کھلن کو مانگے چاند
از، معصوم رضوی
انوکھا لاڈلا بلقیس خانم کا شہرہ آفاق گیت ہے جسے سن کر آج بھی وجد آ جاتا ہے مگر آج کل سیاست میں لاڈلوں کا تذکرہ اس دھڑلے سے ہو رہا ہے کہ لگتا ہے جلد یہ لفظ بھی گالی بن جائے گا۔ ابھی مجھے کیوں نکالا کا راگ ختم بھی نہ ہوا تھا کہ لاڈلوں کا گیت سیاست پر چھا گیا۔ موسم آتے جاتے رہتے ہیں مگر پاکستان میں سیاست کا موسم تکلیف دہ حد تک سدا بہار ہے۔ میاں صاحب نے کپتان پر لاڈلا ہونیکا الزام عائد کیا تو کپتان نے ضیاالحق کی چوسنی قرار دے ڈالا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ لاڈ اٹھانے والی واحد فیصلہ کن اتھارٹی اسٹیبلشمنٹ اس ضمن میں خاموش ہے۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں آئین پاکستان کے مطابق کوئی بھی شہری سیاست میں حصہ لے سکتا ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کی رضا کے بغیر بساط سیاست پر ٹہر نہیں سکتا، قارئین کا کہنے والوں کی کہاوت سے متفق ہونا ضروری بھی نہیں ہے۔
پچیس سال صحافت کے خارزار میں جھک مارنے کے باوجود نہیں جانتا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کے اجزائے ترکیبی اور محل و وقوع کیا ہے۔ بہرحال یہ تو ایک لمبی بحث ہے لیکن اتنی حقیقت ضرور ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا اونٹ سیاسی خیمے ایسے براجمان ہوا ہے کہ تمام سیاسی بدو باہر پہرہ دے رہے ہیں۔ سیانے بتاتے ہیں کہ 14 اگست 1947 کو بانی قائد اعظم محمد علی جناح کی ریڈیو تقریر کو بھی سنسر کی کوشش کرنیوالی یہی اسٹیبلشمنٹ تھی، اب ذرا بتائیے تشکیل پاکستان پر جو پراسرار ہاتھ بانی پاکستان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کر سکتے ہیں وہ ستر سال بعد کتنے طاقتور بن چکے ہونگے۔ سیانے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب کو بنایا بھی اسٹیبلشمنٹ نے اور سولی پر بھی اسی نے لٹکایا اس کے بعد آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے، ہر وزیر اعظم ہاتھ بندھے ہونے کی شکایت کرتا ہے مگر سننے والا کوئی نہیں، مزیدار بات تو یہ ہے کہ جب ایک سیاستداں اسٹیبلشمنٹ کے نشانے پر ہوتا ہے تو اس کے تمام ساتھی تالیاں بجا بجا کر حسب استطاعت و حوصلہ اسٹیبلشمنٹ کی کمر ٹھوکتے نظر آتے ہیں۔ سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کا یہ دنگل ستر سالوں سے جاری ہے اور بیس کروڑ عوام ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے اتنے ہی قریب رہے کہ آج جب وہ معتوبی کے بعد بھی کم از کم اتنا تو ہے کہ ان کے برادر حقیقی کو شرف قبولیت بخشا جا رہا ہے، گویا عتاب مستقل نوعیت کا نہیں بس کچھ محبت بھری ناراضگی ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی احساس ہے کہ تمامتر کوششوں کے باوجود ن لیگ کا ووٹ بینک پوری طرح موجود ہے۔ اس کے باوجود پوری اپوزیشن اتنی سنجیدہ ہو گئی ہے کہ ہر کسی کو اپنی حکومت بنتی نظر آ رہی ہے، حتیٰ کہ شیخ رشید اور علامہ طاہر القادری بھی جن کے جماعتوں میں ان کے علاوہ کوئی دوسرا رہنما تک موجود نہیں، مستقبل میں حکمرانی کے امیدوار ہیں۔ تمام تر اعتراضات کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عمران خان نے بہرحال گزشتہ پانچ سالوں میں اپوزیشن کا حقیقی کردار ادا کیا ہے۔ پیپلز پارٹی مفاہمت کی گنگا میں اشنان کے بعد عام انتخابات کے پیش نظر خود کو اپوزیشن جماعت کے طور پر پیش کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ خیر پیپلز پارٹی تو شاید سندھ تک ہی محدود رہے بہرحال تحریک انصاف سے امیدیں ضرور وابستہ ہیں مگر ابھی تک صورتحال اتنی واضح نہیں کہ وفاق میں پی ٹی آئی کا جھنڈا لہراتا نظر آئے۔ اس صورت میں اسٹیبلشمنٹ ن لیگ کو پوری طرح ناراض کرنے کا خطرہ مول لینے پر تیار نہیں ہے، اگر بہت تیر مارا تو زیادہ سے زیادہ معلق پارلیمنٹ قائم ہو سکتی ہے اس کے باوجود ن لیگ کا نظر انداز کرنا ممکن نہ ہو گا۔
پاکستان عوامی تحریک کی آل پارٹیز کانفرنس کوئی نتیجہ خیز تحریک چلا پائے یا نہیں، یہ ضرور ہے کہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی جیسی متحارب جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر کرنے کا معجزہ ضرور دکھا چکی ہے۔ عمران خان کی بہرحال طاہر القادری سے وابستگی ہے، زرداری صاحب اس وقت قومی سیاسی منظر نامے پر رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ علامہ طاہر القادری کی کرشماتی شخصیت سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی بساط پر نہ ان کے پاس ہارنے کے لیے کچھ ہے نہ جیتنے کے لیے، شیخ رشید کی سیاسی بصیرت، جوش اور ولولے کے بارے میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں مگر ان کے جلسوں میں واحد مقرر وہ خود ہی ہوتے ہیں۔ باقی تمام جماعتیں چند نشستوں یا پریشر گروپس سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں، اس صورتحال میں ن لیگ کو نظر انداز کر دینا شاید اندھے کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔ کرپشن اور پاناما اسکینڈل بدنامی لایا، نواز شریف کا خاندان سیاست سے باہر بھی ہو گیا مگر ن لیگ پورے طمطراق سے اپنی موجودگی کا ثبوت دے رہی ہے۔ لاہور کے ضمنی انتخابات میں یکایک بریلوی ووٹ توڑنے کے لیے خادم رضوی اور ملی مسلم لیگ، ختم نبوت پر اسلام آباد دھرنا، یہ سب اتفاقات اتنے تواتر کے ساتھ پیش آ رہے ہیں کہ محض اتفاق قرار دینے سے کوئی بھی اتفاق نہیں کر سکتا۔
سچ بتاؤں تو مجھے نہ تو سیاستدانوں سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ سے، کیونکہ دونوں کی عمارتیں بیس کروڑ عوام کی قربانیوں کی بنیاد پر قائم ہیں۔ بعض اوقات میں ایسا لگتا ہے کہ ن لیگ کا صدر دفتر سعودی عرب اور پیپلز پارٹی کا دبئی میں قائم ہے۔ پچھلے این آر او سے گنگا اشنان کرنے والے بھی ممکنہ این آر او کو گناہ کبیرہ قرار دے رہے ہیں۔ گزشتہ این آر او سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تھا تو کیا گناہگار صرف ایک کو قرار دیا جائے گا، اگر یہ انصاف کا قتل تھا تو دونوں برابر کے شریک ہیں اور اس کی قیمت صرف اور صرف عوام ادا کر رہے ہیں۔ معاف کیجیے گا عمران خان کی سیاسی بلوغت پر اسٹیبلشمنٹ تو کجا خود ان کے جید رہنما بھی مشکوک ہیں۔ مائنس ون فارمولا پورے جاہ و جلال سے نازل ہو رہا ہے لیکن ایک لمحے کو سوچیے اگر ن لیگ عام انتخابات میں اکثریت حاصل کر لے تو پھر کیا ہو گا، کیا اسٹیبلشمنٹ عوام کی طاقت کے آگے سر جھکا دیگی، کیا اپوزیشن جماعتیں شکست تسلیم کر لیں گی؟
خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی، ذکر ہو رہا تھا لاڈلوں کا، تو حضور یہ بتائیے کون لاڈلا نہیں رہا اس حمام میں تو سب ہی ننگے ہیں۔ عوامی جلسوں میں بلند و بانگ دعوے کرنا اور جمہوری اقدار کا نمائندہ بننا آسان مگر میدان عمل میں اتنا آسان نہیں ہے۔ انوکھا لاڈلا بننے کے لیے کیسی تپسیا کرنی پڑتی ہے، تن من دھن سب وارنا پڑتا ہے جب کہیں جا کر گیان ملتا ہے۔ ایک انوکھا لاڈلا تھا جس کے لیے کبھی آئی جے آئی بنائی گئی، دو تہائی اکثریت ملی تو جامے سے باہر ہوا، پھر سبق پڑھایا گیا۔
تخت بھی گیا، پھر آیا تو پھر وہی، خود ساختہ جلاوطنی بھی کاٹی، اب پھر تخت ملا تو پھر اوقات بھول بیٹھا، کہتا ہے نظریاتی سیاست کروں گا، بھول گیا کہ کالا کوٹ پہن کر میمو گیٹ کیس میں عدالتوں کے چکر لگاتا تھا، یہ بھی بھول گیا کہ سرے محل کا خط نہ لکھنے پر جب ایک منتخب وزیر اعظم کو ہٹایا گیا تو جشن منایا تھا تو آپ کے خیال میں ایسے شریر اور نافرمان بچوں کو راہ راست پر لانے کا فرض کوئی ادا نہ کرے۔ اب اگر کوئی انوکھا لاڈلا انگلی چھڑا کر بھاگتا پھرے، کھیلنے کو چاند مانگے تو اس میں نگوڑی اسٹیبلشمنٹ کا کیا قصور!