خود کشی نامہ پر تبصرہ
از، خالد فتح محمد
دو ہفتے ہوئے کہ مجھے رضوان الحق (ہندوستان) کا ناول “خود کشی نامہ” موصول ہوا۔ حسبِ عادت اِسی رات اس کی قرأت کا آغاز کر دیا۔ مجھے ہندوستان کے فکشن پڑھنے میں دل چسپی ہوتی ہے کیوں کہ وہاں کی علاقائی زبانوں میں تجربات کیے جاتے ہیں؛ جو مجھے اردو میں کم کم نظر آئے سوائے اشعر نجمی (جن پر لکھنا ابھی تک ادھار ہے) اور چند دوسرے فکشن نگاروں کے۔
“خود کشی نامہ” شروع کیا تو یہ کسی طرح ایک سر گذشت نامہ لگا اور مجھے مایوسی ہوئی۔ یہ خیال بھی گزرا کہ جو پہلے پڑھ رہا تھا دوبارہ شروع کر دوں، مگر ایسا کیا نہ ( یہ اتفاق اچھا ہی ہوا)۔
البتہ قرأت جاری رکھی تو مجھے یہ مقبولِ عام فکشن لگنے لگا۔ یہاں بھی مجھے اِسے پڑھنے کی مہم ترک کرنے کا خیال آیا اور ساتھ یہ بات بھی ذہن کے در پر کھٹکھٹانے لگی کہ مہم ترک کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہوتا۔
بعد میں ہوا بھی کچھ یوں کہ ناول نے مجھے اپنے اندر جذب کر لیا اور میں اسی انجذاب میں گُم آگے بڑھتا گیا۔
کچھ جگادری قسم کے پارَکھ فکشن میں اتفاقات کو ایک ضُعف سمجھتے ہیں۔ فکشن در اصل اتفاقات کے بغیر ایک خبر بن کر ہی رہ جائے گا: خاص کر جدید فکشن۔ چند دَھائیاں پہلے فکشن نگار کہانی کو تعطل میں ڈال کر چند ضروری کام (chores) نمٹانے میں مصروف ہو جاتے تھا اور قاری بے چارہ خود کو فلسفے، تاریخ، نفسیات اور سماجیات وغیرہ کی دلدل میں “گوڈے گوڈے” پھنسا ہوا پاتا۔
جدید فکشن کی بنیاد اتفاقات اور وقوعوں کے تسلسل میں ہے۔ فکشن نگار ان کو ایک ربط دیتے ہوئے آگے بڑھتا چلا جا نا چاہیے نہ کہ کسی ضروری کام میں (جیسے کہ پہلے کہا گیا ہے) مصروف ہو جائے۔
آج کے فکشن کی خوبی اس کے مسلسل متحرک (vibrant) ہونے میں ہے جس کی وجہ سے قاری دماغی طور پر فکشن نگار کے ساتھ محوِ سفر رہتا ہے؛ اسے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر واپس نہیں لانا پڑتا۔
“خود کشی نامہ” کی طرف واپس آتے ہیں: یہ ناول متعدد چھوٹے چھوٹے وقوعوں کا ایک مُرقّع ہے جنھیں ہنر وری کے ساتھ کہانی میں جوڑا گیا ہے۔ در اصل یہی وقوعے کہانی ہیں۔
زندگی اور موت اور وقت اور خلاء فکشن نگار کا ہمیشہ ہی سے مسئلہ رہے ہیں؛ یہ دونوں عوامل اس ناول کا موضوع ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ زندگی کا اختتام قدرت کے ہاتھوں میں ہے، لیکن وہ یہ اختیار انسان کو بھی سونپنا چاہتے ہیں کہ زندگی تو اس کی ہے نہ کہ قدرت کی جو الگ ڈھنگ سے اپنی زندگی کیے جا رہی ہے۔
فکشن کو سادہ اور تہہ دار ہونا چاہیے نہ کہ گنجلک اور ادق، قاری کو قرأت کے دوران میں محسوس ہو کہ وہ فکشن پڑھ رہا ہے نہ کہ دادی یا نانی کی کوئی پہیلی بوجھ رہا ہو۔ “خوش کُشی نامہ” ایک سادہ بیانیہ ہے جو اپنے اندر کئی مخفی پہلو لیے ہوئے ہے۔ ناول نگار نے خود کشیاں اور ان کے عوامل اور نتائج کو فکشنی ہنر وری کے ساتھ پیش کیا ہے، ورنہ یہ تحقیقی مقالہ بن سکتا تھا۔ خود کشی ایک سماجی عمل کے ساتھ ایک رویہ بھی ہے۔
رضوان الحق نے معاشرتی رویوں کو ماہرانہ انداز میں پیش کیا ہے اور انھیں چابک دستی سے فکشن میں ڈھالا ہے۔ کہانی کا چناؤ اور پیش کش مصنف کی صواب دید ہے، لیکن بعض اوقات انھیں زیرِ بحث لا نا ضروری بھی ہوتا ہے۔
کہانی کا آغاز ایک مظلوم کی خود کُشی سے ہوتا ہے اور بعد میں ناول کے protagonist کو ملوَّث کر لیا جاتا ہے۔ یہاں سے کہانی ماضی کی بھول بھلیّوں میں چلی جاتی ہے جو اتنی طویل ہے کہ کہانی جب حال میں آتی ہے، تو ایک جھٹکا محسوس ہوتا ہے۔
کہانی کے اختتام پر ایک خود کُشی نامہ ہے جو ایک خطبے کا روپ دھار لیتا ہے جب کہ اس خود کشی نامے کے مندرجات کہانی میں جا بہ جا زیرِ بحث آئے ہیں؛ اگر وہ دُہرائے نہ جاتے تو ناول کی اثر انگیزی یقیناً سَوا ہو جاتی۔
ناول میں عصری انسانی رویوں کو متعدد نفسیاتی عوامل کی روشنی میں کہانی میں ڈھالا گیا ہے جو مختلف وقوعوں کا حصہ ہیں۔ مجموعی طور پر “خود کشی نامہ” ایک پُر تاثیر اور انوکھا تجربہ ہے جو یقیناً قاری کے لیے دل چسپی کا موجب بن کے امکانات سے بھر پُور ہے۔