سانحہ، حکمرا ن اور شریک جرم
از، ملک تنویر احمد
اندوہناک واقعات و حادثات اور بہیمانہ افعال اب اس معاشرے میں کسی انہونی کا نام نہیں کہ جس کے ارتکاب پر انسان انگشت بدنداں ہو کر انگلیاں دانتوں تلے دبا لے۔ سفاکانہ واقعات، سانحات اور حادثات کا ایک ایسا سلسلہ چل نکلا ہے کہ جس کی درازی عمر میں فقط وہ عناصر ہی حصہ نہیں ڈال رہے کہ جن کی بیمار ذہنیت و حیوانی خواہشات ایسے واقعات و حادثات کو جنم دینے کا سبب بنتی ہیں بلکہ معاشرے پر تنی ہوئی بے حسی کی چادر، قانون کے کمزور ہاتھ، تادیبی نظام کے مضحمل اعضاء اور انصاف کے اپاہج پن کو بھی بہت بڑا دخل ہے۔
قصور کی معصوم کلی زینب کے ساتھ حیوانی خواہشات میں گندھی ہوئی ذہنیت نے جو سفاکانہ فعل انجام دیا وہ اپنی نوع کا کوئی پہلا واقعہ نہیں کہ جس پر حیران و پریشان ہو کر انسان یہ سوچنے سمجھنے پر مجبور ہو جائے کہ کیا انسانوں کی بستیوں میں ایسے سفاک و شقی القلب اجسام بھی پلتے ہیں کہ جو زنیب ایسی معصوم بچیوں کو بھی نہیں بخشتے۔بیسویں صدی کو چھوڑیے کہ ندامت و خجالت کی داستان کہیں لمبی نہ ہو جائے فقط اکیسویں صدی کے پہلے سترہ سالوں کو ملاحظہ فرما لیں تو شقاوت قلبی، سفاکیت، بربریت اور حیوانیت کے کھوکھ سے جنم لینے والے ایسے روح فرسا و دلخراش واقعات سننے اور دیکھنے کو ملیں گے کہ انسانیت سے اعتبار اٹھ جائے کہ یا خدایا کہ اس بستی سے تو ویرانے بھلے کہ جہاں کسی معصوم بچے و بچی کے ساتھ ایسی سفاکیت تو نہیں برتی جاتی۔
معصوم زینب زینب کے بعد مردان کی عاصمہ کی بے حرمتی کی گئی، جواں سال نقیب محسود ایک مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ کراچی کا انتظار حسین کچھ دن پہلے پولیس کی گولیوں کی بھینٹ چڑھ گیا ،یہ وہ تازہ واقعات ہیں جو اخبارات کی شہ سرخیوں ا ور ٹی وی اسکرینوں پر جلی طور پر کور ہو رہے ہیں وگرنہ یہ فہرست تو اتنی طویل ہے کہ انسان گنتے گنتے تھک جائے لیکن ایسے معصوموں کی گنتی شمار نہ ہو جو بربریت، حیوانیت اور طاقت کے نشے میں روند ڈالے گئے یا صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیے گئے۔
ہمارے جیسے معاشرے بطور خاص ایسے سانحات کا ہدف ہیں کیونکہ ایسے بہیمانہ واقعات کو یہاں کا سازگار ماحول ظہور پذیر ہونے میں تعاون فراہم کرتا ہے۔اب یہ یہاں کا سازگار ماحول ہی ہے کہ معصوم بچیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی سے لے کر انفرادی طور پر ان کی بے حرمتی ہو یا پھر معصوم بچوں کے ساتھ بدفعلی جیسے شرمناک واقعات وہ بلا تعطل جاری وساری ہیں اور ان میں بتدریج اضافہ بھی ظہور پذیر ہوتا چلا جا رہا ہے۔
یہ بھی فقط ان واقعات و حادثات کی بات ہو رہی ہے جو رپورٹ ہو جاتے ہیں وگرنہ خاندان کی بد نامی اور لڑکی ذات کے لیے اذیت ناک مستقبل کے خدشات ان واقعات کو وہیں دبا دیتے ہیں جہاں پر یہ مکروہ و گھناؤنے افعال رچائے جاتے ہیں۔ایسے کسی بھی واقعے پر جس میں معصوم جانوں پر ظلم ڈھایا گیا ہو اس پر اس معاشرے کا رد عمل بھی بڑا ہی عجب نوع کا ہے۔جس سرعت سے یہ رد عمل ابھر کر آتا ہے اسی تیز رفتاری سے یہ پاتال کی گہرائیوں میں اتر کر گہر ی نیند سو جاتا ہے۔ کسی بھی اندوہناک واقعے پر ہمارا رد عمل اب کچھ ایسا میکانیکی ہو چکا ہے کہ اسے پہلے سے پرکھنے میں کسی تردد میں نہیں پڑنا پڑتا۔
ایک قبیح فعل کا ارتکاب ہوتا ہے اس میں کسی معصوم جان کی بے حرمتی کی گئی یا پھر کسی معصوم کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے پڑے ہوں تو فوری طور پر اس واقعے کے نوٹس لینے کی خبروں سے ٹی وی اسکرینیں لال ہو جائیں گی ۔صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اس کام میں کافی مہارت حاصل کر چکے ہیں اور خاص کر پنجاب کے خادم اعلیٰ تو اس میں ید طولیٰ رکھتے ہیں کہ فوراً کسی بہیمانہ واقعے پر فوری نوٹس لے کر اس پر فوری رپورٹ طلب کر لی جاتی ہے۔ ملک میں عدالتی فعالیت کے دور میں سو مونوٹس کی ایک نئی روایت نے بھی فروغ پایا۔کسی بھی سانحے پر عدالت عظمیٰ کی جانب سے سو موٹو نوٹس کا نظام بھی خود کار طریقے سے متحرک ہو جاتا ہے۔
بے گناہ و معصوم کو انصاف ملے نہ ملے لیکن ہم نے نوٹس لینے کے معاملے میں مزید ترقی کے مدارج پھلانگ لیے ہیں کہ اب اس صف میں سپہ سالار بھی شامل ہو چکے ہیں۔ جرائم کی بیخ کنی کے حوالے سے ہم نے جو نابغہ روزگار نسخہ اپنایا ہے اس سلسلے میں دنیا بھر میں ہمارا کوئی ہمسر نہیں ۔معاشرے جس طرح سے رد عمل کا اظہار کرتا ہے وہ بھی عجب ٹھہرا۔ بلاشبہ ریاستی و حکومتی نظام جرائم کی بیخ کنی اور مظلوموں کی داد رسی میں کلی طور پر ناکام ہو چکا ہے لیکن ہماری اشتعال پسند اور آتش زیر پا طبیعتوں کو ہر صورت میں اپنے مظاہر کے نقوش جمانے ہوتے ہیں۔
سڑکوں پر جلاؤ گھیراؤ، سرکاری و نجی املاک کی تھوڑ پھوڑاور ان پر چڑھائی غم و غصے کے اظہار کا ایک طریقہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس سے مسائل کی سرکوبی کبھی نہیں ہو سکتی وگرنہ اس قوم نے سڑکوں پر جلاؤ گھیراؤ اور تھوڑ پھوڑ کے جو عالمی ریکارڈ قائم کیے ہیں اس کے بعد تو جہاں کسی جرم کا شائبہ تک نہ ہوتا۔ایک بڑا اعتراض یہ اٹھتا ہے کہ اگر سڑکوں پر جلاؤ گھیراؤ نہ کیا جائے تو بے حسی کی چادر تانے حکمران جو تھوڑی بہت حرکت کرتے ہیں وہ بھی نہ کریں لیکن سوال یہ ابھرتا ہے کہ ان حکمرانوں کے نوٹسز نے کتنا مظلوم کو انصاف دلایا یا پھر اس نوع کے واقعات کی مکمل طور پر نہیں تو کسی حد تک بیخ کنی کی ہو۔
اعداد و شمار واضح طور پر نشاندہی کرتے ہیں کہ سفاکانہ اور حیوانی افعال و واقعات کی شرح دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ معاشرے میں جب حکمران طبقات فقط اپنے سیاسی ، گروہی، طبقاتی و ادارہ جاتی مفادات کے کھونٹے سے بندھے ہوں تو ان کے لیے ایسے مسائل کے حل کے لیے فرصت ہے نا ہی وہ ایسے نازک و پیچیدہ واقعات میں سر کھپا کر وقت ضائع کرنا چاہتے ہیں۔ اب ایسے حکمرانوں سے کون توقع باندھے جو فقط دو تین میٹرو، ایک اورنج لائن اور چند سڑکوں کی تعمیر و مرمت کو اپنے ویژن کا حاصل سمجھتے ہیں۔
پولیس نظام کی درستی اور اس میں اصلاحات، کریمنل جسٹس سسٹم، تحقیقاتی اداروں کی استعداد اور انہیں سائنسی بنیادوں پر جدید خطوط پر استوار کرنا، پراسیکویشن کے نظام کو موثر بنانا وغیرہ ان کی ترجیحات میں شامل ہے اور نہ ہی اس بیل کو منڈھے چڑھانا ان کی خواہش۔ ہماری ہنگامہ اور ہیجان پسند طبیعت کو کسی جرم کے ارتکاب پر جذباتی و سطحی رد عمل ظاہر کرنے کا تو شوق ہے لیکن کبھی ہم نے اس پر بھی غورو فکر کیا کہ جو حکمران مظلوموں کو انصاف نہیں دلا سکتے کیا ہماری تائید کے حق دار ہیں ؟اس برس آپ کو انہیں منتخب کرنے کا حق ملنے والا ہے اگر ووٹوں کا پلڑا انہی حکمرانوں کے حق میں جھکا تو پھر کسی سانحے کا دوش حکمرانوں کو دینے سے پہلے اپنے آپ کو بھی دینا کیونکہ تم میں شریک جرم ہو گے۔