خادم رضوی، ضمیر نقوی، ناصر مدنی صاحبان اور یار لوگوں کی ٹھٹھا بازی
از، یاسر چٹھہ
“خادم حسین رضوی، ضمیر اختر نقوی، علامہ ناصر مدنی اپنی طرف سے بہت سنجیدہ اور منطقی گفتگو کرتے ہیں۔ بہتیروں کے لیے ان کی تقریریں تفریحِ طبع کا کام بھی کرتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہیں۔ وٹس ایپ پہ گردش کرتی ہیں۔ یار دوست ایک دوسرے کو دِکھا کر دادِ انتخاب سمیٹتے ہیں۔
“لیکن یہ بھی یاد رہے کہ ان تقریروں کی ٹارگیٹڈ آڈِیئنس انھیں عقیدت ہی سے سنتی ہے۔ ان کے لیے اس میں احترام، عقیدت اور عملیت سب شامل ہوتے ہیں۔
ایک سادہ سا اصول تو یہیں سے سمجھ میں آ جاتا ہے اور وہ یہ کہ آپ جس کا مذاق طنز، یا ٹھٹھے بازی کر رہے ہیں، وہ کسی نہ کسی کے لیے جذباتی معاملہ ہو سکتا یے۔
“بَہ الفاظِ دیگر ایک گروہ کی عقیدت دوسرے کے لیے لائقِ طنز ہو سکتی ہے۔ جو چیز آپ کے لیے مُکرّم ہے، آپ اس کا احترام کریں؛ دوسروں پر اس کا احترام لازم نہیں ہوتا۔”
آعمش حسن عسکری کی اوپری بات بہت اہم اطراف کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔ ان نِکات اور ان کی تفصیل سے اتفاق کرتے ہوئے، ان پر مزید build بھی کیا جا سکتا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ خادم حسین رضوی، علامہ ضمیر نقوی، علامہ ناصر مدنی کے ساتھ اس فہرست میں، علاوہ دیگر، مولانا طارق جمیل کا نام بھی شامل کیا جا سکتا ہے جن کے مذہب کے پاپولر اور فوک کلچر میں پیش کیے گئے بیانات اور پیش کاریوں کا سوشل میڈیا پر مذاق اڑایا جاتا ہے۔
مولانا طارق جمیل گو کہ کسی حد تک اس qualified statement سے باہر بھی نکلتے محسوس ہوتے ہیں کہ انہوں نے یُوٹیوب پر اس میڈیم کی تکنیکوں کے مناسب چینل قائم کر لیا ہے، اور ان کی آڈِئیَنس میں بھی سکوپ کے بڑھنے کی وجہ سے نئے اضافے ہوئے ہیں۔
جذباتی اور ہم احساسی، empathy، بنیاد انسانیت و انس جگانے کے علاوہ تکنیکی اور ان تقاریر، پیش کشوں کی پرفارمنس/میڈیم کی اثرِیّت کے پہلو بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔
یہ سٹیج اور تِھیئٹر کی اثرِیّت، خصائص و کردار کی حامل پرفارمینسِیز ہیں۔ ان میں مقرر/سپیکر/پرفارمر اور سامع ناظر کی آنکھ کے باہمی ربط، eye contact، اور مقرر/سپیکر/پرفارمر کی قربت اس کے مُجوّزہ اور مُحدّدہ، claimed and scoped اثر و نفوذ، اور مُؤثریت کے لیے بنیاد ہوتے ہیں۔
یہ سب چیزیں سوشل میڈیا، وٹس ایپ وغیرہ کا عام صارف تو احساسنے کی تربیت، feeling training or sensitization، نسبتاً زیادہ انسانیت مُونس اور ہم احساس، empathetic، افراد سے بَہ تدریج اور دِھیرجتا سے سیکھے گا؛ بَہ ہر حال، ذی فہم و ذی انس، اور ذی ہم احساس افراد کو اس کیفیت اور اس کی تحدیدات کی مناسب تفہیم کرنے کی فوری طور پر اور اشد ضرورت ہے۔
جنہیں بَہ ظاہر سنجیدہ پیش کشیں کہتے ہیں، ان میں تو ان افراد پر نقد و جرح کرنے میں تنقید کے اہم پہلوؤں کو نظر انداز کرنا انہیں زیادہ مضحکہ خیز بنا کر پیش کرتا ہے۔ اور اگر ایسے افراد طنز و مزاح کو اپنا وظیفۂِ خیال و گفتار کیے ہوئے ہیں تو ان چیزوں اور خیالات کا کہ جو اوپر پیراگرافوں میں عرض کی گئی ہیں، اِن کے شعور کی پہنائیوں میں موجود ہونا ایک سطح پر ضروری ہے۔
البتہ، مذہب کے پاپولر مع فوک کلچر کے پیش کاروں کے طرزِ بیان کے متعلق ٹھٹھے بازی کی بابت مناسب سماجی اور پلیٹ فارم کی تفہیم کی موجودگی جیسے احساس و انس ان میں نہیں بھی ہو سکتے، یا وہ ایسا نہیں بھی کر سکتے، انہیں ظاہر ہے مجبور بھی نہیں کیا جا سکتا؛ اپیل اور درخواست ہی کی جا سکتی ہے۔
پر سماجی و ثقافتی نقاد کا وظیفہ بھی تو یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ کسی حساس، ہم احساس نقاد و فکر شناس کے تنقیدی بیان میں وہ قبولیت پسندی کے کسی index میں پست درجے کے آس پاس ہی oscillate کر سکتے ہیں۔
ہاں مگر، اوپر ذکر میں لائے گئے مذہبی پاپولر مع فوک کلچر کے نمائندہ پیش کاروں کی فکریات کی وہ پیش کشیں جو جمہوریت، صنفی و جنسی انصاف اور معاشرے کے پِچھڑے طبقات کے متعلق ہوں ان پر تعرض کرنے میں کوئی باک بھی نہیں ہونا چاہیے؛ کہ خلیل الرحمٰن قمر جیسے تو یہاں وہاں اچھے خاصے آزاد ہیں اور ان پر گرفتِ گفتار بھی جائز ہے تو ان صاحبانِ مذہبی پاپولر اور فوک کلچر پر کیوں نہیں؛ لیکن ان سب کے وجود کے طنزیانہ انہدام کی شرط کے طور پر ہر گز نہیں۔