خواہش اور خبر
از، معصوم رضوی
پہلے صحافی خبر کی حرمت پر سمجھوتہ نہ کرنے کے عادی تھے۔ ٹی وی چینلز کی بہار آئی تو سمجھوتہ خزاں کے سوکھے پتوں کی طرح ایڈیٹوریل لائن کی کھاد بن گیا۔ اب اس خوب صورت اصطلاح کی کیاری میں خواہشات کے رنگ برنگے انوکھے پھول لہراتے نظر آتے ہیں۔ خواہش کب خبر کا روپ دھار گئی نہ صحافیوں کو پتا چلا نہ عوام کو، اب صورت حال یہ ہے کہ اخبار ہو یا نیوز چینلز، خبر کسی کے پاس نہیں بس خواہشات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ الحمد لِلّہ اب چوں کہ بزعم خود میڈیا طاقت ور ہے سو حکومت بنانے اور گرانے کا دعویٰ کر سکتا ہے بل کہ دھڑلے سے کرتا ہے جب کہ اصل کاریگر پردۂِ زنگاری میں طفلانہ اٹکھیلیوں پر زیر لب کھلکھلاتا ہے۔
پچھلے دور کی بات ہے ٹی وی پر مزاحیہ پروگرام مقبولیت کا درجہ رکھتے تھے اب حالات حاضرہ کے پروگرام عوام الناس کی اولین توجہ کا مرکز ہیں۔ چوں کہ بچوں کی طرح ناظرین بھی چالاک ہو گئے ہیں لہٰذا جگنو کو اندھیرا ہوتے وقت دیکھتے ہیں۔ ٹی وی کھولنے والے کو بخوبی پتہ ہوتا ہے کہ کون سا اینکر اور تجزیہ کار کس کے لَتّے لے گا اور کس کے گن گائے گا اور قطعی متضاد تجزیوں اور تبصروں کے لیے کون سا چینل مناسب رہے گا۔
بعض بے خبر ناظرین تو یہ کہتے بھی نظر آتے ہیں کہ چینل کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے، خیر جناب آپس کی بات تو یہ ہے کہ خبر اب صحافیوں کے پاس کم عوام کے پاس زیادہ ہوتی ہے۔ اگر قسمت سے رپورٹر کو کبھی کبھار کوئی خبر مل بھی جائے تو مارکیٹنگ کی ڈور، ریٹنگ کی دوڑ اور ادارے کے زور کی چھلنی سے گزر کر سب کچھ ہوتی ہے مگر خبر نہیں ہوتی۔ آپس کی بات ہے ہم میں سے کوئی بھی آئینہ نہیں دیکھنا چاہتا سو پوری قوم من گھڑت خوابوں کی خود ساختہ تعبیروں اور خواہشات کے انمول معجزات کی اسیر ہے۔
خواہش یہ ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے جب کہ خبر یہ ہے کہ ہر خاص و عام اپنے آپ کو قانون سے ما ورا گردانتا ہے۔ سرکاری بیان تو یہی ہے کہ سب قانون کے سامنے جواب دِہ ہیں مگر سیاست دان سے حساب مانگو تو جمہوریت دشمن قرار دیا جائے، کسی منصف سے پوچھ تاچھ کرنے کی جسارت کرو تو توہینِ عدالت کے مرتکب، عسکری اداروں کی طرف دیکھو تو غدار اور مذھبی علما سے سوال کرو تو توہینِ مذھب کا مجرم اور جہنم واصل قرار دیا جائے۔ اور کہیں اُمرا کے کان کھینچے جائیں تو سرمایہ کاری خطرے سے دو چار ہوتی ہے۔
متعلقہ تحریریں: میڈیا ہمارا سماجی قتل کر رہا ہے از، عافیہ شاکر
ہمیں اظہار رائے کی آزادی راشن کارڈ پر ملی ہے از، مبشر علی زیدی
پھر بھی ہر مقتدر ہستی یہ اعلان کرتی ہے کہ کوئی مقدس گائے نہیں تو حضور اب آپ ہی بتائیے اس صورت حال میں عوام بے چارے قانون کی عزت کریں تو کس دل سے کریں۔ خواہش تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ بالا دست ہو مگر خبر یہ ہے کہ ارکان خود ایوان کو زیر دست ثابت کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے پر تیار رہتے ہیں۔
ہر دو چار سال بعد چوراہے پر غلیظ کپڑوں کے ڈھیر دھلتے ہیں، ایسی جوتم بے زار ہوتی ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ خواہش تو یہ بھی ہے کہ ہم جمہوریت پسند قوم ہیں، خبر یہ ہے کہ ہم جتنی خوش دلی سے آمریت کا استقبال کرتے ہیں اس کی مثال عالم عسکریات میں نایاب ہے۔ ایوب خان سے لے کر کر مشرف تک آئین توڑنے والوں کے روحانی سلسلے آج بھی دراز ہیں اور سلسلہ ضیائی کی چکا چوند تو آج تک عقل و دانش کو چندھیا رہی ہے۔
غیر جمہوری عناصر کو سنگین غداری کے دستر خوان پر دعوتِ شیراز دینے والے جمہوری قائدین کی فہرست بھی کچھ کم طویل تو نہیں ہے۔ اگر چِہ ملک و قوم کو کبھی جمہوریت کے نام پر لوٹا تو کبھی آمریت نے جی بھر کے کھسوٹا مگر نیت دونوں کی اب بھی نہیں بھری۔ بہر حال خواہش یہ ہے کہ ملک کی معشیت مضبوط ہو، خبر یہ ہے کہ ٹیکس چوروں اور ان کے سر پرستوں کی سب سے بڑی تعداد پارلیمان میں پائی جاتی ہے۔
سیاسی شہنشاؤں کے بیش بہا خزانے غیر ممالک میں محفوظ و مامون ہیں۔ خواہش یہ ہے کہ کرپشن ناسور ہے مگر سب اسی زلف کے اسیر ہوئے کے مصداق طبقۂِ اشرافیہ سے لے کر چھونپڑیوں کے باسی اسی مرض لا دوا میں مبتلا ہیں۔ مزے دار بات یہ ہے کہ جو جتنا کرپشن کی دلدل میں غرق ہے اتنا ہی کرپشن کی خلاف جہاد کی تلقین کرتا نظر آتا ہے۔
اجتماعی خواہش یہ ہے کہ جمہوری عمل کو پٹری سے اترنے نہیں دیا جائے گا، خبر یہ ہے کہ تین، تین بار حکومت کرنے والے جمہوری قائدین بھی خلائی مخلوق سے شکوہ کرتے ہیں اور ہر جانے والا وزیر اعظم بلا استثنیٰ ہاتھ بندھے ہونے کی دُہائی دیتا نظر آتا ہے۔
خواہش یہ ہے کہ فوج وزارتِ دفاع کے ما تحت ہے، خبر یہ ہے وزیر دفاع محض ایک اعزازی عہدہ ہے جو برے وقتوں پر بھلے آدمی کو کردار ادا کرتا ہے۔
خواہش یہ ہے کہ افغانستان، برادر اسلامی ملک ہے جب کہ خبر یہ ہے کہ برادر ملک ہمیں منافق اور کافر قرار دیتا ہے۔ خواہش یہ ہے کہ امریکہ ہمارے بغیر افغانستان کی جنگ میں کامیاب نہیں ہو سکتا جب کہ امریکہ پہلے ہمیں کرائے کا ٹٹو اور اب دہشت گردوں کا سر پرست گردانتا ہے۔ خواہش یہ ہے کہ روس کی کافر حکومت سے اب برادرانہ تعلقات استوار کیے جائیں جب کہ خبر یہ ہے کہ روس ہمیں امریکی پٹھو جان کر تمام کوششوں کو حقارت سے ٹھکرا دیتا ہے، اگر چِہ چین ہم سے مخلص بھی ہے اور دوستی کا رشتہ ہمالیہ سے اونچا بھی ہے مگر شاید اسے سمجھ نہیں آ رہا ہمارا مَصرف کیا ہے۔
ایران سے بھی ہمارا اخوت کا دیرینہ رشتہ ہے، مگر ایران مصدقہ مشکوک سمجھتا ہے۔ خواہش ہے کہ ایران مخالف سعودی عرب کی چھتر چھایہ میں بننے والی خود ساختہ اسلامی فوج کی سر براہی جنرل راحیل شریف کریں، خبر یہ ہے کہ ہم ایران کے خلاف کسی کارِ روائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔
یمن میں شہریوں پر ہونے والی گولہ باری کی بھی مذمت کرتے ہیں، قطر کے خلاف عاید کی جانے والی پابندیوں کو بھی غلط جانتے ہیں، اسرائیل اور عرب تعلقات پر گو مگو کی کیفیت اور سعودی عرب میں نمودار ہونے والی جدت پسندی پر کسی تبصرے سے گریز کرنا چاہتے ہیں۔
صرف اتنا ہی نہیں بھارت سے نفرت اور ہندوستانی فلموں اور ثقافت سے الفت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ خواہش یہ ہے کہ پاکستان اسلامی برادری کی قیادت کرے، مگر خبر یہ ہے کہ مسلم ممالک نا قابل اعتبار سمجھتے ہیں۔ خواہش یہ ہے کہ ایٹمی قوت ہونے کی بنا پر عالمی برادری عزت کرے جب کہ خبر یہ ہے کہ ہم دنیا کا واحد ملک ہیں جس کے ایک ہاتھ میں ایٹم بم اور دوسرے میں کشکول ہے۔
کون جانے خواہش زیادہ اہم ہے یا خبر مگر بہر حال یہ طے ہے کہ ہماری دنیا الگ ہے، آئینہ تو دور کی بات ہم اپنی دنیا کے باہر کچھ دیکھنا اور سوچنا بھی نہیں چاہتے۔ افلاطون کی کتاب ریاست میں یوٹوپیا کا تصور موجود ہے، ایسی مثالی ریاست جس میں ہر چیز اعلیٰ ترین، حکومت، ادارے اور عوام سب بہترین سطح پر ہوتے ہیں جب کہ اس کے بر خلاف ڈسٹوپیا ریاست کا تصور پیش کیا جاتا ہے۔
جہاں کوئی چیز درست نہیں، ادارے اور پالیسیاں نا کام، ہر آنے والا حکمراں ہیرو اور جانے والا ولن، ادارے اور عوام کرپشن میں لت پت، تو جناب من آئینہ تو دیکھنا ہو گا تب ہی پتہ چلے گا ہم یوٹوپیا میں بسے ہیں یا ڈسٹوپیا میں، اس کا فیصلہ آپ بہتر کر سکتے ہیں۔ دنیا غلطیوں سے سیکھتی ہے، مگر شاید ہم دنیا کو غلطیاں سکھانا چاہتے ہیں، جاتے جاتے جون ایلیا کا یہ شعر آپ کی نذر
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں