ہم حالی، قالی، خالی و خیالی چٹخاروں میں پھنسی بےعمل معاشرت
از، نصیر احمد
کھانے کی حد تک تو شاید ٹھیک ہی ہے مگر چٹخارے کو ملکی زندگی کے دیگر معاملات میں بھی بہت اہمیت حاصل ہے۔ لوگ جنازہ گاہوں میں صفوں کی تعداد گنتے ہوئے بھی مزے لے رہے ہوتے ہیں۔ اتنا بڑا جنازہ، مزا ہی آ گیا۔
میڈیا کے عروج کے بعد تو عدالتیں بھی چٹخارے دار علامتوں کا سہارا لیتی ہیں۔ گاؤں میں انصاف کرتا با با رحمتا عدالت کے سنجیدہ مسائل کو آسان کردیتا ہے۔ اور میڈیا کی تو یہی کوشش ہوتی ہے کہ بات گِریہ و قہقہہ سے ہٹنے نہ پائے لیکن گریہ و قہقہہ کبھی بھی اوباشوں اور تماش بینوں کی سطح سے اوپر نہ اٹھنے پائیں۔ تو جیہہ لوگ تراش لیتے ہیں کہ عوام کی رضا ہی یہی ہے، زمانہ بدل گیا ہے، اب تو دنیا بھر میں ایسے ہی ہوتا ہے۔ جذبات عمل کے دروازے کھولتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جو میڈیا کا اصل کام ہے جسے خبر، معلومات اور تجزیہ کہتے ہیں، اس کا کیا حال ہوتا ہے، اس کے بارے میں فکرمندی کا سمے ہی نہیں ہے۔ لیکن جب خادم رضوی سے ملاقات ہوتی ہے تو پھر اوہو یہ کیا ہو گیا، ہم نے تو ایسے سوچا ہی نہیں تھا۔
شمس العلماء مولوی محمد حسین آزاد نے بھی محاورے، استعارے اور چٹخارے کی ایسی تبلیغ کی ہے ہر قسم کے غیر ملکیوں کو ہم دِلی کی جامع مسجد کے باہر پانی میں گھلی ہوئی مرچوں جیسے چٹخارے سےآشنا کرتے ہوئے دِلی کی عظمت کا وہ نقشہ کھینچتے ہیں کہ پہلے علم بیکار ہوتا ہے پھر صداقت معذور ہوتی ہے اور اس کے بعد انسانیت بھی ڈانواں ڈول ہو جاتی ہے۔ ہر قسم کے علمی، ادبی، ثقافتی، فلسفیانہ، سیاسی اور معاشرتی چٹخارے کہ یہ اثرات ہم سہتے رہتے ہیں مگر سہنے کو بھی کچھ لُون مرچ ڈال کر چٹخارے دار بنا ہی لیتے ہیں۔
خود شمس العلماء نے بھی یہی کیا تھا کہ شیخ ابراہیم ذوق ان کے استاد تھے، ان کا درجہ شاعروں میں اتنا بلند کر دیا کہ غالب اور مومن کی طرف توجہ ہی نہیں جاتی۔ اور انشاء کی بے کسی کا وہ نقشہ کھینچا ہے کہ آپ پڑھیں تو اسئ وقت نواب سعادت علی خان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرا دیں۔ اور میرزا مظہر جان جانان کی بے دماغی کا وہ چرچا کیا ہے کہ آپ حسد کا شکار ہو کر وہیں گل کی میرزائی کو توڑ مروڑ دیں۔ مگر جیسے ان عظیم شاعروں کے شعر جھوٹے تھے اسی طرح شمس العلما کے ان کے بارے میں بیان کیے ہوئے قصے بھی جھوٹے تھے۔
بالکل ان بزرگ کے قصے کی طرح جو اپنے ایک عزیز کے ہمراہ کنویں میں گری ہوئی گھوڑی نکالنے کا قصہ سنا ہی رہے تھے کہ ان کے وہ عزیز آ دھمکے۔ پوچھنے والوں نے ان عزیز سے پوچھا کہ ذرا ہمیں وہ واقعہ تو بتائیں تو سہی جب آپ نے ان بزرگ کے ہمراہ کنویں میں گری گھوڑی نکالی تھی۔ وہ بیچارے کیا بتاتے، سچی بات ہی کہہ دی کہ ایسا تو کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔
شمس العلما کی دوروغ گوئی بھی لوگوں نے فاش کی مگر یہ الفت چٹخارا جو ہڈیوں میں گھسی بیٹھی ہے وہ شمس العلما کی دروغ گوئی کو تابان کرتی رہی اور کرتی رہے گی۔
چٹخارے سے جب قیس صحرا گرد والا رشتہ بنتا ہے کہ لیلا جو کچھ بھی کرے وہی ٹھیک ہے تو بات مشکل ہو جاتی ہے۔ فلسفے میں چٹخارے کے شوق میں ہم دیکھ نہیں پاتے کہ بات کدھر سے آئی ہے، کیا کررہی ہے اور ہمیں کدھر لے جائے گی۔ شہری کی تلاش میں خون کی پیاسی بھیڑیں ملتی ہیں جن کے چرواہے خون خوار بھیڑیے ہوتے ہیں اور سب کچھ لوٹ پلٹ جاتا ہے تب بھی ہم یہ کہہ کر تفکر، تدبر، فیصلہ اور احتساب کی ذمہ داری سے جان چھڑا لیتے ہیں کہ اپنی خوشی آئے نہ اپنی خوشی چلے۔
پھر فیض صاحب سے ملاقات ہوتی ہے۔ جیسے کسی فرشتے سے مل لیے ہوں۔ کبھی کسی کو ڈانٹا جھڑکا نہیں۔ کبھی غیبت نہیں کی۔ بس نرمیاں ہی نرمیاں، گداز ہئ گداز۔ لیکن یہ بھی تو ہم نے ہی سوچنا ہے کہ کر کیا رہے تھے۔ ایک نوزائیدہ ملک، جسے ہم لوگوں کے ہی بقول لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا۔ اس کی منتخب حکومت کو گراکر ملک پر اشتراکیوں کے فوجی قبضے کی فیض صاحب سازش کر رہے تھے۔ لیکن ان کی شاعری چونکہ ہمیں چٹخارے دار لگتی ہے، اس لیے ان کے اس گھناؤنے جرم سے ہم نے چشم پوشی کر لینی ہے۔
اسی طرح ضیا الحق نے جو آئین شکنی اور معاشرے کی تخریب کی اس کے سارے نتائج ان کی پارسائی، شرافت اور انکساری کے چٹخارے دار قصوں کے ذریعے چھپا لیے جاتے ہیں۔
تاریخ نویسی بھی اسی چٹخارے کی نذر ہو گئی۔ واقعات کے خیالاتی، معاشرتی، معاشی اور ثقافتی اسباب کی بجائے ہم لوگوں کی توجہ مبازرت پر ہی مبذول رہتی ہے کہ کیسے ہمارے ہیرو نے ولن کو پچھاڑا۔ جو سوال ہیکٹر نے ٹروئے مووی میں پوچھا تھا کہ خدائے شمس کے پاس کتنی پلٹنیں ہیں؟ اس کی طرف ہماری توجہ نہیں جاتی۔ لیکن صداقت کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارا قومی بیان( آپ بیانیہ کہہ لیں) سپنے کی طرح بے ربط لیکن چٹخارے دار ہے کہ شہزادی کوہ قاف سے اتر کر سیدھی شاپنگ مال پہنچ جاتی ہے۔
سائنس کے ساتھ بھی ہم کچھ ایسا ہی کرتے ہیں پانی سے گاڑی چلانے کی خبر ابھرتی ہے تو ہم سب کنکریاں اٹھا کر نیوٹن کے مجسمے پر مارنا شروع کردیتے ہیں کہ بڑا سائنسدان بنا پھرتا ہے لیکن ہمارے دِتے کے سامنے تو کچھ بھی نہیں۔ پھر دِتے کے انٹرویو ہوتے ہیں، دِتے کے نام کا ایک سائنسی ادارہ بنانے کی تجاویز گردش کرنے لگتی ہین، دتے کی شان میں قومی ترانے بجتے ہیں۔ اتنی تیاریوں کے بعد خبر ہوتی ہے کہ دِتا تو گپیں ہانک رہا تھا۔ اور جو بے چارہ نامی گرامی سائنسدان ہے، اس کا ذکر آتے ہی ہم میں سے بہت سارے گالی گلوچ شروع کر دیتے ہیں۔
اس طرح زندگی کے ہر شعبے میں ہم چٹخارے کے لیے خِرد اور صداقت کا روزانہ خاتمہ کرتے رہتے ہیں۔ جس طرح اشفاق احمد وغیرہ کسی بد ترین جرم کی ایسی منظر کشی کرتے تھے کہ قاری کی نگاہ میں جرم فضیلت سی بن جاتا تھا۔ نتیجے کے طور پر ادبی چٹخارا فضیلت ہے اور صداقت گمراہی۔
اور اگر صداقت کے ساتھ ہمارا یہی رویہ رہا تو قصہ چہار درویش، آرائش محفل، فسانۂ آزاد سے چن چن کر پھڑکتے ہوئے فقرے لکھ لکھ کر غش کھاتے رہیں گے، عش عش کرتے رہیں گے اور دل کے مرض بڑھاتی ہوئی شاعری سے لذت حاصل کرتے رہیں گے، لیکن مسائل بڑھتے جائیں گے۔
چٹخارے کے لیے ہم نے کتنے اپنے آپ کو دھوکے دیے۔ ناٹزی جرمنی کا چٹخارا، سوویت یونین کا چٹخارا، آمر مطلق کا چٹخارا، ولایت فقیہ کا چٹخارا، درویش کامل کا چٹخارا، مجاہد با صفا کا چٹخارا، ماؤ کا چٹخارا، قائد اعظم ثانی کا چٹخارا، بے احتساب جمہوریت کا چٹخارا، آمریت کی توثیق کرتی عدالت کا چٹخارا، علم کے نام جہالت کا چٹخارا، عشق کا چٹخارا اور میڈیا کے بے شمار چٹخارے۔ لیکن زندگی کے کسی بھی شعبے سے جب چٹخارا صداقت کو بے دخل کردے تو مسائل میں اضافہ ہی ہوتا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے۔
صداقت اور چٹخارا ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں لیکن شاید دل بڑا کرنا پڑتا ہے، دماغ بہت استعمال کرنا پڑتا ہے، کا م بہت کرنا پڑتا ہے لیکن ہم تو یہی کہیں گے کہ جب کبھی چُننے کا موقع آ جائے تو صداقت کو ہی چُنیں۔
رشتوں کو ہی دیکھ لیں، بہت ہنسی کھیل چلتا رہتا ہے لیکن جب معلوم ہو جائے کہ رشتے میں صداقت ہی نہیں ہے تو ہنسی کھیل مشکل ہو جاتا ہے۔ اب صداقت کو نظرانداز کر کے ہنسی کھیل کیا جا سکتا ہے مگر اپنے اپنے فائدے کے پیچھے بھاگتے جھوٹے آخر کار کسی اجتماعی المیے کا باعث بن جاتے ہیں، نہ صرف باعث بلکہ اکثر اس المیے کے ستم رسیدہ بھی۔ ہماری قومی زندگی میں تو یہ بار بار ہوتا ہے۔