زندگی میں کبھی ریٹائر نہ ہوئیے گا
مبشر اکرم
ہندو عقیدے کے مطابق، میں اب اس عمر میں ہوں جسے “سنیاس” کہا جاتا ہے۔ میں اٹھانوے برس کا ہوں، اور اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتا ہوں کہ میں ابھی بھی پہلے توڑ (پنجابی میں پُور کہتے ہیں) کا عمدہ مشروب روزانہ شام کو پیتا ہوں، عمدہ ذائقہ دار کھانا کھاتا ہوں اور اپنے ارد گرد ہونے والی مختلف باتوں اور سیکنڈلز سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ میں لوگوں کو کہتا ہوں کہ “آؤ اور میرے پاس بیٹھو، صرف اس صورت میں کہ اگر تمھارے پاس کسی کے بارے میں اچھی بات کرنے کو بالکل نہیں ہو تو!”
میں جب خاموشی چاہتا ہوں تو اپنے سننے کے آلات کان سے اتار دیتا ہوں۔ اس گھمبیر خاموشی میں، میں جب اپنی زندگی پر اک نظر دوڑاتا ہوں تو بہت سا ادراک پاتا ہوں۔ کئی پچھتاوے ہوتے ہیں کہ بہت سارا وقت میں نے فضول اور بےمعانی (مذہبی) رسومات میں ضائع کر دیا۔ میں نے زندگی میں خواہ مخواہ ہی لوگوں سے دوستی کی، اور وکالت و سفارتکاری میں اپنا وقت ضائع کیا۔
میری زندگی میں بہت سے “اپ” اور بہت سے “ڈاؤن” آئے، مگر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی کو بھرپور طریقے سے ہی گزارا ہے۔
(مگر) میری زندگی کے بڑے پچھتاوں میں اپنے بچپن اور نوجوانی کی شاموں میں شکار کرنا شامل ہے۔ میں نے چھرے والی بندوق سے کئی معصوم چڑیوں کو مارا کہ جنہوں نے مجھے کوئی نقصان نہیں دیا تھا۔ میں نے اک فاختہ کو بھی مارا جب وہ اپنے انڈوں پر بیٹھی ہوئی تھی۔ میں جب اپنے ماموں کے پاس میاں چنوں میں رہا تو غلیل سے ہر شام وہاں جنگلی کبوتر مارا کرتا تھا۔ اک مرتبہ میں بھرت پور گیا تو وہاں اک درجن بطخوں کا شکار کر ڈالا۔ میں ان سب کاموں کو اپنے گناہ سمجھتا ہوں اور ابھی بھی کئی شامیں اسی افسوس میں گزر جاتی ہیں۔
زندگی کا اک پچھتاوا یہ بھی ہے کہ میں ان خواتین سے اپنے افئیرز نہ چلا سکا کہ جن کو میں پسند کرتا تھا۔ مجھ میں ہمت ہی نہ ہو سکی۔ جس کو پسند کرتا تھا، وہ درجن بھر تھیں، اور (جن کو پسند نہ کرتا تھا، مگر افئیرز چلے) وہ کوئی چھ کے قریب رہیں۔
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب، اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے!
میں اپنے ہندو بزرگوں کے طریقے سے شام کا کھانا کھاتا ہوں۔ وہ شام کا کھانا اکیلے بیٹھ کر خاموشی سے کھایا کرتے تھے۔ (مگر) شام کا کھانا کھانے سے قبل میں مرزا غالب کی اک سنت پوری کرتا ہوں: عمدہ شراب۔ مرزا غالب، ہر شام، شراب پینے سے قبل نہایا کرتے تھے، اور پیمائش کرکے اس شام کی وہسکی اک پیالے میں ڈالا کرتے تھے۔ پھر وہ اسے خوشبودار پانی میں ملاتے اور پھر ہلکے ہلکے سے پیتے ہوئے وہ لازوال شاعری لکھتے جس کے لیے وہ جانے جاتے ہیں۔ میں بھی انکی طرح اکیلے ہی پیتا ہوں۔ اکیلے پیتے ہوئے محسوس کرتا ہوں کہ جیسے یہ میری آنتوں کو بھی حدت دے رہی ہے۔
زندگی میں کبھی ریٹائر نہ ہوئیے گا۔ کچھ نہ کرنے والے، کچھ بھی نہیں رہتے، اور اپنے انجام کی جانب جلد روانہ ہو پڑتے ہیں۔
میری اک بہت بڑی فکر، اپنے وطن میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت ہے۔ ہم اک بزدل قوم بنتے جا رہے ہیں جو وہ کتابیں جلاتی ہے جو ہمارے خیال میں ہمیں پسند نہیں ہوتیں، ہم فنکاروں کو ملک سے باہر نکال دیتے ہیں، اور مصوروں کو بےعزت کرتے ہیں۔ ہم نے تاریخ کی کتابوں کو مسخ کر دیا ہے، ہم فلموں کو ممنوع کرتے اور صحافیوں کو پیٹتے ہیں۔ آپ اگر اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں تو آپ کو کمیونل (ذات، قوم، فرقہ وغیرہ) بنیادوں پر بنی جماعتوں سے اپنے وطن کو بچانا ہوگا۔ ریاست کو کسی بھی قسم کے کسی مذہبی گروہ کی سرپرستی نہیں کرنی چاہئیے۔ حکومت کو یہ چاہیے کہ وہ مزید عبادت گاہوں کی تعمیر روکے۔ ہمارے ہاں پہلے ہی ضرورت سے زیادہ عبادت گاہیں موجود ہیں۔
چاپلوسی سے بڑی کرپشن نہیں ہو سکتی۔
اوپر والے تمام خیالات میرے دماغی مرشد، جناب خشونت سنگھ کے ہیں۔ انہوں نے یہ خیالات اپنی زندگی کی آخری کتاب “خشونت نامہ – دا لیسنز آف مائی لائف” میں تحریر کیے ہیں۔ وہ ہڈالی، ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے۔ ان کے ساتھ، جنوری 2001 میں کی گئی اک ملاقات میری زندگی کا سرمایہ ہے۔ ان کے خیالات کا آخری پیرا گراف اور چاپلوسی پر مبنی آخری فقرہ، میں اپنے ہموطنوں کے نام بھی کرتا ہوں۔
پس تحریر: اور ہاں، کتاب اگر پڑھنی ہے تو اس کی پی ڈی ایف، پی ڈی ایف کی گردان نہ کیا کریں۔ کتاب کو خرید کر پڑھا کریں۔ جتنے روپے آپ فارمی مرغی کی کڑاہی اور اپنی جوتیوں پر خرچ کردیتے ہیں، بے چاری کتابیں، اس سے کم
قیمت میں ہی مل جاتی ہیں۔
بشکریہ: ہم سب ڈاٹ کام ، اصلا اشاعت بعنوان خشونت سنگھ جی نے فرمایا