سیاسی سہ پہرنامہ یا خبرنامہ
از، یاسر چٹھہ
سب سے پہلے مُلاحظہ کیجیے وقت کے شاہ-کاروں کی شہ سرخیاں (اور پاؤڈر بھی)
بُولی۔ٹَن میں کل بارہ خبریں:
چیف جسٹس کی سات خبریں
پیشہ ور ترین سپہ سالار کی مصروفیات پر پکی ایک خبر
دو خبریں عہد حاضر کے صادق اور امین، سٹیٹس-کو کی توڑ مروڑ کے لیے حاضر سروس اسلامی جمہوری تحریک ولانصاف و الالیکٹیبلز (علیہ کرم خاص)
کچھ لمحے ہر ڈرائنگ روم پر بھاری عوامیت، اور ہر ایک چیز پر ثقیل جناب آصف زرداری کے لیے
چیف جسٹس آف دی عسکریتی مملکت پاکستان نے اعلٰی ترین عدالت میں مقدمات کے لیے الیکٹرانک خوردبین کے استعمال کے باوجود مقدمات تلاش نا کر سکنے پر از خود نوٹسوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ یاد رہے کہ پٹواری مزاج اور سٹیٹس-کو کے لفافہ یافتگان نے ہوائیاں اڑائیاں تھیں کہ لاکھوں مقدمات عدالتوں میں تصفیہ طلب ہیں۔
ان از خود نوٹسوں کا سلسلہ آپ جناب عسکری و حب الوطنی سے سرشار میڈیا پارٹنرز نو-یوز چینلز کے پروگراموں سے کشید کرتے تھے۔
اب کی باری انصاف کو عوام کی مزید سے بھی دہلیز پر، بَل کِہ انصاف کو کھینچ تان کرعوام کی ان سڑکوں پر پہنچانے کے لیے جن کا واحد مقصد کرپشن اور کِک بیکس kick-backs کی بدنیتی تھی، وہاں گاڑی سے اتر کر کشید او اخذ کیا کیا کریں گے۔ اس ڈویلپمنٹ سے عوامُ الخاص میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، وہی لہر جو کہ دوڑتے دوڑتے پہلے ہی ہانپ رہی تھی۔
آپ جناب سڑک پر رش کی وجہ سے گاڑی سے اتر کر کوئی درجن دو درجن از خود نوٹس لینے کی غایت سے سے پاؤں نیچے رکھ ہی رہے تھے کہ اس دوران 33 سال پہلے کے صادق امین، محب وطن، اہل انقلابی جماعت جو کہ کچھ ہفتوں مہینوں سے صداقت امانت، حب الوطنی اور انقلابی لائسنسوں کی تجدید کرانے میں ناکام رہے ہیں اور اب وہ سٹیٹس-کو کی نمائندہ قوت اور نا اہل قیادت کے طور پر جانے جاتے ہیں، ان کی جانب سے متعین کردہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے آپ جناب کی جان کے لیے خطرے کا الارم بجا کر بادی النظر میں معزز چیف جسٹس کو نئے امکانی مقدمات، عوامُ الخاص، اور شہ سرخیوں سے دور رکھنے کی کوشش کی۔
آپ نے فوری طور پر پرانے سیاست کار جو لائسنس تجدید نا کروا سکنے کے بعد اب سٹیٹس-کو کی قوت بن چکے ہیں کی جانب سے متعین کردہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کی بات پر بادی النظر میں برہمی اور اسی کی فطری توسیع کے طور پر بظاہر سرزنش کے لہجے میں کہا، مجھے پتا ہے آپ کو میری جان کی جتنی فکر ہے۔ یاد رہے کہ ایڈووکیٹ جنرل کی لفظی ترکیب میں موجود جنرل کی اوقات تقریباً وہی ہے جو موجودہ رجب طیب اردوان کے مابعد ردِ انقلاب ترکی میں کسی فوجی جنرل کی ہوتی ہے، یا پھر بھارت جیسے ملک کے کسی بزدل فوجی جنرل کی وزیر دفاع کے سامنے ہوتی ہے۔
پنجاب کے وزیراعلٰی معروف بہ، موسوم بہ اور مُشتہر بہ خادم اعلٰی، جو اپنے مختلف نام بدلنے اور کسی بجلی کے نا دوڑ سکنے پر جھپٹ کر نئے نام رکھنے کی ترامیم پیش کرتے رہتے ہیں؛ مزید بُرآں حبیب جالب کی نظموں کو لہک لہک کر گُنگُنا کر انقلابی کردار بھی ادا کرتے ہیں؛ علاوہ ازیں سڑکوں کی صفائی کے لیے کسی وقت کے سربراہِ ریاست کے سانس لیتے جسدِ خاکی کو گھسیٹنے کی تجاویز بھی پیش کر چکے ہیں۔ ان صفات کے علاوہ آپ ایکسپائر شدہ خاص لائسنس کی تجدیدِ نو کے لیے پنڈی ڈویژن کی چکرا دینے والی گلیوں کے نثار وطن و وطن والان کے ساتھ ہَمہ دم مصروف بھی ہیں۔
آپ خادمِ شریفین، ہر دو وسطی اور جنوبی، سے رابطہ کیا تو ان سے بات نہیں ہو سکی۔ نامہ بَر نے اپنا نام چھُپا لینے کی شرط پر کہا کہ وہ چکری کا ایک اور چکر لگانے گئے ہیں۔
ویسے بھی اس دوران وہ سرکاری نا اہل کار کیا کر سکیں گے۔ زیادہ ترسرکاری نا اہل کار افسر بہ حضور چیف جسٹس پیش ہو کر نشانۂِ عبرت بن رہے ہوں گے، اور باقی ماندہ صاحبِ زمان کے لیے ریکارڈ برائے کسی پیش آمدہ پیشی واسطے جمع کر رہے ہوں گے۔ کچھ سَر سے لے کر پاؤں تک جسمانی، روحانی اور عزتِ نفس کے ریمانڈ پر ہوں گے۔
اب ہم شارٹ بریک لینے جا رہے ہیں۔ stay tuned with us
اشتہار چلتا ہے کہ:
Never ever think, only believe in what we say. We have the finest milk of human, stateood and political kindness…..Please drink Nurpur Milk. First ever and last ever Rehamta certified milk in the land of the Purists and Puritans.
دوسرا اشتہار چلتا ہے:
Always use good quality Cherry Blossom. We specialize in quality shining of special foot-wear since 75 years. Our clients include our great Seth of this No-use TV channel.
Welcome back viewers.
لاہور میں میدان سج گیا ہے۔ ایک بار پھر تاریخی جلسہ۔ تبدیلی آئی نہیں یہ آتی رہتی ہے۔ جہانِ پاکستان میں بس ثبات ہے تبدیلی کو ہے۔۔۔ ہر اس وقت تبدیلی ضروری ہے جب روبوٹ کی مصنوعی ذہانت اور انسٹال کردہ آپریٹنگ سافٹ ویئر ونڈووز کا خاکِستری مادہ grey matter خاکی سے زمانے کے سورجوں کی دھوپ اور تمازت میں رنگ پھیکا کرنا شروع کر جائے۔
تو جیسا کہ ہمارے پر بَل کِہ فُل آف سوچ اور تسلسل کے حامل تخیل کی سَر دردوں سے دور کے پنجابی عوامُ الخاص ہیں اسی طرح وہاں رنگ ہا رنگ کے کارکنوں کا ایک جمِ غفیر سونامی پلس میں آ رہا ہے۔ ملک کے سب بَل کِہ خیبر پختون خوا کے بھی کونے کونے سے تبدیلی کے خواب آنکھوں میں لیے اور پرویز اوپر والے خٹک کی اور باقی ماندہ ٹکٹ خواہوں کی بسوں کو لیےخواتین، اور نوجوان مرد، دو پاکستان نہیں ایک پاکستان بنانے آ رہا ہے۔
اس ایک اور مزید نئے پاکستان کے لیے الیکٹیبلز کی خاکی پازیٹو انقلابی روح کی اشد ضرورت ہے۔ الیکٹیبلز نے ہی پاکستان بنایا تھا، الیکٹیبلز ہی پاکستان کو اَز سرِ نو تازہ کریں گے۔ تزئینِ نو سے ہی ہے چمن کا رنگ۔
کچھ نعرے گونج رہے ہیں:
ہر الیکٹیبل ہے ملتِ نئے پاکستان کے مقدر کا سِتارہ
الیکٹیبل ہے، تو الیکٹیبلز میں آ، تاکہ سٹیٹس-کو کی قوتوں کی tables turn کر دی جائیں۔
اس خاک کے لیے ہم خاکی ہیں
لے کے رہیں گے الیکٹیبلز، بن کر ہے گا نیا پاکستان
کچھ حاضرینِ سونامی پلس کہہ رہے ہیں کہ وہ سونامی پلس جلسے سے فارغ ہو کر رائیونڈ جائیں گے۔ ناظرین، نہیں ناظرین، وہ تختِ رائیونڈ نہیں جائیں گے۔ وہ نئے انتخابات کے لیے ٹِکٹ خواہوں اور پرویز اوپر والے خٹک کی فراہم کردہ بسوں سے یہاں تک آنے کے بعد رائیونڈ تبلیغی اجتماع میں جائیں گے۔ ایک طرف کا مفت سفر۔۔۔ خصوصی دعائیں کی جائیں گی۔ اسے کہتے ہیں ڈبل ثواب کی ڈبل ڈیل۔۔
۔۔۔۔ ایک بریک اور آ گئی ہے۔ ناظرین بریک پر جاتے ہیں۔۔۔۔
ٹنا نن ٹنا نن۔۔۔
۔۔۔۔پہلا اشتہار۔۔۔۔
انتہائی گہرے اور بدھے داغ بھی اتارے انصاف برائٹ پاؤڈر۔ آپ ایسے ڈرائی کلین ہو کر نکلیں گے جیسے کہ آگے کوئی سینیٹ کا الیکشن ہونا ہی نہیں۔
۔۔۔۔ دوسرا اشہار۔۔۔۔
سام سنگ نہیں، ہمارے سنگ چلیں۔ ہم بنانے چلے ہیں نئی ہوائیاں، ہوائیں اور ہُواوے موبائل۔ تو پھر کیوں اور Q mobile یک دم چھوڑیے اور آئیے ہمارے سنگ۔ جب تک آپ ہمارے سنگ ہیں، نا کسی ریمانڈ کی فکر، نا کسی گالی اور مُقدمے کا ڈر۔
خوش آم-دید ناظرین۔ آپ آم کے آم اور گُٹھلیوں کے دام لے کر واپس آ چکے ہیں۔ تو اب ایک بار سلسلہ شروع کرتے ہیں جہاں سے ہم اس عارضی سے وقفے پر گئے تھے۔
تقدس کے عالی مقام جناب سپہ سالارِ قَلعۂِ اسلام پریوں کے دیس کے صدر سے مذاکرات کرنے گئے ہوئے ہیں۔ معروف لفظوں میں اسے ازبکستان کہتے ہیں۔ تو جیسا کہ ناظرین ہم آپ کو بتا رہے تھے کہ سپہ سالار پُر وقار و نشان استحکام، عزم عالی شان پریوں کے دیس گئے ہوئے ہیں۔ آپ نے سی این جی پر چلنے والے جہاز پر سفر کیا اور وہاں انتہائی سادہ کھانا کھایا۔ ہوٹل کا کمرہ وہاں کے ایک مردم شناس ہوٹل والے نے انتہائی سستے داموں پیش کر دیا۔
نیوز اینکر کا گلا خشک ہو گیا ہے۔ اب ہم اچانک بریک لیتے ہیں۔ ویسے بھی آپ کو پتا ہی ہے کہ اگلی خبر کیا ہونی ہے۔ لہذا پھر بریک۔۔۔ لیکن یاد رکھیے ہر نئی بار سٹیٹس-کو کی قوتوں کے خلاف ہو کر محب وطن کا ثبوت دینا آپ کا قومی فریضہ ہے۔ اس سے چُوکنا نہیں، مبادا کہ ملک عوام کا ہو جائے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.