سابق وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی نا اہلی، اور پھیلائے قصے
از، اختر بلوچ
سابق وزیراعظم نواز شریف کو عدالتِ عظمیٰ نے اپنے ایک فیصلے کے تحت معزول کردیا۔ پاکستان کے اکثر میڈیا گروپس کے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں انھیں سابق وزیراعظم لکھا جاتا ہے اور اسی لقب سے پُکارا جاتا ہے۔ لیکن ایک، دومیڈیا گروپ انٖھیں اپنے ہر پروگرام یا نیوز بلیٹن میں ’’سابق نااہل‘‘ وزیراعظم کے لقب سے پکارتے ہیں۔ یہ اندازِ تحریر اور تخاطب اور یہ لب و لہجہ اس حد تک موزوں ہے، یہ ایک بحث طلب امر ہے۔ اس پر ایک طویل مباحثے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہماری کوشش یہ ہے کہ پاکستان کے مختلف وزرائے اعظم جن حالات اور جن وُجوہات کی بنا پر برطرف یا معزول کیے گئے تو کیا اُن سب کو، ان وجوہات کی بِنا پر ان کو سابق مقتول وزیراعظم، سابق قاتل وزیراعظم، سابق توہینِ عدالت کے مرتکب وزیراعظم لکھا جانا چاہیے یا صرف سابق وزیراعظم۔ یہ بھی ایک بحث ہوسکتی ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے جن ججوں نے ان وزرائے اعظموں میں سے کسی ایک کو سزا دی اور بعد میں اس بات کا اقرار بھی کیا کہ انھوں نے یہ فیصلہ کسی دباؤ کے تحت کیا تھا تو ان ججوں کو سابق بزدل جج لکھنا چاہیے۔
یہ ایک ایسی بحث ہے جس کا آغاز ہم کرہے ہیں۔ آئیے اس ضمن میں سب سے پہلے پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کا ذکر کرتے ہیں۔ خواجہ ناظم الدین کو جب وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کیا گیا تو اس کا آنکھوں دیکھا حال نعیم احمد ، محمد ادریس اور عبدالستار کی مرتبہ کتاب ’’پاکستان کے پہلے وزرائے اعظم ‘‘ میں یوں بیان کیا گیا ہے:
جب غلام محمد نے آپ کو برطرف کیا اس دن آپ دورے پر جانے والے تھے۔ جب آپ کو برطرفی کا علم ہوا تو آپ نے بجائے کوئی سیاسی انتقامی کارروائی کے خاموشی سے سب کچھ برداشت کیا۔ اس زمانے میں عام طور پر یہ تاثر تھا کہ خواجہ صاحب سے دھوکہ کرنے والوں میں وہ لوگ شامل تھے جن پر آپ بھروسہ کرتے تھے یعنی چودھری محمد علی اور اسکندر مرزا، لیکن آپ یا تو اتنے بزدل تھے یا شریف کہ آپ نے اپنی برطرفی پر کوئی بیان تک نہ دیا۔آپ جب برطرفی کے بعد وزیراعظم ہاؤس سے رخصت ہونے لگے تو افسردہ نظر آرہے تھے اور آنسو آپ کی آنکھوں میں تیررہے تھے۔ البتہ آپ نے اتنا ضرور کہا کہ’’ یہ اچھا نہیں ہوا۔ یہ پاکستان پر ظلم کیا گیا ہے۔
اگر اس حوالے کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ایک بات بالکل واضح ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کے جن تین ملازمین نے یہ کتاب مرتب کی ہے اس میں ایک بات انھوں نے مِن و عَن بیان کی ہے کہ جب وہ ایوانِ وزیراعظم سے رخصت ہو رہے تھے تو اُن کی آنکھوں میں آنسو تھے، نہ جانے یہ بزدلی تھی یا کہ شرافت۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ خوانہ ناظم الدین کو پاکستان کا سابق بزدل وزیراعظم لکھا جائے یا شریف وزیراعظم لکھا جائے۔
خواجہ ناظم الدین کی خوش خوراکی کے چرچے قیامِ پاکستان سے قبل بھی عام تھے، اور اس کے بعد بھی رہے لیکن عمومی طور پر اس بات کو ان کے خلاف پروپیگنڈہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن مرزا ابوالحسن اصفہانی نے اپنی کتاب ’’ قائد اعظم محمد علی جناح میری نظر میں‘‘ کے صفحہ نمبر 136، 137 پر یوں بیان کیا ہے:
مجھے یاد ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے رُکن اور بنگال کے ایک محترم سیاسی رہنما خواجہ ناظم الدین اپریل 1946 کے پہلے ہفتے میں نئی دہلی میں سخت بیمار پڑ گئے اور ایک ہلکے سے دورہ قلب کے بعض آثار نمایاں ہوگئے۔ انھیں فوراً اسپتال پہنچایا گیا اور ایک پرائیوٹ مریض کے طور پر داخل کردیا گیا۔ ہم لوگ مسٹر جناح کے مکان پر جمع تھے کہ ہم نے یہ خبر سنی کہ اُن کی بیماری خطرناک ہے۔ راجہ صاحب محمود آباد اور میں نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے بیمار دوست اور رفیق کار کو جاکر دیکھیں۔ ہم نے مسٹر جناح کو اسپتال جانے کی اس تجویز سے مُطلِع کیا اور ان سے پوچھا کہ آیا وہ بھی خواجہ ناظم الدین کو دیکھنا پسند کریں گے ہم ان کا جواب سُن کر دم بخود رہ گئے کہ اگر انھوں نے ایک مرتبہ بیمار اور علیل لوگوں کی عیادت کو جانا شروع کردیا تو انھیں اپنا زیادہ تر وقت اسی فریضے کی ادائیگی میں صرف کرنا پڑے گا۔ ان کے پاس اس اہم کام کے لیے کافی وقت نہ بچے گا جس پر برِصغیر کے مسلمانوں کے مستقبل کا دارومدارہے۔ یہ کہہ کر انھوں نے اپنی توجہ پھرکاغذات کے اُس ڈھیر کی طرف کردی جو ان کے دارالمطالعہ کی ایک سبز چمڑے کی کُرسی کے ارد گرد جمع تھا۔ ہم ان کے کمرے سے مایوس نکل آئے اور اسپتال پہنچے۔ جہاں ہمیں یہ دیکھ کر بہت تعجب ہوا کہ خواجہ ناظم الدین صاحب اپنے کمرے میں اِدھر اُدھر ٹہل رہے ہیں۔ اور بالکل خوش و خرم ہیں۔ انھوں نے ہمیں یہ خوشخبری دی کہ ان کے دل میں کوئی خرابی نہ ہوئی تھی بلکہ انہیں بد ہضمی کی شکایت ہوگئی تھی جس کا باعث کھانے میں بد پرہیزی تھی۔
نعیم احمد، محمد ادریس اور عبدالستار کی مرتبہ کتاب ’’پاکستان کے پہلے وُزرائے اعظم‘‘ میں خواجہ ناظم الدین کی خوراک کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ وہ بِسیار خور نہ تھے لیکن کتاب میں ان کے کھانے کی جو فہرست فراہم کی گئی ہے اس کا فیصلہ آپ خود کرسکتے ہیں۔ مرتبین کے مطابق:
آپ کے متعلق عوام میں عام طور پر یہ مشہور کیا گیا کہ خواجہ صاحب پیٹو قسم کے انسان ہیں اور بہت کھاتے ہیں لیکن وزیراعظم کی حیثیت میں انھیں زیادہ کھانے والا انسان نہیں پایا گیا۔ کھانے میں جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے اگرچہ کئی اشیاء یعنی مچھلی، گوشت، چاول، دال ضرور ہوتی تھیں لیکن خواجہ صاحب کی خوراک زیادہ نہیں تھی۔
مرتبین اس حوالے سے مزید لکھتے ہیں:
لنچ پر اکثر گوشت کے دو قسم کے سالن ہوتے تھے اس کے علاوہ مسور کی پتلی دال اور ابلے ہوئے موٹے چاول بھی دوپہر کے کھانے کی میز پر ضرور ہوتے تھے۔ مسور کی دال اور چاول خواجہ صاحب کی نہایت ہی مرغوب غذا تھی۔ مچھلی بھی پسند فرماتے تھے۔ سالن میں سرسوں کے تیل کا زیادہ استعمال ہوتا تھا۔ آپ کے اگرچہ تمام دانت نقلی تھے لیکن کمال یہ تھا کہ آپ ان دانتوں سے ہڈی بھی چبا لیتے تھے۔ دوپہر اور شام کے کھانوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا۔ مچھلی، چاول، دال، مرغی دونوں کھانوں میں ضرور شامل ہوتے تھے۔ علاوہ ازین آپ کو چنے کی دال اور گوشت کا سالن بھی بہت پسند تھا۔ آپ کبھی کبھی سوڈا واٹر کا استعمال بھی کرتے تھے۔ کبھی کبھار انگریزی کھانے بھی کھالیتے تھے۔ اس کے علاوہ پالک کا ساگ، فرانس بین، مٹر اور آلو جیسی سبزیاں بہت پسند تھیں۔
وہ تنہائی میں کھانا پسند نہیں فرماتے تھے، ہمیشہ کھانے کی میز پر ان کا پورا گھرانہ اور وہ مہمان جو اکثر ڈھاکہ سے آئے ہوتے تھے۔ علاوہ ازیں ان کی کوشش یہ ہوتی تھیں کہ دوسروں کو کھلائیں۔ وہ بذاتِ خود کھانے کی پلیٹیں اٹھا اٹھا کر مہمانوں کے پاس لے جاتے اور اصرار کرتے کہ اور کھاؤ۔
مشہور ہے کہ آپ کو مرغیاں پالنے کا بہت شوق تھا۔ یہ بات کافی حد تک ٹھیک ہے۔ آپ نے ایک بار ایک مرغ انگلینڈ سے منگوایا۔ جس فلائٹ میں وہ مرغ آرہا تھا آپ اس کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔ جب فلائٹ کے آنے کی تصدیق ہوگئی توآپ بذات خود ڈاکٹر نور الاسلام کو ساتھ لے کر ہوائی اڈے پہنچ گئے اور مرغ کو اپنے ہمراہ لے کر آئے۔ ایک اندازے کے مطابق آپ کے پاس تقریباً نہایت اچھی قسم کی چار سو کے قریب مرغیاں ہوں گی۔ مرغی خانے کی دیکھ بھال کے لیے باقاعدہ ایک آدمی مقرر کیا ہوا تھا۔ اس سے اکثر مرغیوں کی صحت اور خوراک وغیرہ کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے رہتے تھے جب بھی مرغی کا کوئی انڈا ڈربے میں پڑا دیکھتے تو اس کو اٹھا کر بہت خوش ہوتے تھے اور اس کے سائز کے بارے میں تبصرہ بھی کرتے تھے۔
پیر علی محمد راشدی اپنی کتاب’’ رُودادِ چمن‘‘ کے صفحہ نمبر 52 پر لکھتے ہیں:
میں جب سندھ کا ریونیو وزیر بنا تو وہ میرے پاس درخواست لے کر آئے کہ ان کو تھوڑا سا غیر آباد زمین کا ٹکرا سندھ میں دیا جائے، جہاں وہ مرغبانی کرکے فاقہ کشی سے بچنے کا بندوبست کرسکیں۔ زمین تو میں نے دے دی مگر مرغی خانہ نہ بن سکا۔ مجبوراً دربدرخاک بسر وہ اپنا یہ حال لے کر ڈھاکہ پہنچے اور وہاں پاکستان کے دوست یا دشمن قائداعظم کے اس قریبی ساتھی کا یہ حشر دیکھ کر انگشتِ بدنداں رہ گئے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواجہ ناظم الدین کو سابق وزیراعظم کے حوالے سے کیا لکھا اور پکارا جائے۔ سابق آبدیدہ وزیراعظم، سابق بزدل وزیراعظم، سابق مرغبان وزیراعظم یا سابق مظلوم وزیراعظم۔ یہ تو تھے خواجہ ناظم الدین جن کے لیے کیا القاب استعمال کیے جاسکتے ہیں، لیکن اگر قارئین کے ذہن میں کوئی اور القاب ہوں یا کوئی اور کہانی ہو تو وہ یہاں لکھ سکتے ہیں اس سے ہمیں بھی رہنمائی حاصل ہوگی۔ یاد رہے کہ یہ صرف ایک سابق وزیراعظم کا قصہ ہے، ہماری کوشش ہے تمام سابق وزرائے اعظم کے بارے میں لکھیں۔
بشکریہ: تجزیات آن لائن