کابل میں کتاب

Ghazi Salahudin aik Rozan
غازی صلاح الدین، صاحبِ مضمون

کابل میں کتاب

از، غازی صلاح الدین

یہ تو شاعر نے ہمیں بتایا تھا کہ ایک دفعہ دمشق میں ایسا قحط پڑا کہ یار لوگ عشق کرنا بھول گئے۔ اب ’نیویارک ٹائمز‘ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ کابل میں لوگ خودکش دھماکوں اور غیریقینی حالات سے اتنے دلبرداشتہ ہیں اور سہم سے گئے ہیں کہ انہوں نے کتابیں پڑھنا شروع کر دی ہیں۔ میں ذکر کر رہا ہوں ایک طویل فیچر کا جو ’نیویارک ٹائمز‘ کے بین الاقوامی ایڈیشن میں بدھ کو پہلے صفحے پر شائع ہوا۔ سرخی کچھ ایسی ہے کہ ’’کتابوں میں پناہ‘‘ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ گو افغانستان میں بیشتر افراد ناخواندہ ہیں یعنی پڑھ نہیں سکتے لیکن ملک میں کتابوں کا کاروبار خوب چل رہا ہے۔

اب میرے  لیے یہ ایک خوشگوار اتفاق ہے کہ یہ رپورٹ میں نے کراچی کے نویں ادبی میلے کے آغاز سے صرف دو دن پہلے پڑھی۔ اس طرح یہ اختتام ہفتہ ادب اور کتابوں کے لیے مخصوص ہے بلکہ یہ کہیے کہ یہ کتابوں کی بسنت ہے۔ کتنے شوق سے علم و ادب کے شیدائی اس میلے کا انتظار کرتے ہیں۔ ادبی میلوں کی ایک روایت ہے اور پاکستان میں کراچی لٹریچر فیسٹیول نے اس کی بنیاد رکھی۔ تین دن کے لیے جیسے شہر کا ثقافتی موسم تبدیل ہو جاتا ہے جو جذبات بہار کے موسم سے منسلک ہیں وہ فروزاں ہو جاتے ہیں۔ میرا کراچی کے ادبی میلے سے مسلسل تعلق رہا ہے لیکن یہاں آگ اور خون سے آلودہ کابل میں کتابوں کے پھول کھلنے سے میرا ایک اور بھی تعلق ہے۔

میں اپنے ملک میں مطالعے کے ذوق کو فروغ دینے کی جدوجہد میں مصروف رہا ہوں۔ اسے آپ میرا ایک شوق کہہ لیں کیونکہ کوئی ایسی باقاعدہ تحریک تو نہیں چلائی کہ جس کے لیے کسی تنظیم کی ضرورت ہو۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ میں ’’جیو کتاب‘‘ کا ہفتہ وار پروگرام کیا کرتا تھا۔ میری کوشش تھی کہ وہ پروگرام مختلف اور دلچسپ ہو اور دیکھنے والوں میں کتابوں سے دوستی کا جذبہ بیدار ہو۔ ایسا اکیلا پروگرام بھی ٹیلیوژن چینلز کے سونامی میں زندہ نہ رہ سکا اور اسی پس منظر میں مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ کابل میں کتابوں کی بات ہو رہی ہے۔

’نیویارک ٹائمز‘ کا کہنا یہ ہے کہ افغانستان کا حال تو یہ ہے کہ تقریباً تمام اشیا باہر سے آتی ہیں۔ خشک میوہ ایران سے اور تازہ پھل پاکستان سے جبکہ ان کی پیداوار افغانستان میں بھی افراط سے ہوتی تھی۔ سالوں سے بیرونی امداد پر پلنے والے افغانستان کی معیشت اب برے حال میں ہے۔ اگر کسی چیز کو درآمد کرنے کی بالکل کوئی ضرورت نہیں تو وہ ہے افیم، افیم اور کتابیں۔ ایسے دنوں میں کہ جب دنیا بھر میں کتابوں کے پبلشر مشکلات کا شکار ہیں، افغانستان میں گزشتہ تین سالوں میں ان کا کاروبار اچھا چل رہا ہے اور اس حقیقت کے باوجود کہ افغانستان میں تو خواندگی کی شرح ہمیشہ سے بہت کم رہی ہے اور صورت حال یہ ہے کہ پانچ میں سے صرف دو افغان شہری پڑھ سکتے ہیں لیکن جو پڑھ سکتے ہیں لگتا ہے کہ وہ پڑھ رہے ہیں۔

ملک میں جاری تشدد کے باوجود یا شاید اسی کی وجہ سے تشدد کی یہ لہر حالیہ دنوں میں کتنی شدید ہو گئی، یہ ہم جانتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ایک لائبریری چلانے والے شخص نے کہا کہ کتابوں کا مطالعہ روزمرّہ زندگی کے بہاؤ میں کچھ دیر کے لیے ایک رکاوٹ بن جاتا ہے اور پڑھنے والا کسی اور دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ افغانستان جیسی جگہ میں یہ فرار ایک جذباتی سہارا بن جاتا ہے۔ کتابوں کے کاروبار کا بیرونی امداد سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ کام افغان اپنی مدد آپ کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔ حال یہ ہے کہ پبلشر چھاپنے کے لیے نئی کتابوں کی تلاش میں ہیں اور نوجوان پڑھنے کے لیے نئی کتابیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ اسی طرح لکھنے والے پبلشرز کا پیچھا کر رہے ہیں۔

کابل کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اب یہ 50 لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔ کابل میں 22پبلشرز اپنا کام کر رہے ہیں اور ان میں سے کافی کے اپنے چھاپے خانے ہیں۔ ملک کے دوسرے بلکہ قندھار جیسے شورش زدہ علاقوں میں بھی پبلشر موجود ہیں۔ ہمارے  لیے جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ کہ کابل میں حکومتی ذرائع کے مطابق 60 کتابوں کی دکانیں ہیں۔ ایسا پہلے کبھی نہ تھا یعنی کتابوں کی دکانوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جب 1996سے 2001 تک طالبان کی حکومت تھی تو ملک میں صرف دو پبلشر بچے تھے اور ان میں ایک سرکاری تھا۔ 2001 کے آخر تک کابل میں صرف ایک نجی کتابوں کی دکان تھی اور وہ بھی ہوٹل میں۔

ایک حد تک ہم کہہ سکتے ہیں کہ افغانستان میں کتابوں کے فروغ کا تعلق بیرونی امداد سے بھی ہے۔ ایک طویل خانہ جنگی اور طالبان کے پانچ سالوں نے تعلیم کے پورے نظام کو تباہ کر دیا تھا۔ نئی حکومت نے جب اسکول کھولنا شروع کیے تو لاکھوں کی تعداد میں درسی کتابوں کی ضرورت پڑی۔ یہ درسی کتابیں پہلے پاکستان میں چھپوائی جاتی تھیں لیکن دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہوئے تو بیرونی امداد کے سہارے درسی کتابوں کی اشاعت کے لیے ایک پوری انڈسٹری قائم کی گئی۔ درسی کتابیں تو سال میں ایک بار درکار ہوتی ہیں۔ چھاپے خانوں میں گنجائش پیدا ہوئی تو نئے پبلشر پیدا ہوئے اور انہوں نے مغربی کتابوں کے پشتو اور دری میں ترجمے چھاپنا شروع کر دیے۔ اس طرح افغانستان کی ان دونوں اپنی زبانوں میں نئی کتابوں کا اضافہ ہونے لگا اور اس کے ساتھ ساتھ پڑھنے والوں کی تعداد بھی بڑھنے لگی۔

لوگ جاننا چاہتے تھے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور افغانستان کے بارے میں لوگ کیا سوچتے ہیں؟ اتنے سال نئی کتابوں کے بغیر گزر گئے تھے اور لوگوں کے تجسس میں اضافہ ہو گیا تھا۔ زیادہ مانگ ان کتابوں کی تھی جو امریکہ میں افغانستان کی جنگ اور سیاست کے بارے میں شائع ہوئی تھیں۔ ’نیویارک ٹائمز‘نے چند مقبول کتابوںکے نام بھی بتائے ہیں۔ انگریزی سے پشتو اور دری میں اچھا ترجمہ کرنے والوں کی قلّت پیدا ہو گئی ہے، اس کے علاوہ افغانستان کی اپنی زبانوں میں لکھنے والوں کی مانگ بھی بڑھ گئی ہے۔

ایک بڑے پبلشر کا تو منصوبہ یہ ہے کہ وہ ہر روز تین کتابیں جاری کرے۔ ایک سال میں 1,100۔ آپ سوچیں کہ یہ کام تو ہمارے کسی پبلشر کے بھی بس میں نہیں۔ ان حالات میں چربہ سازی بھی عروج پر ہے اور کاپی رائٹ کے قانون کا نفاذ مشکل ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اردو کتابیں اکثر ایک یا دو ہزار کی تعداد میں شائع ہوتی ہیں اور بہت کم کے کئی ایڈیشن فروخت ہوتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ افغانستان کے اتنے کم پڑھنے والے بھی چند ہزار چھپنے والی کتابیں خرید سکتے ہیں البتہ کتابوں کی قیمت کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں ملا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ’نیویارک ٹائمز‘ نے جو تصویر پیش کی ہے وہ اتنی زیادہ روشن نہ ہو، پھر بھی مجھے تو اپنی یہ بات کہنے کا موقع ملا کہ کتابیں ہمارے دکھوں اور ہماری پریشانیوں کو کم کر سکتی ہیں۔

جہاں تک افغانستان کی تہذیبی اور معاشرتی فضا کا تعلق ہے تو میں اس سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوں۔ اس اقرار کی ضرورت ہے کہ اتنی دنیا دیکھ لینے کے باوجود میں کبھی افغانستان نہیں گیا۔ دو،چار بار بس جاتے جاتے رہ گیا مگر اب ایک خاص وجہ ایسی ہے کہ میں اتنے برے حالات میں بھی افغانستان بلکہ کابل جانا چاہتا ہوں۔ دنیا کے کسی بھی شہر میں جب چلتے چلتے کوئی کتابوں کی دکان دکھائی دے تو بہت اچھا لگتا ہے۔ کابل میں شاید سڑک پر چلتے ہوئے ڈر لگے مگر اب یہ امید تو ہے کہ راستے میں کوئی کتاب کی دکان بھی ملے گی۔

jang.com.pk