شہروں میں کرایے کا مکان : نیا جاگیردار، نیا مزارع
از، آعمش حسن عسکری
بڑے شہروں میں کرائے کے مکانوں کی ایک پوری معیشت ہے۔ زمیندار اور مزارع کا رشتہ ختم ہوا۔ غریب کسان کا بیٹا شہر آ کر آباد ہو گیا۔ زمیندار سے تو جان چُھوٹ گئی اب اسے مالک مکان نے گھیرا ہے۔ یہ رشتہ نیا ہے اور اس سے جڑا استحصال بھی۔
کرایہ دار کو چھت چاہیے اور مالک مکان کو کرایہ۔ تنگ و تاریک دو کمرے کا مکان ہے اور کرایہ اتنا جتنا مالک مکان چاہے۔ کرایہ نہ دے تو چھت جاتی ہے۔ دے تو مہینے کی آدھی سے زیادہ آمدنی۔ شہر چھوڑ کر واپس جائے تو روزگار جاتا ہے اور شہر میں رہے تو ایک خوش گوار زندگی گزارنے کا سامان۔
مکان بھی کیا ہیں؟ کبھی تو ایک مکان کا بالائی یا زیریں حصہ ہے جسے اس کاروبار سے وابستہ افراد ‘پورشن’ کہتے ہیں اور کبھی ایک ہی پورشن کا ایک مخصوص حصہ۔ اور شہر کے مرکز سے اتنا دور کے آنے جانے کا کرایہ بھی جیب پہ بھاری۔
لوکل ٹرانسپورٹ پہ جائیے تو اپنے مقررہ وقت سے دو گھنٹے پہلے نکل جائیے اور رات کو گھر پہنچیے تو دو گھنٹے لیٹ۔ اس کے بعد اپنے لیے وقت بچے تو اتنا کہ بس سویا جا سکے۔ ایسی زندگی میں نیند کا واحد مقصد جسم کو اگلے دن کی مشقت کے قابل بنانا ہے۔
مالک مکان اور کرایہ دار کا رشتہ ایسا ہی ہے جیسے زرعی معاشروں میں کسی زمیندار اور مزارع کا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ موخرالذکر پیداوار کا ضامن ہے۔ اگر مالک مکان اسی گھر کے پورشن میں رہتا ہو تو دن میں ایک آدھ بار آتے جاتے کی خبر ضرور رکھے۔ اگر کہیں اور رہتا ہے تو ہفتے دس دن میں پھیرا لگائے یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کی پراپرٹی کو کس طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ ذرا جو حالات بدلیں تو ‘مکان خالی کر دو’ کی دھمکی تلوار کی طرح لٹک رہی ہے۔ “کرایہ پہلی تاریخ تک ادا کرو ورنہ اگلے مہینے سے اپنا کوئی بندوبست کر لو!”
اگر بجلی اور گیس کا میٹر سانجھا ہے تو بل کا زیادہ حصہ کرایے دار پہ ڈال دیا جاتا ہے، اور دلیل اس کی یہ ہوتی ہے کہ بھائی تمہاری تو استری ہی بہت چلتی ہے۔ (اب اگر بنا استری کے کپڑے پہنے کام پر چلا جائے تو ساتھیوں میں اٹھتے بیٹھتے شرمانا الگ ہے۔)
کرایہ دار اس ڈر سے بھی اسی مکان میں پڑا رہتا ہے کہ نیا مکان ڈھونڈنا کسی عذاب سے کم نہیں۔ پراپرٹی ڈیلر کا کمیشن الگ ہے، اور نئے مکان کی سیکیورٹی ڈپازٹ اور ایک ماہ کا ایڈوانس کرایہ الگ۔
یہ بات ذاتی تجربہ میں رہی کہ جو رقم سیکیورٹی کی مد میں مالک مکان کو دی جاتی ہے، شاذ و نادر ہی کرایہ دار کو واپس ملتی ہے اور اسے اُس دیوار کی مرمت کے اخراجات کی مد میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جس پر کرایہ دار کے بچوں نے پنسل سے لکیریں لگا دیں تھیں۔
مالک مکان اور کرایہ دار کے درمیان اگر کوئی شے کسی معاہدے میں طے دیکھی تو یہ کہ ہرسال دس فی صد کے حساب سے کرایہ بڑھا دیا جائے۔ اس کے علاوہ کوئی شے طے نہیں۔ کہنے کو ایک معاہدہ اور اشٹام بھی کروایا جاتا ہے لیکن اس کی حیثیت اتنی ہے جتنی کسی بھی کاغذ کی۔
بچپن میں معاشرتی علوم کی کتاب میں پڑھا تھا کہ پاکستان کی ستر فی صد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔ اب آبادی کا کتنے فی صد حصہ دیہاتوں میں رہتا ہے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہاں مردم شماری سے آئے اعداد و شمار کا کوئی بھروسا نہیں۔
یوں بھی شہری آبادی دو لحاظ سے بڑھی ہے۔ ایک تو گاؤں سے بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی کی صورت میں اور دوسرا اُن تبدیلیوں کے نتیجے میں جس کے بعد دیہی علاقے شہری علاقوں میں بدلے ہیں۔
لیکن حالات یہی بتاتے ہیں کہ پچھلی دو دھائیوں میں شہروں کی طرف ہجرت کا رحجان بہت زیادہ رہا ہے۔ اس ہجرت کی وجوہات ایک سے زیادہ ہیں لیکن اس کے اثرات ہر جگہ ایک سے ہیں۔ جس میں کرائے کرایہ اور رئیل اسٹیٹ کا ایک نئی معیشت کے طور پر سامنے آنا سب سب سے اہم ہے۔
“ریاست ہو گی ماں کے جیسی” کا نعرہ جس نے دیا تھا اس سے یہ تو پوچھا جائے کہ یہ کیسی ماں ہے جس کی گود اپنے ہی بچوں کے لیے ناکافی ہے۔