خالد فتح محمد کی ناول نگاری

Azhar Hussain
اظہر حسین

خالد فتح محمد کی ناول نگاری

تبصرۂِ کتاب از، اظہر حسین

بَہ حیثیتِ ناول نگار، ترجمہ کار، مدیر، خالد فتح محمد اپنے فن پہ داد پا چکے ہیں۔ وہ اکیسویں صدی کے ناول نگاروں میں اپنے کام کے عمودی و افقی پھیلاؤ کے حوالوں سے نمایاں تر ہیں۔

ان کے محض فکشنی موضوعوں اور کرداروں ہی کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ الٹے ہاتھ چلنے والے لکھاری ہیں: عام آدمی کے مسائل، عام آدمی کی کاوشیں، عام آدمی کی محبتیں، عام آدمی کی نفسیات؛ خاص آدمی کی درندہ صفتی، اس سے پھوٹنے والی نا انصافی اور سماج پر اس کے گھناؤنے اثرات وغیرہ ایسے ہی موضوعات ہیں جنھیں وہ اپنے ناولوں اور افسانوں میں دُہراتے ہیں۔

مگر ایسے کہ بَہ ظاہر دُہرایا گیا موضوع، اپنی تیکنیکی و مَعنوی تہہ داری کی بَہ دولت منفرد اور یگانہ نظر آنے لگے۔ الٹے ہاتھ کو ڈگ مَگانے والے ہمارے زمانے کے کئی اور مصنفین کے بر خلاف، ہمارے مصنف کو متذکرہ بالا مسئلوں کو پروپیگنڈا محض بنانے کا لپکا نہیں۔

وہ ہر بڑے فن کار کے مانند موضوع کی فن کارانہ پیش کش کے قائل ہیں۔ یہی چیز انھیں ہم عَصر فکشن نگاروں کے مرکزی دھارے میں نمایاں جگہ دیے ہوئے ہے۔

مصنف کے اب تک شائع ہونے والے آٹھ ناول، چار غیر ملکی ناولوں کے تراجم، اور چھ افسانی مجموعے رواں صدی کے ادب پڑھنے والوں کی نظر سے اوجھل نہیں۔ یہاں ہم مصنف کے ناول کے فن پر بات کریں گے:

اکیسویں صدی کی پہلی دو دَھائیاں اُردو ناول کے لیے زرخیز رہی ہیں۔ گزرے ہوئے انیس برسوں میں اُردو ناول اپنی پھیلاوٹوں اور نئے امکانات کی ڈھونڈ میں کئی ایک قدم آگے بڑا ہے۔

جو لکھاری اس صنف کے مخفی امکانی گوشوں کو پوری لگن سے بَہ رُوئے کار لانے میں کوشاں ہیں اُن میں مرزا اطہر بیگ، محمد اقبال دیوان، طاہرہ اقبال، محمد عاصم بٹ، نیلم احمد بشیر، اختر رضا سلیمی، رفاقت حیات، سید کاشف رضا، عاطف علیم، زیف سید، علی اکبر ناطق، نجم الدین احمد، آمنہ مفتی، آزاد مہدی اور صفدر زیدی قابل ذکر ہیں۔

ظاہری دانست میں خالد فتح محمد رواں صدی کے تعداد میں زیادہ ناول لکھنے والوں کی فہرست میں سب سے آگے ہیں، مگر پھر ادب میں نمبر وَن کا کھیل قطعی بے معنی شے ہے۔


کچھ اور متعلقہ تحریریں:

خالد فتح محمد سے باتیں  انٹرویو از، ضیغم رضا

بنجر زمینوں کو سیراب کرتا خالد فتح محمد  از، خلیق الرحمٰن

زندگی کی جد و جہد میں شامل لوگوں کی کہانی  تبصرۂِ کتاب از، غلام حسین ساجد


اُن کے ناولوں خلیج، ٹِبّا، اور کوہِ گَراں نے پڑھنے والوں سے جس شان و شوکت سے داد وصول کی اُس کی صدا البتہ نقارے کی تھاپ ایسی سریلی رہی ہے جو اب تک گونج رہی ہے۔

جب کہ پری، سانپ سے زیادہ سیراب، اے عشقِ بلا خیز، شہر مدفون اور حال ہی میں شائع ہونے والا ناول زینہ بھی عصرِ حاضر کے ناولوں میں اہم جگہوں پہ فائز ہونے میں نا کام نہیں رہے۔

پری خالد فتح محمد کا افتتاحی ناول ہے۔ کئی ایک ناقدوں کے نزدیک مصنف کے بعد کے سارے ناول اسی پری کی دین ہیں۔ اس تجزیے کو جھٹلانا مشکل ہے۔ جس ڈھب سے یہ ناول اپنا پلاٹ، پلاٹ کا اندرونی و بیرونی فریم تشکیل دیتا ہے، اور جس سطح کی طاقتیں ناول کے ہیرو protagonist کو تفویض کرتا ہے، کم یا زیادہ اسی طور سے پری کے بعدآنے والے ناولوں کے مرکزی کرداروں کو بھی بخشتا ہے۔

اس دعویٰ نما نُکتے سے ایک شبہ سر اٹھاتا دکھائی دے سکتا ہے: خالد فتح محمد اپنے ناولاتی کہانی یا مواد کو دُہراتے ہیں (!؟) اس شبہ کے ازالے کے لیے یوں تو ایک واضح نفی کا جواب a big No دے کر آگے بڑھا جا سکتا ہے، مگر فنونِ لطیفہ، تمام دوسری علمی شاخوں کے بر خلاف، ایسی اخلاقیات کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

فنونِ لطیفہ میں تخلیقی دُہرائی ایسی اچنبھئی بات نہیں سمجھی جاتی۔ فکشن نویسی میں اس کی مثالیں، مغرب و مشرق میں، دسیوں ہیں۔ خالد فتح محمد کے پسندیدہ ناول نگار ہی کی مثال لیجیے: ارنسٹ ہیمنگوے… کیا ان کا ہیرو یا مرکزی کردار جمع کہانی کا خارجی ڈھانچہ اور کبھی کبھار موضوع خود کو دُہرا نہیں دیتے! For whom the Bell Tolls کا پلاٹ، ٖA Farewell to Arms کے پلاٹ سے کس قدر مختلف ہے!

ان کے سب سے معروف ناولا The Old Man and the Sea کا اندرنی دھارا اور مرکزی کردار کی اسائنمنٹ بھی تخلیقی دُہرائی ہی کے زمرے میں آئے گی۔

قریب ترین مثالوں میں میلان کنڈیرا اور مارگریٹ ایٹ ووڈ کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ کنڈیرا کے تین ناولوں The Unbearable Lightness of Being، The Book of Laughter and Forgetting، اور Identity کا یکے بعد دیگرے مطالعہ کیجیے اور جانیے کہ ہر فن کار دیکھے یا ان دیکھے اطوار سے خود کو دُہراتا ہے۔

اردو کے فکشن نویسوں کی جانب نظر دوڑائیے: مستنصر حسین تارڑ، مرزا اطہر بیگ، حسن منظر، محمد عاصم بٹ و غیرہ دُہرائی میں خود کو بچا نہیں پائے۔

مرزا اطہر بیگ کی طویل مختصر کہانی بے افسانہ ان کے تینوں ناولوں میں کہیں کم تو کہیں پوری شدت سے جلوہ گر دکھائی دیتی ہے۔ تارڑ کے ہاں اسلوبیاتی دُہرائی کے ساتھ مواد، جگہ، مرکزی کرداروں کے نفسیاتی مسائل تک دہرائے جاتے ہیں۔

محمد عاصم بٹ پوری قوت سے دائرہ میں سے دو مزید ناول نکالنے میں کام یاب ہوئے ہیں۔ چُناں چِہ خالد فتح محمد پری سے رجوع کرتے ہیں تو یہ ایک فکشن نویس کی جبلی مراجعت ہے!

پری کا معظم علی خاں، اس کی سیکرٹری شفقت، اور ناول کی عنوانی و مرکزی کردار زہرہ جبیں معروف بہ لقب پری جمع ”کام، شراب، عورت“ اس ناول کی بنیادی اکائیوں میں سے ہیں۔

معظم علی خاں ایک کام یاب تر صنعت کار ہے اور ہر کام یاب کاروباری کی طرح اسے بھی کاروباری تھکان کو ہَمہ دم رفع کرتے رہنے کے لیے کسی پری اور لال پری کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ انھی جمالیاتی ضرورتوں، اور ازدواجی نا آسودگیوں، کے زیرِ اثر ہی وہ زندگی کے بڑے بڑے فیصلے کرتا چلا جاتا ہے۔

اُنچاس کے پیٹے میں ہونے کے با وصف اس کا کردار کسی منچلے نو جوان کے عشق کی طرح جلن، شک، حسد اور تعصب کا شکار ہوتا ہے۔ اپنی بیوی رخشندہ جسے وہ مدت سے فراموش کیے ہوئے ہے، معظم علی خاں کی آخری عمر میں اسے haunt کرتی ہے۔

ایک کام یاب صنعت کار جب سیاسی و کاروباری وابستگیوں اور اپنے تئیں اپنے عشق کی بَہ دولت ملک کا بہت بڑا آدمی بنتا ہے تو اس کی نظر اپنی فراموش کردہ زندگی پر بھی پڑتی ہے۔

رخشندہ تو کینسر اور دیگر بیماریوں کے ہاتھوں پہلے کومے اور بعد میں قبر میں چلی جاتی ہے، مگر معظم علی کو فلاحِ معاشرہ کے لیے بہت کچھ کرنے کی ترغیب ضرور دلا جاتی ہے۔ اسی ترغیب سے ’رخشندہ سامپل کولیکشن‘ برآمد ہوتا ہے۔

ناول ایک چارلس ڈکنس کے ناول کی طرح خود کو پوری طرح سمیٹ کر اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ ناول کے مرکزی خیالات: کلیدی کردار کے نا جائز جنسی تعلقات، اس کا ناول کی کہانی میں بَہ تدریج اونچائیوں پہ چڑھتے چلے جانا، ناول میں کسی نا معلوم (ایجنسیوں کے آدمی) کی آمد، نا معلوم شخص کی جانب سے مرکزی کردار کو کسی بڑی اسائنمنٹ کے لیے تیار کرنا وغیرہ ہی ایسے واقعات ہیں جنھیں پری کے بعد کے ناولوں میں دُہرایا جانا ہے۔

اپنی بُنَت میں پری کا پہلا حصہ زیادہ مضبوط اور مربوط ہے۔ اس حصے کا سارا بیانیہ مرکزی کردار کی میں سے پھوٹتا ہے۔ واحد متکلم کا بیان کار بہت پر اعتماد اور سلیقہ مند ہے۔

اس کے بتائے ہوئے سچ، سچ لگتے ہیں۔ بعد کے حصوں کے سچ کو ماننے میں قاری پیش و پس سے کام لے سکتا ہے۔ یہ حصے سوائے آخری باب کے، واحد غائب کے بیان کردہ ہیں۔

ناول کے یہ حصے کم رمزی، راست سمتی ہیں۔ یہاں ناولاتی بہاؤ اندر سے باہر کے بَہ جائے، باہر سے باہر کی جانب ہے۔ با وُجود اس کے، یہ حصے نا پختہ اور غیر ناولائے ہوئے نہیں۔

پہلے ناول کی حیثیت میں پری ایک روایتی ناول کے جملہ اوصاف رکھتا ہے: ایک مربوط کہانی، کرداروں کا سماجی و نفسیاتی مطالعہ، کرداروں کا آغاز اور ان کے فیصلوں کے اندر سے پھوٹتا انجام، منظر نگاری، مکالمہ نگاری وغیرہ۔

بَہ ہر صورت، یہ ناول، تخلیق کار کے اندر سے فکشن نگارکو باہر لانے میں کامران ہے۔ پری نے خالد فتح محمد کو بلا کا اعتماد بخشا۔ اس کے بعد سے ان کا ناول نویسی کا سفر ٹھہراؤ کا شکار نہ ہوا۔ انھوں نے، اس کے بعد، بالترتیب سات ناول لکھے__ خلیج، ٹبا، سانپ سے زیادہ سیراب، شہر مدفون، اے عشقِ بلا خیز، کوہ گراں، زینہ ___ اور یوں وہ اکیسویں صدی کے زُود نویس ناول نگار بن کر سامنے آئے۔

ان کے ناولوں کو اشاعتی سِن میں ترتیب وار رکھنے کے بَہ جائے موضوعی یا ساختیاتی مشابہت کے حوالے سے درجہ بند کیا جانا چاہے۔ ایسا کرنے پہ ہمیں خلیج، اے عشق بلا خیز، کوہ گراں اور زینہ کو ایک، جب کہ ان کے بر خلاف، سانپ سے زیادہ سیراب، ٹبا اور شہر مدفون الگ الگ یا انفرادی طور سے دیکھنا ہو گا۔

خلیج کی پڑھت پڑھنے والے پر اس کے لکھاری کا ماضی، حال، استقبال اور انسانی شعور و لاشعور کا گہرا تجربہ و مشاہدہ تو جھلکاتی ہی ہے، سادہ بیانیے کو اچنبھئی صورت دینے کا ہنر بھی آشکار کرتی ہے۔

ان دو خوبیوں سے بر تَر خوبی اپنی آپ بیتی کو منصفانہ بیانیے کے بَہ جائے مرکزی کردار کے عمل اور تعامل میں دکھانے کی سعی ہے اور یہ خوبی خلیج میں شروع تا آخر رہتی ہے۔ یہ خالد فتح محمد کے تا حال سب سے زیادہ سراہے جانے والے ناولوں میں سے ایک ہے۔

مشرقی پاکستان کے ہم سے الگ ہونے سے پہلے پہلے کے واقعات اس کتاب میں ابھرتے ہیں۔ یہ ناول چسکیاں لے لے کر نہیں، گھونٹ بھر بھر کر پڑھا جانے والا ہے کہ بیانیہ روانی سے دوڑے چلا جاتا ہے۔

خلیج کو ایک رومانی خیالات رکھنے والے لیفٹنینٹ افضل کی جنگی آپ بیتی کہیے۔ ناول کی سب سے بڑی اچھائی یہ ہے کہ یہ اپنے موضوع کی بَہ راہِ راست خارجی تفصیلوں میں سر کھپانے کے بَہ جائے، اپنے مرکزی کردار کے اندر سے باہر کا منظر جھلکاتا ہے اور اس عمل میں خود کو پورا کام یاب پاتا ہے۔

قاری مغربی فوجی افسر افضل کی آنکھوں سے بستیاں اجڑتی دیکھتا ہے، بنگالی مرتے دیکھتا ہے، مغربی پاکستانی مرتے دیکھتا ہے، مشرقی اور مغربی عورتوں کا استحصال دیکھتا ہے، مشرقی فوجیوں کی بغاوت بھی دیکھتا ہے اور مغربی رویہ بھی دیکھتا ہے۔

ناول نگار کام یابی سے محسوس کراتے ہیں کہ مشرقی فوجی اور مغربی فوجی، مشرقی شہری اور مغربی شہری کیا سوچتے سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں؟ قاری ورق ورق دیکھتا ہے کہ تاریخی اور جغرافیائی عوامل اور اقتدار کی بھوک کس طرح کام دکھاتی ہے۔

احکام کی تکمیل اور من بھیتر انسانیت کی آپسی لڑائی کا بیان بہت متأثر کن ہے۔ اور اس سے بھی متأثر کن مغربی اور مشرقی پاکستان میں زندگی کے تفاوت کا غیر جانب دارانہ اظہار ہے۔ بیرونی مداخلت کے ساتھ ساتھ اپنی غلطیاں بھی پیشِ نظر ہیں۔

اکہتر میں پھنسا فوجی مستقبل کے چار صوبوں کے باہمی تضادات اور بکھراؤ کے خدشات بھی تاریخی تناظر میں محسوس کرتا اور کراتا ہے۔ اور اس میں محبت کا جنم بھی ہے، انسانیت کی بقاء کی جد و جہد بھی ہے اور حالات کے جبر سے تنکے بھی جا بَہ جا اڑتے ہیں۔

سانپ سے زیادہ سیراب کو خلیج کا حصۂِ اوّل یا پیش گفتار سمجھا جا سکتا ہے۔ ناول ساٹھ سے ستر کی دھائی کو اپنا پسِ منظر بناتا ہے۔ ناول کا ایک مرکزی کردار حامد محنت کش طبقے کا پڑھا لکھا اور ادب پسند نو جوان ہے۔ جب کہ حامد کے متوازی کردار شیخ ابرار کا ہے بورژوائی خاندان کا چشم و چراغ ہے۔

ناول کا پلاٹ، ان دونوں کے تعلق، اختلافات اور اس سے پھوٹتے مسائل کے علاوہ جاہل امارت کے عالَمِ مفلسی پر غلبے، مذہب پسندوں کے مادی آسودگی کی خاطر سیاست کی چھت کا سہارا لینے جیسے موضوع کے گردا گرد چکر کاٹتے ہوئے تہذیبی کش مکش کا آئینہ بنتا ہے۔ مذکورہ مواد تخلیقی ہُنر وری سے متن کیا گیا ہے۔

ناول کے بیانیے میں ساٹھ ستر کی دھائیوں کے تہذیبی آئینے میں آج کی پاکستانی صورت کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں بھی لوگ حقیقی تبدیلی کو ترس رہے ہیں جب کہ سرمایہ دار تبدیلی کا شیریں پھل بَغیر محنت کے کھا رہا ہے۔

جہاں تک تیکنیکی یا اسلوبیاتی تجربے کا سوال ہے، خالد فتح محمد کی اس تجربے میں عدم دل چسپی اس ناول تک بر قرار ہے۔ وہ موضوع پسندی اور فضا بندی کے رَسیا ہیں۔ یہ فضا بندی فینتاسی اور حقیقت کے تصورات کے باہمی میل ملاپ سے تشکیل پاتی ہے۔

گو اس کا نشان مذکورہ ناول میں نسبتاً کم ہے، مگر بیانیے کے بیچوں بیچ کہیں اس کا احساس آ گھیرتا ہے۔ کیا کسی ایسے لکھاری کا یہ کمال نہیں کہ وہ سادہ اور نہایت سہل بیانیے میں طلِسمی انداز کا احساس دلائے؟ اس ایک وجہ سے بھی یہ ناول منفرد ہے۔

ٹبّا مختصر اور نیم خود کلامی کی سی صورت کا پیش کار ناول ہے۔ یہاں مصنف فکشن میں پُر اسراریت اور طلِسم بھرنے کے معاملوں میں لاطینی امریکی فکشن نگاروں کا پَیرو نظر آتا ہے۔ یہاں خواب ناک تجربے کی جھلک بھی ہے اور نا معلوم یا برسوں پہلے کی معلوم اور اَدھ بھولی داستان کی دُہرائی بھی۔

زبان پختہ، بیانیہ چوکس اور کہیں کہیں بیچ داری ہے۔ اس مختصر ناول میں خالد فتح محمد کی آواز توانا تَر ہے۔ خالد فتح محمد کے فکشن کی انفرادیت اس ناول تک آتے آتے اپنے اندر اک خاص چمک پیدا کر چکی ہے۔

یہ چمک ٹبا کے بیانیے، بیانیے کے بدلتے اور کروٹیں لیتے ماضی و حال کے زمانوں اور شاید ان سب سے زیادہ، دریا کی طرح بہتے ہوئے اس اسلوبِ بیان سے پیدا ہوتی ہے جس میں مرکزی کردار کی نفسیاتی و روحانی کش مکش اسے اپنے برسوں پہلے دیکھے اور محسوس کیے ہوئے مکان سے اک نئے زاویے اور انوکھے احساس سے دوبارہ آ ملاتی ہے۔

سارے ناول میں مرکزی کردار کا ردِ عمل قابلِ توجہ ہے۔ یہ رد عمل اسے اپنے لڑکپن، جوانی اور ادھیڑ عمری کی سیریں کراتا ہے اور ان تخیّلی تفریحات سے ناول کا متن تصویر پاتا ہے۔ باپ، بیٹا اور میاں صاحب کی مثلث ناول کو تین بابی ڈرامہ مع پیش گفتار کی شکل دیتا ہے۔

یہ ایسے کردار کی زندگی کا ڈرامہ ہے جس کی زندگی جلیبی کی طرح گول اور دائرہ در دائرہ رہی ہے۔ اس کی یادیں، اس کے دکھ، اس کا ماضی اور حال بیانیے میں ایک ہی جگہ space  پہ آ کر ٹھہرتے ہیں اور شاید انھیں مرکزی کردار کی حرکت کے با وجود بھی ٹھہرے ہی رہنا ہے۔

ٹبا کی فضا اور کہانی کی چلت خالد فتح محمد کے کسی اور ناول سے کم ہی لگّا کھاتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ بالکل الگ تجربہ ہے۔ یہ الگ تجربہ کہیں کہیں یہ بھی تقاضا کرتا ہے کہ اسے فکشن کے زیادہ با ذوق قاری ہی پڑھیں؛ ایسے جنھیں الگ اور اچنبھئی ناول پڑھنے کا چسکا لگا ہو۔ ٹبا کے بر خلاف، شہر مدفون عمودی اور افقی، ہر دو طرح سے قابل اعتنائے خاص و عام ہے۔

شہر مدفون پانچ نسلوں کا قصہ ہے۔ یہ پانچ نسلیں ناولائے ہوئے متن میں جدا جدا بھی ہیں اور پانی اور شکر کی طرح گھلی ملی اور شیریں بھی۔ ان کے اندر اور باہر ایک ایسی اَن دیکھی فضا ہے جو متن کی پڑھت کے دوران قاری کے ذہن پہ چھائی رہتی ہے اور اسے مختلف زمانوں کے اندر گھومنے اور اپنی تلاش کرنے والے کرداروں کی آوارگیوں میں یک زمانی یا یک فضائی تأثر بَہ ہر لمحہ میسر رہتا ہے۔

یہی تأثر ناول کے خواندنی بننے کا موجب ٹھیرتا ہے۔ مہا رانا کی فوج کا اہم سپاہی رائے بوچہ مل، ایک وفا دار مگر با شعور خدمت گزار ہے۔ وہ حساس طبع سپاہی ہے۔ مہا رانا کی بے اعتنائی سے خائف و نالاں ہو کر جنگی امور کو تیاگ کر بٹھنڈا کی جانب اپنی زوجہ کی طرف رخ کر کے محوِ سفر ہوتا ہے۔

دریائے بیاس کاشت کاری میں اسے زندگی کا نیا بہاؤ عطا کرتا ہے، جہاں بوچہ مل کو کوہ گراں کے حلیم جیسے ساتھی میسر آتے ہیں اور وہ زمین داری اور درباری مراعات حصول کے لیے اسلام قبول کر لیتا ہے۔

ناول میں بوچہ مل کی علی الترتیب دوسری اور تیسری نسلیں معاشی طور پر مستحکم ہیں۔ شکراللہ اور محمد مالک اس نسل کے نمائندہ کردار ہیں۔ محمد مالک تقسیم کے بعد پاکستان آ بستا ہے۔ یہاں وہ خوش حال و آسودۂِ خاطر ہے۔

چوتھی اور پانچویں نسل کے نمائندہ عبد الرشید اور محمد مجاہد ہیں۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے بوچہ مل کی نسل تعلیم یافتہ اور مہذب بن چکی ہے۔

شہر مدفون ایک تاریخی شعور کا ناول ہے۔ تاریخ کے مختلف مقامات پر ظاہر ہونے والے افراد، ان کی اندرونی و بیرونی الجھنیں، اور ان کی بے لگام خواہشوں کے بطن سے نکلنے والی نفرت انگیز چالاکیاں اور مکاریاں ناول کے پیٹ کو محض بھرنے کا کام کرنے کے بَہ جائے اس کے متن کی اس طور سے تشکیل کرتی ہیں کہ تشکیلِ متن سے تشکیلِ حقیقت کا کام بھی ساتھ ساتھ ہی ہو رہتا ہے۔

اس نوع کا تجربہ اس سے پہلے مستنصر حسین تارڑ کے خس و خاشاک زمانے اور قراۃ العین حیدر کے آگ کا دریا میں کیا گیا ہے۔ شہر مدفون بہ ہر حال ان دونوں ناولوں سے مختلف ناول ہے کہ ان دونوں ناولوں میں وقت اور اس کا بہاؤ کردار کی صورت میں، غیر مرئی ہی سہی، سارنے ناول میں پورے احساس کے ساتھ موجود رہتا ہے۔

شہر مدفون وقت کو کردار بنانے کے بَہ جائے تاریخ کے ٹھوس تغیر اور تہذیبی تبدیلی کے ٹھوس پنے پہ فوکس رہتا ہے۔ یہاں قاری کو غیر مرئی سے زیادہ مرئی دنیا سے واسطہ رہتا ہے۔

اے عشقِ بلا خیز__ جو ہجرت کر کے پاکستان آ بسنے والوں دو ایسے خاندانوں کا قصہ ہے جن کا ہندوستان کی مختلف تہذیبوں، بہاری اور پنجاب، سے تعلق ہے __خالد فتح محمد کی فکشن میں منفرد نوع کا اضافہ ہے۔

یہ اضافہ اپنے اندر تہذیبی بدلاؤ اور تہذیبی کایا کلپ سموئے ہوئے ہے۔ مرکزی کرداروں، نوید اور وصی کے سمجھوتے، مجبوریاں، قبولیتیں، نفسیاتی کشاکش، جیت ہار، ماضی و حال کے درمیان کھینچا تانی کہیں کہیں رمزی تو کہیں سیدھے سبھاؤ سے جھلکائی گئی ہے۔

اس ناول تک پہنچتے پہنچتے خالد فتح محمد کو ناولائی متن کو اس ڈھب سے برتنے کا قرینہ آ گیا ہے جس سے تہہ در تہہ معانی آشکار ہوتے ہیں۔ رمزیت اور علامتیت جو کبھی سانپ کے امیج اور اس مہلک جانور سے اٹھنے والے (اور وصی کے اندر پیدا ہونے والے) واہمے اور خوف سے برآمد کی گئی ہے تو کبھی مرکزی نسوانی کردار نوید کے سانپ کی جانب مثبت و بے خوف رد عمل کی صورت میں جنسی رغبت کی شکل میں۔

اس ناول کی فضا بندی اور معاشرتی یا تہذیبی پسِ منظر علی الخصوص قابلِ توجہ ہے۔ ناول کے اکثر کردار وہ ماحول جو انھیں مراد آباد میں میسر تھا اور وہ فضا جو انھیں نئے ملک میں حاصل ہوئی ہے، کے درمیان سمجھوتہ کرنے کی تکلیف جھیلتے ہیں۔

ایک جگہ یہ سمجھوتہ نئی فضا اور نئی رسوم اور نئی روایت کو قبول کر سکتا ہے مگر زبان کا لہجہ بدلنے کو تیار نہیں۔ متذکرہ بالا کردار نستعلیق زبان کے رَسیا رہنے پہ مُصر، جب کہ خواجہ محبوب پنجابی لب و لہجہ برتنے پہ مائل ہے۔

یہ تبدیلی اور غیر تبدیلی اگر چِہ ایسی نہیں جیسی قراۃ العین کے آخرِ شب کے ہم سفر میں آزادی کے بعد نئے ملک، پاکستان آئے ہوئے کرداروں کے حصے میں آئی، کہ وہاں کرداروں کی نفسیاتی و تہذیبی جڑیں ایسی مٹی میں پیوست ہیں جس کے ساتھ کرداروں کا ذاتی اور انفرادی ربط و اِنس ہے، وہاں مادری اور پدری تہذیب کچھ کرداروں کے لیے عین ذات کا حصہ ہے، اور وہ تقسیم کے بعد خود میں توڑ پھوڑ محسوس کرتے ہیں۔

جب کہ دوسرے اہم کردار ریحان اور یاسمین مٹی کی محبت کے با وُجود تبدیلی کو قبول کرتے ہیں اور ایسی قبول کرتے ہیں کہ پاکستان سے باہر مغرب کو اپنا مسکن بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے بر خلاف، اے عشق بَلا خیز کی نوید اور وصی، تہذیب سے زیادہ جبلت کے اسیران ہیں۔

نوید جنسی آسودگی کی متلاشی ہے، عنبر بھی، اگر چِہ اس کا المیہ ترس بھرا ہے، جنسی آسودگی ہی کو دوڑی پھرتی ہے۔ زینہ کی ہادیہ کے بر خلاف عنبر چالاک اور کمینی ہے؛ یہ موقع پرست، وہ موقع پسند۔

تاہم خالد فتح محمد کے نسوانی کردار عموماََ جنسی طور سے نا آسودہ، اپنی پہچان کے متلاشی، مرد کے شکاری، مستقبل کو سہولت سے تلاش کرنے کے رَسیا، اندرونی طور پر اُدھورے اور ہَمہ دم پورا ہونے کو بے قرار رہتے ہیں۔

اجمالاََ، زیر تجزیہ ناول کردارنگاری سے زیادہ واقعہ نگاری کا ناول ہے۔ مرکزی کہانی کے اندر اندر چھوٹے چھوٹے کئی واقعات زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھتے جاتے ہیں۔

بادی النظر میں کوہِ گراں موضوع کے نئے امکان کا نام ہے۔ اب تک خالد فتح کے قاری پر کھُل چکا کہ اس کے لکھاری کے پاس متنوع موضوعات کے پتے ہیں، وہ جب چاہیں نیا پتا پھینک کر پڑھنے والے کو حیران کر سکتے ہیں۔ حیران کر دینے کی طاقت ہی سے تو جمالیاتی حظ کے چشمے پھوٹتے ہیں اور ان چشموں سے بہتا پانی فن کے رسیا کو پیاسا نہیں چھوڑتا۔

کوہِ گراں ایک طرف عالم کاری کے زمانے میں پانی کے مسئلے کے موضوع کی قدرے کام یاب سعی کرتا ہے تو دوسری طرف لکھاری کے مسلسل رَو میں رہنے کے عمل کا دِکھاوا بھی۔ پانی کی کمی یا مستقبل میں ملک کے طول و عرض میں پانی کے قحط پہ گزشتہ دھائی سے صحافت میں کافی کچھ لکھا جا رہا ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں اس پہ ڈرامے اور فلم بھی بنائی جا چکی۔

اکیسوں صدی کے اردو فکشن، علی الخصوص ناول میں اس مسئلے کو اس طرح خالد فتح محمد نے موضوع بنایا۔ پانی کے قحط اور اس کے نکاس کے لیے کسی فردِ واحد کا اپنی ذاتی حیثیت سے جد و جہد کرنا اور اس جد و جہد میں کام یاب ہونا، بھلے ہی منفرد موضوع ہو، مگر جب ناول کے پلاٹ کو خالد فتح محمد کے باقی ناولوں کی بنیادی کہانیوں کے سامنے رکھ کر جانچا جائے گا تو یہ موضوع ایسا نیا بھی نہ دکھے گا۔

ناول نگار، جیسے کہ ہمیں علم ہو چکا، ناول نگار ی میں ہیرو سازی کے قائل ہیں۔ وہ اپنے ہر ناول میں مرکزی کردار کو کچھ خاص قوّتیں اور توانائیاں __ جیسی قوت و توانائی ہمارے داستانوی ہیرووں کے پاس ہوتی تھی __ عطا کرتے ہیں۔

مرکزی کردار کو کوئی اہم اسائنمنٹ تفویض کر کے اسے ناول کے میدان میں اتارنا کوہِ گراں سے پہلے اور بعد کے (زینہ) ناول میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کہیں یہ اسائنمٹ ناول نگار کی جانب سے (جیسے پری، ٹبا، کوہ گراں، زینہ میں) تو کہیں ناول کے اندر کے کسی کردار کی جانب سے (جیسے خلیج میں) تفویض کی جاتی ہے۔

ان سب حقائق و شواہد کے با وصف بھی، کوہ گراں کا حلیم نہایت زیرک اور مصمم ارادے کا حامل کردار ثابت ہوتا ہے۔ اس کے ضمیر کا تحرک، اور اس میں اپنے گاؤں کے لیے کچھ کر دینے کی لگن اور خواہش اسے خود انگیخت self-motivate کرتی ہے اور وہ اہم کام میں لگ جاتا ہے۔

حلیم اتنی بڑی کاز کے لیے اس دلیری اور پھرتی سے کمر بستہ کیسے ہوا اور اس کی جد و جہد کے واضح محرکات کیا ہوئے؟ محمد سلیم الرحمان کو اس ناول میں ان سوالوں کے جواب غیر موجود معلوم دیتے ہیں۔ چناں چِہ محمد سلیم الرحمان کوہ گراں پر اپنے مضمون بَہ عنوان زیر زمین خوابوں کو پانی دیتا ایک ناول میں فرماتے ہیں:

”ناول کا کم زور حصہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ حلیم کے محرکات کا پتا نہیں چلتا۔ اس نے اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا۔ اس کے بارے میں اس کی توضیحات تسلی بخش معلوم نہیں ہوتیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس نے قدم پہلے اٹھایا اور جواز بعد تلاش کیا۔ یہ معاملہ ذرا کھٹکتا ہے۔“

خالد فتح محمد کا اب تک کا آخری ناول زینہ بھی کوہِ گراں ہی کی کھیتی سے نمُو پاتا ناول ہے۔ گو کہ اس کا بیّن ثبوت لا موجود ہے۔ ادب ثبوت کا طلب گار بھی نہیں۔ ادبی تحریر میں دکھائی نہ دیتے نشان دکھائی دیتے نشانوں سے زیادہ اہم اور توجہ کش ہوتے ہیں۔ معانی کی کئی ایک سطحوں پر مذکورہ دونوں ناولوں میں یَک سانِیّت کے نشانوں کا کھوج لگانا زیادہ دشوار نہیں مگر اس کھوج پر بات کچھ دیر کے بعد چلے تو زیادہ دل چسپ رہے گا۔

زینہ صفحۂِ اوّل پر درج مجروح سلطان پوری کے شعر:

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

کی تشریح سے آگے کی کہانی ہے۔ مرکزی کردار فہیم کے ایک مشاورتی فرم کھولنے، فرم کو اچانک مل جانے والے ساتھی صحافی راشد خان زادہ کی غیر متوقع مخلصانہ تجویز پر عمل پیرا ہو کر کام یاب بنانے، نوکری کی تلاش میں آئی ہادیہ کے فرم کو جوائن کرنے، بعد میں فہیم کی شراکت دار بن جانے سے لے کر یہ کہانی فہیم کی بہن فرزانہ کے خان زادہ کے اخبار سے منسلک ہونے، اَبّا جان کے پُر اسرار اور اچنبھئی کردار کے، اماں جان اور اماں کے جادو کے ابّا جان پر اثرات سے گزرتی ہوئی ستر سالہ ظفر احمد خان بھٹی کے جان دار کردار پر منتج ہو کر ناول کے پلاٹ کی اُدھیڑ بُن کرتی ہے۔

زینہ کی داستان، اقعات و اتفاقات کے دسویں زینے چڑھتی اُترتی، پلاٹ کی بُنت کرتی ہے۔ ناول کے پلاٹ کی صورت کو منطقی طور پر آنے والے واقعات کے رنگوں سے حسین بنائے جانے کے بَہ جائے ٹاَمس ہارڈی کے ناولوں میں جگہ جگہ اچانک کے بطن سے پھوٹتے اتفاقات و حادثات کے مانند کبھی کسی انکشاف تو کبھی کسی وقوعہ کے ظہور سے خود کو سنوارتی ہے۔

ناول کے آغاز میں ان اتفاقات کا یکے بعد دیگرے غیر متوقع طور پر آنا لکھاری کی خود اعتمادی کا آئینہ تو ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ فکشن کے پڑھنے والے کے ابہام کا سامان بھی۔ یہ ابہام، یا یوں کہیے کہ الجھن اُس وقت زیادہ شدید ہوتی ہے جب ناول کا راوی، فہیم اور ہادیہ کو غیر فطری طور پر قبل اَز وقت سب کچھ جانچ پرکھ لینے کی صلاحیت کے مالک، قسمت کے دھنی، معاملہ فہم، بھول چوک سے دُور اور ایسی دیگر طاقتوں کے حامل کرداروں کے روپ میں دکھاتا ہے۔

اس میں کیا شک کہ ناول نگار شہنشاہِ معظم کی طرح سپید و سیاہ کا مالک ہوتا ہے۔ جو چاہے اُس کا قلم کرشمہ ساز کر سکتا ہے کہ غیر ممکن کو ممکن دکھانا بھی تو فکشن نگاروں ہی کا کارنامہ ہے۔

خالد فتح محمد زینہ میں شہنشاہ لکھاری ہیں۔ اُن کے حکم ہی سے کردار کبھی رعایا کی طرح، تو کبھی درباریوں، مصاحبوں، کنیزوں کی طرح آر جار میں رہتے ہیں۔ کرداروں کی جرأت، تشویش، حیرت، فیصلہ سازی کی قوت، کسی غیبی مدد سے آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔

طاقت ہر مسئلے کا جلد حل تلاش کر لینے کی صلاحیت و توفیق رکھتی ہے: زینہ میں موجود اشخاص کو یہ ساری طاقتیں اور وسائل محض اس لیے نصیب ہوتے ہیں کہ ُان کا بخشش کار ظلِّ سبحانی کا وہ بھاری بَھرکم حکم ہے، فکشن کی زبان میں جسے بیانیہ کہتے ہیں۔

زینہ کا بیانیہ مقتدرِ اعلیٰ کے مانند علیم و خبیر ہے۔ اس کا راز وہ مَشّاقی ہے جو خالد فتح محمد نے دھائیوں کی ریاضت کے بعد پائی ہے۔ اور یہ ریاضت ہی کی برکت ہے کہ وہ بے جھجک جب اور جہاں چاہیں بَہ طور مصنف بیانیے میں آ گھسنے کے بَہ جائے راوی کردار کی زبانی مطلب کی کہہ کر دھیرے سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔

جب فہیم اور ہادیہ کے جنسی تعلق کے بیان میں یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ خاتون ساتھی اپنے مرد کے ساتھ جنسی عمل داری میں زیادہ جذباتی اور متشدد ہے۔ مصنف کے لفظوں کی فضول خرچی ایسے برے عمل سے بچ کے نکل جانا ملاحظہ ہو۔

”اُس کے ساتھ جڑ کے بیٹھ جاتا تو وہ ایک دم جارحیت پر اُتر آتی۔ مجھے لگتا کہ وہ مجھ پر حملہ آور ہو گئی ہے۔ وہ میرا عاشق ہوتی، میں اُس کی محبوبہ۔ اُس کی سانس پھولی ہوتی اور وہ مجھے پیار کیے جاتی۔“

اس مستحکم بیانیے کا ایک کرشمہ یہ بھی ہے کہ جگہ جگہ راہ میں آ کھڑے ہونے والے انکشافات epiphanies با وجود اس کے کہ وہ مصنف کی سوچی سمجھی اختراعات ہیں، کھٹکنے کے بَہ جائے چونکاتے ہیں۔

قاری کا چونکنا اُسے کسی بوریت کے پیٹ سے نکلے ہوئے دیو ہیکل افسوس کا سامنا نہیں کراتا، بَل کہ ناول کے مرکزی کردار کے کسی انکشاف سے خود اُس کردار کی شخصیت کی نئی پرت کو کھولتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ پہلے سے بیان کردہ حقائق و واقعات میں بھی حیرت کا رنگ ڈالتا ہے۔ زینہ میں کیے گئے دو انکشافات خاص توجہ کے حامل ہیں:

پہلا: ہادیہ فہیم کے بہت قریب آ چکی ہے، دونوں کے بیچ سے کم و بیش سارے پردے اُٹھ چکے۔ تن اک دوجے سے مس ہو چکے، من مستقبل میں ساتھ ساتھ رہنے کے منصوبے بنا چکے۔ پھر اک دن ہادیہ انکشاف کرتی ہے کہ ماضی میں وہ کسی مرد کی تا دیر غیر منکوحہ رہ چکی ہے اور ہر قسم کے جنسی، بدنی، ذہنی اور سماجی عمل میں اُس کی ساجھے دار بھی۔

اچانک کے غار سے باہر کودتے پھاندتے اس انکشاف سے قاری سٹپٹا کر رہ جاتا ہے۔ اُسے ایک فوری سوچ یہ آتی ہے آیا اس کے بعد منصف اپنی کردار نگاری سے پہلے والی سطح کا عمدہ معاملہ کر پائے گا۔

کیا کردار اُس فطری پن سے آگے بڑھنے میں گام زَن ہو سکیں گے؟ سوالوں کے اسی بہاؤ میں بہتا قاری جب چند صفحوں کی مسافت مزید طے کرتا ہے تو ایک طمانیت بھری مسکراہٹ اُس کے مُنھ پر کھل جاتی ہے۔

یہی فکشن نگار کی کام یابی ہے۔ آج کے فکشن نگار کو چاہیے کہ اپنے قاری پر کچھ کچھ صفحوں کے بعد ایک نیا انکشاف کر ے یا اسے پَے در پَے نئی حیرتوں کے کنویں میں تایر ڈبوئے رکھے یا سطح پر لائے رکھے مگر امکان کے نئے ذائقے کے ساتھ۔

میدانی کہانی کا دور ختم ہو چکا! زینہ میں دوسری epiphany یا انکشاف زیادہ گھمبیرتا لیے ہوئے ہے۔ مرکزی کردار فہیم کی ماں ایک جادوگرنی کے روپ میں جلوہ گر ہے۔ وہ کوئی چڑیل نہیں، علامتی طور پر بھی نہیں مگر وہ کالے جادو کی عاملہ ہے اور کالے جادو کے اثرات اُس کی باتوں، اُس کے چہرے کے تأثر ات، اُس کی آنکھوں اور اُس کی آؤ جائی میں جھلکتے ہیں۔

جادو اُس کی شخصیت میں اس شدت سے سرایت کیے ہوئے ہے کہ مرحوم ظفر کی غیر مسلم بیوی مارتھا بھی اُس کے زیرِ اثر آ جاتی ہے۔ جادو گرماں کا کردار اگر چِہ مفصل بیانیے کا حامل نہیں مگر فہیم کے خاندانی کلچر کی تفہیم اور ماں کے انوکھے روپ کی تخلیق کی سمجھ بوجھ کے لیے اُس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔

یہاں اک خاص تضاد بھی سامنے آتا ہے۔ مذہبی حوالے سے ممنوع جادو کا علم جس گھر میں کھلم کھلا عاملایا جاتا ہے اُسی گھر میں ایک غیر مسلم کو رکھنے پر اعتراض اٹھائے جاتے ہیں۔ معاشرتی و ذہنی منافقت کا یہ رویہ مصنف کے قلم سے خود کارانہ طور پر ناولی سطروں میں کھپایا گیا ہے۔

زینہ میں خالد فتح محمد نے کوئی لسانی، موضوعی، ہیئتی یا اسلوبیاتی تجربہ نہیں کیا۔ یہ ایک سیدھے سبھاؤ کا موضوعی ناول ہے جس میں بیانیے کی جادوگری ہی سے ساری دل کَشی پیدا کی گئی ہے۔ تین صد اسّی صفحوں کے ناول میں صرف پانچ صفحے ایسے ہیں جہاں ناول کا مرکزی کردار اور راوی فہیم دن سپنے کی کیفیت میں خود سے مخاطب ہوتا ہے۔

ناول میں راوی کی میں یکا یک تم میں بدلتی ہے اور قاری کو ششدر کرتی ہوئی سلاتی ہے۔ آخری/پانچویں صفحے پر آخری سطر پر جا کر جگا دیتی ہے۔

”شاید میں جاگ ہی رہا تھا!“

اور اس کے بعد ایک بار پھر ناول اپنی پہلی والی روایت میں بیان جاری رکھتا ہے۔ خالد فتح محمد زندگی کے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا دینے والے حیران کن کرداروں کی تخلیق میں پندرہ برسوں سے رواں دواں ہیں۔ انھیں کسی منزل کی جستجو نہیں، وہ جانتے ہیں ادبی کَرِیئر منزل کا نہیں، سفر کا نام ہے۔ زینہ کا فہیم کہتا ہے:

”جھوٹ ایک ایسا سچ ہے جسے سننے والا فوراً درست تسلیم کر لیتا ہے اور سچ بولنا ایسی دروغ گوئی ہے کہ اُسے سننے والا صرف بولنے والے کے سامنے ہی یقین کرتا ہے۔ مجھے اپنے جواب کا پہلا حصہ سچ سمجھتے ہوئے دروغ گوئی کی ضرورت ہے۔“ (ص 9)

پاکستان اردو ناول نگار خود آگاہ اور منطق پسند ہونے لگا ہے۔ وہ ناول کی موضوعی اور ہیئتی تنظیم و تنویر عقیدے، نظریے، یا کسی خا ص فکر و فلسفہ کو سامنے رکھ کر کرنے کے بَہ جائے تہذیبی تجربے اور تیکنیکی ڈھانچے پر استوار کرنے لگا ہے۔

اسے سمجھ آنے لگی ہے کہ ناولاتی دنیا تواریخ اور شاعری کے کہیں بیچ ایسی جگہ space آباد ہے جہاں ساری مخلوق خود شناسی کی فضا میں سانس لیتی ہے۔ جہاں boldness سارے میں گھومتی ہے۔ جہاں تخیّل کے آگے کوئی نظریہ روڑے اٹکانے کی جرأت نہیں کرتا۔ جہاں ضروری، غیر ضروری اور غیر ضروری ضروری ہو سکنے پہ قادر ہے۔ جہاں ایک تخلیقی مہم بے خطر آگ میں کودنے کو تیار ہے۔

یہ جان کر کہ کوئی ما ورائی طاقت اسے بچانے آنے کو تیار نہیں اور اسے مُنھ پہ مسکان رکھے جل کر بھسم ہو جانا اور اس کی خاک کو سائنسی اصولوں کے بر خلاف پُر اَز توانائی باقی رہنا ہے__پہلے سے زیادہ زرخیزی کی حامل توانائی!