آئیے کتابوں کے ساتھ کھڑے ہوں
از، خضر حیات
ایکسپو سنٹر میں سجائے گئے لاہور انٹرنیشنل بُک فیئر سے اپنی پسند اور استطاعت کے مطابق جو گوہر نایاب منتخب کیے ہیں وہ پیشِ خدمت ہیں۔ خاص طور پہ خوشی جس کتاب کو حاصل کرکے ملی ہے وہ ہمارے گُرو اور مرشد شِوکمار بٹالوی کی کلیات ہیں جو ہمارے دوست کاشف شاہ نے بطور تحفہ ہمیں عنایت کی ہے۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ شِو میرے لیے کیا ہے، اسی لیے انہوں نے جان بوجھ کے میرے لیے یہی کتاب منتخب کی ہے۔ میں کاشف کا شکریہ ادا کرکے اس تحفے کا وقار مجروح کرنا خلافِ عقیدت سمجھتا ہوں۔
شِو کو سمجھنے کے لیے ساتھ ہی ہندی اردو ڈکشنری بھی لے لی اور پہلا شو بھی چلا لیا۔ شو ایسے کہ موبائل میں شِو کمار کا گیت لگا کے کلیات سے اس کا تلفظ سمجھا اور ڈکشنری کھول کے مشکل الفاظ کے معانی بھی دیکھے۔ دنیا ہی بدل گئی ہماری۔
اس کے علاوہ اسد محمد خان کی جتنی کتابیں ریڈنگز سٹال پہ دستیاب تھیں ساری لے لیں۔ یہ وہی کتابیں ہیں جنہیں فیض فیسٹیول کے دوران الحمرا میں محض دیکھنے پہ ہی اکتفا کر سکا تھا کہ تب جیب میں استطاعت نہیں تھی۔ اسی ادھورے اشتیاق کو آج تسکین ملی ہے۔
نئیر مسعود کے افسانے تو بہت دیر سے میری ذہنی لائبریری کا حصہ تھے انہیں آج مادی لائبریری میں بھی سجا لیا اور آج میری لائبریری حقیقی معنوں میں معتبر ہو گئی ہے۔
نصیر احمد ناصر کو پڑھنے اور انہیں پسند کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے گلزار نے بھی ان کی تجریدیت کو سراہا ہے اور وہ بھی ان کو پسند کرتے ہیں۔ اب اتنی بڑی گواہی کو میں کیسے نظر انداز کر سکتا ہوں۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ واقعی بہت خوبصورت شاعر ہیں اور اچھوتے خیالات کو انوکھی تشبیہات کی لڑی میں پرونا نہ صرف انہیں آتا ہے بلکہ اس میدان میں وہ ایسی ایسی گُل کاریاں کرتے ہیں کہ کافر بھی شاعری پر ایمان لے آتا ہے۔
محمد حمید شاہد کے کچھ مضامین اور افسانے لالٹین میگزین کی ویب سائیٹ پر پڑھے اور میں ان کی نثر کا قائل ہو گیا۔ آج ان کے افسانوں کے دو مجموعے بھی لائبریری کی زینت بن گئے ہیں۔
شمس الرحمان فاروقی کا کئی چاند تھے سرِ آسمان بہت عرصے سے فہرست میں تھا اور آئے روز کوئی نہ کوئی گواہی موصول ہوتی رہتی تھی اس لیے آج اسے بھی حاصل کرنے کا شرف پا لیا۔
حسن معراج کی ریل کی سیٹی سے میں کچھ عرصہ پہلے ہی اپنے عزیز دوست زکی نقوی کی معرفت واقف ہوا ہوں۔ زکی نے جس انداز میں متعارف کرایا اس کے بعد کوئی گنجائش ہی نہیں بچتی تھی کہ اسے نہ پڑھوں۔ چنانچہ یہ بھی اب میری گود میں ہے۔
عرفان جاوید کے لکھے خاکے دروازے سے میری واقفیت ڈان بلاگز نے کروائی۔ عرفان جاوید سے میں فیس بُک کے ذریعے واقف بھی ہوں اور ان کی لکھت کا قائل بھی ہوں اس لیے دیکھتے ہی خرید لی۔
عینی آپا کا آگ کا دریا میری پسندیدہ ترین کتاب ہے۔ دو بار پڑھا ہے اور تیسری دفعہ پڑھنے کو شب و روز دل مچلتا ہے۔ اس دفعہ آگ کا دریا کا ایک تجزیاتی مطالعہ نظر سے گزرا تو خرید لیا۔ اس ناول کو اگرچہ بہت گہرائی تک سمجھنے کی کوشش کافی حد تک کامیاب رہی ہے مگر پھر بھی لگا کہ یہ کتاب اس کامیابی کو چار قدم مزید آگے بڑھا دے گی اور اس جہانِ علم و حیرت سے کچھ مزید برآمد ہوگا۔
ایوب خاور کی شاعری سے بھی میں چند روز قبل ہی واقف ہوا ہوں اور سات سروں کا بہتا دریا تیرے نام جیسے عظیم خیال نے من میں یہ جوت جگائی کہ یہ بندہ عام نہیں ہے، اسے بھی پڑھو چنانچہ شاعری کا ایک مجموعہ ان کا بھی لے آیا ہوں۔
ن۔م۔ راشد سے پہلی بار تب واقف ہوا جب ضیاء محی الدین کی آواز میں حسن کوزہ گر سنی۔ ضیاء صاحب کے تو پہلے ہی عاشق تھے اس لیے ان کے منہ سے یہ نظم سن کر توجہ نظم کے شاعر کی طرف بھی چلی گئی۔ یہ تب کا قصہ ہے جب ہم نے ایم اے میں داخلہ لیا تھا۔ پھر لائبریری سے ان کی کلیات لے کے پڑھی اور سمجھنے کی بھی کوشش کی۔ آج ان کی وہی کلیات بھی اپنے ہمراہ لے آیا ہوں۔ کہتے ہیں کہ نظم راشد سے ہے اور بالکل درست کہتے ہیں۔
کرنل محمد خان تو مزاح میں جتنا باکمال ہے اتنے باکمال کم ہی پیدا ہوں گے۔ ان کی سبھی کتابیں پڑھ رکھی ہیں اور ساری خرید بھی رکھی ہیں مگر بجنگ آمد کوئی شریف آدمی پڑھنے کے لیے لے گیا تھا جو آج تک نہیں لوٹی۔ کرنل صاحب کی کتابوں کا سیٹ پورا کرنے کے لیے بجنگ آمد دوبارہ خرید لی ہے۔
عالمی ادب میں بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے کے دونوں ناول خریدنا فرض ہو گیا تھا۔ یہ فرض بھی آج ادا کر دیا۔ ترکی کے نوبل انعام یافتہ اورحان پاموک کا ناول مائی نیم از ریڈ بھی لیا۔ ہرمن ہیسے کا سدھارتھ خریدا، جولین برناس کا دی سینس آف این اینڈنگ ہمارے ایک باکمال دوست اور بڑے بھائی اعظم کمال نے تجویز کیا تھا۔ اب یہ گواہی بھی اتنی معتبر تھی کہ نظرانداز نہیں کی جا سکتی تھی چنانچہ یہ بھی اچک لیا۔ پاکستانی پارسی خاتون مصنفہ بپسی سدھوا کا دی کرو ایٹرز بھی لیا اور اس کا اردو ترجمہ جنگل والا صاحب بھی خرید لیا۔ دوستوفسکی کا برادرز کروموزوف خریدا۔
اس کے علاوہ تراجم میں جین آسٹن کے ناول کا مرحوم شاہد حمید کا تکبر اور تعصب کے نام سے کیا گیا ترجمہ لیا۔ میلان کنڈیرا کا شناخت، فلوبئیر کا مادام بواری، رابندر ناتھ ٹیگور کا گیتانجلی، فرانز کافکا کا مقدمہ، البرٹ کامیو کا اجنبی، ہیمنگ وے کا بوڑھا اور سمندر، بورخیس کے افسانے اور عالمی افسانوں کا ایک انتخاب خریدا۔
فہرست میں کچھ اور کتابیں بھی تھیں مگر کچھ ملی نہیں اور کچھ کو خریدنے کے لیے نقدی کا فقدان ہو گیا تھا۔ ان میں سید سبطِ حسن کی کتابیں، ٹالسٹائی کا جنگ اور امن، ڈاکٹر انیس اشفاق کا ناول خواب سراب، گلزار کا تمام کام بال و پر سارے، ناصر عباس نئیر کے افسانے، فہمیدہ ریاض کا قلعہ فراموشی، جمیلہ ہاشمی کا دشت سوس، علی احمد خان کا جیون ایک کہانی اور صغیر ملال کی شاعری افسانے اور ناول خاص طور پر شامل ہیں۔ چلیں کوئی بات نہیں اگلی دفعہ لے لیں گے۔
سنگِ میل والوں کے پاس جتنے عمدہ لکھنے والے اور جتنے دیدہ زیب سروق والی کتابیں ہیں، کتابوں کی قیمتیں اتنی ہی پہنچ سے باہر ہیں۔ قرأۃ العین حیدر کی کار جہاں دراز ہے مجھے ہی پتہ ہے کہ چھوڑ کے آنے پہ کتنا دکھ محسوس ہو رہا ہے۔ 2500 کی کتاب ہے، میرے جیسا غریب آدمی کیا پڑھنا ہی چھوڑ دے۔ میرے اور عینی آپا کے بیچ میں ظالم سماج کا کردار سنگِ میل پبلی کیشنز والے ہی ادا کر رہے ہیں۔ اگلے جہان پہنچ کر ان کا بھی الگ سے حساب ہوگا۔
کچھ دوستوں کی کتابیں جو میں بہت اشتیاق سے لینے گیا تھا وہ مجھے کہیں نظر نہیں آئیں۔ رفاقت حیات کا میر واہ کی راتیں، عاطف علیم کا گردباد، رحمان عباس کا روہزن، آمنہ مفتی کا آخری زمانہ اور سید عامر حسینی کا کوفہ مجھے کہیں نہیں ملے۔ ان دوستوں کو پڑھنے کا جذبہ جوان رہے گا، کسی دوسری جگہ سے انہیں جا ڈھونڈوں گا۔
سنگِ میل پبلکی کیشنز کی لُوٹ مار سے بھی زیادہ دکھ جس بات کا ہوا وہ یہ تھی کہ میرے محبوب شاعر آنجہانی عبیداللہ علیم کی کوئی کتاب کسی اسٹال سے نہیں ملی۔ میں چاند چہرہ ستارہ آنکھیں کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا مگر کہیں سے کوئی صدا نہ آئی۔ ویران سرائے کا دیا بھی کسی منڈیر پر نہیں نظر آیا۔ ہم بھی بہت عجیب ہیں، کیسے کیسے خوبصورت انسانوں کے وجود اپنے تعصّبات کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ نہ جانے کیوں ڈرتے ہیں ہم، اور نہ جانے کیوں فن کو شخصیات سے الگ کرکے نہیں دیکھتے۔ کہہ رہے تھے کراچی کے پبلشر نے انہیں چھاپا ہے تو کراچی سے ہی ملیں گی۔ ان کم بختوں کو کون سمجھائے کہ وہ صرف کراچی کا شاعر نہیں تھا۔ اسے ہر جگہ زندہ رکھا جانا چاہیے۔
بہرحال کتاب میلوں میں یہی سہولت ہو جاتی ہے کہ بہت ساری کتابیں ایک ہی جگہ مل جاتی ہیں اور شہر بھر میں ادھر ادھر نہیں بھاگنا پڑتا۔ اس سہولت کے باوجود معیاری کتاب اپنی بھاری قیمت کی وجہ سے عام قاری سے کوسوں دور نظر آتی ہے۔ کتاب کی قیمت 2800 ہوگی تو کون خرید سکے گا۔ جس قحط الرجالی کا دور ہے اچھی کتابیں تو پڑھنے والوں کو مفت میں بانٹی جانی چاہئیں اور لوگوں کو پڑھنے پر انعام بھی دیا جانا چاہیے مگر یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔
کتاب دوستی کو ترویج دینے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ کتاب کی قیمتوں پر بھی نظرثانی کی جائے ورنہ زیادہ لوگ عام کتابیں ہی پڑھنے پر مجبور رہیں گے۔ ایکسپو سنٹر میں کتاب میلہ پیر کی شام تک سجا رہے گا۔ ہم جس طرح پوری فیملی کے ساتھ باہر جا کر پیزہ کھاتے ہیں اسی طرح اگر ایک چکر میلے کا بھی لگا لیں گے تو کوئی نقصان نہیں ہو جائے گا۔ آج دیکھیں گے تو شاید کل کلاں پڑھنے کو بھی دل کر ہی پڑے۔ آئیں کتاب کے ساتھ کھڑے ہوں۔