خوف کے ماحول میں دلیل کی گنجائش
از، بابر ستار
ہمارے ہاں پائی جانے والی تنگ نظری، چشم پوشی، خوف اور موقع پرستی کا یہ عالم ہے کہ اس اسلامی جمہوریہ (جو اسی لیے حاصل کی گئی کہ مسلمان اپنے عقیدے کے مطابق آزادی سے زندگی بسر کرسکیں) میں مسلم اکثریت بھی خوف کے مُہیب اور گہرے ہوتے ہوئے سایوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔
اقلیتوں کی بات چھوڑیں، عام مسلمان بھی مذہب کے نام پر مطالبات پیش کرنے والوں سے سوال پوچھنے یا اُن پر تنقید کرنے کی جرات نہیں رکھتے۔ یہ خوف ہَمہ وقت دامن گیر رہتا ہے کہ وہ کسی کو بھی غیر مسلم، یا توہین کا مرتکب قرار دے ڈالیں گے۔ اُس کے بعد جنونی جھتے اُس ’’گستاخ‘‘ سے آپ ہی نمٹ لیں گے۔
فیض آباد دھرنے کی وجہ سے جڑواں شہروں کے باسیوں کو پہنچنے والی تکلیف پر ہونے والی بحث کے دوران ایک ساتھی کا کہنا تھا کہ وہ بھی پیغمبر ﷺ کی حُرمت پر اپنی جان نچھاور کرنے اور دھرنے میں شرکت کے لیے تیار ہے۔ جب پوچھا گیا کہ تنازِع ہے کیا تو اُس کا کہنا تھا کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی آئینی شق کو الیکشن ایکٹ 2017 کے ذریعے ختم کیا جارہا ہے۔ اس بحث میں الجھے بغیر کہ کیا ہمیں پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اورآئینی شقوں کے ذریعے اپنے ہم وطنوں کے عقیدے کا تعین کرنا چاہیے، آئیے اپنے موجودہ قانون کا جائزہ لیتے ہیں۔
1974ء میں دوسری آئینی ترمیم کے ذریعے ’’مسلم‘‘ اور ’’غیر مسلم‘‘ کی تعریف آرٹیکل 260(3) میں کی گئی۔ یہ آرٹیکل کہتا ہے:
’آئین اورتمام قانون سازی اور قانونی ڈھانچے میں ایک مسلمان کا مطلب (a) ایک ایسا شخص جو خدا کی وحدانیت پر یقین رکھتا، اور حضرت محمد ﷺ کو آخری پیغمبرسمجھتا ہو، اور اُن کے بعد کسی شخص، جو پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتا تھا یا کرتا ہے، پر یقین نہ رکھتا ہو، اور غیر مسلم سے مراد ہے ایسا شخص جو مسلمان نہ ہواور (b) وہ ہندو، مسیحی، سکھ، بدھا یا پارسی کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہو، ایک ایسا شخص جو قادیانی، یا لاہوری گروپ سے تعلق رکھتا ہو، یا خود کو احمدی، یا بہائی یا کسی اور نام سے ظاہر کرتا، یا اُس کا تعلق کسی اور اقلیتی گروہ سے ہو۔‘‘
آئین ہمارا سپریم لاء ہے۔ کوئی ذیلی قانون سازی (جیسا کہ الیکشن ایکٹ 2017) اس کی شقوں کی نفی یا تردید نہیں کرسکتی۔ لہٰذا یہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کسی آئینی شق کی نفی کرسکتا ہے۔ مزید یہ کہ آرٹیکل 260 (3) میں وضاحت سے بیا ن کردہ تعریف کو ہمہ وقت دہراتے رہنے سے کوئی مقصد پورا نہیں ہوتا ہے۔
مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں کو خوش کرنے کے لیے ضیا الحق نے آرڈیننس XX ،1984 نافذ کیا۔ اس کے ذریعے پی پی سی (پاکستان پینل کوڈ ) میں سیکشن 298-A, B, C شامل کیے گئے۔ اس سیکشن کے مطابق اگر کوئی احمدی خود کو مسلمان قرار دیتا ہے، یا خود کو مسلمان ظاہر کرتا ہے، یا اپنے عقیدے کی تبلیغ کرتا اور اسے پھیلاتا ہے، یا مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کرتا ہے، تو اُسے تین سال قید تک کی سزا ہوسکتی ہے۔
الیکشن ایکٹ 2017 ان میں کسی کو بھی تبدیل نہیں کرتا ہے۔ یہ آٹھ قوانین پر محیط شقوں، جن کا تعلق انتخابات سے ہے، کو تقویت دیتا ہے۔ ان میں سے ایک شق ’’کنڈکٹ آف جنرل الیکشنز آرڈر 2002‘‘ تھی، جسے پرویز مشرف نے متعارف کرایا تھا۔
مزید دیکھیے: مبارک باد پاکستانی عوام ، شدت پسندی کے بیانیے کی شکست
حالیہ تنازِع کے پہلے حصے کا تعلق اس قانون کے سیکشنز 7B اور7C سے ہے۔ سیکشن 7 میں الیکشن آرڈر کہتا ہے کہ انتخابات مخلوط بنیادوں پر ہوں گے ( یہ سیکشن سابق قانون کو ختم کرتا ہے جس کے مطابق اقلیتوں کا انتخابی عمل الگ تھا)، اور ایوان میں اقلیتوں کی نشستیں پارٹیوں کو ملنے والی نشستوں کے تناسب سے پُر کی جائیں گی۔
جب جداگانہ بنیادوں پر انتخابات کا انعقاد کیا جاتا تھا تو غیر مسلموں کی انتخابی فہرستیں الگ ہوتی تھیں۔ وہ مخصوص نشستوں کے لیے انتخابات لڑنے والے غیر مسلم امیدواروں کو ووٹ دیتے تھے۔ جب مخصوص نشستوں پر انتخابی عمل کو تبدیل کر دیا گیا تو غیر مسلموں کی الگ انتخابی فہرستوں کی ضرورت بھی باقی نہ رہی۔ مخلوط انتخابی عمل کے لیے صرف ایک فہرست ہی درکار تھی، جس میں تمام شہریوں (چاہے مسلمان ہوں یا غیر مسلم) کا بطور ووٹر اندراج ہوتا۔ وہ جنرل نشستوں کے لیے اپنے پسندیدہ امیدواروں کو ووٹ دیتے۔
تاہم ایک طبقے نے اسے سازش سے تعبیر کرتے ہوئے الزام لگایا کہ پرویز مشرف احمدیوں کا ’’غیر مسلم اسٹیٹس‘‘ ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ چنانچہ مذہبی قدامت پرستوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے مشرف نے الیکشن آرڈر میں سیکشن 7B اور C شامل کردیں اور کہا کہ آئین کے آرٹیکل 260 میں غیر مسلم کی تعریف اپنی جگہ پر موجود رہے گی، چاہے اس کے بعد جو بھی قانون سازی ہوتی رہے (یہ اصول اتنا واضح اور طے شدہ ہے کہ اس کے بعد کسی مزید تبصرے یا تعریف کی کوئی ضرورت نہیں)۔
سیکشن 7C کہتا ہے کہ اگر ووٹر لسٹ میں شامل کسی شخص کے مسلمان ہونے پرکوئی اعتراض کرتا ہے تو مذکورہ شخص سے کہا جائے گا کہ وہ ختم نبوت کے حلف نامے پر دستخط کردے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اُسے غیر مسلم سمجھا جائے اور اس کا نام مشترکہ انتخابی فہرستوں سے نکال کرغیر مسلم ووٹروں کی فہرست میں شامل کردیا جائے۔ اس کی وجہ سے احمدیوں کی مخصوص فہرست تیار ہوگئی لیکن اس سے مخلوط انتخابات کا کوئی مقصد پورا نہ ہوا۔ اس نظام کے تحت تمام شہری اپنے عقیدے کی شناخت سے قطع نظر ہوکر ووٹ ڈالنے کے حقدار تھے۔
اس تنازع کی دوسری وجہ کا تعلق امیدواروں کی طرف سے حلف نامہ پیش کرنے سے ہے۔ نئے قانون کے تحت فارم A کسی حلقے کے لیے مسلمان امیدوار کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ فارم کہتا ہے:
’’میں حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت پر یقین رکھتا ہوں، اور یہ کہ میں کسی ایسے شخص کا پیروکار نہیں جو کسی بھی حوالے سے خود کو پیغمبر یا مذہبی مصلح قرار دیتا ہو، اور نہ ہی میں قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ سے تعلق رکھتا ہوں اور نہ ہی میں خود احمدی ہوں۔ ‘‘
اس حلف نامے کی زبان وہی ہے جو عوامی نمائندگی کے ایکٹ کی ہے جس کی جگہ یہ متعارف کرایا گیا۔ تبدیلی صرف یہ تھی کہ نئے فارم میں مختلف حلفوں کو اکٹھا کردیا گیا، اور ان حلف ناموں کے شروع میں یہ الفاظ ہیں۔۔۔’’میں۔۔۔۔ اعلان کرتا ہوں‘‘، جبکہ پرانے حلف نامے میں یہ الفاظ تھے ۔۔۔’’میں ۔۔۔ قسم کھاتا ہوں‘‘۔ الفاظ کی اس تبدیلی سے قانونی پوزیشن تبدیل نہیں ہوتی ہے۔ جھوٹا حلف نامہ پیش کرنے کی صورت میں نااہلی ہوسکتی ہے، چاہے آپ اعلان کریں، یا قسم کھا کر کہیں۔
اگرالیکشن آرڈر 2002 کے سیکشنز 7B اور C کو منسوخ کرنا، یا ’’قسم کھانا‘‘ کی جگہ ’’اعلان کرنا‘‘ کے الفاظ کی تبدیلی انتہائی سنگین نتائج کے حامل معاملات ہیں تو پھر پارلیمانی کمیٹی کے 34 ارکان، جنہوں نے 26 اجلاس کے دوران نئے قانون کا جائزہ لیا (اگر ذیلی کمیٹیوں کو بھی شامل کریں تو میٹنگز کی تعداد 93 ہوجاتی ہے )، ان معاملات کی شناخت کرنے میں کیوں ناکام رہے؟
اگر یہ معاملہ اتنا سنگین تھا کہ اس سے عقیدے کی بنیاد پر ضرب پڑتی تھی پھر ان تمام ارکانِ اسمبلی کو اسمبلی سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ کیوں نہیں کیا جارہا؟ پارلیمنٹ نے دواکتوبر کو الیکشن ایکٹ 2017 منظور کیا، سولہ اکتوبر کو ترمیمی ایکٹ (جس کے ذریعے فارم A میں ترمیم کی گئی اور سیکشنز 7B اورC کو منسوخ کیا گیا) منظور ہوا۔ اس کے بعد سولہ نومبر کوایک اور بل کے ذریعے سیکشن 7B کی تحریر کو ایک نئے سیکشن 48A کے ذریعے الیکشن ایکٹ 2017 میں دوبارہ شامل کیا گیا۔ اس کے بعد دیکھنے میں یہ آیا کہ تمام پارلیمنٹ، جس نے اصل قانون منظور کیا گیا، نے مل کر اس ’’غلطی‘‘ کی مذمت شروع کردی۔ پھر اس نے ایک قربانی کا بکرا بھی تلاش کرلیا۔ اب چونکہ مذہب پورے طور پر سیاست میں شامل ہوچکا ہے، اس لیے کسی منطقی اور عقلی بحث کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ عام شہری یہی سمجھ سکتے ہیں کہ ان کے مذہب کے خلاف کوئی گمبھیر سازش ہوئی ہے، چنانچہ اسے بے نقاب کرنا اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ضروری ہے۔
پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی ابتلاء کا نوٹس لیتے ہوئے چیف جسٹس تصدیق حسین جیلانی نے ایک غیر معمولی نوٹ لکھا تھا:
’’کسی مذہبی اقلیت کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر وہی فرد یاقوم معافی مانگ سکتی ہے جو بااخلاق ہو۔ شاید وقت آگیا ہے جب ہم بطور قوم اور افراد، اپنا محاسبہ کریں اور خود سے سوال کریں کہ کیا ہم نے اپنی زندگی آئین میں کیے گئے وعدے اور قائد اعظم کے تصور کے مطابق بسر کی ہے ۔۔۔۔‘‘۔
جس دوران اس خستہ حال قوم کے رہنما گھٹیا سیاسی حربوں کے نشتر تیز کررہے ہیں، یہاں مذہبی آزادی پر کڑے پہرے لگے ہیں۔ نفرت انگیز تقاریر بلا روک ٹوک زہر فشاں ہیں، رواداری کا کہیں ہلکا سا نام و نشان تک باقی نہیں رہا، اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ دارالحکومت کو یرغمال بنانے والے چند سولوگ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔
“آئین ہمارا سپریم لاء ہے۔ کوئی ذیلی قانون سازی (جیسا کہ الیکشن ایکٹ 2017) اس کی شقوں کی نفی یا تردید نہیں کرسکتی۔ لہٰذا یہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کسی آئینی شق کی نفی کرسکتا ہے۔ مزید یہ کہ آرٹیکل 260 (3) میں وضاحت سے بیا ن کردہ تعریف کو ہمہ وقت دہراتے رہنے سے کوئی مقصد پورا نہیں ہوتا ہے۔”
کیا خوب بات واضح کی ہے۔ لیکن جو زیادہ جوش میں ہیں، انہوں نے سوچنا کب ہوتا ہے؟