتا جتنا آپ دکھانا چاہیں جیسے کوئی آپ کو جان نہیں سکتا اُس سے بڑھ کر جتنا آپ چاہیں کہ وہ آپ کو جانیں۔ ” وہ دھیمے لہجے، شستہ زبان میں کہتی چلی جا رہی تھی۔ لیکچرار سمیت کچھ نگاہوں میں اُس کے لیے ستائش تھی، کچھ میں حسد اور کچھ میں رشک۔ لیکن وہ نظروں میں بہ ہرحال آ چکی تھی۔
….
“واہ یار تم تو بڑی پہنچی ہوئی چیز نکلی۔ مجھے تو لگا ایویں ای کوئی بونگی سی لڑکی ہو گی۔ پر مان گئے بھئی۔ اچھی گزرے گی تمھارے ساتھ۔ “کلاس سے نکلتے ہی رمشہ نےچہکتے ہوئے، زبردستی اُس کا بازو دونوں ہاتھوں سے تھامتے ہوئے کہا۔ “تمھیں پتا ہے؟ سارے لڑکے اور وہ بھی اتنے ہینڈسم ہینڈسم لڑکے، یوں مُنھ کھولے تمھیں دیکھ رہے تھے نا کہ پوچھو مت۔ ” رمشہ نے آنکھیں پھیلا پھیلا کر قدرے سرگوشی کے انداز میں یوں بتایا گویا کائنات کا کوئی راز فاش کر دیا ہو۔ بل کہ قدرے خوشامدانہ انداز میں کہ جیسے انعام کی چاہ میں حواری بادشاہ کو بتاتے ہیں۔
“تو؟” عصفورہ جواب میں بس اتنا ہی کہہ پائی۔
رمشہ نے ایک دم سے اُس کا بازو چھوڑا اور سکتے کے عالم میں یوں عصفورہ کو دیکھنے لگی جیسے یہ وہ آخری ردِ عمل بھی نہ تھا جس کی وہ توقع رکھ سکتی تھی۔ “کچھ اندازہ بھی ہے تمھیں، کیسےشان دار لڑکے ہیں ہماری کلاس میں۔ ایک سینئر کہہ رہی تھی کہ کبھی کسی کلاس میں اتنے کلاسی لڑکے ایک ساتھ نہیں ہوئے جتنے ہماری کلاس میں ہیں۔ اور یہ جو اتنی لڑکیاں، اتنا میک اَپ اور اتنے جتن کر کے بیٹھی تھیں، کس کے لیے تھا؟ انھی لڑکوں کے لیے تو تھا کہ کوئی اچھا شکار پہلے ہی دن مل جائے۔ اور تم جو بغیر کسی تردد کے اتنے مداح مل رہے ہیں، کوئی پروا ہی نہیں؟”رمشہ بے یقینی کے عالم میں قریباً چیختے ہوئے اُس کو کچھ سمجھا یا جتا رہی تھی۔
“تو کیا اب ہمارے پاس صرف یہی ایک کام رہ گیا ہے کہ جنسِ مخالف کی پسندیدگی کو اپنا معیار بنالیں؟ اگر لڑکی ہے تو لڑکوں کو پسند آجانا اس کی کام یابی ہے اور اگر لڑکا ہے تو لڑکیوں کی نظروں میں آجانا اُس کی کامرانی؟” عصفورہ نے چلتے چلتے تاسف کے سے انداز میں پوچھا۔
“ایک تو تم باتیں بہت مشکل کرتی ہو۔ ” رمشہ سے بروقت کوئی جواب نہ بن پڑا تو جھنجلا کر کہا۔ “اچھا سنو! یہ کہیں تم اپنے نقاب یا مذہب وغیرہ کی وجہ سے تو نہیں کہہ رہی؟” رمشہ نے ایسے فخریہ انداز میں سرگوشی کر کے پوچھا جیسے برمودا ٹرائی اینگل کا مخمصہ حل کر دیا ہو۔
“جس کے لیے لڑکوں کی توجہ اہم نہیں ہے، اُس کے لیے نہیں ہے۔ پھر چاہے وہ نقاب پہنے یا منی سکرٹ۔ مسلمان ہو یا نہ ہو۔ ضروری نہیں کہ ہمارا میک اَپ کرنا یا اچھے سے رہنا حتیٰ کہ نقاب اوڑھنا ہر بار کسی کو دکھانے کے لیے یا متاثر کرنے کے لیے ہی ہو۔ یہ ذاتی خوشی کے لیے بھی کیے جا سکتے ہیں پیاری!” عصفورہ نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے مخلصانہ انداز میں رمشہ کا ہاتھ پکڑ کر سمجھاتے ہوئے کہا۔
“لیکن۔ ” ابھی رمشہ کچھ کہہ ہی رہی تھی یک دم راہ داری میں افراتفری مچی۔ یوں جیسے اچانک چھاپہ پڑجانے پر تجاوزات والے دکان دار واویلا مچاتے ہوئے دوڑتے بھاگتے ہیں۔ عصفورہ دیکھنے کے لیے مُڑی، لیکن مڑتے ہی کسی سے ٹکرا گئی۔ کسی ایسے سے جسے شاید عصفورہ کے یوں مُڑنے کی امید نہ تھی۔
“ابے یار! کیا مصیبت ہے؟” اپنی رفتار میں بھاگتا، لوگوں سے الجھتا ایک البیلا سا نوجوان، عصفورہ سے ٹکرا کر گرتے گرتے بچا۔ اس سے پہلے کے اُس کے مُنھ سے کسی قسم کی مظلظات برآمد ہوتیں، اُس کی نظریں عصفورہ کی حجابی نگاہوں سے ٹکرائیں۔ لمحے بھر کے لیے اُس کی آنکھوں کا تاثر بدلا۔
“ارے یہ تو تم ہو۔ فین ہوگیا بھئی آج تو میں تمھارا۔ “لڑکا آنکھیں پھیلا کر شرارت اور جوش بھرے لہجے میں یہ کہتے ہی کچھ یاد آ جانے پر سرپٹ بھاگ کھڑا ہوا۔
“ابھی ذرا جلدی میں ہوں۔ لیکن تمھارا آٹو گراف لینے ضرور آؤں گا۔ چھوٹی چڑیا!” بھاگتے ہوئےاُتھل پُتھل لہجے میں بلند آواز میں کہتا وہ لمحہ بھر میں راہ داری سے غائب ہوگیا۔ اور عصفورہ بس ساکت کھڑی دیکھتی رہ گئی۔ جیسے سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو کہ یہ کیا تھا؟
“تم ٹھیک ہو؟ کہیں لگی تو نہیں تمھیں۔ کچھ نہیں ہو سکتا اس کا۔ جاہل نہ ہو کہیں کا۔ ” رمشہ نے فکر مندی سے عصفورہ کا بازو ہلاتے ہوئے پوچھا اور ساتھ ہی ساتھ جا چکے نوجوان کو صلواتیں سنانا نہ بھولی۔
“آپ جانتی ہیں اسے؟ اور ویسے بھی ابھی آپ ہی توان لڑکوں کی شان میں قصیدے پڑھ رہی تھیں نا، اب اسے جاہل کہہ رہی ہیں۔ “عصفورہ نے چند ثانیے قبل ہوئے واقعے کو بھلاتے، بے پرواہی سے کہا۔ اور سر جھٹکتے چل پڑی۔
“اسے کون نہیں جانتا؟ یہ اور میرا بھائی دونوں ایک ساتھ پڑھتے تھے اسی کلاس میں۔ میرا بھائی پچھلے سال کا پاس آؤٹ بھی ہو چکا ہے اور یہ ابھی بھی اسی کلاس میں ہے۔ پِیروں کے گھرانے سے ہے۔ پیرشاہین اظہار نام ہے اس کا۔ پر مجال ہے جو ایک بات بھی مسلمانوں بل کہ انسانوں والی ہو اس میں۔ ایک نمبر کا فلرٹ انسان ہے۔ یُونی ورسٹی کا ہر شریف انسان اس سے پریشان ہے۔ ہماری سوچوں سے بھی اوپر کی بلا ہے یہ۔ ” رمشہ کسی رٹے رٹائے سبق کی طرح اُسے بتاتے ہوئے ساتھ چلتی جا رہی تھی۔ کینٹین میں پہنچ کر بھی رمشہ کا شاہین نامہ ختم نہیں ہوا تھا۔ لیکن عصفورہ کے لیے یہ ایک نہایت غیر اہم موضوع تھا، سو وہ اپنے خیالات کی گٹھڑی اٹھائے سوچوں کی وادی کو چل نکلی۔
….
“کہاں غائب تھے تم؟ ہوا کیا تھا تمھیں۔ ؟کمینے۔ یوں آندھی طوفان کی طرح کدھر نکل گئے تھے۔ کوئی اندازہ بھی ہے تمھیں۔ ہم کتنا پریشان تھے۔ اوپر سے جناب کی گاڑی بھی غائب، فون بھی بند۔ پھر رات بھر ہاسٹل بھی نہیں آئے۔ اور اب بتیسی نکالے آن دھمکے ہیں۔ یہ چل کیا رہا ہے شاہین صاحب۔ ؟” اگلے دن یُونی ورسٹی میں اس کے قدم دھرتے ہی دوستوں سے اسے گھیر لیا اور آنکھیں چھوٹی کر کے مشکوک انداز میں اسے گھورتے ہوئے سوالوں اور جھڑکیوں کی بوچھاڑ کر دی۔
“رُکو ذرا، صبر کرو۔ بتاتا ہوں۔ سب بتاتا ہوں۔” شاہین نے مصالحانہ انداز میں دونوں ہاتھ اوپر کرتے ہوئے کہا۔ “بڑے بھیا آئے ہوئے تھے۔ ان سے ملنے گیا تھا۔ جلدی میں اس لیے تھا کہ بھیا پہلی بار اتنا سفر کر کے گاؤں سے یہاں آئے تو مجھے لگا کچھ بہت اہم ہو گا۔ بس پھر انھی کے ساتھ تھا۔”
“واہ تم نے کہا اور ہم نے مان لیا۔ مانا کہ گدھے ہیں ہم پر اتنے بھی نہیں۔ اوریہ کیا نئی بونگی ہے۔ بھیا آئے۔ بھئی کہاں آئے۔ گاؤں سے آگئے، یُونی ورسٹی نہیں آ پائے۔ اُس کے لیے شاہین صاحب کو خود جانا پڑا۔ واہ۔ یہ مان بھی لیا جائےتو فون بند ہونے اور رات بھر رُوپوش رہنے کی کیا وضاحت کریں گے آپ۔ اس کے لیے کون سی کہانی گھڑ رکھی ہے آپ نے۔ ” اُس کے دوست تا حال رتی برابر یقین نہ کرتے ہوئے اُسے گھورے جارہے تھے۔
“خدا کا خوف کرو یار۔ پہلے میں نے کبھی تم لوگوں سے جھوٹ بولا ہے جو اب بولوں گا۔ یہی سب ہوا ہے۔” شاہین نے صدمے سے سب کی طرف دیکھتے ہوئے صفائی دیتے کہا۔ “یاررر! اصل میں بھیا کو جانتے تو ہو تم لوگ۔ کیسے لڑکیوں سے بچتے ہیں اور اوپر سے اپنی یُونی ورسٹی کا ماحول بھی تم لوگوں کے سامنے ہے۔ اور بھیا ٹھہرے اپنے ایمان کی، آنکھوں کی حفاظت کرنے والے۔ کھی کھی کھی۔ سو مجھے حکم ملا کہ میں اس کفر سے بھرپور جگہ سے کہیں باہر ملوں انہیں۔ اور پھر یہاں شہر میں انہوں نے کل ہی ایک گھر لیا ہے۔ وہ تو شروع سے کہتے تھے کہ ہاسٹل کی بجائے مَیں کسی اپنے گھر میں رہوں، مَیں ہی منع کرتا رہا۔ لیکن اب کہہ رہے تھے کہ انھیں یہاں شہر میں کچھ کام ہے ہوسکتا ہے پھر آنا پڑے تو اپنا گھر ہونا چاہیے، سو ہم پھر دونوں بھائی وہیں تھے۔ اور بھیا کی مجھ سے محبت کو بھی تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو۔ تو میں نے نہیں چاہتا تھا کہ تم لوگ بار بار مجھے فون کرو اور بھیا کو برا لگے یا وہ سمجھیں کہ وہ میری روٹین خراب کر رہے ہیں۔ ہم دونوں بھائی بس کچھ وقت ایک ساتھ گزارنا چاہتے تھے۔ بہت ساری باتیں تھیں اور ہم تھے۔ اب آگے تم لوگوں کی مرضی، یقین کرو نہ کرو۔ ” شاہین نے اب برا سا مُنھ بنا کر کہا۔
“کچھ زیادہ ہی دین دار نہیں تمھارے بھیا؟ ہمیں بہت حد تک تو تمھارے گھر کے مذہبی ماحول کا پتا ہے لیکن یہ تو کچھ زیادہ ہی احتیاط نہیں ہے” ایک دوست نے اب بات بدلتے شوخ انداز میں آنکھ مارتے ہوئے کہا۔
“اور نہیں تو کیا۔ مجھے نہیں لگتا بھابھی اور ماں جی کے علاوہ انہوں نے کبھی کسی لڑکی کوجی بھر کے چھوڑو، آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا ہو۔ ہمیں تو بھئی جنت میں بھیا ہی لے کر جائیں گے۔ ورنہ اپنے چانسز تو کم ہی ہیں۔” شاہین نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
“خیر پِیر زادوں کو بات بھی یہی جچتی ہے۔ اب پِیر شاہین اظہار جیسے لوگ تو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں نا۔ خاندان کے نام پر دھبہ۔ پڑھائی میں فیل، عیاشیوں میں فرسٹ۔ یار پتا نہیں کس پر چلے گئے ہو تم؟” ایک دوسرے دوست نے بھرپور قہقہے کے ساتھ اُس کے اوصافِ جمیلہ گنوانا شروع کیے۔” اور یہی اگر غلطی سے بھی تمھارے والدین زندہ ہوتے۔ یا تم بھیا کے سگے بھائی ہوتے نا۔ پھر ہم دیکھتے تمھیں اتنی چھوٹ کون دیتا۔ تمھارے تایا پِیر سلطان یا تمھارے کزن بھیا پِیر شہوارسلطان۔ تم تو شکر۔ “
“کیا بکواس کر رہے ہو۔ ہاں۔ بھیا میرے بھیا ہیں اور تایا میرے بابا۔ سگوں سے بڑھ کر ہیں۔ آئندہ یہ بات تمھارے مُنھ سے بھی۔” طیش میں اس کا گریبان تھامے وہ کہہ ہی رہا تھا کہ ایک طرف دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔” شکر کرو بچ گئے۔ میں آتا ہوں ابھی۔ “یہ کہتےہی وہ سارا غصہ بھول کر ہوا کی رفتار سے آگے نکل گیا۔ اور دوست بس ایک دوسرے کا مُنھ دیکھ کر رہ گئے۔ یہ لڑکا کیا آئٹم ہے یار؟
….
“ہائے چھوٹی چڑیا! کیسی ہو؟”عصفورہ اپنے دھیان کلاس کی طرف جارہی تھی جب اچانک کسی کے یوں بلانے پر حیران رہ گئی۔ مُڑ کر دیکھا اور شاہین کو پہچاننے میں کچھ لمحے لیے۔ بالآخر کل کے مناظر ذہن کے کینوس پر ابھرے۔
“تمھارے نام کا مطلب چڑیا ہی ہے نا ؟اور مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں یعنی پیر شاہین اظہار کسی سے کہوں کہ میں اس کا فین ہوں اور اگلے ہی دن وہ لڑکی مجھے پہچاننے میں اتنا وقت لے۔ ” شاہین نے مصنوعی خفگی سے سر ہلاتے ہوئے عصفورہ کے ساتھ چلنا شروع کر دیا۔
“ہاں قریباً یہی معنی ہے۔ اوراکثر وہی باتیں یا حالات ہمارے منتظر ہوتے ہیں جن کا ہمیں بالکل اندزہ نہیں ہوتا۔ ” عصفورہ نے اپنا نقاب درست کرتے ہوئے لاپرواہی سے کہا۔
“واہ! کیا بات ہے۔ ایک بات تو بتاؤ؟ یہ تم کیا ہر بات یونہی فلسفے میں ہی کہتی ہو۔ میں کبھی اپنے بھیا سے ملواؤں گا تمھیں۔ وہ بھی ایسی خشک باتیں بڑے شوق سے کہتے اور سنتے ہیں۔ لیکن نہیں پہلے میں سوچ رہا ہوں کہ بابا جان سے ملواؤں۔ تم نا ،وہ جو کل باتیں کررہی تھی نا ظاہر باطن والی! وہ نا ذرا تفصیلی روشنی کے ساتھ اُن کو سنا دینا تا کہ ان کو ذرا تسلی ہو کہ میں بھی نا بس اوپر اوپر سے ہی برا ہوں۔ اگر تم نےان کو یہ سمجھا دیا نا۔ یقین مانو عمر بھر یہ پِیر تمھارے پَیر دھو دھو پیے گا۔ بشرطیکہ وہ خوبصورت ہوں۔ ہی ہی ہی۔ “شاہین اُس کی عدم دلچسپی کو محسوس کیے بغیر یوں بولے چلے جارہا تھا جیسے وہ دونوں تو بچپن سے ایک ہی آنگن میں پلے بڑھے ہوں۔ اور عصفورہ اُس کی باتوں کو لگ بھگ اَن سنا کرتی چلتی جارہی تھی۔
“اچھا سنو!” شاہین ایک دم اُس کے عین سامنے آن کھڑا ہوا۔ “ایک چھوٹا سا کام تو کردو۔ یونہی خدمتِ خلق سمجھ کر۔ وہ میں کہہ رہا تھا کہ اگر تم مجھ سے ذرا سی شادی کر لو تو کیسا رہے گا؟” شاہین نے اُس کی حجابی آنکھوں میں اندر تک جانکتے ہوئےچہکتے لہجے میں کہا۔ لیکن اُس کی آنکھوں میں کوئی ایسا تاثر ضرور ابھرا کہ گردشِ ماہ و سال کو روک دیتا۔ کم ازکم شاہین کو ایک لمحے کے لیے یونہی محسوس ہوا۔ وہ جو کب سےاِس عجیب و غریب، بن بلائے دوست کی باتیں لاپرواہی سے سن رہی تھی ، پہلے اس کے ایکدم یوں سامنے آجانے پر اُس سے ٹکراتے ٹکراتے بچی اور اس سے پہلے کہ وہ اس حرکت پر کچھ کہہ پاتی، وہ لڑکا ایک نیا مدعا اُس کے سامنے کھول چکا تھا۔ مدعاء مہر و وفا۔ ہاں نا! عصفورہ کے لئے تو رشتۂ ازدواج یہی تھا۔ مدعاء مہر و وفا۔ اس نے آج تک اپنی محبت و اُلفت کو اسی ایک رشتے کے لیے تو بچا رکھا تھا۔ لیکن یہ کون تھا جو ایسے معتبر تعلق کو سرِ بازار، یوں بے مول کر رہا تھا۔ جیسے عیار دکاندار کی طرح کہہ رہا ہو، “آ جاؤ باجی! دیکھنے کا کوئی مول نہیں! ہمارے پاس ہر قسم کی ورائٹی ہے!آجاؤ! “یہ مذاق تھا تو بہت بُرا تھا۔ سچ تھا تو بڑا بھیانک تھا۔ ۔
“دیکھو! سنو! میری بات سنو!” شاہین نے اُس کی خاموشی سے کچھ حوصلہ پا کر بات جاری رکھی۔ “کل جب تم سے ٹکرایا تو بھیا سے ملنے جا رہا تھا۔ مجھے اس یُونی ورسٹی میں پڑھتے ہوئے لگ بھگ چار پانچ سال ہو گئے ہیں، اور بھیا پہلی بار مجھ سے ملنے اتنی دور آئے اور آکر بس یہی ایک فرمائش کی کہ مَیں جلد از جلد شادی کر لوں چاہے جس سے بھی کروں وہ میرے ساتھ ہوں گے۔ اس دفعہ بابا جان بہت تپے ہوئے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ بابا وہیں گاؤں سے کوئی لڑکی، کوئی اپنےمزاج کی میرے سر تھوپ دیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ مجھے کوئی ایک پسند ہو تو انہیں بتاؤں نا۔ ہی ہی ہی۔ پھر میری پسند کی لڑکیاں بابا جان کو ایک آنکھ نہیں بھائیں گی اور ویسے بھی وہ سب بات شات کے لیے تو ٹھیک ہیں، لیکن پِیر زادے سے شادی کے لیے نہایت نامناسب۔ تو اس ساری صورتحال میں تم سے بہتر آپشن کون ہوسکتا ہے یار۔ تم سے شادی کے فائدے ہی فائدے ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ اپنی مرضی سے شادی کرنے پر بابا کی طرف سے جو غصہ یا ناراضی مجھے سہنی ہی سہنی ہے، وہ تمھیں، تمھارا لباس، شخصیت وغیرہ دیکھ کر سب اُڑن چھو ہوجائے گی۔ بل کہ مجھے تو یہ تک لگتا ہے کہ میرا انتخاب دیکھ کر بابا جان میرے تمام گزشتہ گناہ بھی معاف کرنے پر تیار ہو جائیں گے۔ کہ “بیٹا کیا ہیرا چُنا ہے واہ! لاؤ ماتھا ادھر لاؤ! ” کھی کھی کھی۔ اور دوسرا فائدہ، چونکہ تمھارا وہ ظاہر اور باطن والا پوائنٹ کلیئر ہے اور تم ظاہر پر کسی کو جج نہیں کرتی تو مجھے پکا یقین ہے کہ روایتی بیویوں کی طرح میری آزادی یا میرے دوستوں کے بقول میری عیاشی پر روک ٹوک نہیں کرو گی۔ ہے نا؟ ایک تیسرا فائدہ بھی ہے لیکن فی الحال چھوڑو اُسے۔ اچھا تو میں کہہ رہا تھا کہ کل جب بھیا اتنی تاکید سے شادی کا کہہ رہے تھے تو پتا نہیں کیوں میری ذہن میں تمھاری وہ ٹکڑ کے بعد والی حیران حجابی آنکھیں آئی تھیں۔ اب ذرا سوچو تو! بھیا کا عین تم سے ملاقات والے دن آنا،اُن کو ملنے سے پہلے میرا تم سے ٹکرانا، بھیا کے ساتھ میں اپنے جگری دوستوں کو بھی بھول جاتا ہوں، ایسے میں تمھارا یاد آجانا اور آج یُونی ورسٹی پہنچتے ہی سب سے پہلےمجھے تمھارا نظر آ جانا، یہ سب کیا ہے؟ میں نے تو یہی کہوں گا کہ قدرت مجھے اشارے دے رہی ہے۔ ہاں یہ بات بھی سچ ہے کہ میں یہ بات کچھ عرصہ بعد بھی تم سے کر سکتا تھا لیکن کیا ہے نا کہ بھیا آج یہیں اسی شہر میں ہیں۔ توکیوں نا آج ہی تمھیں ان سے ملوا دیا جائے تا کہ وہ اطمینان سے واپس جا سکیں، کہ اُن کے لاڈلے بھائی نے اُن کی بات فوراً مان لی ہے۔ تا کہ وہ گھر پہنچ کر پہلے سے بھی زیادہ زور و شور سے میری وکالت کر سکیں۔ اور ہاں یاد آیا! بدلے میں جو تم کہو، سب منظور ہے۔ جو میرا ہے وہ سب تمھارا ہی تو ہو جائے گا۔ تو پھر کیا خیال ہے؟ میں خاموشی کو رضا مندی سمجھوں؟ ہی ہی ہی!” شاہین کسی لاابالی نوجوان کی طرح مسلسل ہلتا ہوا، اردگرد سے بے خبر،کھنکتی آواز اور چمکتی آنکھوں سے اپنی رو میں بولے چلا جا رہا تھا۔ ساتھ وہ کسی قدر حیران بھی تھا کہ لیکچرار کے ایک سوال کے جواب میں دو جواب دینے والی لڑکی خاموش بالکل خاموش، حجابی آنکھوں سے یک ٹک اسے دیکھے کیوں جا رہی ہے؟”یہ آنکھیں! ہاں یہی۔ میں نے پہلے انھیں کہیں دیکھا ہے۔ لیکن کہاں؟ یاد نہیں۔ “شاہین نے ایک پل کے لیے سوچا۔ اور پھر عصفورہ کی طرف جواب کے منتظر کسی ایسے بچے کی طرح دیکھنے لگا جو ہر اوٹ پٹانگ سوال پر ایک تسلی بخش جواب چاہتا ہے۔
“پہلے ہمیں لگا کہ وہ کچھ بیچ رہا ہے۔ لیکن اب سمجھ آیا کہ وہ تو خرید رہا ہے، ہاں نا، ہمیں خرید رہا ہے۔ جیسے کوئی قربانی کے لیے دیکھ بھال کر جان ور خریدے۔ اُس کے دانت، کان، سینگ دیکھ کر۔ ایسے ہی عصفورہ مہرالنساء کو بھی اُس کے لباس، نقاب اور عمدہ بول چال کی بناء پر خریدا جا رہا تھا۔ یا کسی بادشاہ کے حضور عصفورہ نامی پرندے کی قربانی پیش کی جائے گی سو پرندہ اچھا، خوش شکل اور خوش الحان ہونا چاہیے تا کہ بادشاہ خوش ہو کرایسا بیش قیمت ہدیہ دینے والے کو، یعنی پِیر شاہین اظہار کومالا مال کردے۔ ماں صاحب نے سچ کہا تھا”دنیا کاطریقۂ واردات بدل سکتا ہے، واردات نہیں!” واردات ہو چکی تھی۔ تو عصفورہ مہرالنساء یہی ہے آپ کی اوقات! کہ آپ کو شریکِ حیات بنانے کے لیے کسی کہ پاس یہی دو وجوہات ہیں، اول کہ وہ آپ کو اپنے مہذب، دین دار معاشرے میں پیش کر کے نیک نامی بٹور سکے۔ اور دوسرا اُس کی عیاشیاں بھی بدستور جاری رہیں۔” عصفورہ کے دماغ میں سوچوں کے جھکڑ چلنے لگے۔ مانا کہ غیر متوقع حالات ہمارے منتظر ہوتے ہیں لیکن ایسے غیر متوقع؟ ایسا لگ رہا تھا کہ یُونی ورسٹی کی پوری عمارت کسی اچانک زلزلے میں اُس پر آن پڑی ہے۔ اور وہ زمین بوس عمارت کے ملبے تلے دبی محض اپنی حجابی آنکھوں سے اوپر کہیں نیلا آسمان ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہے۔
” کبھی کسی طوائف کو بھی یوں نیلام نہ کیا گیا ہو گا جیسے وہ ہو رہی تھی۔ طوائف؟ کیا وہ اسے طوائف سمجھ رہا تھا؟ کیا وہ طوائف تھی؟” اس خیال کے آتے ہی ملبے تلے دھبی عصفورہ کو یک لخت آسمان نظر آ گیا۔ اُس کے اعضا حرکت میں آئے اور وہ ایک دم سے ملبے کو دھکیلتی ،اٹھ کھڑی ہوئی۔ پچھلے پانچ منٹ سے بے حس و حرکت کھڑی عصفورہ پر ایک ہذیانی کیفیت طاری ہوئی۔ اور حجابی آنکھیں جو کب سے بالکل ساکت تھیں حقیقت کا ادراک کرتے ہی غم و غصے سے پھڑکنے لگیں۔ شاید آنکھوں کے بدلتے اس تاثر کو دیکھ شاہین کسی نتیجے پر پہنچتا، مگر اس سے پہلے ہی عصفورہ نے اپنی تمام قوت یک جا کر کے، پوری نفرت اور شدت سے ایک طمانچہ شاہین کے مُنھ پر دے مارا۔ وہ تھپڑ ایسا تھپڑ تھا کہ نہ صرف شاہین بل کہ وسیع گراؤنڈ میں موجود طالب علموں، درختوں حتیٰ کہ پرندوں تک کو ساکت اور حیران کر گیا۔ اور یہ سکوت بالکل زمین کے سکوت جیسا تھا۔ حقیقت میں اتنی رفتار سے حرکت کرتی لیکن بظاہر ساکن محسوس ہوتی زمین سا سکوت۔ شاہین کی طرح ہر کوئی اس شش و پنج میں تھا کہ بے ضرر دِکھتی اس لڑکی میں اتنی شدت آئی کہاں سے؟ اس سے بھی اہم سوال: کیوں؟
“ہم طوائف نہیں ہیں! سمجھے آپ! نہیں ہیں ہم طوائف!” لڑکھڑاتی مگر پُر عزم آواز میں عصفورہ نے لگ بھگ چیختے ہوئے کہا۔ جیسے شاہین سے زیادہ وہ خود کو اس بات کا یقین دلانا چاہ رہی ہو۔ آواز میں زمانوں کا کرب تھا۔ ایسا کرب کہ سب لوگ پوری بات جانے بغیر ہی سہم گئے۔
——————
“مجھے نہیں پتا کہ اُس نے تم سے کیا کہا۔ یقیناً کوئی بہت گھٹیا بات ہی کی ہوگی جو تمھیں اتنا غصہ آ گیا۔ پر دیکھو میں تمھاری فکر میں یہ کہہ رہی ہوں، تمھیں کم از کم اسے تھپڑ نہیں مارنا چاہیئے تھا۔ ” رمشہ اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سہلاتے ہوئے پریشانی سے کہہ رہی تھی۔ عصفورہ مسلسل چپ، دور کہیں خلا میں دیکھ رہی تھی۔ رمشہ کو یہ بھی گمان گزرا کہ شاید عصفورہ اُس کی کہی باتوں کو سرے سے سن ہی نہیں رہی۔ لیکن وہ پھر بھی بول رہی تھی۔ فکر سے، تسلی سے۔ “اُس کمینے کی شخصیت کو دیکھ کر کوئی بھی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اُس نے تم سے کیا کہا ہو گا۔ یُونی ورسٹی کی سب لڑکیوں کو تو وہ اپنی ملکیت سمجھتا ہے اور اوپر سے یہ کم بخت لڑکیاں، اُسے منع بھی تو نہیں کرتیں۔ اب ایسے میں صرف تمھارا مُنھ زبانی انکار ہی اُس کی انا کو بھڑکانے کے لیے کافی تھا۔ لیکن تم نے تو پورے کا پورا تھپڑ ہی دے مارا۔ وہ بھی پوری یُونی ورسٹی کے سامنے۔ وہ اس بات کو ہضم نہیں کرے گا۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ تمھیں کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔ تم سن رہی ہو نا میں کیا کہہ رہی ہوں؟” رمشہ خاصی ڈری اور متفکر لگ رہی تھی۔
….
“مجال ہے جو کچھ پتا ہو اس لڑکے کا کہ کہاں غائب ہو گیاہے۔ ؟ ہمیں کسی کتے نے کاٹا ہے جو پچھلے دس بارہ گھنٹوں سے ہلکان ہوئے جارہے ہیں۔ آخر ہوا کیا تھا۔ ؟ شاہین نے اُس کو کہا کیا تھا۔ ؟اور یہ لڑکا کب سے چپ چاپ چانٹے کھانے لگا۔ ؟اس نے کچھ کہا کیوں نہیں اُس لڑکی کو۔ اور ذرا ہمت تو دیکھو اُس کی۔ ” اُس واقعے کے فوراًبعد شاہین بنا کچھ کہے سنے یُونی ورسٹی سے نکل گیا۔ اُس کے دوستوں نے تعاقب کی کوشش کی مگر بے سود۔ رات کے گیارہ بج رہے تھے اور ابھی تک اُس کا کچھ اتہ پتا نہیں تھا۔ باہر بارش اپنے زوروں پر تھی۔ سارا دن شاہین کی تلاش میں خوار ہونے کے بعد اب اُس کے سب دوست ہاسٹل کے کمرے میں اُس کے لیے پریشان ہورہے تھے۔ وہ کبھی اُس کی ہمدردی میں عصفورہ کو جھڑکنے لگتے تو کبھی شاہین کی مردانگی پر سوال اٹھاتے۔ “ایسی ہی دیندار ہے تو لڑکوں میں کیا کر رہی ہے۔ پردہ کر کے گھر بیٹھے نا۔ ڈھکوسلے ہیں سب۔ ٹھیک ہے اگر شاہین نے کوئی تھوڑا بہت فلرٹ کر بھی دیا تو کیا ہوا۔ اندر سے سب لڑکیاں یہی تو چاہتی ہیں۔ اس میں تھپڑ مارنے کی کیا بات تھی۔ لیکن اپنے شہزادے کو بھی تو دیکھو نا۔ اس کو کس کم بخت نے مشورہ دیا تھا پوری یُونی ورسٹی کی لڑکیوں کو چھوڑ کر جو اِس کے ایک اشارے پر مرتی ہیں اُس ستی ساوتری کے پاس جائے۔ جس کے بارے یہ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ خوب صورت ہے بھی یا نہیں۔ ۔ ہاں نا! یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اُس کے پاس باقی لڑکیوں کی طرح دکھانے کو خوب صورت چہرہ، ملائم بال، درست دانت ہوں ہی نا۔ جبھی تو خود کو بوری میں لپیٹ کرآتی ہے۔ لیکن اب جو ہونا تھا ہو چکا۔ اب یہ سوچو کہ کرنا کیا ہے اس لڑکی کا۔ آخر معاملہ اب غیرت کا ہے۔ بس ایک بار شاہین واپس آ جائے۔ دیکھتے ہیں وہ کیا کہتا ہے۔ باقی پھر ہم سنبھال لیں گے۔ ” اپنی اندرونی بے چینی کو مٹانے کے لیے وہ لگاتار بولے جا رہے تھے۔
….
آدھی رات گزر گئی تھی۔ جب کہ عصفورہ ابھی بھی اس کشمکش میں کروٹیں بدل رہی تھی کہ “اُسے نیند نہیں آ رہی یا وہ آج صبح سے بیدار ہی نہیں ہوئی اور جو کچھ بھی آج بیتا وہ سب کسی خواب کی کڑیاں تھیں”۔ اور پھر ایک دم کسی انجانے خوف کو محسوس کرتے ہوئے وہ اٹھ بیٹھی اور اپنی چادر درست کی۔ پھراُس نے اپنے دماغ میں ہلہ مچاتے شور سے بھی بلند شور سنا۔ آن کی آن میں کمرے کا دروازہ کھلا، گولی کی رفتار سے ایک نقاب پوش اندر داخل ہوا اور اس سے پہلے کہ کوئی کچھ سمجھ سکے کہ آخر ہو کیا رہا ہے؟ وہ عصفورہ کو بازو سے پکڑ کرقریباً گھسیٹتا ہوا باہر لے گیا۔ ایسی قیامت میں بھی عصفورہ ایک ہاتھ سے اپنا چہرہ چادر میں ڈھانکنا نہیں بھولی۔ اب تک باقی لڑکیاں بھی سہم کر جاگ چکی تھیں۔
” خدا تجھے غارت کرے،پِیر شاہین!” پیچھے کمرے میں رمشہ نے روتے چلاتے ہوئے کہا۔
لڑکے آپس میں الجھ ہی رہے تھے کہ کسی نے پوری شدت سے چھاپہ مار انداز میں کمرے کا دروازہ پاؤں کی ٹھوکر سے کھولا۔ اس دھماکہ خیز آواز پر سب چونک اٹھے اور دروازے کی طرف مُڑ گئے اور مُڑتے ہی پتھر ہوگئے۔ سامنے نظرآتا منظر سر سے آسمان اور پیروں سے زمین کھینچنے کو کافی تھا۔ شاہین بارش میں نُچڑا ہوا بانہوں میں کسی بے ہوش لڑکی کو اٹھائے ہوئے تھا۔ بظاہر وہ اس لڑکی کو نہیں پہنچانتے تھے لیکن دور اندر کہیں سب نے ہی اُس کو بغیر اُس کے نقاب اور عبایا کے بھی پہچان لیا تھا۔ البتہ چہرہ ان میں سے پھر بھی کوئی نہ دیکھ پایا۔
“باہر دفع ہو جاؤ سب!” شاہین نے کمرے میں قدم رکھتے ہی دھاڑتے ہوئے کہا۔
“شاہین! دماغ تو نہیں خراب ہوگیا تمھارا۔ کچھ اندازہ ہے تمھیں کہ کیا کر چکے ہو اور کیا کرنے والے ہو۔ ہوش میں آؤ۔ ” دو ایک لڑکے یکدم حواس بحال کرتے ہوئے شاہین کی طرف بڑھنے لگے۔ جس انتقام کا وہ سب سوچ رہے تھے وہ صرف یُونی ورسٹی تک محدود تھا۔
“اس سے پہلے کہ تم میں سے کوئی جان سے جائےسب دور ہو جاؤ میری نظروں سے!” پست بھاری آواز میں ایک ایک لفظ چباتے ہوئے، سب کی طرف ایک کٹیلی نگاہ ڈالتے ہوئے شاہین نے کہا۔ اُس کی یوں شعلے اُگلتی آنکھوں کو دیکھ یہ ڈر لگ رہا تھا کہ جو چند بھیگے بال اُس کی پلکوں کو چھو رہے ہیں کہیں آگ نہ پکڑ لیں۔ شاہین کا یہ روپ سب کے لیے نیا تھا۔ ہاں وہ شرارتی بل کہ فسادی تھا۔ دین سے دور دور تک اُس کا کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا۔ لڑکیوں سے فلرٹ کرنا بھی اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا لیکن بس یہی۔ فُل سٹاپ۔ اس سے آگے وہ کبھی نہیں گیا تھا۔ اُس کے دوست جانتے تھے اسے۔ لیکن آج، آج یہ وہ شاہین تھا ہی نہیں جس کو وہ برسوں سے پہچاننے کے دعویدار تھے۔ وہ سب اس کے غصے سے بھی واقف تھے سو حیرت و غم سے سر ہلاتے ہوئے باہر نکلنے لگے۔ تبھی شاہین نے احتیاط سے عصفورہ کو بستر پر لٹا دیا۔
….
بارش پورے جوبَن پر تھی۔ دن بھر سڑکوں کی خاک چھاننے کے بعد وہ رات کے اس پہر ہاسٹل واپس یہ سوچ کر آرہا تھا کہ اب تک تو سب لڑکے سو چکے ہوں گے۔ کیوں کہ فی الحال وہ کسی کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ بھیا کے گھر ہی چلا جاتا مگر بھیا آج ابھی وہیں تھے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ بھیا اُ س کو دیکھ کر ہی سب سمجھ جائیں۔ اسی طرح خالی الذہنی میں وہ گاڑی چلاتا اپنے ہاسٹل کے قریب پہنچ گیا تھا جب اُسے سڑک پر ، بارش میں بھیگتے ،لڑکھڑا کر چلتے کسی شخص کا گماں گزرا۔ مزید قریب جانے پر اندازہ ہوا کہ وہ نازک سی ایک لڑکی تھی، کہ جس کی بڑی سی بھیگی چادر کسی سہمے بچے کی طرح اُس کے بدن سے چمٹی ہوئی تھی۔ اور وہ باقاعدہ ننگے پیر تھی۔ بس ذرا سا مزید آگے بڑھنے پرہی وہ خدا جانے کیسے اُس لڑکی کو پہچان گیا۔ اُس کا پیر بے اختیار ہی بریک کو دباتا چلا گیا اور وہ پاگلوں کی طرح گاڑی کی دروازہ کھول کر باہر لپکا۔ وہ بمشکل لڑکی تک پہنچا ہی تھا کہ وہ بے ہوش ہو کر گرنے لگی۔ جب شاہین نے اُس کو تھام لیا۔ ایک آخری بار لڑکی نے آنکھیں کھول کر شاہین کو دیکھا اور پھر مکمل سُدھ بُدھ کھو بیٹھی۔ آنکھیں! ہاں یہی آنکھیں۔ ان آنکھوں کو تو شاہین لاکھوں میں پہچان سکتا تھا۔ کیسے؟ کیوں؟ یہ وہ نہیں جانتا تھا۔ بس پہچان سکتا تھا۔ کھلے چہرے، چادر اور شلوار قمیص میں اُس کے بازؤں میں ڈھولتی یہ لڑکی، عبایا اور نقاب میں ملبوس اُس لڑکی سے بالکل مختلف تھی جو آج صبح ہی اُسے بھری یُونی ورسٹی میں ذلیل کر چکی تھی۔ لیکن یہ آنکھیں تو ہر گز مختلف نہ تھیں۔ دور سے دیکھ کر اُسے صرف شک سا گزرا تھا لیکن ان آنکھوں کو دیکھ کر شاہین کو اس بات میں کوئی شک نہ رہا کہ یہ وہی ہے۔ پھر نہ جانے کیا سوچ کر شاہین نے چادر سے اُس کا مُنھ ڈھانپ دیا۔ بارش بدستور جاری تھی۔
….
عصفورہ! چھوٹی چڑیا! عصفورہ مہرالنساء!
شاہین اب عصفورہ کے پیر پر لگے زخم کو آہستگی سے صاف کرتااُسے ہوش میں لانے کو دھیمی دھیمی آوازیں دے رہا تھا۔ اُس کے اچانک بے ہوش ہو جانے پر سب سے پہلے اُسے ہوش میں لانا ضروری تھا اور پھر شاہین کو بہت سے سوال کرنا تھے اس لیے وہ اسے گھر کی بجائے ہاسٹل لے آیا تھا کیوں کہ بھیا کی نسبت دوستوں کو ٹالنا آسان تھا۔ ورنہ بھیا تو یوں آدھی رات میں کسی نا محرم کے ساتھ اسے ایسے دیکھ کر صدمے سے خود مر جاتے یا اُسے مار دیتے۔ پیر کےزخم پر پٹی باندھ کر اُس نے عصفورہ کے مُنھ پر ایک بار پھر پانی کے چھینٹے مارے۔ چند لمحوں میں ہی عصفورہ کے بے جان پڑے وجود میں حرکت ہوئی اور پھر ایک دم سے وہ اُٹھ بیٹھی۔ اور اردگرد اجنبی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔ قدرے بے آرامی میں اپنی چادر درست کی۔
“سب ٹھیک ہے، ہاسٹل میں میرے کمرے میں ہیں ہم۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ یہ لو پانی پیو!” شاہین نے اُسے تسلی دیتے ہوئے پانی تھمایا۔ “عصفورہ نے چپ چاپ پانی پی لیا اور چند لمحوں میں ہی قدرے سنبھل گئی۔ اتنی دیر میں شاہین نے الماری سے اپنے کپڑے اور ایک اونی شال جو نہ جانے کب سے یونہی پڑی تھی، نکال کر عصفورہ کو دئیے اور باتھ روم کی طرف اشارہ کیا۔ عصفورہ چپ چاپ کپڑے لے کر باتھ روم میں چلی گئی اور چند لمحوں بعدخشک کپڑوں میں ملبوس، بھاری مردانہ شال لیے واپس آگئی۔ تب تک شاہین بستر درست کرچکا تھا۔ اور وہ ابھی تک بھیگا ہوا تھا۔
“اب مجھے تفصیل سے بتاؤ؟ کیا ہوا ہے؟ تم اتنی رات گئے ہمارے ہاسٹل کے پاس کیا کر رہی تھی؟ اور تمھیں یہ زخم کیسے لگا؟” شاہین کے اشارہ کرنے پر وہ بستر میں گھس کر بیٹھ گئی۔ شاہین اب کھانے کے لیے کوئی چیز ڈھونڈتے ہوئے اس سے بڑی نرمی کے ساتھ پوچھ رہا تھا۔
“ہم تم سے ملنے آ رہے تھے۔ ہمیں پوچھنا تھا، کیا شادی کی پیش کش ابھی بھی برقرار ہے؟” عصفورہ نے ٹوٹے پھوٹے لہجے میں نظریں گود میں جمائے پوچھا۔
“خدا کا خوف کرو لڑکی! اتنی سی بات پوچھنے کے لیے رات کے اس پہر اپنے ہاسٹل سے ہمارے ہاسٹل آ رہی تھی؟ وہ بھی اکیلی؟ وہ بھی ننگے پیر؟ وہ بھی اتنی بارش میں؟ مانا کہ تمھارے جتنا سمجھدار نہیں ہوں پر ایسا گدھا بھی نہیں ہوں۔ سو بہتر ہو گا کہ تم کھل کر بتاؤ، ہوا کیا ہے؟” شاہین اس کے سامنے کچھ بسکٹس وغیرہ رکھ کر بیڈ کی بجائے نیچے زمین پر بیٹھ گیا۔
“پہلے آپ ہمارے سوال کا جواب دیں؟ کہ صبح جو آپ نے کہا، وہ کوئی مذاق نہیں تھا اور کیا آپ اب بھی اُس بات پر قائم ہیں؟”عصفورہ نے صبح کا منظر یاد کرتے ہوئے ڈرتے ڈرتے اُس کی جانب دیکھتے ،پوچھا۔ لمحہ بھر کو دونوں کی نظریں ایک دوسرے میں پیوست ہوئیں لیکن پھر شاہین نے ہنستے ہوئے ارتکاز توڑ دیا۔ وہ بھیگے لباس میں ٹھنڈے فرش پر بے نیاز سا بیٹھا تھا۔
“دیکھیں مس عصفورہ!پہلی بات تو یہ ہے کہ صبح جو کچھ بھی میں نے کہا وہ آپ کے تھپڑکی طرح سچ تھا۔ “شاہین مزے سے بولنے لگا اور عصفورہ لمحہ بھر کو جھینپ گئی۔ “دوسری بات، وہ کوئی وقتی فیصلہ نہیں تھا جس کو تمھارا کا ایک تھپڑ بدل دے۔ دیکھو! صاف بات یہ ہے کہ جب کلاس میں پہلی بار تمھیں بولتے سنا تھا تومجھے الہام ہوا تھا کہ اس لڑکی کا احترام مجھ پر واجب ہے۔ فیصلہ کیا کہ کلاس کے باہر کم از کم ایک بار اس سے ملنا چاہئے۔ دوسری بار جب تم سے ٹکرایا تو تمھاری آنکھیں ، ہاں یہی حجابی آنکھیں، مجھے یوں لگا کہ میں ان آنکھوں سے واقف ہوں۔ میں نے انھیں کہیں دیکھا ہے۔ تب بھاگتے ہوئے میں نے فیصلہ کیا تھا کہ جب تک تم اس یُونی ورسٹی میں ہو مجھے تم سے روز ملنا چاہئے۔ اور محترمہ جب تیسری بار آپ کے سامنے آیا ، تب تک یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ مجھے زندہ رہنے کے لیے آپ سے روز ملنا چاہئے۔ یاد ہے میں نے کہا تھا ایک تیسرا فائدہ بھی ہے۔ وہ یہی تھا کہ جن حجابی آنکھوں نے پہلے وار میں ہی مجھے گھائل کیا وہ ہمیشہ میرے رو برو رہیں۔ ” وہ نظریں نیچے جھکائے ہولے ہولے مسکراتے ہوئے کہے جا رہا تھا۔ جب کہ عصفورہ آنکھیں پھیلائے بے یقینی سے اُسے دیکھے جا رہی تھی جو پوری یُونی ورسٹی میں پلے بوائے کے نام سے مشہور تھا۔ عصفورہ کو خیال آیا کہ وہ اس کی طرف دیکھنے سے حتی الامکان گریز کر رہا تھا۔ “کیا ہم نے نقاب نہیں اوڑھا اس لیے؟” عصفورہ محض یہی سوچ پائی۔
“قصہ مختصر! تم ایک تھپڑ کی بجائے، سنگسار بھی کر دیتی تو بھی میں اپنی اس پیشکش پر قائم رہتا۔ اور اب میرا خیال ہے کہ میں تمھارے سوال کا کافی تسلی بخش جواب دے چکا ہوں۔ اب تم مجھے بتانا پسند کرو گی کہ تمھیں یہ چوٹ کیسے آئی اور تم اتنی حواس باختہ کیوں ہو؟” شاہین نے بالآخر سر اٹھایا اور عصفورہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
“ہم آپ سے شادی کرنے کو تیار ہیں۔ “عصفورہ نے جھجکتے ہوئے کہا۔ اتنا سنتے ہی شاہین ایک جھٹکے سے اٹھ کر باہر جانے لگا۔
“کہاں؟” عصفورہ نے ششدر ہوتے پوچھا۔
“قاضی صاحب کو لینے۔ ” شاہین نے اطلاع دیتے ہوئے کہا۔
“نہیں۔ ایسے نہیں۔ بیٹھ جائیے۔ پہلے ہماری پوری بات سن لیجئے۔ پھر شاید آپ کو اپنے فیصلے سے رجوع کرنا پڑ جائے۔ ہم نے کہا تھا نا کہ ظاہر کی کسوٹی بڑی ناقص ہے۔ اتنی ناقص کہ ہم بھی اس پر پورا نہیں اترتے۔ ہم جو دِکھتے ہیں وہ ہیں نہیں۔ اصل میں ہم کوئی دیندار، مذہبی لڑکی نہیں بل کہ ایک طوائف ہیں، نہیں طوائف نہیں۔ بس طوائف زادی!” عصفورہ نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعدآنکھیں میچ کر اٹکتے اٹکتے کہتے ہوئے آخری جملہ ایک ہی سانس میں مکمل کر دیا۔ یوں جیسے بچہ کچھ دیر گھورنے کے بعدکڑوا شربت حلق سے اتارتا ہے۔ آنکھیں کھول کر شاہین کا ردِ عمل جاننے کے لیے اُس کی طرف دیکھا لیکن وہاں بالکل خاموشی تھی۔ وہی خاموشی جو صبح شاہین کی باتیں سنتے ہوئے عصفورہ کی آنکھوں میں تھی۔ عصفورہ سمجھ گئی کہ اُسے بھی شاہین کی طرح پہلے اپنی پوری بات کہنا ہوگی۔ پھر دیکھا جائے گا کہ شاہین اُسے طمانچہ مارتا ہے یا سنگسار کرتا ہے۔
“ہمارے والد زندہ ہیں۔ وہ بس انتقال کر گئے ہیں۔ ہمارے وجود میں آنے کا سن کر ہی وہ ہماری اور ماں صاحب کی زندگیوں سے اپنی دنیا میں منتقل ہوگئے۔ ماں صاحب انھیں کبھی بھول نہیں پائیں۔ اُن کی ہمارے لیے والہانہ چاہت کے پیچھے بھی یہی راز ہے کہ ہم اُن کے محبوب کی نشانی ہیں۔ ماں صاحب کے ساتھ جتنی بھی طوائفیں تھیں وہ سب اُن کے زخم سے واقف تھیں۔ اس لیے کبھی کسی نے ہمیں گرم ہوا بھی نہ لگنے دی، کہ کہیں ہمیں پریشان دیکھ کر ماں صاحب اداس نہ ہوجائیں۔ ہم نے کہا ہمیں پڑھنا ہے تو کسی نے اعتراض نہ کیا۔ باقی لڑکیوں کو چھوٹی عمر سے ہی کام پر لگادیا جاتا ہے لیکن ہم نے ایک بار منع کیا تو دوبارہ کسی نے کچھ نہ کہا۔ ہاں جس دن ہم نے یُونی ورسٹی میں داخلے کی بات چھیڑی اُس دن تکرار ہوئی۔ ماں صاحب نہیں چاہتی تھیں کہ ہم ان کی نظروں سے دور، دنیا کی دوڑ میں شامل ہوں۔ جب کہ باقی لوگوں کا بھی خیال تھا کہ وہ ہمیں کافی رعایت دے چکے ہیں، اب ہمیں اپنی ذمہ داری سنبھالنی چاہئے۔ قصور ان کا بھی نہیں، گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا۔ خیر! ہمیں بھی مزید بحث کرنا بے سود لگا۔ لیکن پھر بھی ہم اس شرط پر یُونی ورسٹی کی خواہش سے دستبردار ہوئے کہ ہم زیادہ سے زیادہ رقاصّہ بن سکتے ہیں، طوائف نہیں۔ ہم نے کچھ ایسے اٹل لہجے میں کہا کہ سب کو ماننا پڑا۔ سب ہمارے مذہبی رجحان سے واقف تھے، لیکن پھر بھی شاید وہ اس موہوم امید پر چپ ہوگئے کہ ایک طوائف زادی آخر کب تک صرف ایک رقاصہ رہ سکے گی۔ جس دن ہماری پہلی محفل تھی، خوب اہتمام کیا گیا تھا۔ ہر کوئی ماں صاحب کی بیٹی دیکھنے کو بے تاب تھا۔ لیکن ماں صاحب کی بیٹی بھی کمال نکلی۔ اُس بدنام محلے میں پہلی بار کوئی رقاصہ، تماشائیوں کے بیچ یوں آئی کہ اُس کا چہرہ نقاب کی اوٹ میں تھا۔ ہم نے بےدلی سے اپنا رقص پیش کیا اور مجمع کی طرف متوجُّہ ہوئے بغیر منظر سے ہٹ گئے۔ ہمارا خیال تھا کہ لوگ بنا چہرے کی رقاصہ کے متمنی کیوں کر ہوں گے۔ لیکن ہم غلط تھے۔ ہم اُن کم بختوں کی پیاس مٹانے کی بجائے تشنگی بڑھا آئے تھے۔ جس نے کچھ لمحے قبل اپنے رقص سے سب کوبن پئے نیم مدہوش کر دیا تھا ہر کوئی اُس نوجوان لڑکی کا چہرہ دیکھنے کے لیے مُنھ مانگی قیمت دینے کو تیار تھا۔ “عصفورہ کی آوازدور کسی کھائی سے آتی معلوم ہو رہی تھی اور وہ بے جان مسکراہٹ کے ساتھ کہتی چلی جا رہی تھی۔
“کسی بھی نئی لڑکی کی پہلی محفل کے بعد ہجوم لگتا ہے، لیکن ہماری دفعہ ہجوم نہیں بے قابو ہجوم تھا۔ اور وہاں ہم اپنے کمرے میں سجدے میں گرے، رب سے سسکتے ہوئے استغفار کر رہے تھے۔ ماں صاحب کا احترام ، ہم سے سب کی محبت اور پھر ہماری حالت دیکھ کر خدا جانےکوٹھے کے سب لوگوں نے مجمع کو کس طرح ٹالا۔ لیکن پھر بھی وہ ایک رہ گیا۔ وہ نہیں ٹلا۔ وہ ٹلنے والا تھا ہی نہیں۔ وہ کوٹھے کا مستقل، اور بڑا باحثییت گاہک تھا۔ محلے کی شاید ہی کوئی لڑکی ہو جس کا جام اُس نے چکھا نہ ہو۔ وہ مسلسل تین دن ہمارے دروازے سے لگا بیٹھا رہا۔ بالآخر ہمیں اس سے ملنا ہی پڑا۔ ہمارے استاد جی کی موجودگی میں پردہ حائل کر کے ملاقات ہوئی۔ ہم بدستور نقاب میں رہے۔ اور پھر ہم نے اُس کی وہ ہوس بھری باتیں سنیں۔ ” پل بھر کے لیے عصفورہ نے نگاہیں اٹھا کر شاہین کی طرف دیکھا۔ وہ گھٹنوں کو بازوؤں میں سمیٹے زمین پر بیٹھا خاموش نگاہوں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ عصفورہ ایک بار پھر نظریں جھکا گئی۔ اور جہاں بات کو چھوڑا تھا وہیں سے سلسلہ جاری رکھا۔
“بمشکل ہم اور استاد جی اُس کو اس بات پر قائل کر پائے کہ اگلی محفل کے بعد ہم اُسے اپنا چہرہ ضرور دکھائیں گے۔ لیکن یہ ہمارا رب جانتا ہے کہ اس بات کی حامی بھرتے ہوئے ہمارا دل کتنی کرچیوں میں بٹا۔ خدا جانے کیوں اور کیسے ہم نے اپنے من میں یہ بات بٹھا رکھی تھی کہ ہمارا جسم تو دور چہرہ بھی ہمارے محرم کے سوا کوئی نہیں دیکھے گا۔ بہرحال، وہ جس لمحے کمرے سے نکل رہا تھا، ماں صاحب داخل ہو رہی تھیں۔ لمحہ بھر کو دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور وہ چل دیا۔ لیکن ماں صاحب! ہاں ماں صاحب کے چہرے پر ایسی شکستگی ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی جو اُس ایک لمحے میں تھی۔ واللہ عالم کیوں؟ ماں صاحب وہیں ڈھے گئیں اور بے ہوش ہو گئیں۔ وہ پوری رات ہم سب کے لیے کسی قیامتِ صغریٰ سے کم نہیں تھی۔ کہتے ہیں کہ جس دن ہمارے والد انھیں چھوڑ کر گئے تھے،ماں صاحب کی ایسی ہی حالت تب بھی ہوئی تھی۔ صبح ہوش میں آتے ہی انھوں نے سب سے پہلی بات جو کہی وہ ہمیں یُونی ورسٹی جانے کی اجازت تھی۔ اور ساتھ یہ شرط بھی کہ یُونی ورسٹی کسی دور دراز علاقے میں ہو۔ ہمیں سمجھ نہیں آ یاکہ خوش ہوں یا حیران۔ آخر رات و رات ماں صاحب کو کیا ہوا؟ انھوں نے عالمِ بے ہوشی میں ایسا کیا دیکھا کہ یوں ہوش میں آتے ہی ہماری ناممکن سی خواہش پوری کردی اور وہ بھی ایسی شرط سے؟ لیکن وہ بے ہوش ہوئی کیوں کر؟ یہ سب سوال ہمارے لیے آج بھی معمہ ہیں۔ لیکن پھر ہم نے دو ایک روز میں ہی یُونی ورسٹی کے فارمز فل کیے اور عین جس دن ہماری دوسری محفل تھی ہم ماں صاحب کی دعائیں اور نصیحتیں لے کر یہاں آگئے۔ دو دن بعد یُونی ورسٹی آئے۔ وہاں جو ہوا وہ سب آپ کے سامنے ہے۔ اس سے اگلے دن جب آپ نےوہ بات کی، تو ہمیں وہی گاہک یاد آیا جو ہر حال میں ہمیں خریدنا چاہتا تھا کہ ہم اس کے معیار پر پورا اُتر رہےتھے۔ ہمیں آپ بھی وہی لگے۔ ہاں فرق بس اتنا تھا کہ وہ تنہائی میں رال ٹپکاتے کتے کی طرح اپنے نفس کو راضی کرنے کے لیےبھاؤ تاؤ کر رہا تھا اور آپ بھرے بازار میں، نہایت مؤدب انداز میں اپنے معاشرے اور گھر والوں کو خوش کرنے کے لیے ہماری قیمت لگا رہے تھے۔ ماں صاحب کی مثال اور اپنا تجربہ سامنے رکھ کرہم نے جو کیا وہ ٹھیک تھا۔ لیکن رمشہ کے مطابق ہمیں آپ کی طرف سے انتقام کا منتظر رہنا تھا۔ ہم سوچ ہی رہے تھے کہ کل یُونی ورسٹی پہنچنے پر آپ کی کس انتقامی کاروائی کا شکار ہوں گے، لیکن اتنا انتظار نہیں کرنا پڑا۔ کوئی کمرے میں گھس آیا۔ ہم نے بڑے دل سے دعا کی کہ کاش یہ آپ نہ ہوں، پتا نہیں کیوں پر دل ماننے سے انکاری تھا کہ آپ اس حد تک گر جائیں گے۔ اور آپ واقعی نہیں گرے۔ ” عصفورہ نے کن انکھیوں سے دیکھا اور شاہین زخمی مسکراہٹ لیے سر جھکا کر رہ گیا۔
” وہ وہی تھا۔ محفل والے دن ہمیں وہاں نہ پاکر کافی ہنگامہ کیا۔ اور جاسوسی کُتے کی طرح بُو سونگھتا ہوا دو دن ہی میں یہاں آن پہنچا۔ دھمکی دے کر گیا ہے۔ صبح وہ پھر ہمارے ہاسٹل جائے گا، ہمیں اپنے ساتھ لے جانے کے لیے۔ اس لیے ہم دن چڑھنے سے پہلے آپ تک پہنچنا چاہتے تھے۔ وہ ہمیں صرف اس لیے پانا چاہتا ہے کہ ہمیں چھونا تو دور آج تک کسی نے دیکھا بھی نہیں۔ اور وہ چاہتابھی نہیں کہ اس کے علاوہ کوئی اور دیکھے۔ اس لیے اتنے گارڈز کے ہوتے ہوئے بھی وہ خود ہمارے کمرے تک آیا۔ وہ ہمارا چہرہ دیکھ سکتا تھا لیکن گارڈز ہی کی وجہ سے اُس نے ایسا نہیں کیا۔ تو ایسے میں اگر اُس کو معلوم پڑ جائے کہ ہم باقاعدہ کسی کے نکاح میں ہیں تو ہمیں یقین ہے کہ وہ لوٹ جائے گا۔ اس جیسے لوگوں کو لڑکیوں کی کوئی کمی تھوڑی ہے۔ یہ رہی ہماری داستان اور ہمارا آپ سے شادی کرنے کا فائدہ۔ رہی بات آپ کے فائدے کی تو جو ہمارا ہے وہ سب آپ ہی کا تو ہو گا۔ ہمیں اپنے نام سے متعارف کروائیں یا نہ کروائیں، آپ کو اختیار ہو گا۔ ” برسوں کی حکایت، چندجملوں میں سمیٹتی عصفورہ اب ہانپ رہی تھی۔ چند لمحوں کی خاموشی، کمرے کے در و دیوار پر چھائی رہی۔ پھر یکایک، کب سے گٹھڑی بنے بیٹھے شاہین کے وجود میں حرکت پیدا ہوئی۔ عصفورہ نے نم آنکھوں سے دیکھا کہ وہ ایک لفظ بھی بولے بغیر کسی پھرتیلے چیتے کی مانند آن کی آن میں دروازہ کھول کر غائب ہوگیا۔ ” کبھی کبھار کسی کی خاموشی ہی تھپڑ اور پتھر کا کام دے جاتی ہے۔ حقیقت سے پردہ اور چہرے سے نقاب، دونوں اٹھ گئے اور باقی رہ گئیں آپ عصفورہ مہرالنساء۔ ” عصفورہ نے بلکتے ہوئے سوچا۔
….
عصفورہ واپس اپنے ہاسٹل جانے کا سوچ ہی رہی تھی جب شاہین نے کمرے کے دروازے سے اندر جھانکتے ہوئے اُس کو اپنا نقاب اوڑھنے کو کہا۔ اور پھر شاہین کے پیچھے پانچ چھے آدمی کمرے میں داخل ہوئے۔ چند لمحوں بعد، قاضی صاحب نکاح کے لیے اُس کی رضا مندی پوچھ رہے تھے اور وہ قبول ہے، قبول ہے کہہ چکے شاہین کی جانب بے یقینی سے دیکھتے ہوئے سر ہلا رہی تھی۔
….
“یہ سب کیا تھا؟” عصفورہ نے سب کے جا چکنے کے بعد اچانک ہوش میں آتے ہوئے پوچھا۔
“خود ہی تو تم چاہتی تھی کہ محرم کے سوا کوئی تمھیں نہ دیکھے۔ تو سوچا کیوں نا بچی کی اس معصومانہ خواہش کو پورا کیا جائے۔ اس منفرد و حسین لڑکی کا چہرہ پہلی دفعہ دیکھنے کا اعزاز کسی کو ملا ہے تو وہ میں ہوں۔ تو میں نے سوچا آخری بننے میں کیا حرج ہے؟” شاہین واپس اپنے لاابالی روپ میں جا چکا تھا۔ اور اب شوخ لہجے میں کہتا ہوا کاغذات سمیٹ رہا تھا۔ جب کہ عصفورہ اب بھی مُنھ کھولے اس کی پُشت کو دیکھ رہی تھی۔
“اچھا سنو! یہ نکاح نامہ کی ایک کاپی تمھارے ہاسٹل بھجوا رہا ہوں۔ تا کہ تمھارا، بل کہ اب ہمارا ولن جب تمھیں لینے وہاں پہنچے تو اسے یہ مل جائے۔ بھیا کو نکاح کا نہیں، لیکن سرسری سا تمھارا بتا دیا ہے۔ وہ بہت خوش ہیں۔ ابھی تمھیں اپنے گھر لے جاتا، اگر بھیا کا وہ محرم نامحرم والا پنگا بیچ میں نہ آجاتا۔ وہ تو یہی کہہ رہے تھے کہ صبح بھی اکیلا ہی ان سے ملنے آؤں، تا کہ انھیں ایک نامحرم لڑکی کو نہ دیکھنا پڑے۔ ان کے چلے جانے کے بعد پھر تمھیں چاہے اپنے ساتھ گھر لے جاؤں۔ لیکن صبح ہم دونوں ساتھ جائیں گے۔ چاہے وہ تمھیں آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں لیکن میں تمھیں اپنے نام سے متعارف کروانا چاہتا ہوں، پہلے بھیا کے اور پھر دنیا کے سامنے۔ ” آخری جملہ کہہ کر اُس کے کام کرتے ہاتھ رکے اور ایک نظر مُڑ کر عصفورہ کو دیکھا۔ وہ جو اُس کے اچانک مڑ کر دیکھنے پر نظریں چرا گئی۔
تو میں کہہ رہا تھا کہ بھیا سے مل لیں گے اور ساری صورتحال بھی بتادیں گے۔ فکر نہ کرو ان کے پاس ہر مسئلے کا حل ضرور ہوتا ہے۔ وہ نامعلوم کمینہ بھیا سے طاقت ور نہیں ہوسکتا۔ ” شاہین مصروف انداز میں بھی اسے تسلی دینا نہ بھولا۔ دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے پھر مڑ کر دیکھا۔ ” ویسے نکاح نامہ دیکھ کر تمھاری اس چمچی رمشہ کا ردِ عمل دیکھنے والا ہو گا جو میرے کمینے دوستوں کی طرح مجھے تمھارا اغوا کار سمجھ کر نا جانے کون کونسی بد دعائیں دے چکی ہوگی۔ ” وہ ہنستا ہوا کہہ کر باہر نکل گیا۔ جب کہ ایک شفیق سی مسکراہٹ عصفورہ کے لبوں پر بھی پھیل گئی۔ “ہاں اب سب ٹھیک ہے۔ “
….
“یہ کون تھا؟ فون نمبر تو بھیا کا تھا۔ آواز بھی انھی کی تھی۔ لیکن یہ لہجہ، یہ الفاظ کس کے تھے؟ یہ بھیا تو نہیں ہو سکتے۔ کیا یہ مغلظات بکتے، مجھے ہر رشتے سے عاق کرتے بھیا تھے؟”کسی کے ہاتھ نکاح نامہ ہاسٹل بھجوا کر وہ عصفورہ کے لیے خریداری کرنے چلا گیا تھا۔ اُس وقت صبح کی اذان ہو رہی تھی جب اپنے ہاسٹل کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے، بھیا کی کال آئی۔ اور اب وہ وہیں سیڑھیوں پر گُم سُم بیٹھا تھا۔ ایک طوائف سے شادی کر کے وہ اپنے بھیا سے اور توقع بھی کیا رکھ سکتا تھا۔ رات کو تو بھیا میری خوشی میں ہمیشہ کی طرح خوش تھے۔ لیکن اب کیا ہوا؟
وہ کہہ رہے تھے کہ اس طوائف سے نام جوڑ کر تم نے اپنی دنیا و عاقبت بگاڑ لی ہے۔ لیکن اک منٹ! انھیں کیسے پتا کہ وہ طوائف ہے۔ بھیا پھر بھی شاید کسی طرح مان جائیں لیکن بابا جان۔ میں مکر بھی تو نہیں سکتا نا، بھیا کے پاس نکاح نامہ ہے۔ ۔ لیکن نکاح نامہ رات و رات ان تک کیسے پہنچا۔ نکاح نامہ تو اُس کمینے کے پاس ہوناچاہئے۔ ۔ کہیں بھیا ہی تو۔ توبہ کرو۔ پہلے تو کبھی مجھ سے ملنے شہر نہیں آئے، کہیں عصفورہ کے لیے۔ ہوش میں آؤ شاہین۔ یہ کیا فضولیات سوچ رہے ہو۔ ؟
….
“اچھا سنو! کیا وہ آدمی یہ ہے؟” کمرے میں آتے ہی نہ جانے کیا سوچ کر فون میں سے بھیا کی تصویر نکال کر عصفورہ کو دکھائی جو ابھی بھی مردانہ لباس میں تھی اور نمازِ فجر کے بعد جائے نماز لپیٹ رہی تھی۔
“ہاں نا! لیکن آپ کو کیسے ملی۔ آپ کے بھیا نے ڈھونڈ نکالی ہوگی۔ مان گئے وہ واقعی بڑے با اختیار ہیں۔ ہمیں بہت جلدی ہے اب ان سے ملنے کی۔ ” عصفورہ اپنی رو کسی قدر حیران اور کچھ پُرجوش بولے جا رہی تھی۔ اور شاہین اسے بتا نا پایا کہ وہ ان سے مل چکی ہے۔ وہ تو بس ڈھیر ہوگیا۔ جس کے بھروسے وہ اپنی عاقبت بگاڑ رہا تھا، اُس کی تو دنیا بھی شاہین سے بدتر نکلی۔
….
“اچھا سنیں! یہ دیکھیں ہمارے والد۔ آپ ہماری آنکھوں کی تعریف کرتے ہیں نا۔ یہ ہم نے انھی سےو راثت میں لی ہیں۔ ” نکاح نامہ ہاسٹل پہنچانے والا لڑکا واپسی پر اس کا سامان بھی لے آیا تھا اور اب عصفورہ اپنے سامان میں سے کوئی تصویر نکال کر اسے دکھا رہی تھی۔ شاہین بمشکل ضبط کر کے مسکرایا اور تصویر عصفورہ کے ہاتھ سے لے لی۔
“میں نا کہتا تھا کہ میں نے یہ آنکھیں کہیں دیکھی ہیں۔ ایسے ہی میں نے یہ تصویر بھی دیکھی ہے۔ ایک بار بابا جان یعنی تایا جان نے اپنی جوانی کی اپنی یہ تصویر بھی دکھائی تھی۔ کیا میں عصفورہ کا معمہ حل کروں کہ اس کی ماں صاحب اُس روز بے ہوش کیوں ہوئی تھیں؟” سب ملمع ہے۔
….
سبطین کی کال آرہی تھی۔ وہ یُونی ورسٹی میں اس کا حریف تھا۔ پورے کیمپس میں دونوں کی شرطیں مشہور تھیں۔
“تو شاہین نے بالآخر چڑیا کا شکار کر ہی لیا۔ ویسے مجھے عصفورہ کو دیکھ کر کبھی نہیں لگا تھا کہ تم یہ شرط جیت پاؤ گے۔ تھپڑعین میری توقع کے مطابق پڑا تھا تمھیں۔ لیکن بھئی مان گئے تمھیں۔ ماڈرن چھوڑو، دین دار لڑکی بھی نہیں ٹک سکتی تمھارے سامنے۔ تم تو آل راؤنڈر ہو یار۔ اب اس کی تصویریں پوسٹ کرو اور آ کر میرے شوروم سے جو کار پسند آئے لے جاؤ۔ تم شرط جیت گئے ہو۔” ظاہر کی کسوٹی بڑی ناقص ہے۔
….
وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ اور اللہ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتےo
عصفورہ سامنے بیٹھی اس اطمینان سے تلاوت کر رہی تھی، جیسے پل صراط عبور کر کے بہشت پہنچ چکی ہو۔ اور وہ پِیرزادہ اس طوائف زادی کو بس دیکھ کر رہ گیا۔
….