خوش ہونا منع ہے ، یہ پاکستانی معاشرہ ہے

خوش ہونا منع ہے ، یہ پاکستانی معاشرہ ہے

خوش ہونا منع ہے ، یہ پاکستانی معاشرہ ہے

از، ارشد محمود

اس ملک میں خوشی کا مطلب کھانا کھانا ہے۔ خوشی کا کوئی بھی موقع ہو، تان کھانے پر 13914153_10154428581403817_7605345142829584002_oٹوٹتی ہے۔ کسی بھی تقریب کا لبِ لباب بس کھانا ہوتا ہے۔ لہٰذا ہم مفت کا کھانا خوب ٹوٹ کر کھاتے ہیں۔ لگتا ہے صدیوں کے بھوکے ہیں۔ اصل میں بھوک روحانی اور ذہنی ہے، پوری خوراک سے کی جاتی ہے! مفت کا کھانا کھا کر خوش ہوا جاتا ہے۔ ہنسنے کھیلنے اور ناچنے گانے پر پابندی ہے۔ مردوزن کا سماجی اختلاط عمومی طور پر ناپید ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی سماجی رفاقت سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے، کیونکہ ان کے نزدیک عورت اور مرد کے ملنے کا ایک ہی مطلب ہے، اور وہ ہے سیکس۔ مردوزن صاحبِ شعور (intellectual) ہستیاں نہیں، محض حیوانی اور جنسی پُتلے ہیں۔

اگر دو گھڑی ساتھ بیٹھ لیے یا آپس میں ہنس دیے، تورشتوں ناتوں کی ساری تقدیس کو فوری پامال کردیں گے۔ چنانچہ مردوزن کو الگ الگ رکھنے کی وجہ سے دونوں اصناف کے فریقوں میں جنسی حساسیت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ سماجی سطح پر اگر لمحے بھر کے لیے ایک دوسرے کے قریب ہو جائیں تو خوامخواہ اپنے اپنے طور پر خود کو مجرم (guilty) محسوس کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ لہٰذا اس سوسائٹی میں دونوں فریق ذہنی طور پر مریض ہو چکے ہیں۔

وہ ایک دوسرے سے دور رہ کر اپنے کردار کی صفائی کا ثبوت دینے کی لاشعوری سعی کرتے ہیں۔ لیکن مردوزن کا سماجی طور پر ایک دوسرے سے دور ہو نا دراصل اس فطری خوشی کی موت ہے جسے ایک دوسرے کے پاس رہ کر دونوں حاصل کر سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ ظلم نوجوان نسل پر ہے جن کے وجود سے خوشیاں خود بخود پھوٹنے کا وقت ہو تا ہے۔ عمومی گھٹن کی فضا میں غیرمخلوط سوسائٹی کی وجہ سے ان کی فطری خوشیاں مرجھا کر رہ جاتی ہیں، شخصیتیں دب جاتی ہیں۔ انھیں زندگی کے حقیقی لطف سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

ان کے لیے زندگی کا مطلب ایک حیوانی سطح کی خشک روٹین ہو جاتا ہے، چنانچہ وہ بھی عدم سلامتی (sense of insecurity) کے مارے نفسیاتی مریض ہو کر بعد ازاں اس قوم کی بزرگ نسل بنتے ہیں۔ چونکہ وہ خود زندگی کے فطری لطائف سے محروم رہے ہوتے ہیں،چنانچہ انتقام کے طور پر اپنی نئی نسل کو بھی ان سے محروم رکھتے ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں آپس میں مل بیٹھ نہیں سکتے، ہنس کھیل نہیں سکتے، ایک دوسرے کے دوست نہیں بن سکتے،کسی فنکشن میں اپنے پسندیدہ آرٹسٹ کے ساتھ ناچ گانے میں شریک نہیں ہو سکتے۔ یہاں شرافت اسے کہتے ہیں کہ جذبات پر پابندیاں لگائیں، احساسات کو دبائیں، پھول کی طرح خود کو کھلنے نہ دیں، اس لاثانی اور ایک بار کے جیون کو روگ اور سوگ میں بدل دیں،زندگی کے سانس اُس ذات کی پوجا پاٹ میں وقف کردیں جو بقول ان کے پوجا پاٹ کا محتاج ہی نہیں۔ زندگی سے نفی کا نام پرہیزگاری ہے۔ یہ تنگ نظر خود کو خدا سے زیادہ دانشور سمجھتے ہیں جس نے جسم، روح اور ماحول کی سب خوبصورتیاں پیدا کیں تاکہ ہم ان سے لطف اندوز ہو سکیں۔ یہی حقیقی عبادت ہے کہ زندگی بھر پور طریقے سے گزاری 5466b6c0cd13dجائے، اس کے ایک ایک لمحے سے لطف وآگہی کا رس کشید کیا جائے، تاکہ موت آئے تو پورے اطمینان کے ساتھ اس جیتی جاگتی دنیا سے رخصت ہوا جائے، کہ قدرت نے جو بھی جیون کے نام پر بخشا تھا،اسے جی بھر کر گزارا ہے۔

سب سے زیادہ شامت لڑکی ذات کی آتی ہے۔ اس کے معاملے میں یہ معاشرہ نہایت مجرمانہ خیالات کا حامل ہے۔ پاکیزگی،صالحیت اور شرافت کے نام پر یہ لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتا ہے۔ اس فرسودہ تہذیب میں لڑکیوں کو جیسے کچلتے ہیں،وہ جدید ذہن کے لیے بڑا ہی اذیت ناک ہے۔ اس معاشرے کے نزدیک اخلاق بڑا ہے، انسان چھوٹا ہے۔ یہ خود ساختہ اخلاقیات کے نام پر انسان کو مسخ کر دیتے ہیں۔ عورت کی عزت بچانے کے لیے اسی کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔اس کا وجود اور بدن ہی اس کے لیے دعوتِ گناہ بن کر رہ جاتا ہے۔لڑکی کے پیدا ہوتے ہی خاندان میں عزت کی حفاظت کا احساس جاگ پڑتا ہے، گویا ایک خطر ناک چیز نے جنم لے لیا ہے۔ اس کی حرکات و سکنات انتہائی محدود کر دی جاتی ہیں، اسے برقعوں، پردوں، چادروں اور دوپٹوں میں ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ حرکتیں وہ افراد کر رہے ہوتے ہیں جو خود کو صالح اور پاکباز گردانتے ہیں۔اگر یہ لوگ صالح اور پاکباز ہیں تو پھر ان حرکتوں کا مطلب کیا ہے؟ عورت کو آپ سے اور آپ کو عورت سے خطرہ کیوں محسوس ہوتا ہے؟ دراصل صالحیت کے نام پر یہ لوگ نیتوں میں کھوٹ کی سوسائٹی تعمیر کرتے ہیں۔

اس ملک کی جغرافیائی رنگا رنگی اور قدیم تہذیبوں کی وارث تاریخی زمین میں دنیا بھر سے ٹوراِزم کو کھینچنے کی زبردست استعداد موجود ہے۔ دریا،ریگستان، برف پوش پہاڑی سلسلے اور سر سبز وادیاں موجود ہیں۔ غیر ملکی کرنسی کمانے کا اتنا بڑا وسیلہ محض ریاست کی رجعت پسند نہ آئیڈیا لوجی کی وجہ سے بے کار پڑا ہے۔ ہمسایہ ملک کے ساتھ تصادم کے شوق میں جس ملک نے اپنا امن ہمیشہ کے لیے گروی رکھ چھوڑا ہو، جہاں ’’بیرونی ہاتھ‘‘ والے دہشت گردی کے واقعات معمول ہوں،جس ملک میں جنگ کی باتیں اچانک شروع ہو جائیں،جہاں بنیاد پرستجہادی مسلح تنظیمیں کھلم کھلا جنگ جوئی کی تبلیغ کرتی ہوں،فرقہ وارانہ تشدد عام ہو؛ جو قوم اپنی تاریخی جڑوں سے اس لیے نفرت کرتی ہو کہ ان کے آباو اجداد کے اعتقادات ان کے آج کے مذہب سے مطابقت نہیں رکھتے تھے؛جو قوم اپنی زمین کو تاخت و تاراج کرنے والے بیرونی حملہ آوروں کی محض اس لیے حمایت کرے کہ وہ ان کے ہم مذہب تھے؛ وہ قوم جو ہو جنوبی ایشیائی لیکن عرب و فارس کی تاریخ کو اپنی تاریخ کہنے سے نہ شرمائے، ایسی قوم خواہ کتنی ہی خوبصورت دھرتی میں کیوں نہ بستی ہو، عالمی برادری میں باعزت مقام کسی طرح پاسکتی ہے؟

ترقی یافتہ قوموں کے افراد سیر و تفریح اور تہذیب سے آگاہی کے لیے کس طرح آ سکتے ہیں؟ اور اگر کوئی بھولا بھٹکا آہی جائے، انفراسٹرکچر کی پسماندگی کا ذکر چھوڑ بھی دیں،اس کو اس ملک میں تفریح نام کی چیز کون سی ملے گی؟ ہر طرف ممنوعات اور سخت اخلاقیاتی کو ڈ کی خشکی چھائی ہوئی ہے۔ ہمارے پاس غیر ملکیوں کی کشش کے لیے ہے کیا ؟بور،سنجیدہ، خشک ماحول،نہ پینے کی آزادی، نہ ساحلوں پر سن باتھ کی، نہ کھیلوں کی سہولتیں، نہ ہوٹلوں میں رقص وسرود۔ زہد وتقویٰ (asceticism) کا گاہک کم از کم اُس ہنستی بستی ترقی یافتہ دنیا میں تو کوئی نہیں؛ یہ حرکت آخرت کی شوقین قومیں ہی کر سکتی ہیں جنھیں اس دنیا کی بربادی کا کوئی احساس نہیں ہو تا۔

ہمارے ہاں تہذیبی، موسمی اور عالمی تہوار منانے پر کفر کے فتوے لگ جاتے ہیں کہ لوگ کسی بہانے خوش کیوں ہونے لگے۔ پوری دنیا میں قوموں کے رنگارنگ جشنِ مسرت (carnival) دیکھنے والی چیز ہوتے ہیں۔ اس ملک میں کسی عوامی میلے اور جلوس کا کوئی تصور نہیں جس میں عوام اپنی خوشی اور مستی کا بھر پور اظہار کرسکیں۔ لاہوریوں کی سخت جانی نے بسنت کا تہوار بچا رکھا ہے، جس میں کچھ ڈھول تماشے، ہاوہو، گانا بجانا اور خاندان کے مردوزن کی شرکت کا کسی حد تک رواج ہے۔ بنیادپرستوں نے اس پر پابندی لگوانے کے کئی بہانے تراشے ہیں، لیکن شاید میڈیا اور سرکار کو احساس ہے کہ عوام کے ذہنی دباؤ کے اخراج کے لیے کچھ تو رستہ کھلا رہے ورنہ لوگ گھٹ کر مر جائیں گے۔ سالِ نو (New Year) کی آمد پر اس ملک کی حالت قابلِ دید ہوتی ہے۔ قوم کو خوشی جیسی ’’فحاشی‘‘ سے بچانے کے لیے ہماری اسٹیبلش منٹ ایک بنیاد پر ست جماعت کے دباؤ میں پورے ملک کو سرشام قبرستان بنانے کے احکامات جاری کردیتی ہے۔

شاپنگ مال شام ہی شام بند کروا دیے جاتے ہیں کہ کہیں کوئی شخص نیوائیر منانے کے گناہ کا مرتکب ہی نہ ہو جائے۔ ہوٹلوں کو خصوصی طور پر وارننگ دی جاتی ہے کہ خبر دار جو اس عالمی تہوار پر کوئی تقریب منعقد کی یا اپنے گاہکوں کے لیے تفریح کا کوئی سامان بہم کیا۔ یہ اس رات کی بات ہے جب ساری دنیا عقیدے اور رنگ ونسل کے امتیاز کے بغیر نئے سال کے آنے کا والہانہ استقبال کررہی ہوتی ہے۔ لیکن ہم اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جس کا وقت (time)کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ہم وقت کی رفتار اور تاریخ سے ماورا ہیں۔ ہمارا زندہ ہونے کا اپنا ہی مشن ہے جس کا اس مادی دنیا کے قوانین سے کوئی واسطہ نہیں! شاید اسی لیے تاریخ اور وقت بھی ہمیں بھلا چکے ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں کی غلامی اور ذلت آمیز پسماندگی ہمارا مقدر ہے۔ ہم عجیب روحانی فلاسفی پر ایمان رکھتے ہیں جو یہ سکھاتی ہے کہ ہم زندگی کے لیے نہیں، خدا کی خاطر زندہ ہیں!

خوشی اور تفریح سے محرومی کا سب سے بڑا عذاب نوجوان نسل پر وارد ہوتا ہے، اس لیے کہ جوانی کے دور کا مطلب ہی جشنِ حیات (celebration of life)ہے۔ فطرت نے جوانی کو پروگرام ہی ایسا کیا ہے۔ یہ وہ رومانی دور ہے، جسے وقت بھی جھک کر سلام پیش کرتا ہے۔ جوانی مستی میں ڈوبنے، کِھل اٹھنے اور زندگی کے روشن پہلو دیکھنے کا نام ہے، لیکن اس ملک میں بیشتر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تو ایسے ہوتے ہیں کہ جوانی جن پر ایک خواب کی طرح آتی ہے۔ وہ بچپن سے سیدھا بڑھاپے میں قدم رکھتے ہیں۔ جوانی کو معاشی بدحالی اور سماجی گھٹن دیمک کی طرح چٹ کر جاتی ہے۔ حسن وعشق کی سرمستیاں اس کے لیے محض ایک ہیولا ہوتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ معاشرہ جوانی کو کچل دینے والا معاشرہ ہے تو بے جانہ ہو گا۔ ہمارے پاس نوجوانوں کی تفریح اور خوشی کے لیے کچھ نہیں ہے۔ گھریلو ماحول عموماً گھٹن زدہ ہوتا ہے۔ اسکول جاتے ہیں تو وہاں ان اساتذہ کی کمی نہیں ہوتی جو ہر وقت ان کی جواں سالی کو مریضانہ اخلاقیات کے لیکچر دے کر ثوابِ دارین حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ سوسائٹی اور ریاست نے خوشی اور تفریح کے اظہار کے کوئی بندوبست (outlet) نہیں کر رکھے۔ پارکوں میں جوڑوں (couples) سے پولیس نکاح نامہ مانگتی ہے۔ کئی خدائی رضاکار ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی بھی جوڑے کو قریب دیکھ کر بوس وکنار کے الزام میں حوالۂ پولیس کرسکتے ہیں۔ لوگوں کی خلوت (privacy) میں صریحاً مداخلت اس ملک میں قانونی طور پر جائز ہے۔ کیا ہم

مہذب دنیا کا حصہ قرار دیے جاسکتے ہیں؟ اس سماج میں جنسی خوشی کا تعارف فقط شادی کے ساتھ مشروط ہے۔ جنسی اور افزائشِ نسل کے موضوعات پر بات کرنا ممنوع (taboo) ہے۔ چنانچہ جنس اس معاشرے کا سب سے بڑا خفیہ (secret) معاملہ ہے۔ ظاہراً ایسے لگتا ہے کہ جنس کا اس معاشرے میں کوئی وجود نہیں۔ یہاں جنسی اختاط کے فطری طریقے سے کوئی پیدا نہیں ہوتا! یہ سب لوگ سیدھے آسمان سے اُترتے ہیں۔ماں باپ بھی فطری جوڑا کم، بہن بھائی زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ جب بچوں کو بڑے ہو کر جنسی شعور ملتا ہے تو ماں باپ کی فنکاری پر حیرانی ہوتی ہے کہ انھوں نے ہمیں کس وقت پیدا کیا تھا۔ جس قدر اخلاق زدہ سماج جنس کا دشمن ہے، فطرت کو اتنی ہی زیادہ جنس سے دلچسپی ہے۔ بچے کو چھوٹی سی عمر میں جنسی تحریک ہونے اور جنسی طریقے سے افزائشِ نسل کرانے میں قدرت کو شرم نہیں اور ہم قدرت سے بھی زیادہ پاک باز ٹھہرے ہیں۔ اگر خدا ہمارے سامنے اس طریقے کو اختیار کرنے کا سوچتا تو ہم اسے ایسا’’گندہ اور بے شرم‘‘طریقہ اپنا نے سے ضرور روکتے! لیکن اب ہو تو کچھ نہیں سکتا، لیکن جنس کو جتنا زیرِزمین (underground) کیا جاسکتا ہے اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ چنانچہ ہمارے بچے کسی بھی طرح کی جنسی تعلیم اور معلومات کے بغیر جوان ہوتے ہیں۔ انھیں فطرت کے یہ مسائل خود ہی خفیہ طریقے سے نمٹانے ہوتے ہیں اور پھر اس سلسلے میں ان کی جس طرح بربادی ہوتی ہے اس کی ایک الگ کہانی ہے۔ جنسی مریضوں کی نوجوان نسل بلوغت میں قدم رکھتی ہے۔ ہمارے ایک بزرگ دانشور ادیب ساتھی کا کہنا ہے کہ اس المیے پر کون کتاب لکھے گا جس سے ہمارا نوجوان لڑکا لڑکی تیرہ سال سے شادی کی عمرتک (جو آج کل تیس سال کے قریب ہو گئی ہے) گزرتا ہے؟

وہ اس دوران اس فطری خواہش کی تسکین کے لیے کیا کیا کچھ کرتا ہے اور فطری خواہشوں کے یہ حسین ترین اور پھٹ پڑنے والے سال جس اکلاپے کی بھینٹ چڑھتے ہیں، اس کا حساب کتاب کس طرح ہو گا؟ کیا یہ المیہ کس سماجی سائنس اور تحقیق کا موضوع نہیں بن سکتا؟ اس معاشرے کی شرافت اور نیکی کا بھیانک پردہ کون چاک کر ے گا؟ ہماری نسلیں ہم جنسیت، خودلذتیت، خفیہ ناجائز مباشرتوں اور اندر سے ٹوٹتی،تڑپتی، الجھنوں سے گزرتی کہیں جاکر شادی کے کنارے لگتی ہے۔ شادی بنیادی طور پر اس معاشرے میں جنسی اختلاط کے لائسنس کے سوا کچھ نہیں ہو تی۔ خاندان کی تشکیل اور بچوں کا خیال بعد میں آتا ہے۔ شادی عموماً اس معاشرے میں بالکل انجانے دو افراد کے درمیان ہوتی ہے جو جدید دور کے لیے ایک مضحکہ خیز اور ناقابلِ یقین حرکت ہے۔ کسی رومانی مدت سے گزرے بغیر نوبیاہتا جوڑے کے سر پر پچھلے سترہ اٹھارہ سال کے جنسی خمار، خبط اور دباؤ سے آزاد (release) ہونا ہی سب سے اہم مرحلہ ہوتا ہے، جو سو طرح کی نفسیاتی اُلجھنوں، گناہ اور پلید کے غیرسائنسی تصورات اور خام معلومات کے جلو میں انجام پاتا ہے۔ اگر تحقیق کی جائے تو پتا چلے گا اس قوم کی شادی شدہ آبادی بھی عالمی معیار کے مطابق کئی گنا جنسی لذت سے محروم ہو گی۔ گویا حقیقی جنسی لذت اس قوم کے مقدر میں ہی نہیں، خواہ وہ شادی کر کے جنسی اختلاط کا مذہبی اور قانونی لائسنس ہی کیوں نہ لے لے، کیونکہ مذہبی اور سماجی اخلاقیات کے تصورات بیڈروم تک ساتھ جاتے ہیں جو حقیقی جنسی لذت اور خوشی سے محروم کردیتے ہیں اور جنسی اختلاط محض ایک میکانکی عمل ہو کر رہ جاتا ہے۔ ہم کتنے مسخ شدہ انسان ہیں اس کی تحقیق کے لیے ہمیں کئی سو سگمنڈ فرائڈ چاہیے ہوں گے!

About ارشد محمود 14 Articles
asif