امی جان کے نام خط
از، بابر ستار
میں اپنے معاشرے کے پر تشدد رجحان کو دیکھ کر افسردہ ہوں۔ گھریلو تشدد، بچوں کو دی جانے والی جسمانی سزا، اخلاق اور مذہب کے نام نہاد ٹھیکے داروں کا قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا، اور اس پر مستزاد، ریاست کی طرف سے سخت ترین سزا کو حقیقی انصاف سمجھناظاہر کرتا ہے کہ ہم غیض و غضب کے برملا اور عملی اظہار کو ہر مسئلے کا حل سمجھتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ سخت سزا کا مطالبہ کرنے والی ریاست شہریوں کو یقینی انصاف کی فراہمی سے کیوں قاصر ہے؟ کیا ہم ہمیشہ سے ہی بطور ایک معاشرہ ایسے تھے، یا نجی اور عوامی سطح پر ہونے والے تشدد نے ہمیں باور کرادیا ہے کہ اب ہر گتھی خنجر کی نوک سے ہی سلجھے گی؟ ہر مسئلہ ہتھوڑے سے ہی حل ہوگا؟
قصور میں بچی کو ریپ اور قتل کرنے والے ملزم کی گرفتاری کے اعلان کے بعد آپ نے فیس بک پرلکھا۔۔۔’’سوری زینب، تمہیں بچایا نہ جاسکا۔ ایسے گھناؤنے واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف زینب کیس میں ملوث مجرم بلکہ ایسی درندگی کا ارتکاب کرنے والے ہر شخص کو سرعام پھانسی دی جائے ۔بچوں کے ساتھ درندگی کرنے والے مجرموں کو ایک ساتھ سزائے موت ایک مثال قائم کرے گی۔ اگر آپ اس موقف اس اتفاق کرتے ہیں تو اپنا کلک کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔ اب یا کبھی نہیں۔‘‘
بصد احترام، مجھے اس سے اتفاق نہیں۔ آپ نے ہمیں ایسے گھر میں پالا جہاں ہمیں آزادی سے سوچنے، دلیل دینے اور اختلاف کرنے کی اجازت تھی ۔ یہاں میں اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ دووجیہہ بیٹوں اور ایک خوبصورت بیٹی کا باپ ہوتے ہوئے میں بھی غصے، اشتعال اور بے چینی کا شکار ہوں کہ ان کی اس دنیا میں کیسے حفاظت کی جائے۔ لیکن اس دورا ن مجھے یہ بھی یقین ہے کہ زینب کے قاتل کو سرعام پھانسی پر لٹکانے سے ہوسکتا ہے کہ مشتعل جذبات کو قدرے سکون مل جائے لیکن اس سے یہ معاشرہ بچوں کے لیے زیادہ محفوظ نہیں ہوجائے گا۔ مجھے نہیں یقین کہ ایک مجرم کو سرعام پھانسی پر لٹکانے سے بچوں کے خلاف گھناؤنے جرائم کا تدارک ہوجائے گا۔ اگر اجتماعی پھانسیاں معاشرے کو بچوں کے لیے مستقل طور پر محفوظ بنا سکتیں تو میں مفاد عامہ کے تحت ذاتی اصولوں سے دست کش ہوجاتا۔
میں اپنے چھ سالہ بیٹے کو کیا بتاؤں گا جب وہ پوچھے گا کہ انسانوں کے گلے میں پھندہ ڈال کر اُنہیں اس طرح چوک میں کیوں لٹکایا گیا ہے جب میں اُس سے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور انسانیت سوز سلوک کے متعلق بات کرتے ہوئے پریشانی محسوس کرتا ہوں؟ میرے لیے پریشانی کی بات یہ ہے کہ وہ یہ سوچ رکھتے ہوئے جوان ہوگا کہ ٹھیک ہے، دوسروں پر تشدد سے معاملات درست ہوسکتے ہیں۔ کیا تشدد سے ایک شیطانی چکر وجود میں نہیں آجاتا جس کے ایک دور میں تشدد کانشانہ بننے والے دوسرے چکر میں خوداذیت پسند بن جاتے ہیں؟ میں سوچتا ہوں کہ کیا دوسروں پر تشدد کرنے والے شدت پسند ہی پیدا ہوئے تھے یا اُنہیں ماحول نے ایسا بنا دیا؟ کیا ، بقول ساحر ۔۔۔’’دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں، جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہاہوں میں‘‘ غلط ہے؟ کیا داخلی شدت پسندی کے جذبات کو بیرونی عوامل پروان نہیں چڑھاتے؟
بطور ایک قانون کا طالب علم، میں سزا کی مختلف تھیوریوں میں دلچسپی رکھتا ہوں، لیکن میری نظر سے تاحال عملی تجربات پر مبنی ایسا کوئی مطالعہ نہیں گزرا جو یہ ثابت کرتا ہوکہ سزائے موت جرائم کی روک تھام کے لیے ایک موثر ڈیٹرنس ہے۔ میرا خیال ہے کہ مہذب معاشروں نے سزائے موت کو ناپسندیدہ اس لیے قرار نہیں دیا کہ سرعام پھانسیوں یا فائرنگ اسکواڈ کے سامنے مجرموں کو گولیوں کو اُڑا دینے سے پر تشدد جرائم کا تدارک نہیں ہوتا تھا، بلکہ اس لیے کہ اُنہیں بتدریج احساس ہونے لگا کہ ان کے ذریعے معاشرے میں پھیلنے والی اذیت پسندی ان سے حاصل ہونے والے فوائد پر پانی پھیر دیتی ہے۔ دلیل کہتی ہے کہ وحشیانہ سزا کی بجائے جرم کے بعد ملنے والی یقینی سزا ہی موثر ڈیٹرنس ثابت ہوتی ہے۔
کیا ضروری ہے کہ سخت سزا وحشیانہ ہی ہو؟ ہم اکثر سنتے ہیں کہ درندگی کا مظاہرہ کرنے والے مجرم انسانی سلوک کے مستحق نہیں ہوتے کیونکہ اُن کے گھناؤنے افعال اُنہیں انسانی حقوق سے محروم کردیتے ہیں۔ توکیا ایک مہذب معاشرے کو ایسے مجرموں کے ساتھ انصاف کرنے کے لیے انہی کے لیول پر گر جانا چاہیے ؟ سیریل قاتل، جاوید اقبال، جس نے سو سے زائد بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کردیا اور پھر اُن کی لاشوں کو تیزاب میں جلا دیا، کے خلاف کیس کی سماعت کرنے والے جج نے فیصلہ کیا کہ اس کے سو ٹکڑے کرکے تیزاب میں جلا دیا جائے ۔ کیا یہ فیصلہ جج کی ذہنی کیفیت کا اظہار تھا یا جاوید اقبال کی؟
فرض کریں کہ اگر جاوید اقبال کو ایسی سزا مل جاتی تو کیا اسے ’’مثال‘‘ بنانے سے زینب کو تحفظ مل جاتا؟ ہمیں قانون کے اسکول میں پڑھایا جاتا ہے کہ سزا کی تھیوری میں ڈیٹرنس، تادیب، ہرجانہ اور اصلاح شامل ہیں۔ ہمارے نظام میں اکثر ’’اصل وجوہ ‘‘ کا حوالہ دیا جاتا ہے، لیکن ان کی اصلاح کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ ہوسکتا ہے کہ بچوں پر جنسی تشدد ایک بیماری ہو جس کا تشدد علاج نہ کرسکے؟ کیا زینب کے قاتل کو ’’مثال‘‘ بنانے سے دوسرے بچے محفوظ ہوجائیں گے؟
چاہے بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کا رجحان کسی شخص کی فطرت کا حصہ ہو یا یہ ماحول اور حالات کی پیداوار ہو، کیا اجتماعی پھانسیوں کی بجائے ہم ایسا نظام نہیں بنا سکتے جو ایسے ذہنی مریضوں کی شناخت کرسکے، اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہ معاشرے میں آزادانہ طور پر گھل مل نہ سکیں؟ اگر پھانسیاں ااس قبیل کے مجرمانہ رویے کے خلاف ڈیٹرنس نہیں ہیں تو ہم ان پر اصرار کیوں کررہے ہیں؟ کیا ہم نے اس سزا میں انسانی غلطی کے احتمال کو ختم کردیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم کسی غلط شخص کو پھانسی دے رہے ہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ کریمنل جسٹس سسٹم انسان کا بنایا ہوا ہے۔ اس میں بشری لغزشیں اور تعصبات موجود ہیں۔ اگر اشتعال کے لمحے میں چند بے قصور افراد بھی پھانسی پرچڑھا دئیے گئے تو کو ن ذمہ دار ہوگا؟
کریمنل نوعیت کے زیر التوا کیس کی طویل فہرست کی چھانٹی کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ایسی سزاؤں کو بھی معطل کردیا جن کی پاداش میں افراد عشروں سے جیلوں میں بند تھے ۔ 2016 ء میں دو بھائیوں کی بریت کا فیصلہ اُس وقت سنایا گیا جب اُنہیں پھانسی مل چکی تھی۔ کسی بے گناہ کو پھانسی دے کر ریاست کس قسم کا ڈیٹرنس تخلیق کرتی ہے؟ سزا جزا کے نظام کے موثر پن اور احتیاط کے درمیان توازن پید اکرنا ایک چیلنج ہے ۔ کیا اشتعال ایسا توازن پید اکر سکتا ہے؟ اکثر پھانسی کی سزا پانے والے غریب افراد ہوتے ہیں۔ اگرپھانسی دولت مند افراد کی بجائے صرف غریب افراد کا مقدر ہے تو یہ انصاف ہے یا نا انصافی؟
کیا موت کا خوف نظریاتی جنونیوں کو ڈرا سکتا ہے؟ کیا سزائے موت خود کش حملہ آوروں کو دھماکوں سے باز رکھنے میں کامیاب رہی؟ کیا آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ کرنے والے وہاں سے زندہ واپس آنے کا منصوبہ رکھتے تھے؟ کیا ممتاز قادری کو پھانسی پر چڑھانے سے انتہا پسندی ختم ہوگئی؟ کیا ممتاز قادری کو ’’مثال‘‘ بنانے سے مشال خان بچ گئے؟ کیا اُنہیں پرتشدد طریقے سے مارنے والوں کو کوئی پھانسی ڈرا سکی؟ گزشتہ ہفتے ایک طالب علم نے چارسدہ میں اپنے پرنسپل پر توہین کا الزام لگا کر قتل کردیا۔ جان تلف کیے بغیر بھی سخت سزا دی جاسکتی ہے۔ اور ایک ایسا نظام جو جرم کے بعد سزا کو یقینی بنائے، وہ گاہے گاہے وحشیانہ سزائیں دینے والے نظام کے مقابلے میں زیادہ موثر ڈیٹرنس رکھتا ہے۔
بچوں کے تحفظ کے موضوع پر واپس آجائیں۔ ہمیں ایسے موضوعات پر بات کرنے اور سننے کی گنجائش پیدا کرنی ہے جنہیں زبان پر لاتے ہوئے ہم شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ ہم ایسے کلچر کا حصہ ہیں جہاں عزت، احترام اور اخلاقیات کے فرضی تصورات ہماری بہتری پر غالب ہیں۔ جب میں ماضی کی طرف نظر دوڑاتا ہوں تو ہمیں بہت محبت اور چاہت سے پالا گیا تھا۔ لیکن اس دوران میرے ذہن میں ایک دھندلی سی یاد بھی موجود ہے کہ ایک ملازم اور قرآن پڑھانے والے مولوی کا ایک یا دو مواقع پر جسمانی لمس مناسب نہیں تھا۔ لیکن ہم اپنے گھر میں ایسی باتیں کبھی نہیں کرسکے۔ ہمیں اس احساس اور اعتمادکے ساتھ پالا اور پروان چڑھایا گیا کہ لڑکے جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کے خطرے سے دوچار نہیں ہوتے۔
مجھے یقین ہے کہ خوش قسمتی کے علاوہ یہ ہماری نگرانی، کہیں اور رات گزارنے پر پابندی، والدین کی ہماری دوستوں اور اُن کے اہلِ خانہ میں دلچسپی اور ہمارے تحفظ پر توجہ تھی جس نے ہمیں بچپن میں محفوظ رکھا۔ میرا نہیں خیال کہ ایک نسل پہلے یہ معاشر ہ بہت مختلف تھا۔ یہ ایسے معاملات پر بات نہیں کرتا تھا۔ جس شخص کوبھی ہاسٹل میں رہنے کا تجربہ ہے ، وہ جانتا ہے کہ وہاں ہم جنس پرستی کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ جن کے ساتھ بچپن میں زبردستی کی جاتی ہے، وہ بڑے ہوکر خود بھی دوسروں کے ساتھ تشدد روا رکھتے ہیں۔ کچھ زندگی بھر کے لیے خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن ہم بطور معاشرہ ایسے موضوعات پر بات کرتے ہوئے شرم محسوس کرتے ہیں۔
بڑے ہونے پر ہمیں سیکس کی کوئی تعلیم نہیں دی گئی۔ کسی نے ہمیں جسم میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں نہ بتایا۔ کسی نے بلوغت کے مسائل پر بات نہ کی۔ ایک مرتبہ ایک ٹیچر نے بات کرنے کی کوشش کی لیکن اُن کے خلاف ’’نوجوانوں کے ساتھ نا مناسب گفتگو‘‘ کرنے کی رپورٹ کی گئی۔ ہم ایک ایسا معاشرہ ہیں جو یہ دکھاوا کرتا ہے کہ جنس نامی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔ اس کے نتیجے میں یہ بات کرنے کے روادار نہیں کہ اس خاموشی کے نتیجے میں بچوںکا تحفظ کس طرح متاثر ہوتاہے، اور اس سے کس طرح ہراساں کرنے ، تشدد اور جرائم کے جراثیم پید اہوتے ہیں۔ جنسی تشدد کے بارے میں بات کرنے سے اس کا خاتمہ نہیں ہوجائے گا لیکن ہم اپنے بچوں کا بہتر طور پر تحفظ کرسکیں گے۔
رویے کو تبدیل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ گڑے مردے اکھاڑنا او ر بھی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ لیکن اس کے بغیر ہم اپنے گھروں اور اسکولوں کو اپنے بچوں کے لیے محفوظ نہیں بنا سکتے۔ اپنے کریمنل جسٹس سسٹم، نگرانی، تحقیقات، تادیب، عدالت اور جیل کی خامیوں کی شناخت کیے بغیر اور اکیسویں صدی میں ان مسائل کاحل تلاش کیے بغیر یہ نظام غیر فعال، استبدادی اور پر تشدد رہے گا۔ ہمارا اجتماعی اشتعال اجتماعی پھانسیوں پر طمانیت محسوس کرکے آگے بڑھ جائے گا۔
اور جیسا کہ آپ نے ہمیں ہمیشہ یہ سبق دیا ، زندگی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔
امید ہے کہ آپ اپنے فیس بک اسٹیٹس پر نظر ِ ثانی کریں گی۔
آپ کا پیارابیٹا
بشکریہ : روزنامہ جنگ