خیال کی اثر انگیزی
از، شبنم گل
خیال اپنی حقیقت خود تخلیق کرتا ہے اور سوچ سے نہ فقط رویے ترتیب پاتے ہیں بلکہ عادتیں بھی تشکیل پاتی ہیں۔ ہم سوچ اور خیال کی طاقت سے بے خبر ہیں۔ ہماری سوچ کس طرح زندگی پر اثرانداز ہوتی ہے اور خیال کے زاویے کس طرح ہمارے راستوں و منزل کا تعین کرتے ہیں، یہ سمجھنے کے لیے شعور اور لاشعور کے کام اور رابطوں کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔
شعور، لمحہ موجود میں زندہ رہنے اور مشاہدے کا نام ہے۔ یہ مشاہدہ آگے چل کر تجربہ کہلاتا ہے۔ شعور ہمیں حسیاتی طور پر متحرک رکھتا ہے۔ ہم کوئی بھی کام کرتے ہیں تو شعوری طور پر آگاہ ہوتے ہیں اپنے عمل کی نوعیت سے، جب کہ لاشعور کا کام مختلف ہے۔ لاشعور میں بچپن سے لے کر دورحاضر تک زندگی کی مکمل معلومات اور یادیں محفوظ ہوتی ہیں۔
جو وقت ضرورت ہماری شعور کی سطح پر آجاتی ہیں۔ مثال جب پرانے دوست ملتے ہیں تو بچپن اور جوانی کے دنوں کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ لاشعور میں پوری زندگی کا ریکارڈ محفوظ ہوتا ہے۔ یہ شعورکو راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ بعض اوقات ماضی کے تجربے اور ان کی شدت شعور سے جھلکتی ہے۔ یہ اچھے برے مشاہدے و تجربے ہمارے رویوں کو متعین کرتے ہیں۔
ہمارے تمام تر رویوں پرکافی حد تک لاشعورکی حکمرانی ہوتی ہے۔ لاشعور کی دنیا کو سمجھنے سے خود آگہی و ذاتی تجزیے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ دو ذہن (شعور و لاشعور) مختلف انداز سے اپنی کارکردگی دکھاتے ہیں۔ شعور کو تخلیقی صلاحیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ ہم روزمرہ زندگی میں جو بھی تعمیری کام کرتے ہیں ہمیں اس کا پورا ادراک حاصل ہوتا ہے۔ چاہے وہ کوئی کھیل ہو یا کسی کتاب کا مطالعہ یا ڈرامہ وغیرہ دیکھنا بھی تخلیقی کاموں کے زمرے میں آتے ہیں، جب کہ لاشعورکو habit mind (ذہن کی عادت) کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جس کی عادات پختہ ہوتی ہیں، جنھیں آسانی سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
جب کہ ہم زندگی میں بہت کچھ تبدیل کرنا چاہتے ہیں یا لاشعور کے جال سے باہر نکلنا چاہتے ہیں، جو ہمارے لیے تکلیف اور مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔ یہ انا کا جال بھی ہوسکتا ہے۔ لاشعور کو سدھارنے کی کوشش دنیا کا مشکل ترین کام ہے مگر ناممکن نہیں۔ ہم چائے، کافی، سگریٹ یا کوئی بھی نشہ آسانی سے نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ تکلیف دہ حالات اور سوچوں سے فرار کے راستے ہیں۔ جن سے وقتی سکون حاصل ہوتا ہے کسی بھی پختہ عادت تمام تر المیے اس وقتی سکون یا فراریت کے اردگرد گھومتے ہیں۔
انا کے جال میں الجھا ہوا شخص بار بار وہی بات سوچتا ہے جو اس کی انا کو ٹھیس پہنچاتی ہو۔ ذات کی محبت میں گرفتار شخص کے حالات اس کی سوچ کا آئینہ دار ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح نفرت، حسد یا تعصب ایسی کیفیات ہیں جن کا عمل اور ردعمل بھی منفی ہوتا ہے۔
لاشعورکے مضبوط حصار سے باہر نکلنے کے لیے متعدد بار مثبت سوچ کو دہرانے کی ضرورت پڑتی ہے، تاکہ لاشعور وہ نیا رویہ اپنانے کی کوشش کرسکے۔ کوئی بھی ضدی یا خودسر بچہ ڈانٹ ڈپٹ یا مار سے بہتر نہیں ہوسکتا۔ بلکہ وہ اچھائی کا لبادہ اوڑھ لے گا اور پس پردہ وہی کام کرتا رہے گا جس کے لیے آپ اسے منع کرتے ہیں، لیکن وہی بات آرام سے بہت مرتبہ سمجھائی جائے تو مطلوبہ نتیجہ برآمد ہوگا۔ ہم کسی بھی عادت یا ناپسندیدہ رویے سے اس لیے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ کیونکہ لاشعور بات سمجھے بنا تبدیلی کو مسترد کردیتا ہے۔
آپ لاشعور سے کوئی بات کہیں گے نہیں کہ وہ سنی ان سنی کردے۔ بلکہ مضبوط قوت ارادی کا سہارا لے کر لاشعور کو نیا رویہ سکھانا پڑتا ہے۔ جس کا بہترین حل auto suggestion خود تلقینی ہے۔ جسے self hypnosis (خود تنویم) بھی کہا جاسکتا ہے۔ عمل تنویم شعورکی مرکزیت اور وحدت کا نام ہے۔ ذہن منتشر ہو تو خیال تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ خیال کی اثر پذیری کے لیے ذہن کی یکسوئی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ذہن کے خیالات مستقل تکمیل کی خاطر مسافتیں طے کرتے ہیں۔ جہاں سوچ کی وحدت پائی جاتی ہے، وہاں خواب تعبیر پا لیتے ہیں۔
دوسری صورت میں خود تلقینی کی بدولت بھی موافق نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ یہ لاشعوری ذہن کی مثبت پروگرامنگ ہے جسے habituation (خود پذیری) بھی کہا جاتا ہے۔ لہٰذا ہم خود تنویمی اور خود پذیری کے عمل سے بہت سی ناپسندیدہ عادات سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں۔ ذہن کی مثبت پروگرامنگ کے لیے یکسوئی بہت ضروری ہے۔
جملوں کو بار بار ذہن میں دہرانے سے ان کے عمل میں پختگی آتی ہے۔ جیسے سونے سے پہلے کئی بار یہ جملہ دہرایا جاتا ہے کہ مجھے صبح چھ بجے اٹھنا ہے۔ لہٰذا اسی وقت آنکھ کھلتی ہے، جو وقت، لاشعور کو باورکرایا جاتا ہے۔ جب ایک جملہ بار بار ذہن میں دہرایا جاتا ہے۔ وہ عمل کی تاثیر میں ڈھل جاتا ہے۔ لہٰذا ہم ذہن کی پروگرامنگ کرتے ہوئے خود رحمی، احساس کمتری یا غفلت جیسے منفی رویوں سے باہر نکل سکتے ہیں یا کسی بھی نقصان دہ عادت سے با آسانی پیچھا چھڑا سکتے ہیں۔
آج کل نئی اصطلاح Energy Psychology (توانائی کی نفسیات) بھی استعمال کی جاتی ہے۔ جس کے توسط سے ہم سوچ، جذبات، رویوں اور صحت کو مثبت فریم میں پختہ کرکے موافقت میں بدل سکتے ہیں، اگر کوئی بھی حادثہ یا سانحہ ذہن میں قید ہوکر رہ جاتا ہے تو وہ ذہنی، جذباتی و روحانی طور پر شدید نقصان کا باعث بنتا ہے۔ ایسے شخص کی شخصیت، جذباتی بہاؤ اور رابطے شدید متاثر ہوتے ہیں۔
منفی سوچ یا خیالات جب بار بار دہرائے جاتے ہیں تو ذہن میں پختہ ہوکر حالات کو سوچ کے منفی دھارے پر ڈال دیتے ہیں۔ صوفی یا یوگی بھی قدیم زمانے سے اچھا سوچنے پر زور دیتے رہے ہیں۔ ایک اچھا خیال سورج کی روشنی کی طرح ہے جو توانائی بانٹتا ہے۔ زندگی کے تمام تر سلسلے سورج کی روشنی سے وابستہ ہیں۔ قدیم سیانے دوسرا سبق یہ دیتے ہیں کہ لمحہ موجود میں جینا سیکھو۔ یہ رویہ شعوری حالت میں رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔
ماضی یا مستقبل میں رہنے والی عادت لاشعوری ہوتی ہے۔ ماضی منفی رویوں کی آماجگاہ ہے۔ دوسری طرف خود پسند لوگ مستقبل میں رہتے ہیں۔ لمحہ موجود ہی انسانی شعور کی تمام تر توانائیوں کا محرک کہلاتا ہے۔ جس کے لیے ہمیں ماضی اور مستقبل کی سوچ سے علیحدگی اختیار کرنی پڑتی ہے۔ ماضی یا مستقبل میں رہنے والے ’’حال‘‘ سے غفلت برتتے ہیں۔
موجودہ وقت میں ہمارے بچوں اور خاص طور پر نوجوانوں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کیونکہ زندگی فطری اصولوں کے برعکس، بے یقینی کے راستوں پر سفر کر رہی ہے۔ ہمارے گھر، ادارے اور سیاست کے ایوان روایتی منفی سوچ کا شکار ہیں۔ ہم اس دن کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں کہ کب حالات تبدیل ہوں گے۔ حالات ویسے ہی رہیں گے جب تک ہم اپنی سوچ کا انداز نہیں بدلتے۔ حالات کو سوچ کے نئے تناظر میں دیکھنے کی کوشش سے یکسانیت کا جمود ٹوٹ سکتا ہے۔
express.pk