خالص نسل کا مغالطہ
سعد اللہ جان برق
یہ بہت بڑا مغالطہ بھی بنی اسرائیل ہی کا پھیلایا ہوا ہے جس پر پوری انسانی تاریخ ٹھوکر پہ ٹھوکر کھاتی رہی ہے۔ جینیٹک سائنس کی رو سے کوئی بھی نسل تین پیڑھیوں سے زیادہ خالص نہیں رہ سکتی، یا تو خون کی جان لیوا بیماریاں اسے ختم کر ڈالیں گی اور یا اولادیں معذور اور ڈس ایبل پیدا ہوں گی۔ اور یہ مسٔلہ نہ صرف انسانوں اور حیوانات کا ہے بلکہ نباتات کا بھی ہے۔
چنانچہ انسانی نسل کا اب تک باقی رہنا ہی اس کا ثبوت ہے کہ اس میں اختلاط‘ در اختلاط، ملاوٹ اور کراس بریڈنگ کا عمل جاری رہا ہے ورنہ یکسر مفقود ہو چکی ہوتی۔ اور اسی نسلی برتری اور خالص خون کے سب سے بڑے مدعی بنی اسرائیل کا اختلاط تو مسلسل ہوتا رہا ہے۔ در اصل ’’نسل‘‘ کا یہ لفظ ہی غلط استعمال کیا جاتا ہے اور اسے ’’قوم‘‘ کے ساتھ خلط ملط کر لیا جا تا ہے جب کہ نسل اور قوم بالکل ہی مختلف چیزیں ہیں۔
دنیا میں نسل کا اطلاق اگر کسی پر ہو سکتا ہے تو وہ تین بڑی بڑی انسانی نسلیں ہیں۔ ایک زرد منگولین نسل، دوسری سفید کا کیشی نسل اور تیسری سیاہ فام افریقی نسل۔ اس کے علاوہ بھی چھوٹی چھوٹی نسلی اکائیاں ہو سکتی ہیں کیونکہ ’’ارتقاء‘‘ کا عمل ساری دنیا میں یکساں نہیں رہا ہے، جیسے فصلیں کسی جگہ کٹائی کے مرحلے میں ہوتی ہیں تو وہی فصل سرد علاقوں میں ابھی آدھی عمر کو پہنچ رہی ہوتی ہے۔
بھارت، سندھ اور پنجاب میں جب گندم کی کٹائی اور گہائی کا زمانہ ہوتا ہے، سرد ملکوں میں ابھی سِٹے نکال رہی ہوتی ہے۔ ایسے ہی حیوانی ارتقاء کا عمل بھی تقدیم و تاخیر سے ہوتا رہا ہے۔ ایسے ہی ارتقاء کا عمل بھی مختلف علاقوں میں مختلف رہا ہے مثلاً زرد منگولی نسل خود اپنے اندر ایسی نشانیاں رکھتی ہے کہ سب سے پہلے یہی نسل ارتقا پذیر ہوئی ہے۔ اس نسل کے جسموں پر بال بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر رہ گئے، جلد انتہائی پتلی ہوتی ہے، چہروں میں اتنا چٹا پن ہے کہ ماتھے سے تھوڑی تک خط مستقیم کھینچا جا سکتا ہے، یعنی حیوانی لمبوترا پن مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ ذہنی طور پر بھی کافی طاقتور ہوتی ہے اور طبایع کا رحجان لطافت اور نزاکت کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جسمانی کھیلوں میں دماغ اور تکنیک کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔
سفید کاکشین نسل درمیانی یا منجھلی نسل ہے۔ اس لیے ان کا یہ خط استوا کی دوری نزدیکی کا یا گرم اور سرد علاقوں پر منحصر ہوتا ہے۔ قد و قامت بھی بلند علاقوں میں ہوا کا دباؤ کم ہونے اور میدانی علاقوں میں زیادہ ہونے پر کم و بیش ہوتا رہتا ہے۔ جہاں تک قوم کا تعلق ہے تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ ایک نسل سے تعلق رکھتی ہو قوم کا لفظ عربی کے ’’قام‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی کھڑے ہونے‘ کھڑا کرنے‘ قائم کرنے اور یکجا کرنے کے ہوتے ہیں۔ ایک عمارت جو کھڑی کی جاتی ہے تو اس میں اینٹ پتھر چونا سیمنٹ پانی ریت اور سریا وغیرہ مل کر ایک عمارت بناتے ہیں۔ کسی ایک چیز سے نہیں کھڑی کی جا سکتی۔ قوم کے لیے عام طور پر تین چیزیں درکار ہوتی ہیں:
زبان، خطہ اور کلچر
اس کی ایک مثال ہم پشتون اور افغان کے دو ناموں میں دیکھتے ہیں۔
عام طور پشتون اور افغان ایک ہی معنی میں استعمال کیے جاتے ہیں، جو غلط ہے۔ پشتون بالکل ہی الگ چیز ہے اور افغان الگ۔ دو لفظوں میں اگر ہم اس کی تشریح کرنا چاہیں تو پشتون قوم اور افغان ملت ہے۔ پشتون قومیت کے لیے ضروری ہے کہ ایک خاص علاقے ایک خاص سماج اور کلچر کے تحت رہتی ہے۔ زبان، خطہ اور کلچر یا روایات اور رسوم رواج ایک ہوتے ہیں باقی بھلے ہی کبھی ان کا تعلق الگ الگ نسلوں سے رہا ہو۔ مثال کے طور پر پشتونوں میں سید بھی ہیں، ایرانی اور عرب بھی ہیں اور پنجاب کے لوگ بھی ہیں۔ لیکن اب ایک ہی کلچر اور زبان کے حامل ہیں۔ اکثر اولیاء اور بزرگ عرب اور ایرانی بلکہ منگولی تک ہوتے رہے۔
پیر بابا سید علی ترمذی مغلوں کی نسل سے تعلق رکھتے تھے اسی طرح اور بھی تھے جو سید تھے، قریشی تھے، ہاشمی تھے لیکن اب ان کی اولادیں مکمل طور پر پشتون ہو چکی ہیں۔ یہاں تک مغل دور کے سب سے بڑے مبازر اور پشتونیت کے عملبردار بازید انصاری المعروف پیرروخان بھی نسلاً عرب اور لساناً پشتون تھے۔
لیکن افغان کا مسٔلہ جدا ہے۔ افغان صرف وہ ہوتے ہیں جو نسلاً تو پشتون ہوتے ہیں، لیکن لساناً کچھ اور ہو جاتے ہیں۔ جیسے افغانستان میں تاجک ازبک اور ہزارہ بھی اب افغان کہلاتے ہیں؛ یا ہند، پنجاب اور دوسرے ممالک میں جاکر مستقل آباد ہو چگے ہیں اور اب ان کی زبان بھی الگ ہو چکی ہے۔ کلچر بھی دوسرا ہو چکا ہے او ر روایات بھی الگ ہو چکی ہیں۔ وہ افغان تو ہیں، لیکن پشتون نہیں ہیں۔ یوں بھی کہہ سکتے کہ پشتون تو سارے افغان ہیں لیکن افغان سارے پشتون نہیں ہیں۔
اسی اصول کا اطلاق ہر قوم پر ہوتا ہے۔ یہ نسل اور قوم کا مسٔلہ صرف پشتونوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ پچھلے دنوں ہم نے گجروں کے بارے میں تھوڑی بات کی تھی جس پر بہت لے دے ہوئی اور اب بھی ہو رہی ہے لیکن یا تو ہم اپنی بات پوری طرح واضح نہیں کر پائے تھے یا خود گجر قوم کی اپنی کنفیوژن کی وجہ سے سمجھی نہیں جا سکی۔
گجر پورے ہند میں اتنے بکھر گئے، منشتر ہو گئے کہ کوئی طاقت بھی اب ان کو اکٹھا کرکے ایک قوم نہیں بنا سکتی حالانکہ پہلے قوم تھی اور پشتونوں کے ساتھ ایک ہی اتحادی گروپ میں تھے ان کی اثر پذیری کا اندازہ اس سے لگائیں کہ آخری افغانی بادشاہت جسے کابل شاہان بھی کہتے ہیں ان کی تھی اور محمود غزنوی کے مقابل انند پال اور جے پال بھی گجر تھے۔ لیکن صرف اکیلے نہیں بلکہ پشتون بھی اس تحاد میں تھے۔
بہرحال بات خالص نسل کی ہو رہی تھی‘ آج کی اقوام جو ہیں‘ یہ ارتقائی مراحل طے کر کے یہاں تک پہنچی ہیں اور یہ ارتقا مسلسل جاری ہے‘ اس لیے خالص نسل کی بحث کوئی معنی نہیں رکھتی۔
بشکریہ: ایکسپریس اردو