بچے اور ہم والدین
از، سہیل احمد
گزشتہ چند دنوں میں پاکستان کے میڈیا نے بچوں پر ہونے والے مظالم کو خبروں کا حصہ بنانا شروع کیا اور اس میں تیزی اس وقت دیکھنے میں آئی جب قصور کی زینب نامی کمسن بچی کا کیس سامنے آیا۔
ڈان اخبار کی ایک پورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ دس بچے جنسی بد فعلی کا شکار بنتے ہیں اور بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم Spark کے مطابق سال 2015 بچوں سے بد فعلی کے 3،768 کیسز سامنے آچکے ہیں۔ جبکہ بچوں کے حقوق کے پر کام کرنے والی تنظیم ساحل کے مطابق پاکستان میں اوسط 11 بچے روزانہ جنسی تشدد کا شکار بنتے ہیں، یہ صرف وہ تعداد ہے جو رپورٹ ہونے کے بعد ہم تک پہنچتے ہیں۔
بچے سے بد فعلی کے واقعات ساری دنیا میں پائے جاتے ہیں اور ترقی یافتہ ممالک بھی ان واقعات سے بچ نہ پائے ہیں۔گزشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ اور برطانیہ ان پانچ ممالک کی فہرست میں آتے ہیں جہاں بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی بد فعلی کے واقعات ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ ایک محتاط انداز ے کے مطابق صرف امریکہ میں تقریباََ ہرسال 3 لاکھ بچے جنسی بد فعلی کا شکار بنتے ہیں۔
فرق صرف اتنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے کیسسز کو دبایا نہیں جاتا بلکہ ایسے واقعات ہو جانے پر قانون حرکت میں آکر بچوں کو تحفظ فراہم کر کے ان کی زندگیوں کو محفوظ بناتا ہے اور مجر م کو کڑی سے کڑی سزا د ی جاتی ہے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام اور سد باب ممکن ہوسکے۔ لیکن اس کے برعکس غیر ترقی پذیر ممالک میں رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد بہت کم ہوتی ہےکیونکہ لوگ معاشرتی رویے کے خوف سے ایسے ہونے والے واقعات کو رپورٹ کرنے اور قانون سے مدد لینے سے گھبراتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے واقعات کے رونما ہونے کی روک تھام اور سد باب ممکن بناتے ہوئے ایسے قوانین بنائے جائے جن سے ان بچوں کو قانونی تحفظ ممکن ہو سکے۔
ہم بچوں کو محفوظ کیسے بنائیں
بچے کسی بھی ملک و قوم کا مستقبل ماننے جاتے ہیں کسی دانا کا قول ہے کہ “اچھی قوم صرف اس وقت ہی وجود میں آسکتی ہے جب وہاں کے رہنے والے بچے محفوظ ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہو۔”
ہم آئے روز بچوں کے اوپر ہونے والے جسمانی تشدد کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ اور ہم اس وقت مزید پریشانی میں پڑ جاتے ہیں جب ہم بچوں کے اوپر ہونے والے جنسی تشدد یا بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے بارے میں پڑھتے ہیں۔
آج کی تحریر کا مقصد اور منشاء صرف یہ ہے کہ ہم بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے بارے میں آگاہی فراہم کریں اور یہ جانیں کہ ہم کسی طرح سے اپنے بچوں کو محفوظ بنا سکتے ہیں کیونکہ ایسے واقعات بچوں کی نفسیات پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ یہ ایسے مسائل ہیں جو کہ ان کی آنے والی عمر پر بھی بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔
جنسی زیادتی یا جنسی بد فعلی کی تعریف:
جب کوئی بالغ فرد بچے کا اعتماد مجروح کر کے بچے یا بچی کو کسی جنسی فعل میں ملوث کرتا ہے اور اپنے رعب و دبدبے اوراختیارات کا ناجائز استعمال کرتاہے تو ایسی حرکت کو بچے سے جنسی بد فعلی کہا جائے گا۔
تحقیق کے مطابق ایسے واقعات میں خاندان کے افراد کا ملوث ہونیکے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا، جنسی بد فعلی کا ارتکاب کرنے والوں میں مرد خواتین دونوں شامل ہوتے ہیں۔ اور بد فعلی کا شکار بننے والوں میں بلا تفریق صنف لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں۔
مندرجہ بالا حرکات و سکنات بد فعلی کے زمرے میں آتیں ہیں۔
۱۔ بچے سے بد فعلی میں شہوت نظر (بچوں کو بغیرلباس کے دیکھ کر لطف ہونا۔
۲۔کسی بچے کے جنسی اعضاء کی نمائش سے محسور ہونا ۔
۳۔ بچے کو جنسی افعال حرکات میں شامل کرنا۔
۴۔ بوسہ بازی یا جنسی مقاصد کے لیے بچے کو ہاتھ لگانا اور مخصوص اعضاء کو مس کرنا۔
۵۔ بچے کو اپنے جنسی اعضا ء کو چھونے کے لیے مجبور کرنا۔
اس کے علاوہ مشت زنی، دخول اور بچے کو جسم فروشی کے لیے استعمال کرنا شامل ہے۔
بد فعلی کا شکار ہونے والے بچے کی علامات ہمارے معاشرے میں بچے کے ساتھ بد فعلی کے بارے میں سماجی طور پر بات کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ بہت سے پڑھے لکھے حضرات اس موضوع پر بات کرنے سے کتراتے ہیں اور خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں لہذٰا جب کوئی بچہ اپنی روز مرہ کی روٹین سے ہٹ کر کوئی رد عمل ظاہر کرتاہے۔ تو ہم اسے عمر صحت یا آب وہوا کی تبدیلی سے نتھی کر دیتے ہیں جس سے بچہ مزید عدم تحفظ کا شکار ہو جاتا ہے اور بچے سے بد فعلی کرنے والے کو اس کا استحصال کا موقع حاصل ہو جاتا ہے۔
اسے بھی ملاحظہ کیجیے: اپنے بچے آپ بچاؤ
مندرجہ بالا رویوں سے ہم کسی حد تک اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ بچے کے ساتھ بد فعلی کا کوئی واقعہ رونما ہوا ہے یا وہ اپنے اردگرد ایسے خطرات کو محسوس کر رہا ہے۔ مثلاََ
۱۔ سونے میں مشکلات کا سامنا
۲۔ ڈراؤنے خواب کا آنا اچانک ڈر کر جاگ جانا۔
۳۔ رویے میں اچانک تبدیلی، کھانے سے جی چرانا
۴۔ بے جا ضد
۵۔ سکول میں ناقص کارکردگی
۶۔ اندھیرے میں خوف
۷۔ کسی خاص فرد سے ڈر نا یا خوف کھانا
۸۔ بڑے بچے کا چھوٹے بچے کی طرح۔۔ کرنا یعنی انگوٹھا چوسنا، بستر میں پیشاب کر دینا۔
۹۔ نہانے سے انکار کرنا یا ماں باپ کے سامنے نہانے کی عرض سے کپڑے اتارنے سے انکار کرنا۔
۱۰۔ ڈراؤنی تصاویر بنانا۔
۱۱۔ جسم کے عضو مخصوصہ کے الفاظ استعمال کرنا۔
اس کے علاوہ ہمیں اس بات کا بھی دھیان رکھنا چاہیے۔ کہ اگر بچے کی جسمانی حرکات میں اچانک کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر مندرجہ بالا جسمانی اشارے نظر میں رکھنا ضروری ہیں۔
۱۔ چلنے یا بیٹھنے میں مشکلات کا سامنا
۲۔ عُضوِ مخصوصہ پر سوجن، خارش یا خون کا آنا
۳۔ جسم پر خراش، کاٹنے یا زبر دستی کی کوئی علامات کا ہونا۔
بچوں سے جنسی بد فعلی کے بارے میں اکثر لوگوں کی رائے یہ ہے کہ غریب یا گاؤں کے رہنے والے بچے اس کا زیادہ تر شکار بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان گنت مفروضے پائے جاتے ہیں جس میں تعلیم کی کمی یا تعلیم کا نہ ہونا اہم سبب ہیں۔ لہذٰا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پہلے ان مفروضوں اور حقائق کو جانچے تاکہ آنے والے مستقبل میں اپنے بچوں کی حفاظت کر سکیں۔
تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ بچوں کے ساتھ بد فعلی کسی بھی کم آمدنی اورسماجی مرتبے خاندانوں میں ۔۔۔۔ رونما ہو سکتے ہیں۔ دوسرا عام مفروضہ یہ ہے کہ ایسے واقعات ان بچوں کے ساتھ رو نما ہوتے ہیں جو بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں ایسے واقعات کا بچے کی خوبصورتی یا جسمانی کشش سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تیسرا مفروضہ جو عام طور پر سننے میں آتا ہے کہ جنسی بد فعلی عام طور پر گھر سے باہر ہی ممکن ہوتی ہے۔ اور اس کا ارتکاب کرنے والا کوئی اجنبی ہی ہو سکتا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تحقیق کے مطابق زیادہ تر بچوں کے ساتھ بد فعلی کے واقعات ان کے گھروں میں ہوتے ہیں اور ان میں ملوث وہ افراد ہوتے ہیں جن پر اعتماد کے باعث بچوں کی پہنچ آسان ہوتی ہے۔
جنسی بد فعلی کے امکان پر بچوں سے بات چیت آج کل کے تیز ترین ادور میں جہاں خاندان کے دونوں افراد نوکری کی دوڑ دھوپ میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ہر وقت بچوں پر نظر رکھنا بہت مشکل امر ہے۔ لہذٰا بچوں کو بذات خود حفاظتی تعلیم دینے کی ضرورت ہے اس میں بچے کو بتانے کی ضرورت ہے کہ معاشرے میں ایسے افراد موجود ہیں جو ان کی معصومیت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لہذٰا بچوں کو اعتماد میں لے کر بتائیں کہ یہ جسم ان کی ملکیت ہے اور اگر کوئی شخص ان کے جسم کو چھوئے اور وہ گھبرا جائیں توان کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اپنے والد یا والدہ کو بغیر کسی خوف کے بتائیں یا آگاہ کریں۔ بچوں کو مزید آگاہ کریں کہ اگر گھر یا سکول میں اور خاص طور پر تنہائی میں ان کو چھوئے یا بوسہ لینے کی کوشش کر ے یا گلے لگائے تو وہ اپنے والدین کو آگاہ کریں۔ بچوں کو یہ بھی بتائیں کہ اگر کوئی شخص ان کو پیسے یا ٹافیاں یا کھلونے دے یا وعدہ کرلے تو وہ اس بات کو قطعی نہ چھپائیں بلکہ اپنے والدین کو اس بارے میں آگاہ کریں۔
جب بچہ آپ کو بد فعلی کے بارے آگاہ کرے
جب بچہ آپ کو بد فعلی کے بارے میں آگاہ کرے تو آپ اس کی بات سکون سے سنیں اپنے شدید نفرت یا صدمے یا غصے کے اظہار کو قابو میں رکھیں کیونکہ اس سے بچہ آپ کو مزید کوئی بھی بات بتانے سے خوف کھائے گا۔ اور وہ اپنے ساتھ ہونے والے واقعہ کے بارے میں مزید بات کرنے سے کترائے گا۔ کیونکہ آپ کے اس رویے سے وہ احساس جرم او ر ندامت کے احساسات میں گھر سکتا ہے۔
ایسے موقع پر آپ بچے کو بتائیں کہ آپ اس کی بات پر یقین کرتے ہیں بچے کو احساس دلائیں کہ ایسا واقعہ اس کی کمزوری سے نہیں ہوا اسے اس بات کا یقین دلائیں کہ اس نے ایسے واقعات کو آ پ سے شئیر کر کے بہت اچھا اقدام کیا جائے۔کیونکہ اس کا بد فعلی کے واقعے کے بارے میں آپ کو بتانا دراصل آپ پر اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔
تحقیق کے مطابق %90 بچوں سے جنسی بد فعلی کرنے والا شخص وہ ہوتا ہے۔ جس پر بچے سب سے زیادہ اعتبار کرتے ہیں ان میں سکول کے استاد، چوکیدار محلے کا دکاندار یا آپ کا کوئی قریبی رشتہ دار بھی ہوسکتا ہے۔
اور آخر میں سب سے ضروری ہے کہ بچے کے دوست بنیے ان کو وقت دیں ان کی حرکات پر نظر رکھیں اور بے جا ء دباؤ سے پرہیز کریں۔
اس کے علاوہ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ہم بچوں پر ہونے والے اس جرم پرکھل کر بات کریں اور اردگرد ہونے حالات سے باخبر رہیں تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو محفوظ معاشرہ دے سکیں۔
نوٹ: اس مضمون کو لکھنے کے لیے بچوں پر کام کرنے والی تنظیم سپارک اور ساحل کی ویب سائٹ سے مدد لی گی ہے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.