پا بندیوں کی زد میں گھِرے ہوئے بچے
از، حلیمہ بی بی
ہم بچوں کو خریدنا چاہتے ہیں۔ اُن کو اپنی طرز پر چلانا چاہتے ہیں، لیکن اُس کے لیے ہم جو طریقہ اختیار کر کے اِس گُماں کے ساتھ جیتے ہیں کہ وہ واقعی ہمارے مطابق جا رہے ہیں، وہ طرز بھی غلط ہے اور وہ گُماں بھی غلط فہمی سے زیادہ کچھ نہیں۔
پا بندیوں کی زد میں گھِرے ہوئے بچے ایسا آپ کو دکھانے تو کر رہے ہوں، مگر حقیقتاً ایسا کر نہیں رہے ہوتے۔
اپنے آپ کو غلط فہمیوں اور بے خبری کی دُھند میں گھیر کے، صرف حکم جاری کر کے اپنی جھوٹی تسکین کر لینے سے بہتر ہے با خبری کی دنیا میں حقیقت کے ساتھ بچوں کو بھی موقع دیتے ہوئے زندگی گزاری جائے۔
خود کو ان پر جابر حکم ران کی طرح مسلط نہ کیا جائے، بَل کہ ہدایات کی فراہمی اور دوستانہ تعلقات والا سرپرست بن کے رہا جائے تا کہ اُن کے اعمال پہ خاصی نظر رکھی جا سکے اور اُس کے مطابق اُنھیں سمجھایا جا سکے۔
بچوں کو خریدنا ہے تو اعتبار کی طاقت سے خریدا جا سکتا ہے۔ اس طاقت میں ایسی طاقت ہےجو بچے اور آپ کے دل کے رستوں کو ملا سکتی ہے۔
کچھ چشم دید واقعات بھی پیشِ خدمت ہوں۔ راقم کے کچھ ایسے ہم جماعت بھی رہے ہیں جن کو گھر سے کسی ایسے کام جن کو وہ کرنا چاہیں اُس کی اجازت نہ بھی ہوتی لیکن وہ اُن کاموں کو کہیں نہ کہیں کبھی نا کبھی موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کر ہی لیتے؛ اور ایسے طلباء جن کے والدین نے انھیں اجازت دے رکھی ہوتی وہ وہی کام کرتے اور ماں باپ کو اس کی اطلاع دیتے ہوئے قطعاً نہ کتراتے۔
مثال کے طور پر ایک روز کچھ ہم جماعت ساتھیوں نے کہیں باہر جانے کا ارادہ کر لیا۔ اب ان میں وہ طلباء بھی شامل تھے جن کو وہاں جانے کی گھر سے اجازت تھی، اور ان کے ساتھ ہی ایسے طلباء بھی شامل تھے جنہیں والدین کی جانب سے اجازت نہیں تھی۔
جس فریق کو اجازت نہیں تھی، اُنھوں نے بھی کسی نا کسی طرح کوئی نہ کوئی سکیم چلا کر اپنا کام پورا کر ہی لیا اور گئے، کیوں کہ اُنھوں نے ایسا کرنا تھا سو انھوں نے کِیا۔ مگر فرق یہ تھا کہ جن کو والدین کی طرف سے اجازت تھی وہ والدین کو بتا کر، اُن سے پوچھ کر، مشورہ لے کر گئے؛ اور واپسی پر بھی ہر چیز کے بارے بتایا اور سب شیئر کیا ؛ یعنی بچے نے جو بھی کیا کم از کم والدین کے علم میں تھا اور ان کی نظر میں تھا۔
اس کے بَر عکس جنھوں نے بچوں کو اعتبار سے نہ نوازا وہ لاعلم رہے کہ ان کے بچے کیا کرتے پھر رہے ہیں۔ اُن کے اس طرز سے ان کے بچے ان سے شاید کچھ دُور چلے گئے۔
بچے کہاں گئے، انھوں نے کیا کِیا وہ سب والدین سے چھپایا اور دل میں دُوریاں بڑھیں۔ ایک بار چھُپ چھُپا کے ہمت کر کے بچے نے کوئی قدم اُٹھا لیا تو اب اس میں اگلی بار کے لیے مزید بڑا قدم اُتھانے کے لیے ہمت مزید بڑھ گئی۔ یوں والدین کی نظر سے بچ کر جو وہ چاہتا رہا، وہ کرتا رہا اور والدین سے اندر ہی اندر دُور ہوتا گیا۔
ابھی اگلے دنوں آبائی گاؤں جانا ہوا تو دوسرے گاؤں سے ایک عزیزہ بھی ہمارے یہاں ٹھہرنے آئیں۔ اُنھوں نے دن کا کوئی حصہ بھی ٹی وی دیکھے بَہ غیر خالی نہ جانے دیا ہو گا۔
اتنے لگاؤ کی وجہ پوچھی تو پتا چلا اُن کے والد نے اُنھیں ٹی وی دیکھنے سے منع کر رکھا تھا اور اُنھیں گھر پر ٹی وی نہیں دیکھنے دیا جاتا تھا۔ سو اب اُنھیں موقعہ ملا؛ والدین کی آنکھ سے اوجھل ہوئی تو اپنا شوق پورا کیا۔
ایسے میں افسوس اُن والدین کی حالت پر ہے جو خود ہی بچوں کو اجازت نہیں دے رہے کہ وہ والدین کی چاہ پر چلیں اور پھر بھی سمجھ بیٹھے ہیں کہ بچے انہی کی چاہ کے مطابق چل رہے ہیں، غلام رعایا کی طرح۔
اگر ذاتی تجربہ شیئر کیا جائے تو بھی یہی اخذ ہوتا ہے۔ میرے والدین نے مجھ پر کبھی کسی قسم کی پا بندی نہیں لگائی، کبھی شک نہیں کیا، ہاں جب جب غلط کیا انھوں نے صرف سمجھایا، یا جو بات اُنھیں نا پسند ہوتی اس کی وجہ بتائی کہ یہ بات اس وجہ سے ہمیں پسند نہیں۔ اپنی پسند نا پسند کو مسلط کبھی نہ کیا۔ سیدھی راہ دکھا کر فیصلہ خود کرنے کا موقع دیا۔
یقین جانیے اُن کے اعتماد نے اُن کی غیر موجودگی میں کبھی وہ کام کرنے کی اجازت نہیں دی جو انھیں نا پسند ہو، نہ ہی دل چاہا۔ اُن کا مرتبہ تو ایک طرف، اُن کے لیے دل میں محبت نے اس قدر جگہ بنائے رہی ہے کہ بیان نہیں ہو سکتی۔ اُن کی غیر موجودگی میں بھی اُن کی پسند نا پسند کا خیال رکھنا کیا محبت کی کوئی کم نشانی ہے۔
بات کو پھر دُہراتی ہوں جس بچے نے جو کرنا ہے، وہ اُس نے ہر حال میں کرنا ہے اور راستے سو طرح سے نکل آتے ہیں۔ نہ کوئی کسی کی نگرانی دن کے چوبیس گھنٹے، یا ہفتے کے سات دن لگاتار کر سکتا ہے نہ ہی کوئی کسی کو تمام عمر اپنا غلام بنا سکتا ہے۔
بچوں کو سمجھایا جائے ہر بُرے کام کے خلاف مگر اُن پر پا بندیاں عائد نہ کی جائیں۔ جس نے جو کرنا ہو گا وہ ان پا بندیوں میں بھی راستہ تلاش کر لے گا۔ یہ پا بندیاں کتنا عرصہ لگائیں گے؟ سکول کی عمر تک؟ کالج تک؟ یا بہت ہوا تو مزید ہی کچھ عرصہ تک۔ اُس کے بعد تو بچوں نے پا بندیاں خود ہی توڑ دینی ہیں اور شاید آپ کا بھی اب دل نہ مانے اتنی بڑی عمر میں پا بندیاں لگانے کا لیکن تب تک آپ کے بچے دل سے آپ سے دُور ہو چکے ہوں گے۔ اُن کے دل میں آپ کا مقام وہ نہیں ہو گا جو آپ کے اعتماد دینے سے ہوتا۔ اب وہ باتیں چھُپانے کے عادی ہو چُکے ہوں گے۔
ایسے بے اعتباری والے رشتوں کا کیا فائدہ۔ جب آپ کے بچے آپ سے ہی اپنے دل کی بات نہ کہہ سکیں۔ بہتر ہے بچوں پر اعتبار کیا جائے، انھیں صحیح غلط کا شعور دیا جائے، سمجھایا جائے اور پھر فیصلے کی آزادی دی جائے نہ کہ ان پر حکم رانی کی جائے۔
ایسے میں آپ کے بچے جو کریں گے کم از کم آپ کے علم میں ہو گا۔ کچھ غلط لگے تو مثال دے کر یا کسی بہتر طریقے سے سمجھا دیا جائے۔ خُدارا بے جا پا بندیاں عائد کر کے اپنے بچوں کو خود سے دُور نہ کریں۔ انھیں بھی کچھ آزادی دیں۔
جن پرندوں کو زبردستی قفس میں قید رکھا جاتا ہے، اگر کسی رات قفس کا دروازہ کھُلا رہ جائے تو وہ پرندے اُڑ جایا کرتے ہیں اور لوٹ کر نہیں آیا کرتے۔ لوٹ کر بس وہی آتے ہیں، وفا بھی بس وہی کبوتر نبھاتے ہیں جنھیں سدھایا جاتا ہے زبردستی قید نہیں کیا جاتا۔