کس کو کہہ رہے ہو؟
از، سعد اللہ جان برق
لیجیے ایک پڑھنے والے نے ایک مرتبہ پھر ہماری بری طرح کلاس لی ہے، بات وہی پرانی ہے کہ ہم اپنے کالم میں ادھر ادھر کی فضولیات اور لفنگیات لکھتے ہیں اور کام کی کوئی سنجیدہ بات نہیں لکھتے ۔غالب کو تو ’’طاعت وزہد ‘‘ کے ثواب کا پتا تھا لیکن پھر بھی ان کی طبیعت ’’ادھر ‘‘ نہیں آتی تھی جب کہ ہمیں یہ بھی پتا نہیں کہ سنجیدہ اور دانا دانشور کالم نگار تجزیہ کار اور کلاکار لوگ جو ’’طاعت وزہد ‘‘فرماتے ہیں اس کا کوئی ثواب ہے بھی یا نہیں۔
جہاں تک ہماری تحقیق ہے تو ٹرمپ سے لے کر ڈھمپ یعنی کسی تھانے کے محرر اور پٹوار خانے کا مرزا بھی ہمارے کالم اور پھر خاص طور پر اردو تو بالکل بھی نہیں پڑھتا اور اگر پڑھ بھی لے تو جو ’’زریں مشورے‘‘ انھیں دیے جاتے ہیں رہنمائیاں کی جاتی ہیں پر کان کیوں دھریں کیونکہ ان کو بھی اس ’’طاعت وزہد ‘‘ کا ثواب معلوم ہوتا ہے جو وہ اس وقت کررہے ہیں تو پھر ثواب سے بھر پور ’’طاعت وزہد ‘‘چھوڑ کر ہمارے بے فیض مشورے کیوں مانیں ۔وہ ایک فلم میں ایک خاتون سے اس کا شوہر کہتا ہے میری بات سنو… اس پر بیوی ہاتھ اٹھا کر کہتی ہے ۔ کیا میں نے آج تک تمہاری کوئی بات سنی ہے ؟ شوہر کہتا ہے ۔ نہیں ؟ … تو پھر آج کیوں سنوں ؟ جب کوئی سنتا ہی نہیں تو یونہی صحرا میں اذان دینے یا غسل خانے میں ڈائیلاگ بولنے سے فائدہ؟
مطلب یہ کہ جب کوئی سنتا نہیں تو کہنے سے کیا فائدہ ……؟
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگرداں کیوں ہو ۔ابھی تازہ ترین واردات جو ٹرمپ نے کی ہے یعنی اپنے انوکھے لاڈلے اسرائیل کو ایک اور چاند کھیلنے کو دیا ہے اس پر ہمارے ایک دانشور کالم نگار نے ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مسلمانوں کو چھیڑنے سے باز آجاؤ ورنہ اگر مسلمان ایک ہوگئے تو تمہارے بھانجے کو ایک ایک گھونسا بھی ماریں تو اس کا کچومر نکال دیں گے اور اگر عرب ممالک نے ایک ایک گھونٹ تیل کا اس پر پھونکا تو بھسم ہوجائے گا بلکہ ایک اور نے یہ تک لکھا ہے کہ ڈرو اس وقت سے جب مظلوموں کی آہ تمہیں لگے گی اور امریکا خود اپنے ہاتھوں خودکشی کرلے گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا کہ بددعاؤں سے آج تک کوئی نہیں بچا ہے۔
ایک اور نے تو ٹرمپ کے ساتھ ساتھ سارے عالم اسلام کو بھی جھنجوڑا ہے کہ نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے، اے اسلام والو اب بھی وقت ہے انگلیوں کی طرح الگ الگ مت رہو اور مل کر مٹھی بن جاؤ ورنہ تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
حالانکہ ہمیں خود اس کے بیٹے نے ہمارے پوچھنے پر بتایا ہے کہ نہ جانے ان کا والد اخباروں میں ’’کیا ‘‘ لکھتا رہتا ہے ؟ اس مرتبہ یہ قاری نہ صرف کچھ زیادہ سنجیدہ ہے بلکہ ہمارے سارے کچے چٹھے سے بھی واقف ہے ایک طرح سے طعنہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ میں نے کبھی تمہارے کالم میں کوئی کام کی بات نہیں دیکھی۔نہ کسی دھماکے پر تم نے کبھی کچھ لکھا ہے حتیٰ کہ آرمی پبلک اسکول کے کیٹگری اے کے شہیدوں پر بھی کچھ نہیں لکھا ہے ۔
اس طرح نہ تم چودہ اگست پر کوئی خصوصی کالم لکھتے ہو نہ 23 مارچ پر اور نہ کسی کے یوم پیدائش یا وفات پر ۔ حتیٰ کہ عید بقر عید اور رمضان ‘ محرم پر بھی کبھی نہیں لکھتے ہو۔اب کیا بتائیں جب ہم نے ایسے مواقع پر خود کئی سال تک پچھلے سال کی کاپی سے نکال کر ایسے مضامین کو کئی کئی سال تک مسلسل چھاپا ہے ۔ چلیے اس پر ایک ڈائیلاگ بھی ہوجائے
ہیڈ کاتب :جناب چودہ اگست بھی آرہا ہے لڑکوں کو مضامین دے دیں تاکہ ساتھ ساتھ ان کی بھی کتابت ہوتی رہے۔
مدیر : دے دیں گے ابھی تو پورا ہفتہ پڑا ہے ۔
او پھر ایک ہفتے کے بعد خاص نمبر سے ایک دن پہلے ……
جناب وہ خاص نمبر کے مضامین ؟…پچھلے سال کی کاپی سے اکھاڑ کر لگا دو۔
اب آپ ہی بتائیے کہ سال کے تقریباَ سارے دن کسی نہ کسی سے منسوب ہیں یوم اطفال ‘ یوم جہاں ‘ یوم گلی ڈنڈہ ‘ یوم خواتین ‘ یوم معذورین ‘ یوم ٹماٹر ‘ یوم پیاز … اور اگر اقوام متحدہ نے آج تک کوئی کام کیا ہے تو یہی کیا ہے لیکن دن ختم ہوچکے ہیں اور ابھی کئی ضروری موضوعات باقی ہیں جو میرٹ پر ’’دن ‘‘ کے مستحق ہیں مثلاً یوم کرپشن ‘ یوم جھوٹ ‘ یوم رہزنان ‘ رونے کا عالمی دن ‘ بھوک کا عالمی دن ‘یوم برہنگی ‘ جہالت پھیلانے کا عالمی دن ‘ صحت کی ایسی تیسی کرنے کا دن۔اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارا کوئی پڑھنے والا ہم سے شاکی ہو اس لیے اپنے اس گلہ مند قاری کی فرمائش پر ایک نمونہ پیش خدمت ہے، اگر پسند آیا تو آیندہ ہم ایسے ہی کالم لکھیں گے۔
حکومت نے کہا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں پاکستان کے شہروں میں اس وقت ٹریفک کے مسائل گھمبیر صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں، سڑکوں کی کمی اور ٹرانسپورٹ نے ہر جگہ ٹریفک جام کی صورت اختیار کی ہوئی ہے، ایک محب وطن شہری ہونے کے ناطے ہمارا فرض بنتا ہے کہ اس معاملے میں حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے۔
اس کا آسان حل ہم نے اپنے تجربے‘ معلومات اور دانش کی بنیاد پر یہ نکالا ہے کہ ساری سڑکیں زمین کے بجائے ہوا میں بنائی جائیں اور یہ بہت آسان بھی ہے خاص طور پر پاکستان میں تو اس منصوبے پر کچھ بھی خرچہ نہیں آتا کیونکہ ہوائی محل اور ہوائی قلعے تعمیر کرنے میں پاکستانی لیڈروں اور عوام کو ستر سالہ تجربہ حاصل ہے۔