انور عباس انور کی کتاب ’’خاص لوگ‘‘ کی تقریب رونمائی
پاکستان کے معروف کالم نگار، سنیئر صحافی اور تجزیہ نگار انور عباس انور کتاب ’’خاص لوگ‘‘ کی تقریب رونمائی لاہور پریس کلب کے نثار عثمانی ہال میں بدھ کے روز مورخہ 16مئی کو منعقد ہوئی۔ تقریب کے انعقاد میں کچھ قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں لیکن انور عباس انور کے اس عزم کہ ’’تقریب ہرحال میں انعقاد پذیر ہوگی‘‘ کے آگے سب مشکلات اپنی موت آپ مرتی گئیں، بے شک کچھ دوست آستین کے سانپ ثابت ہوئے، کیونکہ انہوں نے کچھ ذمہ داریاں اپنے سر خود لیں تھیں لیکن تقریب رونمائی کے اختتام اور اس سے کچھ دیر قبل تک غیر حاضر ہوکر اسے ناکام بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ بہرحال تقریب کا آغاز ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے 12 بجے دوپہر کی بجائے ڈیڑھ بجے ہوا۔
سنیئر صحافی، دانش ور اور کالم نگار استاد محترم جناب اکرم شیخ ہونے بارہ بجے سے بھی پہلے اور مصنف سے بھی قبل پریس کلب تشریف لائے، پھر جناب حیدر جاوید سید اور پھر سلسلہ چل سو چل رہا۔ مہمانان گرامی جنہوں نے آنا تھا وہ آتے رہے اور جنہوں نے نہ آنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ وہ تشریف نہ لائے۔ ڈاکٹر ضیا اللہ بنگش، محمد سعید اظہر اور سلطان محمود شاہین لائقِ تحسین ہیں کہ وہ خرابی صحت اور اسلام آباد کا تکلیف دہ سفر کرکے تقریب کو رونق بخشنے کے لیے تشریف لائے۔
کتاب کے مصنف اور تقریب کے منتظمین کے لیے تکلیف دہ امر پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت اور میڈیا مینجمنٹ کا وہ رویہ رہا جس کے تحت انہوں نے دو ماہ سے زیادہ سے وعدے کرکے عین وقت تقریب سے ایک گھنٹہ قبل تقریب میں شرکت نہ کرنے کی خبر دے کر پہنچایا۔
مزید پڑھیے: حکمرانو! قومی آزادی اور خود مختاری کا تحفظ یقینی بناؤ
ڈیڑھ بجے دوپہر مصنف انور عباس انور نے خود ہی مائیک پر آکر تقریب کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کیا اور تلاوت قرآن پاک کے لیے اپنے دوست حمید احمد کو دعوت دی جنہوں نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرنے کا شرف حاصل کیا، جس کے بعد مصنف نے تقریب کے صدر جناب حیدر جاوید سید کو سٹیج پر تشریف لاکر کرسی صدارت سنبھالنے کی دعوت دی پھر دیگر مہمانان گرامی کو باری باری سٹیج پر بلاتے رہے۔ معروف ادیب، شاعر جناب قائم نقوی کے آنے پر نقابت کے فرائض انہیں سونپ دیے گئے۔
پاکستان کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ صرف اور صرف جمہوریت کے استحکام اور اس کی ترویج و ترقی سے کیا جا سکتا ہے۔ اور اس کے لیے سب ملکی اداروں کو اپنا اپنا کردار آئین پاکستان میں متعین کردہ حدود و قیود کے دائرہ کار میں رہ کر ادا کرنا ہوگا، کسی بھی ایک ادارے کوبے توقیر کرنا وطن عزیز اور ا داروں کے لیے سود مند نہیں۔ کیونکہ پانچوں اگلیاں اکٹھی ہونے سے ہی ’’مکا‘‘ بنتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے سنیئر صحافی و کالم نگار اور تجزیہ نگار انور عباس انور کی کتاب ’’خاص لوگ‘‘ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
سنیئر صحافی و کالم نگار محمد سعید اظہر نے کہا کہ پیپلز پارٹی اب وہ پیپلز پارٹی نہیں رہی جس کا علم ذوالفقار علی بھٹو لیکر میدان میں نکلے تھے۔ اور بے نظیر بھٹو نے اسے کسی حد تک بلند رکھا۔ آج کی پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ اور جمہوریت کو بے توقیر سمجھنے والوں کی زبان بول رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انور عباس انور نے قوم میں سیاسی بیداری پیدا کرنے اور قوم میں شعور کو اجاگر کرنے کے لیے باقاعدہ ایک ہفت روزہ ’’خاص لوگ ‘‘ کا اجراء کیا۔ انہوں نے کہا کہ انور عباس انور نے نامساعد حالات میں بھی اپنے قلم کی حرمت اور اپنی عزت نفس کی حفاظت کو مقدم رکھا اور صاف ستھری صحافت کو قائم کر کے دکھایا، اس لیے آج تک کوئی ادارہ یا حکومت ان کی طرف انگلی نہیں اٹھا سکا۔ ’’خاص لوگ‘‘ ان کی پہلی کتاب کو اپنے مضامین کے تنوع اور تحریر کی روانی اور شگفتگی کے باعث بڑی پذیرائی مل رہی ہے، یہ کتاب ہر نوجوان صحافی اور ہر سیا سی کارکنان کوبھی پڑھنی چاہیے۔
سنیئر صحافی فرخ سعید خواجہ نے کہا کہ انور عباس انور دھائیوں سے صحافت کے میدان میں موجود ہے اور اس ملک میں سچ لکھنے، سچ کہنے کی ناپید ہوتی جا رہی صحافت کو قائم رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔ انور عباس انور ایک درویش منش صحافی ہے جو ہر پاکستانی کی طرح اس ملک میں استحصالی نظام کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ انہوں نے کہا انور عباس انور جیسا آج سے تیس سال قبل تھا آج بھی ویسا ہی ہے، ’’ذاتی زندگی کو پرتعیش بنانے والا کوئی ایک سین بھی اس کی صحافتی زندگی میں موجود نہیں۔ فرخ سعید خواجہ نے حاضرین تقریب کو بتایا کہ نامساعد حالات کا انور عباس انور نے خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا اور اپنی خودداری اور عزت نفس کو مجروح کرنا گوارا نہیں کیا۔
قمر الزمان بھٹی نے اپنی تقریر میں کہا انور عباس انور نے ملک کے طبقاتی نظام کے خاتمے اور انصاف پر مبنی نظام لانے کے لیے چلائی گئی تحاریک میں بھی حصہ لیا اور آزادی صحافت و بحالی جمہوریت میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ان کے کالم بنا کسی لگی لپٹی کے بغیر ہوتے ہیں۔ ملک کے اندورنی مسائل سے لے کر بین الااقوا می سطح پر ان کی گہری نظر ہے اور یہ حکومت و اپوزیشن دونوں کو ملکی و قومی مفاد پر مبنی مشورے دیتے ہیں۔
سنیئر صحافی اور انور عباس انور کے درینہ ساتھی جناب شہباز انور خان نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ انور عباس انور سے ان کا تعلق اور شناسائی برسوں نہیں عشروں پر محیط ہے ہم دونوں عالمی شہرت یافتہ صحافی پیام شاہجہانپوری کی زیرادارت شائع ہونے والے ’’تقاضے ‘‘ میں لکھا کرتے تھے یہ ہماری خوش نصیبی تھی کہ ہم احمد ندیم قاسمی، شفقت تنویر مرزا، اظہر جاوید، ظہیر بابر، حمید جہلمی، منوبھائی وحید عثمانی اور اسلم کشمیری جیسے کہنہ مشق صحافیوں، ادیبوں کے قافلے میں شامل ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی اور انور عباس انور کے درمیان بہت سے دوسری قدر مشترک چیزوں میں ایک اسٹبلشمنٹ اور فوج کے سیاسی کردار کے خلاف ہونا تھی اور ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ انور عبا س انور اس وقت بھی بھولا بھالا، سیدھا سادہ اور نیم پینڈو اور نیم شہری ہوا کرتا تھا۔ لیکن جس طرح دیکھنے میں موصوف شریف اور موجودہ حلیے، ڈیل ڈول کے ساتھ بڑا بزرگ نظر آتا ہے، ویسا حقیقی طور پر ہے نہیں، انور عباس انور کے متعلق ان کی رائے یہ ہے یہ بڑا سوجھ رکھنے والا، زیرک، معاملہ فہم، ہوش مند شخص بہت متحرک اور چوکنا صحافی ہے۔
اسلام آباد سے آئے ہوئے صحافی و کالم نگار اور بزم شوری انٹرنیشنل کے چیئرمین سلطان محمودشاہین نے اپنے خطاب میں کہا کہ بحثیت انسان ’’خاص لوگ‘‘ کے مصنف سے فرشتوں جیسے کالموں کی توقع رکھنا سچائی سے روگردانی ہوگی، ان کی کاوش دنیا کے لیے ایک گراں قدر سرمایہ ہے۔ فن کالم نگاری میں ماہرانہ وژن رکھتے ہیں۔ الفاظ کے چناؤ اور موضوع کے مطابق واقعے کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں۔
سابق رکن پنجاب اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے راہنما ڈاکٹر ضیا اللہ بنگش نے کتاب میں شامل کالموں کو موضوع کے اعتبار سے سراہا اور کہا کہ نوجوان صحافیوں کے لیے یہ کتاب گراں قدر سرمایہ کی حثیت رکھتی ہے۔ نوجوان صحافیوں کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے اور اس سے بھپور استفادہ حاصل کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ انور عباس انور ہمارے ضیا الحقی آمریت کے ایام کا ساتھی ہے، جمہوریت کی بحالی اور آزادی صحافت کے لیے ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔
معروف دانشور، مصنف اورکالم نگار استاد اکرم شیخ نے انور عباس انور کی شخصیت اور ان کی کتاب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اان کی ززندگی ایک کھلی ہوئی کتاب کی مانند ہے، ان کے قول فعل میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ یہ نہیں ہے کہ ان کی تحریریں کچھ ہوں اور ان کا عمل اس کے برعکس ہو۔ انہوں نے کہا کہ مصنف اپنے طبقے کا ترجمان ہے اور اس نے ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انور عبا س انور اپنی سوچ، نظریات، اپنی فکر اور کمٹمنٹ میں ہماری طرح واضح ہے۔ اسے پورا علم ہے کہ اسے کیا لکھنا ہے اور کس طرف کھڑے ہونا ہے۔
دیگرمقررین نے کہا کہ مصنف نے دردِ دل سے حکمرانوں کی کوتاہیوں کی نشاندہی کی ہے اور طاقتور اداروں کو سمجھانے کی سعی کی ہے کہ ملک کی بقا آئین کی پاسداری میں ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوے سنیئرصحافی نے کہا کہ، ’خاص لوگ‘ ایسی کتاب ہے کہ جسے پڑھنے بیٹھ جائیں تو چھوڑی نہیں جا سکتی۔ حمید احمد نے کہا کہ انور عباس انورسے انہوں نے سے بہت کچھ سیکھا ہے اور میرے اوپر ان کی چھاپ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ساری کتاب پڑھی ہے اور مجھے کتاب کے ہرکالم اور ہر کالم کے ایک ایک لفظ میں ملک کی محبت، جمہوری اداروں سے پیار دکھائی دیتا ہے۔ اللہ نے اُنھیں غیر معمولی صلاحیتیں عطا کیں ہیں، انہوں نے پولیس میں بہت اعلیٰ معیار قائم کیے۔ وہ بہت اچھا لکھتے ہیں اور بہت اچھا بولتے ہیں قوم کو ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مصنف نے حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے غلط کاموں پر تنقید بھی کی ہے اور ان کی رہنمائی بھی کی ہے، انہوں نے مسائل کی نشاندہی کی ہے تو اس کا حل بھی بتایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’خاص لوگ‘‘ کی تحریر وں میں اعلی پائے کا طنزاور مزاح بھی ملتا ہے۔
تقریب کے صدر روزنامہ فرنٹیر پوسٹ کے ایڈیٹر حیدر جاوید سید نے کہا کہ ’’انور عباس انور عالم جوانی میں سیدھا سادہ کامریڈ صحافی تھا، شاید خیر کامریڈ تووہ اب بھی ہے لیکن ظاہری وضع سے ایسا لگتا ہے ’’مفتی صحافت ہو‘‘ حالانکہ یہ سچا سچا محنت کش صحافی ہے، تحقیقی رپورٹنگ، سیاسی تجزیوں اور کالم نگاری کے میدانوں میں انہوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر جوہر دکھائے۔ اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، پتہ نہیں کتاب شائع کرنے کا مشورہ انہیں کس نے دیا، یہ کام بڑے بڑے لوگوں کا ہے، یقیناً انہوں نے گھر کے برتن بیچ کر ’’خاص لوگ‘‘ شائع کی ہوگی، اب شنید ہے کہ یہ ایک دوسری کتاب بھی شائع کرنے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں، میرا خیال ہے کہ گھر کے کچھ برتن بچ گئے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ میرا مشورہ تو یہی ہے کہ کتاب شائع کرنے کی بجائے میرے ساتھ مل کر کسی دارالعلوم کی بنیاد رکھ لیتے ہیں یہ دھندہ کتاب شائع کرنے سے کہیں زیادہ منافع بخش کاروبار ہے۔ انہوں نے کہا کہ انور عباس انور یاروں کا یار ہے۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کا شرف حمید احمد نے حاصل کیا اور ابتدا میں تقریب کی نقابت کی ذمہ داری مصنف نے خود ادا کی اور جناب قائم نقوی کے تشریف لے آنے پر یہ ذمہ داری ان کے سپرد کردی گئی۔ تقریب کی میزبانی کے فرائض معروف سماجی راہنما ڈاکٹر نذیر احمد جلال پوری شرقپوری نے ادا کیے اور تقریب میں بڑی تعداد میں قلم کاروں، سیاسی کارکنوں، اور نوجوانوں صحافیوں، خواتین اور مصنف کے اہل خانہ نے شرکت کی۔