خیام و سعدی اور سیاسی جھگڑا (طنز و مزاح)

خیام و سعدی اور سیاسی جھگڑا

خیام و سعدی اور سیاسی جھگڑا (طنز و مزاح)

از، نصیر احمد

سعدی: یہ دیکھو یہ نیا قصیدہ شاہ والا تبار اکیانو کی شان میں نظم کیا ہے۔ دعا کرو انھیں اچھا لگے۔ مریخ و زحل سے ملنے جا رہے ہیں، شاید مجھ شاعر کو بھی ساتھ لے چلیں۔

خیام: مریخ و زحل سے ملنے؟ پر کیسے؟

سعدی: تم ایک انتہائی گھٹیا، دریدہ دہن، پست اور ذلیل آدمی ہو۔ تمھیں یہ جرات کیسے ہوئی امیر اکیانو کے عزم کی پختگی کے بارے میں شک کرو۔

خیام: ارے یہ کیا؟ اتنی بد تمیزی اور بے ہودگی اور وہ بھی امیر اکیانو کے لیے۔ کل تو تم’ وا ملک معتصم امیر المؤمنین ‘پکارتے ہوئے دھاڑیں مار رہے تھے۔ اتنا کیا بدل گیا ہے کہ اب امیر اکیانو کے عزم کی پختگی کے دیوانے ہو گئے ہو۔ اور پھر عزم کی پختگی پر کس نے شک کیا ہے؟ میں تو وسائل اور ذرائع کی بات کر رہا ہوں۔ زحل و مریخ تو بہت دور ہیں، سوال تو ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔

سعدی: یہ سوال تم نے اس بد کردار، بد عنوان اور بد عقیدہ معتصم سے کیوں نہیں پوچھے جب وہ مشتری سے ملنے جاتا تھا؟ یہ سوال تم نے مستنصر سے کیوں نہیں ہوچھے جب وہ زہرہ سے ملنے جاتا تھا، اور یہ سوال تم نے ناصر سے کیوں نہیں پوچھے جب وہ اختر سے ملنے جاتا تھاَ؟ تمھیں پتا بھی ہے امیر اکیانو لشکر طلائی کے مقرر کردہ ایک اہم امیر ہیں۔

خیام: ارے یار تو یہ اپنی مشتری، زہرہ اور اختری کی بات ہورہی ہے۔ ان کو ہم جانتے ہیں۔ اتنا اچھا گاتی ہیں تو بڑے لوگ سننے کے لیے جاتے رہتے ہیں، ہمیں بھی کبھی ان کا گانا سننے کا موقع مل جاتا ہے۔ اب استاد مریخ علی خان اور استاد زحل علی خان کا نام ہی نہیں سنا۔ ورنہ ہمارے دوست انھیں بھی، اوئے زحل اور اوئے مریخ کہہ کر چھیڑتے رہتے۔ سچ بڑا مزا آتا ہے۔ ہمیں تو کچھ پَلّے نہیں پڑتا۔ لیکن ان محفلوں میں ہم نے ایک طریقہ اختراع کر لیا ہے۔ جسے کلاسیکی گانے کی سب سے زیادہ سمجھ ہوتی ہے، اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھتے رہتے ہیں۔ جیسے ہی ان کے چہرے پر کسی تان پلٹے پر وارفتگی کی کیفیت طاری ہوتی ہے، ہم سَر کو ایک خفیف سی جُنبش دے دیتے ہیں، جس کی وجہ سے گانے والا سمجھتا ہے کہ یہ تو بہت ہی نکتہ دان ہیں۔ لیکن ایک دفعہ گانے پر گفتگو کرنے کی غلطی کر بیٹھے۔


مزید و متعلقہ: اردو کے پروفیسر حکومت پاکستان تشکیل دیتے ہیں  از، منزہ احتشام گوندل

گدھے کا خواب!  از، خالد کرّار

پانامہ، اپنے مہین خان اور کونڈے  از، نعیم بیگ

مزاح کا حسن سادگی ہے  از، سرفراز سخی


سعدی: سناؤ سناؤ، تمھاری حماقتوں کے قصوں سے اپنے عقل مند ہونے کا احساس بڑھ جاتا ہے۔

خیام: تو ہوا یوں کہ وہ لوگ کسی دادرے شادرے کی بات کر رہے تھے۔ ہم نے کہہ دیا بہت شان دار سمپورن راگ ہے، امیر خسرو خاص یمن سے لائے تھے۔ اس کا آڈو کھاڈو جو آروہی اور امروہی کا سنگم ہوتا ہے، تو اس کے اترانگ اور پوروانگ میں کھلبلی سی مچ جاتی ہے۔ تو وہ سننے والے کچھ بوکھلا سے گئے اور غصے سے کہنے لگے کہ یہ کیا بکواس ہے۔ ہم بھی کچھ تِلمَلا کر کہہ بیٹھے کیسی بات کر رہے ہیں معارف موسیقی میں لکھا ہے۔ تو وہ کہنے لگے تم جیسے دہقانوں سے پالا پڑتا رہتا ہے۔ کبھی بات کا رخ پلٹ دیتے ہیں۔ کبھی غصے میں آ جاتے ہیں اور ایک خندہ اِستِہزا ہی کافی ہوتا ہے۔ لیکن تم جو کہہ رہو، سمجھ نہیں آ رہی اس کا کیا جواب دیں۔ اور یہ کہہ ان کے چہرے پر ایک تشنجی سی کیفیت چھا گئی اور وہ وہیں بے ہوش گئے۔ لیکن تب سے ملاقات نہیں ہوئی۔ اتنے عرصے میں ہم بھی کچھ بدل سے گئے۔ اب جیسے ہی کوئی الاپ شروع کرتا ہے، ہم ویگنر ویگنر (جرمنی کا ایک موسیقار جسے ناٹزی پارٹی نے اپنے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا تھا) اور شبِ سیاہ کی ظلمتوں کا قصہ چھیڑ دیتے ہیں۔ ویسے تم امیر کیانو کی بڑی تعریفیں کرتے ہو، ان میں ایسی کیا بات ہے جو معتصم میں نہیں۔

سعدی: امیر اکیانو انصاف لائے ہیں۔ انصاف سے ان کا خلوص بے مثال ہے۔

خیام: تو کیا خواتین، گبرو ترسا، یہود و ہنود اور قرامطیوں کا بھی انصاف ملے گا؟

سعدی: ہاں کیوں نہیں؟

خیام: تو ہمارے اور ان کے حقوق برابر کے ہوں گے؟

سعدی: جب وہ ہمارے بہ طورِ انسان برابر ہی نہیں ہیں، تو برابری کے کیسے حقوق؟

خیام: پھر کیسا انصاف؟

سعدی: امام غزالی پڑھا کرو، یہ تم جو ابنِ رشد کے پیرو کار ہو، دین کو بگاڑے جا رہے ہو۔ انصاف درست جگہ پر ہر چیز کی موجودگی کا نام ہے۔

خیام: یعنی تمھاری جو جگہ معتصم کے دربار میں تھی، وہی امیر اکیانو کے دربار میں ہو گی۔ پھر تو نام ہی بدلے ہیں ناں

سعدی: تم لوگ یہ بات سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔

خیام: ویسے حشیشین کا کیا بنے گا؟

سعدی: اب وہ مہندس و طبیب بنیں گے۔

خیام: یعنی بذریعہ تہذیب قتل کریں گے۔

سعدی: چھوڑو تم سے کیا بات کرنی۔

خیام: ٹھیک ہے یار اب سیاست کے لیے آپسی تعلقات کیوں بگاڑیں۔ لیکن جب استاد زحل علی خان اور استاد مریخ علی خان کی طرف جانا ہو، تو ہمیں بھی ساتھ لے چلنا۔

سعدی: ارے جاہل، ایسے کوئی استاد نہیں ہیں، زحل اور مریخ سیارے کی بات کر رہے ہیں، امیر اکیانو تمھاری طرح گھٹیا سے تماش بین نہیں بَل کِہ میرِ کارواں ہیں۔

خیام: لیکن وہاں جائیں گے کیسے؟

سعدی: تم ایک انتہائی کمینے، گھٹیا، ذلیل اور پست آدمی ہو۔

خیام: کنجر یہ کیا ٹَر ٹَر لگا رکھی ہے، ایک جائز سوال کو کیوں ختم کرنا چاہتے ہو؟ اگر امیر مریخ و زحل جا رہے ہیں تو کیا گدھا ریڑھی پر جائیں گے؟

سعدی: اب مجھے گالی دی ناں ۔۔۔

خیام: تو تم کیا پھول برسا رہے ہو

(اور دھینگا مَشتی شروع ہو گئی۔ اب امیر اکیانو تو شاید مریخ و زحل تک پہنچ ہی جائیں مگر یہ دوست ایک دوسرے کو خاک میں پٹخنیاں دیے جا رہے ہیں۔)