خورشید شاہ کو ہٹانے والی گیم
نصرت جاوید
تحریک انصاف اور ایم کیو ایم باہم مل کر خورشید شاہ کو قائدِ حزب اختلاف کے منصب سے ہٹانا چاہ رہے ہیں تو وجہ اس کی صرف احتساب بیورو کے نئے چیئرمین کی تقرری کے لیے عباسی حکومت کی راہ میں روڑے اٹکانا ہی نہیں۔ نئے انتخابات کی نگرانی کے لیے متوقع عبوری حکومت میں صاف ستھرے لوگوں کی نامزدگی بھی اس چال کا ایک اہم ہدف ہے۔بات مگر یہاں ختم نہیں ہوگی۔ دور رس ہدف اس نئے اتحاد کا سندھ کے عوام کو آصف علی زرداری سے ”بچا“ کر 2018 کے انتخاب کے بعد گڈگورننس سے متعارف کروانا ہے۔
کئی بار اس کالم میں دعویٰ کرچکا ہوں کہ اگر 2013ء کے انتخابات کے بعد عمران خان سندھ پر کل وقتی توجہ دیتے تو تحریک انصاف اس صوبے میں 1980ءسے مسلط ”دیہاتی /شہری“ تقسیم پر مبنی سیاست کا ایک صحت مند متبادل پیش کرسکتی تھی۔ انہیں مگر پنجاب کے ”چار حلقے“ چمٹ گئے۔ دھرنا ون اور دھرناٹو-وغیرہ وغیرہ۔
خان صاحب کی اسلام آباد میں مصروفیات کے باعث بالآخر پاک رینجرز کو قدم بڑھانا پڑا۔ دھرنے کے ہاتھوں زچ ہوئی نواز حکومت ”تحفظ پاکستان ایکٹ“ پاس کروانے پر مجبور ہوئی۔ سیاست کے نام پر دہشت گردی کرنے والے اس قانون کے تحت 90 دنوں کے لیے گرفتار ہوکر اعترافی بیانات دینا شروع ہوگئے۔ پیپلز پارٹی کے ”جمہوریت نواز“ جیالوں نے آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری کے لیے آئینی ترامیم پر دستخط کیے۔ ان کے آنسو ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری میں مددگار ثابت ہوئے۔
ہمیں بتایا گیا تھا کہ ڈاکٹر عاصم کے نجی ہسپتال میں ”دہشت گردوں“ کو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے چھپنے یا اپنا علاج کروانے کی سہولت میسر تھیں۔ ان الزامات کے تحت مگر کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ موصوف کو بالآخر احتساب بیورو کے سپرد کرنا پڑا۔ ان دنوں وہ اس بیورو کے بنائے مختلف مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔
کہانیاں ایان علی کے حوالے سے بھی بہت رنگین اور ٹی وی چینلوں کے لیے انتہائی رونق افروز بنائی اور پھیلائی گئیں۔ اس کے علاوہ کراچی میں کچرے کے ڈھیر اور اندرونِ سندھ وڈیروں کی پھیلائی اندھیر نگری وغیرہ۔
ان سب کہانیوں کے باوجود خدشہ مگر بہت شدید ہے کہ اس صوبے میں آئندہ انتخابات میں بھی ”ایک زرداری سب پر بھاری “ہوسکتا ہے۔ ایم کیو ایم کے بانی کی طرح وہ ”مائنس“ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ موصوف کو مائنس کرنے کے لیے تحریک انصاف کی مدد درکار ہے۔ خان صاحب ویسے بھی ان دنوں نواز شریف کو سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل کروانے کے بعد خود کو کچھ اُکتائے ہوئے محسوس کررہے تھے۔ ان کی سیماب صفت شخصیت کو گرانے کے لیے ہمیشہ کوئی وکٹ درکار ہوتی ہے۔ سندھ میں اپنے لیے space بنتے دیکھی توحیدرآباد پہنچ گئے اور نواز شریف کے بعد آصف زرداری کو بھی جیل بھجوانے کا عہد کیا۔
اس عہد کی تکمیل کے لیے فی الوقت ضروری ہے کہ آئندہ ماہ نیب کے چیئرمین کے لیے کسی ایسے نام پر اتفاق ہوجائے جو سیاسی مافیاز کے ”گاڈفادرز“ کی نیندیں حرام کردے۔ میری ناقص رائے میں اس ملک میں کرپشن کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لیے مناسب تھا کہ اس JIT کے سربراہ کو جس نے نواز شریف کا اقامہ دریافت کیا تھا،نیا چیئرمین احتساب بیورو بنادیا جاتا۔ ان کی اس منصب پر تقرری ان مقدمات کی کامیابی کی ضمانت بھی ہوتی جو JITکی سفارش پر نواز شریف،ان کے بچوں اور اسحاق ڈار کے خلاف بنائے گئے ہیں۔ حدیبیہ پیپرز مل والے قصے کا تعاقب کرتے ہوئے شہباز شریف سے نجات کا راستہ بھی اس تقرری کے ذریعے بآسانی نکل آتا۔
واجد ضیاءصاحب مگر اب بھی گریڈ 21 کے افسر ہیں اور نیب کے قوانین کے مطابق کسی حاضر سروس سرکاری افسر کو اس کا سربراہ نہیں لگایا جاسکتا۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی والے ان کی تقرری میں سہولت کے لیے آئینی ترمیم پر راضی نہیں ہوں گے۔
واجد ضیاء کے علاوہ اسلام آباد کے متقی، پرہیز گار اور اس ملک میں 62/63 کے مکمل اطلاق کو بے چین افراد کی بہت خواہش ہے کہ جرائم کی دُنیا کو علمی اعتبار سے بھی سمجھنے والے انتہائی تجربہ کار افسر ڈاکٹرشعیب سڈل کو نیا چیئرمین احتساب بیورو بنوادیا جائے۔ آصف علی زرداری کوبھی شاید ان کے نام پر خاص اعتراض نہ ہو۔ عباسی حکومت مگر اس نام پر کبھی راضی نہیں ہوگی۔
عمران صاحب کی محبت میں مبتلا ریٹائرڈ افسروں کا ایک گروہ اسلام آباد کے ایک پلازے میں قائم دفتر میں کافی پینے کے نام پر روزانہ ملتا ہے۔ مجھے کافی پسند نہیں ہے۔ ورنہ باقاعدگی سے اس دفتر کا پھیرالگانا شروع کردوں تو معلوم کیا جاسکتا ہے کہ نئے چیئرمین احتساب بیورو کے لیے کونسے نام ”فائنل“ ہوئے ہیں جنہیں خورشید شاہ کو قائد حزب اختلاف کے منصب سے ہٹانے کے بعد ہمارے سامنے لانا مقصود ہے۔
عمران خان صاحب نے خورشید شاہ کو ہٹانے والی گیم مگر وقت سے پہلے کھول دی ہے۔ زیادہ بہتر یہی ہوتا کہ فاروق ستار کی ایم کیو ایم کے ساتھ ”عمران، ستار بھائی بھائی، تیسری جماعت کہاں سے آئی“ والا ماحول بنانے کے بعد تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی جماعتِ اسلامی اور چودھری برادران سے رابطہ کرتی۔ انہیں اعتماد میں لیے بغیر شاہ محمود قریشی کی پروموشن نے کئی اناﺅں کو مجروح کیا ہے۔ تحریک انصاف کی صفوں میں بھی شاہ صاحب سے حسد میں مبتلا افراد کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ جہانگیر ترین کی دریادِلی اور اسد عمر کی ذہانت کے بھی بہت چرچے ہیں۔ تحریک انصاف میں باقاعدہ شامل ہوئے بغیر راولپنڈی کے بقراطِ عصر کو بھی کوئی اہم کردار دئیے بغیر ”تاریخ“ بنانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ خورشید شاہ سے فوری نجات لہذا ممکن دکھائی نہیں دے رہی۔
تحریک انصا ف کا ایم کیو ایم سے اتفاق و اتحاد مگر آئندہ کئی ماہ تک چلے گا۔ اس اتحاد کو پیر صاحب پگاڑا کی شفقت بھی درکار ہوگی تاکہ آصف زرداری کو کم از کم سندھ میں ایک بار پھر سب پہ بھاری ہونے سے روکا جاسکے۔ وقت آگیا ہے کہ صاف،ستھرے اور آئین کے آرٹیکل 62اور 63 پر ہر صورت پورا اترتے لیاقت جتوئی ایک بار پھر سندھ کی وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر بٹھادئیے جائیں۔
بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت