کیا انصاف ہوتا دکھائی دیا ؟
بابر ستار
امریکی سپریم کورٹ کے جسٹس رابرٹ جیکسن کا ایک مشہور بیان ہے: ’’ہم اس لیے حتمی اتھارٹی نہیں کہ ہم بے خطا ہیں، بلکہ ہم بے خطا اس لیے ہیں کیونکہ ہم حتمی اتھارٹی ہیں۔‘‘ پاناما کیس میں ہماری سپریم کورٹ کا فیصلہ جسٹس جیکسن کے الفاظ کی دانائی پر مہر ِتصدیق ثبت کرتا ہے ۔ جس فیصلے نے کسی ٹرائل کے بغیر ایک منتخب شدہ وزیر ِاعظم کو منصب سے ہٹاتے ہوئے اُن کا پارلیمانی کیریئر ختم کردیا، اسے قانونی استدلال سے گریز کی وجہ سے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ نیزاس فیصلے کے لیے اختیار کردہ طریق ِ کار کی درستی، اور اداروں کے درمیان طاقت کے توازن کو برہم کرنے پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہماری سپریم کورٹ جمہوریت، آئین کی بالا دستی ، یا اداروںکے درمیان چیک اینڈبیلنس پیدا کرنے اور جوڈیشل حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کرنے کی شاندارتاریخ نہیں رکھتی ۔ قانون کی تشریح کرتے ہوئے جوڈیشل مثالوںکو نظر انداز کرنے سے ایک طرف جہاں قانونی ابہام نے جنم لیا ، وہاں اس طرز عمل نے سپریم کورٹ کی اتھارٹی کو وسیع کرکے ایگزیکٹو، قانون ساز اداروں کو نقصان پہنچایا ہے۔ خدشہ ہے کہ یک طرف نتائج سے اٹھنے والے تعفن کو عوامی مقبولیت کی خوشبو دور نہیں کرپائے گی۔
پاناما کیس کے دو بنیادی پہلو ہیں۔ ایک تو نواز شریف پر الزام اور اس کا تعین کرنے کے لیے اختیار کردہ طریق ِ کار ہے ، اوردوسرا آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کاصوابدیدی اختیار، جو ایک منتخب شدہ وزیر ِاعظم کی اہلیت کا فیصلہ کرتے ہوئے منصفانہ ٹرائل اور قانون کے مطابق طے شدہ طریق پر اثر انداز ہوا، نیز اس نے آئینی نظام کی تجویز کردہ اختیارات کی تکون (ایگزیکٹو، پارلیمنٹ اور عدلیہ ) کو بھی متاثر کیا۔
اگست 2016ء میں رجسٹرار سپریم کورٹ نے نواز شریف کی نااہلی کے لیے دی جانے والی تمام درخواستوں کو بے بنیاد قراردے کر مسترد کردیا تھا۔ اس کے صرف ایک ماہ بعد چیف جسٹس جمالی نے فیصلہ کیا کہ دفتر کی طرف سے درخواستوں کے قابل سماعت نہ ہونے کا اعتراض غلط تھا۔ سپریم کورٹ کے طریق کار کا فہم رکھنے والے افراد جانتے ہیں رجسٹرارکا چیف جسٹس کی منشا کے بغیر سیاسی طور پر ایسی حساس درخواستوں کو مسترد کرنا اتنا ہی درست خیال ہے جتنا شریفوں کا اپنے دفاع کے لیے سپریم کورٹ میں پیش کیا جانے والا قطری خط۔۔
ہم یہ بات مسلسل سن رہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے درخواستوں کے قابلِ سماعت ہونے پرر ولنگ اس لیے نہیں دی کیونکہ نواز شریف نے رضاکارانہ طور پر سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونے کے لیے آمادگی ظاہر کردی تھی۔ طے شدہ قانون کہتا ہے کہ کسی عدالت کو حاصل قانونی اتھارٹی فریقین کی مرضی پر موقوف نہیں ہوتی۔ یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ ایک اہم معاملے جس میں اعلیٰ ترین عدالت ایگزیکٹو کے سربراہ اور قومی اسمبلی کے لیڈر کو ٹرائل کورٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے منصب سے فارغ کردیتی ہے، اس کی کوئی معقول وضاحت بھی پیش نہیں کی جاتی کہ سپریم کورٹ نے طے شدہ راستے سے ہٹتے ہوئے 184(3) کے تحت اختیارات کا استعمال کیوں ضروری سمجھا؟
اس پر بھی بہت کچھ کہا جاچکا ہے کہ پاناما کیس میں ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری دراصل کس کی تھی ؟غنی الرحمان کیس (PLD 2011 SC 1144) میں فیصلہ لکھتے ہوئے جسٹس کھوسہ دو اصول وضع کرتے ہیں۔ پہلا، یہ ثابت کرنا کہ یہ جرم نیب آرڈیننس کے سیکشن 9(a)(v) کے تحت آتا ہے ۔ استغاثہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ملزم کے اعلانیہ ذرائع آمدن سے ثابت کرے کہ اُس کے حاصل کردہ اثاثے ان وسائل سے مناسبت نہیں رکھتے ۔ اور دوسرا یہ کہ استغاثہ یہ ثابت کرے کہ ملزم نے اپنی اتھارٹی کاناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اثاثے جمع کیے۔
پاناما کیس میںنہ تو درخواست دائر کرنے والوں نے اور نہ ہی جے آئی ٹی نے ایسا میٹریل پیش کیا جو ثابت کرتا ہو کہ لندن فلیٹس نواز شریف کی ملکیت ہیں ، نہ کہ اُن کے بچوں کی ۔ مزید برآں، ایسا کوئی مواد نہ پیش کیا گیا جو ثابت کرتا ہو کہ نواز شریف نے بطور ایک عوامی عہدیدار اپنے اعلانیہ وسائل سے بڑھ کر دولت جمع کی ۔کیس کے دوران جج صاحبان کی رائے سے یہ تاثر ضرور تقویت پاتا گیا کہ نواز شریف نے اعلانیہ وسائل سے بڑھ کر اثاثے بنائے ہیں لیکن اُنہیں نااہل کرنے یا اُن کے خلاف نیب ریفرنس دائر کرنے سے پہلے اُن کے لیے غنی الرحمان کیس میں اختیار کردہ راستہ نہ اپنایا گیا ۔
اسحاق خان خاکوانی کیس (PLD 2015 SC 275)میں وزیر ِاعظم کو نااہل قرار دینے کی اپیل مسترد کرتے ہوئے جسٹس کھوسہ نے ایک اضافی نوٹ لکھا (یہ تصور سب سے پہلے اُنھوںنے تین دہائیاں قبل ایک قانون کے رسالے میں پیش کیا تھا)کہ آرٹیکل 62 کی بہت سی شقیں معیاری قانونی طریق کار سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ آرٹیکل 62(1)(f) کا حوالہ دیتے ہوئے اُنھوںنے رائے دی ۔’’محاورہ ہے کہ شیطان خود انسان کی نیت سے واقف نہیں ہوتا۔ تو پھر قانون ، بلکہ آئین کے لیے ایسی ضرورت کیوں رکھی گئی ہے جس کی نہ تو وضاحت کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اسکا کوئی ثبوت دیا جاسکتا ہے؟
رانا آفتاب احمد خان کیس (PLD 2010 SC 1066) میں سپریم کورٹ نے لکھا۔۔۔’’کسی شخص کے آئین کے آرٹیکل 62(1)(f) پر پورا نہ اترنے کا تعین شاید ریٹرننگ آفیسر یا وہاںکی جانے والی اپیل کے ذریعے ہوسکے لیکن اسے آئینی طریقے سے دوٹوک انداز میں نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس میں متنازع حقائق ملوث ہوتے ہیں۔‘‘تو پھر کسی ٹرائل یا ٹھوس شہادت کے بغیرکسی شخص کے بارے میں کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ صادق نہیں ؟محمد صدیق بلوچ کیس (PLD 2016 SC 97) میں سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 کے حوالے سے دو فیصلوں (PLD 1957 SC 91) اور (PLD 1973 SC 160) پر انحصار کیا۔ عدالت نے لکھا۔۔۔’’نااہلی کے لیے ٹھوس شہادت درکار ہے۔ محض قیاس یا تصور کی بنیاد پر کسی کو نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور چونکہ نااہلی قانون کی طرف سے ملنے والی سزا ہے، چنانچہ ان شقوں کی کڑی تشریح کی گئی اور شک کا فائدہ امیدوار کو دیا گیا ۔‘‘تو62(1)(f) کو استعمال کرتے ہوئے پاناما کیس کا فیصلہ ماضی کی مثالوں سے کس طرح مطابقت رکھتا ہے؟
نواز شریف فیصلے کے پی ایم ایل (ن) یا 2018ء کے انتخابات پر پڑنے والے اثرات ایک طرف ، اس کی وجہ سے اٹھنے والے قانونی سوالات ہمارے نظام کے لیے گہرے مضمرات کے حامل ہیں۔ کیا عوامی عہدے رکھنے والوں کی نااہلی کا طے پانے والا نیا معیار سیاسی نظام کے استحکام کی ضرورت سے مطابقت رکھتا ہے؟
کیا ہمارا عدالتی نظام آرٹیکل 10-A کو کوئی اہمیت دیتا ہے؟ یہ آرٹیکل منصفانہ ٹرائل کے حق کی بات کرتا ہے۔ کیا جج صاحبان کو چکاچوند میڈیا کوریج اور مقبولیت کی لذت متاثر نہیں کرتی، یا کیا وہ رائے عامہ سے متاثر نہیں ہوتے؟ کیا سپریم کورٹ نے ایگزیکٹو اور قانون ساز ادارے کی اتھارٹی اپنے ہاتھ لے لی ہے؟
پاناما فیصلہ نااہلی کی جانچ کے دو معیار طے کرتا ہے۔ ایک معیار داخلی تاثر سے تقویت پاتا ہے ، جس کا مظاہرہ جسٹس کھوسہ نے کیا۔ اس کے مطابق سپریم کورٹ یہ اتھارٹی رکھتی ہے کہ وہ منتخب شدہ عوامی نمائندوں کے بیانات کاآرٹیکل 184(3) کے تحت نوٹس لے اور اگر فاضل جج صاحبان کو یہ تاثر ملے کہ جانچ کی زد میں آنے والا نمائندہ مکمل سچ نہیں بول رہا ، تو اسے کسی ٹرائل کے بغیر آرٹیکل 62 کے تحت نااہل قرار دے دیا جائے ۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے نہایت روشن لکیرکھینچ دی ہے ۔ الیکشن فارم میں کسی بھی غلطی، چاہے وہ دیدہ کی گئی یا دانستہ، کے نتیجے میں آرٹیکل 62 کا اطلاق ہوجائے گا۔
نہ صرف پاناما فیصلے میں استدلال کمزور ہے بلکہ فیصلے تک پہنچنے کے لیے اختیار کردہ طریق کار میں بھی جھول ہیں۔ پہلا تو یہ کہ جے آئی ٹی کی تشکیل ہی متنازع ہوچکی تھی۔ اس کی کوئی منطقی وضاحت نہیں کہ ایم آئی اور آئی ایس آئی کے نمائندے اس میں کیوں شامل کیے گئے ؟سب سے پریشان کن بات واٹس اپ قصہ تھا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کس کی ہدایت پر جے آئی ٹی کے ممبران کا چناؤ کر رہے تھے؟ کس کے کہنے پر فون کال کر کے اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور سیکورٹی اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان کو مخصوص افراد نامزد کرنے کا کہا گیا حالانکہ اُس وقت تک عمل درآمد بنچ بھی قائم نہیں ہوا تھا ؟(آج کل واٹس اپ کال کا بھانڈا پھوڑنے والا چیئرمین ایس ای سی پی جیل میں ہے)
طے پانے والا دوسرا معیار یہ ہے کہ دو جج صاحبا ن نے ابتدائی اسٹیج پر نااہلی کے احکامات صادر کردئیے جبکہ باقی تین نے تحقیقات کرانے کا حکم دیا۔ اگر چیف جسٹس صاحب ایسا عمل درآمد بنچ تشکیل دیتے جس کا پاناما بنچ سے کوئی تعلق نہ ہوتا تو کیا تین رکنی بنچ یا پانچ رکنی بنچ کا تنازع جنم لیا ؟ کیا جن جج صاحبان نے بیس اپریل کو طویل حکم نامے لکھے ، وہ یہ کہنا بھول گئے تھے ؟پانچوں ججوں نے جے آئی ٹی رپورٹ پر غور کیوں نہ کیا ، حالانکہ اسی رپورٹ میں FZE کیپٹل کے اقامے کا ذکر تھا جو وزیر اعظم کی نااہلی کے ’’متفقہ فیصلے ‘‘ کا باعث بنا؟ کیا کوئی ایسی جوڈیشل نظیر موجودہے کہ کسی کیس کی سماعت نصف بنچ کرے؟
پاناما فیصلہ اور اس کے نتائج اب ایک حقیقت ہیں۔ جب اس کے نتائج کی جذباتی حدت کم ہوجائے تو پھر اس کی غیر جذباتی انداز میں قانونی جانچ بھی کرلی جائے۔ نوازشریف کو سیاست سے نکال باہر کرنے سے اس ملک پر کوئی آفت نازل نہیں ہوگی لیکن قانون کے محافظوں کی غیر جانبداری پر متزلزل ہونے والے اعتمادسے ضرور آئے گی۔