علم اور تشکیک
از، عاکف محمود
ہم جانتے ہیں کہ ڈیکارٹ نے اپنی کتاب میڈی ٹیشن میں تشکیکی سوالات‘ خصوصاً علم اور جانکاری کے تعلق سے‘ فلسفہ کی بنیاد میں داخل کر دیے تھے۔ اور ان دلائل کے جو جوابات ڈیکارٹ نے خود مہیا کیے وہ‘ اور اس کے معاصرین نے جو جوابات مہیا کرانے کی کوشش کی‘ وہ انتہائی نا قابل اعتبار اور متنازع ہیں۔ جس کے نتیجے میں اس بات کی تحریک ہوتی ہے کہ اس مسئلے کے گرد چکر کاٹ کر علم کے تعین کے پیمانے کا معیار کچھ نرم کر لیا جائے۔تا کہ ہم اپنے اعتقادات میں ایک فائدہ مند تفریق بہم کر سکیں۔ اس لیے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ان میں سے سارے علمی طور پرردّی ہوں یا صرف کچھ (جیسا کہ ’میں سوچتا ہوں سو میں ہوں ) ہی بلند ترین معیار تک پہنچ پائیں۔ لیکن یہ بات یقیناًعقلی طور پر مناسب معلوم ہوتی ہے کہ علم کی قدرے نرم اور درمیانہ درجے کی کوئی تعریف متعین کر لی جائے تا کہ ہم ان سب تصورات میں تفریق کر سکیں جنہیں ہم اپنے روز مرہ تعقل سے درست تسلیم کرتے ہیں۔
سو ہم قدرتی طور پر اس سوال پر پہنچتے ہیں کہ علم کیا ہے؟ ہمیں کس طرح علم کے تصور کو سمجھنا چاہیے؟
سوالات ‘جیسا کہ x کیا ہے‘ اوائل تاریخ فلسفہ ہی سے اہم رہے ہیں۔ آپ افلاطون کی کتاب مکالمات میں دیکھیں گے کہ سقراط ہمیشہ کسی چیز کے متعلق تصورات پر ایسے سوالات قائم کرتا ہے۔ فی الحقیقت اوائل فلسفہ میں مفکرین کے بارے میں یہی تصور تھا کہ یہ اشیا کے جوہر پر غور وخوض کر کے ان کی زیادہ صحیح تعریف متعین کرتے ہیں۔ اب ایسا نہیں ہے لیکن کچھ موضوعات جیسے تشخص اور شخصی آزادی وغیرہ کے موضوعات پر یہ سوالات آج بھی مرکزی اہمیت کے حامل ہیں۔اگر آپ ان سوالات پر سوچ بچار شروع کریں توایک معمے کی سی شکل بن جاتی ہے۔ کیونکہ یہ گمان ممکن ہے کہ جب ہم سے پوچھا جائے کہ xکیا ہے جیسا کہ شخصی آزادی ، تشخص ، علم وغیرہ تو اس سے مراد یہ ہو سکتی ہے کہ مذکورہ لفظ ہم کہاں استعمال کرتے ہیں ؟ مگر اس طرح تو یہ سوالات زبان کے ہمارے استعمال کے متعلق معلوم ہوتے ہیں۔ کیا ہم کسی گہرے معنی کی تلاش میں ہیں ؟ کیا یہ پوچھا جا رہا ہے کہ x کا جینوئین کیس کیا ہے ؟
اگر یہ سوال صرف ہمارے زبان کے استعمال سے تعلق نہیں رکھتا تو پھر یہ کیا ہے ؟یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے۔ علم کیا ہو سکتا ہے ؟ما سوائے اس تصور کے جوہم لفظ علم ادا کرتے ہوئے ذہن میں لاتے ہیں۔ چلیں اس مسئلے کی وضاحت ایک مثال سے کرتے ہیں۔ تصور کیجیے علم جغرافیہ کی ابتدا جگہوں ، نقشے پر ان کے درست مقامات پر موجودگی، آب و ہوا ، زرعی پیداوار ، معدنی وسائل‘ آبادی وغیرہ سے ہوئی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے مزید معلومات سے سروکار بڑھنے سے جگہ کی تجارتی ، پیداواری ، معاشی اہمیت کے علاوہ وہاں کی آبادی ، بول چال، رہن سہن اور تہذیب تک کو جغرافیہ میں شامل کر لیا گیا۔ اب کلچر کی تعلیم جغرافیہ کا باقاعدہ حصہ ہے۔ لیکن ٹھہریے‘ کیا منطقی طور پر کلچر جغرافیہ کا حصہ ہے ؟اس بارے کیا کہا جا سکتا ہے۔اگر جغرافیہ کی تعلیم کا نظم یہ کہتا ہے توکلچر کی تعلیم اب جغرافیہ میں شامل ہے۔سو یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اگر ہم x کی تعریف متعین کر رہے ہیں تو یہ زبان کے استعمال تک محدود ہو سکتی ہے۔ 1960 کے عرصے میں فلسفے سے وابستہ علمی دنیا کا ایک بڑا حصہ زبان کے عام استعمال پرغور و فکر سے منسلک رہا ہے۔ اسے عمومی زبان کی فلاسفی کا دور کہا جاتا ہے۔
اگر بات یہیں تک محدود رہتی تو غیر دلچسپ ہوتی۔ لیکن جیساکہ فلاسفرز سطحی معنی میں دلچسپی کم ہی رکھتے ہیں۔یہاں بھی کچھ گہرے مسائل سامنے آتے ہیں۔ آزادی کی مثال لیں۔ ہم صرف آزادی کی تعریف متعین کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے کیوں کہ آزادی کا تصور ذمہ داری کے تصور سے نتھی ہے‘ جس کے مذہبی و معاشرتی اثرات ہیں۔ ہماری دلچسپی یہ ہے کہ کس طرح کے افعال کو آزادانہ کہا جا سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہم کسی ایک فعل کو آزادانہ تصور کریں جبکہ وہ خدائی آنکھ کے تصور سے حقیقی طور پر آزادانہ نہیں ہے‘ یعنی ذمہ داری کا تعین ممکن نہیں۔ یعنی گناہ و ثواب اور جزا و سزا کے سب تصورات کی بنیاد ڈھے جاتی ہے۔ ہم کسی فرد کو آزاد سمجھ سکتے ہیں جبکہ وہ حقیقتاً آزاد نہیں۔ اس کا گرد و پیش اس کی نفسیات اور افعال کو ترتیب دیتا ہے‘ یعنی آزادی کے ما بعد الطبیعاتی و نفسیاتی معنی ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح نالج / علم کا معاملہ ہے۔ نالج کہنے سے ہم کسی شے کی فقط امتیازی و منفرد حیثیت و شناخت پر بات نہیں کر رہے ہوتے جو اسے دوسری چیزوں سے منفرد و ممتاز ظاہر کرتی ہے۔بلکہ ہم یہ قرار دے رہے ہیں کہ علم قابل اعتماد ہے اور ایک خاص اتھارٹی رکھتا ہے۔ اسی سے پیوستہ ایک اور سوال سامنے آتا ہے کہ فرض کیجیے ایک گروہ کسی ایک بات پر یقین رکھتا ہے کہ یہ درست ہے‘ تو کیا وہ اس یقین کی حقیقت جانتے ہیں؟ کیا اسے علم کہا جا سکتا ہے ؟ اسی طرح کا مسئلہ ’انڈکٹو پروبلم‘ میں سامنے آتا ہے جس کو اصطلاحاً سٹراسن کے جوابات کے نام سے معنون کیا جاتا ہے۔سٹراسن (Peter Frederick Strawson)نے کہا تھا کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کوئی قضیہ انڈکٹو میتھڈ پر پورا اترتا ہے تو ہم فقط یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یہ قضیہ ’ریزن ایبل‘ ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی کہے کہ یہ دنیا ریزن ایبل ہے تو اس کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ دنیا انڈکٹو میتھڈ کے طریقہ کار پر پورا اترتی ہے۔سٹراسن کو جو جوابات دیے گئے ان میں سب سے مشہور جواب یہ ہے کہ رکیے جب ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ انڈکٹو میتھڈ پر پورا اترنے والا قضیہ ریزن ایبل ہے تو اس سے فقط استنتاجی نتائج مراد نہیں ہوتے بلکہ انڈکٹو میتھڈ کا ہر ریفرنس اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ استنتاج ایک اتھارٹی کا حامل ہے۔
جیساکہ کچھ تصورات کا تجزیہ میں پیش کر رہا ہوں۔ یہ ایک عمدہ مثال ہے کسی علمی قضیے کے تجزیے کی بھی اور عمومی طورپر ان تصورات کے تجزیے میں ایک ہی قسم کے مسائل درپیش آتے ہیں۔ انہی میں سے ایک زبانی انٹیوشنز کا مسئلہ بھی ہے۔ انٹیوشن کے متعلق عمومی تصور یہ ہے کہ یہ بات میرے ذہن میں آئی ہے اسے تسلیم کر لیا جائے۔ اس کی منطقی وضاحت نہیں ہوتی اس لیے اس میں منطقی اتھارٹی نہیں ہوتی۔ لیکن زبان کی انٹیوشنز کا مسئلہ قدرے جدا ہے۔ کسی بھی اہل زبان کے ذہن میں کچھ باتیں خود بخود آتی ہیں اور زبان کے درست استعمال سے متعلق رہنمائی کرتی ہیں اور ایک خاص اتھارٹی کی حامل ہوتی ہیں۔پزل کیسز بھی اسی طرح کے مباحثوں کا عمومی منظر ہیں۔ کچھ لوگ انہیں انٹیوشن پمپس کہتے ہیں۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ آپ ایک تصوراتی منظر نامہ تشکیل دیتے ہیں اور اپنے سامع سے اس پر فوری رائے کے طلبگار ہوتے ہیں۔ ان پزل کیسز کو خاص طور پر اپنے مقدمات کی حمایت میں ڈیزائین کر کے پیش کیاجاتا ہے تا کہ آپ کا سامع آپ کو مثبت نتائج دے سکے۔ دونوں طرف کے حصہ دار ایسے کئی ایک تصوراتی منظر نامے تشکیل کر کے لاتے ہیں جو سامعین کی انٹیوشنز کو متحرک کر کے ان کی حمایت میں سوچ کو پیدا کر سکیں۔اس کے بعد دلائل اور سسٹیمیٹک اپروچ کے حربے ہیں۔ ہم ان انٹیوشنز اور سوچوں کو پیدا کرکے ان کے ملاپ سے اپنے مقدمات کے حق میں ایک خاص قسم کی سمجھ پیدا کرتے ہیں۔
اب ہم علم اور اس کے تغیرات پر بات کرتے ہیں۔ علم کو فی الوقت تین بنیادی اقسام میں تقسیم کرتے ہوئے آگے چلتے ہیں:
جاننا یعنی واقفیت
یہ جاننا کہ کیسے
اور یہ جاننا کہ علم فی الذات کیا ہے ؟
جو کچھ ہم کر رہے ہیں یہ پری پوزیشنل علم کہلاتا ہے اور فلسفے میں عموماً اسے نالج P سے ظاہر کرتے ہیں۔P سے واقف ہو نا کسی شخص یا شے سے واقف ہونے سے بالکل جدا اور مختلف تصور ہے۔ فرض کیجیے میں سائیکل سواری کرتا ہوں۔ لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ گدی پربیٹھ کر میں خود کو کیسے متوازن رکھتے ہوئے سائیکل چلانے میں کامیاب ہو جاتا ہوں۔ سو میں سائیکل سواری کا عملی علم تو رکھتا ہوں لیکن ہم اس قسم کے علم میں دلچسپی نہیں لے رہے۔ یہ عملی علم ہے یعنی کیسے کا علم۔
ہم جس علم کو جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ حقیقی علم ہے۔ تو ہم یہ کیسے طے کریں گے کہ نالج P سے ہماری مراد کیا ہے ؟ یعنی پروپوزیشن P ایک سبجیکٹ S کے لیے کیا ہے ؟ روایتی معیاری تجزیہ ٹریڈیشنل اسٹینڈرڈ اینالسس کہتا ہے کہP کو جاننے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہP حقیقی ہو۔ آپP کو اس وقت تک نہیں جان سکتے جب تکP حقیقی نہ ہو۔ اگرP فی الاصل غلط ہے تو آپ چاہے یہ یقین رکھتے ہوں کہP درست ہے‘ آپP کو نہیں جان سکتے۔ دوسرا معیار یہ ہے کہ آپ کوP پر یقین درکار ہے۔اگر آپ کاPپر یقین ڈھیلا ڈھالا ہے تو آپ اس کو علم نہیں کہہ سکتے۔ فرض کیجیے کہ میں کہتاہوں کل بارش ہو گی اور میرا یہ یقین اس لحاظ سے جسٹیفائیڈ ہے کہ میں نے موسم کی پیشن گوئی دیکھی ہے لیکن میرا یقین 60 فیصدکے برابر ہے‘ تویہ یقین کافی نہیں۔ مجھےP پر سو فیصد یقین ہونا ضرری ہے۔تیسری شرط علم کے لیے جسٹیفی کیشن ہے۔ اور کل ملا کر یہ تینوں شرائظ جسٹیفائیڈ ٹرو بلیف کہلاتی ہیں۔ چلیں یقین کے تعلق سے مزید کچھ سوالات کرتے ہیں۔ اگر کوئیP کو جانتا ہے تو کیا یہP کے سچ ہونے کے لیے کافی ہے ؟ اس کے متعلق دعویٰ دو طرح سے پیش کیا جا سکتاہے۔
S ،P کو جانتا ہے لہٰذا P سچ ہے۔
S ، P کو جانتا ہے اس لیے P لازم سچ ہے۔
دوسرا دعویٰ مبہم ہے۔ کیونکہ ایس کے پی کو جاننے کا مطلب P کا سچ ہونا نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میں وجود رکھتا ہوں لیکن کسی زمانے میں میں وجود نہیں رکھتا تھا اور آئندہ زمانے میں کسی وقت میں وجود نہیں رکھوں گا۔لہٰذا میرا وجود ایسا سچ نہیں ہے جیسے ایک برابر ہے ایک کے۔ یا دو بڑا ہے ایک سے۔ سو مختصراً اس کے معنی یہ ہوئے کہ جاننے کے مطلق معنی سچائی ہونا کے نہیں ہیں۔
اب ہم پہلے دعوے پر نظر ڈالتے ہیں۔ اینالسس کے لیے پہلی شرط ہی یہ ہے کہP سچ ہو یعنی پہلا دعویٰ درست ہے اور غیر مبہم ہے۔ فلسفے میں الفاظ کے استعمال پراسی لیے ضرورت سے زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ الفاظ کی ترتیب گمراہ کر سکتی ہے۔ ایک زائد لفظ بات کو کہاں سے کہاں لے جا سکتا ہے اور ایک غلط لفظ کی تفہیم پورے فکری نظام کی تفہیم میں غلطیوں کا باعث ہو سکتی ہے۔
اب ہم پہلے دعوے سے آگے چلتے ہیں اگر ’ایس‘ جانتا ہے کہ P سچ ہے تو کیا P واقعی سچ ہے ؟ اس کے لیے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ فرض کیجیے کہ میں کہتا ہوں کہ فرانس ہیکسا گونل ہے لیکن فرانس ہیکسا گونل نہیں ہے۔ یعنی میں ایک غلط بات کو جانتا ہوں اور اس پر یقین رکھتا ہوں۔ لیکن میں کہتا ہوں رکیے فرانس ایک طرح سے ہیکسا گونل ہے۔ ڈھیلے ڈھالے انداز میں فرانس کا نقشہ ہیکسا گونل اور اٹلی کا کسی بوٹ کی مانند ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ فرانس کا نقشہ حقیقی طور پر ہیکسا گونل نہیں ہے اور حقیقت میں تو فرانس ہیکسا گونل جیسی کوئی شے نہیں۔ ایسے مقدمات میں صرف بیان کی درستی ہی سے سچائی معلوم کی جا سکتی ہے۔
ممکن ہے کوئی آپ سے کہے P آپ کے لیے سچ ہو سکتا ہے میرے لیے نہیں جبکہ حقیقتاً وہ صرف یہ کہہ رہا ہے کہ میں P پر یقین رکھتا ہوں اور وہ P پر یقین نہیں رکھتا۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ سچ ہے ازمنہ وسطیٰ میں سورج زمین کے گرد گھومتا تھا جبکہ یہ اس دور کا معروف و معقول یقین تھا جو اسے سچ نہیں بناتا۔ اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ بر اعظم حرکت پذیر ہیں لیکن صدیوں پہلے کے کسی فرد کو یہ بات بتائی جاتی تووہ بالکل یقین نہ کرتا لیکن اگر ہم زمانہ قدیم میں اس حرکت کو نہیں مانتے تھے تو اس سے اس کے سچ ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتابلکہ اگر ہم اس پر یقین نہ رکھیں تو زمین پر فوسلز کے بکھرنے کی درست توجیہہ ممکن نہیں رہتی۔یہاں سے ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ آپ غلط کو جان نہیں سکتے اور یقین کے مسائل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔کیا P کے متعلق علم کے لیے P پر یقین ضروری ہے؟
یہ اتنی واضح بات نہیں بلکہ کافی مبہم ہے۔ فرض کیجیے میں ایک محفل میں جاتا ہوں جہاں تفریح کے لیے ایک کوئیز پوچھا جا رہا ہے۔کوئیز کے مندرجات میں ممالک کے نام کو ان کے دارلخلافہ کے ساتھ ملانا ہے۔میں منتظم سے کہتا ہوں کہ مجھے ان کا علم نہیں اس لیے معذرت لیکن میزبان اصرار کرتے ہیں کہ میں کوئیز میں لازماً شریک ہوں۔ خیر میں جوابات لکھتا ہوں اور اتفاق سے سارے جواب درست ہیں۔ اس کی وضاحت کے لیے مختلف توجیحات پیش کی جا سکتی ہیں۔ ممکن ہے کہ میں نے اپنے بچپن میں جغرافیے کے جس استاد سے پڑھا وہ اس خاص ضمن میں کافی مشق کرواتے تھے جو اَب میرے ذہن میں نہیں تھی لیکن لاشعوری طور پر اس پختہ مشق کی بدولت میں سب سوالات کے درست جواب دینے میں کامیاب ہو گیا جبکہ خوش قسمتی سے لسٹ بھی انہی ممالک تک محدود تھی جو میرے بچپن کے زمانے میں نصاب میں موجود تھے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن میزبان کہہ سکتے ہیں کہ دیکھیے عاکف کو یقین تھا کہ اسے جوابات کا علم نہیں لیکن دیکھیے اسے علم تھا۔
علم بارے اس مثال کو پیش نظر رکھیں تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ میرا یقین لا شعوری ہے لیکن اگر اسی مثال کو تھوڑا پلٹا لیں تو اس منطق کی کمزوری عیاں ہو جاتی ہے۔ فرض کیجیے یہی کوئیز کچھ اور لوگوں کو دیا جاتا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ وہ درست جوابات جانتے ہیں۔ لیکن نتائج یا جوابات بالکل غلط نکلتے ہیں اور ایسا کوئیز کو دو تین بار دہرانے پر بھی ہوتا ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا یقین پختہ ہے لیکن متصورہ لوگ لا علم ہیں۔ اس کی ایک اور دلچسپ مثال ایک دماغی مسئلے میں ملتی ہے جسے بلائنڈ سائٹ کہا جاتا ہے۔ اس سے متاثرہ فرد کا ذہن ایسے متاثر ہوتا ہے کہ اسے کسی شے کے دیکھنے کا شعوری احساس نہیں ہوتا ۔
ایسے کسی فرد کو آپ ایک کمرے میں لے جائیں اور اسے چند چکر گھما کر چھوڑ دیں اور اس سے یہ سوال پوچھیں بتاؤ میز کس طرف ہے۔ تو اس کا جواب ہو گا میں کیسے بتاؤں جبکہ میں دیکھ نہیں سکتا ؟ آپ اس پر زور دیں تو زیادہ تر اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ وہ درست شے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں مذکورہ فرد کو یقین نہیں اور اس کا کوئی لاشعور ریکارڈ ہونے کا سوال بھی نہیں لیکن یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ وہ ’کچھ ‘ جانتے ہیں۔ اس مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ تحریک ہوتی ہے کہ یہ شرط عائد کی جائے کہ علم شعوری ہوتا ہے۔ کہ جب آپ کسی چیز کو جانتے ہیں تو اس کا ادراک بھی ہوتا ہے لیکن اس میں ایک اور مسئلے کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
Pکو جاننے کے لیے آپ کا Pکے جاننے کو جا ننا ضروری ہے۔ اور اس جاننے کے لیے آپ کو P کے جاننے کے جاننے کو جاننا ضروری ہے اور اس فہرست کو لمبا کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ دس بیس بار جاننے کے عمل تک ہی کھینچے تو اس کا ادراک ممکن نہیں رہتا۔ ادراک تو کجا تفہیم تک کھو جاتی ہے۔
اس مسئلے کے پیش نظر ہمارے پاس دو طرح کی انتہائیں موجود ہیں۔ ایک طرف کے لوگ یقین کو شرط ٹھہراتے ہیں اور دوسری طرف ادراک اور دونوں طرف کڑی شرائط کو معیار مان لیا جائے تو یہ عمل درست دکھائی نہیں دیتا کیونکہ آپ جاننے کی ہر کڑی کا مکمل ادراک کر سکتے ہیں نا اس کی درستی پر مکمل یقین قائم رکھ سکتے ہیں۔ یعنی علم کی خود انعکاسی و شعوری ادراک کی شرائظ پوری نہیں کی جا سکتیں اور یہ امر ہمیں جسٹیفکیشن کی طرف جھکنے پر مجبور کرتا ہے اور اس کی کلیدی اہمیت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے۔
فرض کیجیے میں P کے سچ ہونے پر فقط یقین رکھتا ہوں۔یہ تنہا یقین علم کے شرائط کے لیے کافی نہیں۔ یہ فقط ایک تکا/اندازہ بھی ہو سکتا ہے اور مطلق غلط بھی۔ یہ ایسی معلومات ہو سکتی ہیں جو قابل انحصار نہیں۔ میرا مخبر بالکل نا قابل اعتبار ہو سکتا ہے جس نے مجھے اسی واحد موقع پر درست خبر دی ہو اور ایسے ہی میرے یقین کے غلط / صحیح ہونے کی متعدد وجوہات ممکن ہو سکتی ہیں۔ سو میرا یقین علم کے درجے تک نہیں پہنچتا اس لیے قابل انحصار نہیں۔ اور یہ قابل انحصار اس لیے نہیں کہ یہ جسٹیفائیڈ نہیں۔ میں ان پر یقین رکھنے اور انہیں جاننے میں منصفانہ شرائظ کو پورا نہیں کر پایا۔
اب Pپر جسٹیفائیڈ یقین کے لیے کسی دوسرے یقین سے حوالہ ہی ممکنہ راستہ ہے۔اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ آپ Pکو کیسے جانتے ہیں تو میرا جواب یہی ہو گا کہ میں P کو Q کی وساطت سے جانتا ہوں۔ اور پھر سوال یہ ہو گا کہ Q کو کیسے جانتے ہیں تو میرا جواب شاید یہ ہو گا کہTکی وساطت سے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ ہر حوالہ پہلے کسی حوالے سے جڑا ہو گا‘ ہر یقین دوسرے یقین سے بل کھا کر اسے مضبوط کر رہا ہو گا۔ لیکن تابکے‘ کہیں نہ کہیں ہم اس سلسلہ کو ختم کرنے پر مجبور ہیں۔ اب اس مسئلے کا کیا حل ہو ؟
جاننے اور اس کی جسٹیفکیشن میں شرائط کی پیچیدگی کو مد نظر رکھتے ہوئے دو طرح کے حل پیش کیے گئے۔ ایک کو ’کوہیرنٹ ازم‘ کہا گیا جس کے مطابق آپ کے پاس ایقانیات ایک جال کی صورت جمع ہوتی ہیں جن میں ہر یقین دیوار کی اینٹوں کی طرح ایک دوسرے کی مضبوطی کا باعث بنتا ہے‘ اور ان کا باہم مضبوطی سے گتھا ہونا ہی ان کو جسٹیفائی کرنے کے لیے کافی ہے۔
دوسرا نکتہ نظر ’فاؤنڈیشنل ازم‘ کہلاتا ہے جس کے حامیوں میں ڈیکارٹ بھی شامل تھا۔ اس اسکول آف تھاٹ کے مطابق آخر کار آپ کو یہ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ چیزوں کو آپ بلاواسطہ جانتے ہیں اور ان کی جسٹیفکیشن کے لیے حوالہ درکار نہیں۔ مثلاً ایک برابر ہے ایک کے‘ آپ کیسے ’ایک برابر ہے ایک کے‘کی جانکاری کی وضاحت کرتے ہیں؟ آپ کا جواب ہو گا میں اسے سچ سمجھتا ہوں اور اس کے لیے مجھے کسی اور ایکویشن سے حوالہ دینے یا ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔ ڈیکارٹ کا کہنا تھا کہ بعض یقین خود انحصار و خود مکتفی ہوتے ہیں۔ نہیں مزید آسان فہم انداز میں پیش کرنا ممکن نہیں۔ اس مسئلے کے حل کی جدید تر طرح یہ ہے کہ آپ جسٹیفکیشن کی اندرونی شعوری ضرورت کی بجائے اسے بیرونی نکتہ نظر سے سمجھنے کی کوشش کریں ، اس نکتہ نظر کو’ ایکسٹرنل ازم‘ کا نام دیا گیا ہے اور آج کل یہی طرزفکر رائج و مستعمل ہے۔
انٹرنلسٹ کے نکتہ نظر میں جسٹیفکیشن کے لیے ہر حوالے کا دوسرے سے جڑا ہونا اور اس کا شعوری ادراک اور قابل وضاحت ہونا لازم ہے‘ ایکسٹرنل ازم میں یہ سخت تر شرط عائد نہیں ہوتی۔ایکسٹرنل ازم کے مطابق بعض اوقات شعوری ادراک کی وضاحت کیلیے شرائط آپ کی پہنچ میں نہیں ہوتیں۔ اس کا ایک ظاہری فائدہ تو یہی ہے کہ فرض کیجیے آپ ایک صورتحال میں کہنا چاہتے ہیں کہ کتا بلی کی موجودگی سے واقف ہے۔کتے کو یہ علم کیسے ہوا ؟ ظاہر ہے اس نے بلی کی موجودگی اس کی بو کی موجودگی سے جان لی۔ یہاں بو علت اور معلول کا تعلق بناتی ہے۔ کیا کتا اس علم کی وضاحت کر سکتا ہے ؟ ظاہر ہے وہ ایسا نہیں کر سکتا بلکہ علت و معلول وضاحت کے لیے کافی ہیں۔ کتے اور بلی کی مثال سے یہ قانون ہم انسانوں پر لاگو کیوں نہیں ہو سکتا ؟ بظاہر اس کی کوئی وجہ نہیں اور ایسی صورت میں یہ کہنے کی تحریک جنم لیتی ہے کہ علم کے لیے کلیدی اہمیت جسٹیفکیشن کی نہیں بلکہ علت و معلول کے تعلق کی وضاحت سے بھی علم کی وضاحت ممکن ہے۔
اس سے آگے چلیں تو فلسفے کی تاریخ کے مشہور ترین پزل کیسزپر نظر پڑتی ہے۔ ڈھائی صفحوں کا یہ مضمون یعنی گے ٹیئر کیسز (Gettier-cases)فلسفے کی تاریخ کا شاید مشہور ترین مقالہ ہے۔ کم از کم ہم ایپسٹومولوجی کی حد تک یہ بات بہت محفوظ طریقے سے کہہ سکتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جسٹیفائیڈ ٹرو بلیف کے اندر موجود خلاؤں کی وضاحت بہت عمدہ طریقے سے کرتے ہیں۔
فرض کیجیے ’پی ‘ ایسی معلومات ہے جس پرمیں یقین کرنے میں مکمل طور پر جسٹیفائیڈ ہوں۔ اور ’پی‘ کے حوالے سے ’کیو‘ کا حوالہ ’پی‘ سے بلاواسطہ استخراج ہوتا ہے۔
ایسی صورت میں کہا جا سکتا ہے کہ میں ’کیو‘ پر یقین کرنے میں جسٹیفائڈ ہوں۔بظاہر یہ بات درست معلوم ہوتی ہے لیکن گیٹیئر کیسز اس ایکویشن میں موجود خلاؤں اور ممکنہ اغلاط کی وضاحت کرتے ہیں۔ فرض کیجیے میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ ایک صحرا میں ہوں‘ مجھے ایک سراب دکھائی دیتا ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ نخلستان ہے۔میں اپنے دوست کو اشارے سے بتاتا ہوں کہ وہاں نخلستان ہے۔ اب اتفاقاً اس سمت میں ایک ٹیلے کے پار نخلستان موجود بھی ہے۔ اب میں نے ایک نخلستان دیکھا اور کیس یہ ہے کہ وہاں نخلستان موجود بھی ہے اور میں نے یقین مانتے ہوئے جس علم کو منتقل کیا وہ بظاہر جسٹفائیڈ اور سچ بھی معلوم ہوتا ہے لیکن میری تفہیم سچ یا درست نہیں ہے۔ یعنی ہاں ایک درست کیس غلط تفہیم کے باوجود موجود ہے۔
گیٹیئرنے خود اسے ایک زیادہ واضح مثال کے ذریعے پیش کیا۔ فرض کیجیے ایک جگہ ملازمت کے حصول کے لیے بہت سے امیدوار جمع ہیں جن میں دو مرد ہیں‘ باقی خواتین۔ حضرات میں ایک صاحب بہت پڑھے لکھے اور اعلیٰ کوالیفائیڈ ہیں جبکہ دوسرے صاحب ان کے مقابلے میں کافی نااہل ہیں‘ حتیٰ کہ خواتین امیدوار تمام کی تمام ان سے زیادہ کوالیفائیڈ ہیں۔ اب میں یہ جانتا ہوں کہ ملازمت مرد امیدوار کو ملے گی لیکن اس میں ایک گھپلا ہو جاتا ہے۔ رشوت ، سفارش یا بلیک میلنگ کسی بھی بنا پر نااہل مرد کو تعینات کر دیا جاتا ہے۔
اب میں یہ یقین کرنے پر جسٹیفائیڈ ہوں کہ مرد امیدوار کو ملازمت ملی اور درحقیقت ہوا بھی یہی ہے لیکن کیس غلط ہے کیونکہ جس مرد کے حوالے سے میں یقین رکھتا تھا ملازمت اسے نہیں ملی۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک شرط مزیدعائد کرتے ہیں کہ نہ صرف کسی شے کے بارے علم کے لیے اس کا سچ ہونا ، اس کو جاننا اس پر محکم یقین ہونا اورمعلومات کا جسٹیفائیڈ ہونا ضروری ہے بلکہ ان کے علاوہ متعلقہ حوالہ جات کا درست ہونا بھی شرائط میں شامل ہے۔گیٹیئرکاؤنٹر ایگزامپلز سے بچنے کے لیے یہی راہ مناسب ہے۔ ایک دور میں گیٹیئر کاؤنٹر ایگزامپلز سے راہ فرار یا پیچز یا پیوند لگا کر بچنے کی کوششیں عروج پر تھیں اور ایسے پیوندوں کی اختراع سازی کا کام زوروں پر تھا لیکن در حقیقت اس مسئلے کا تسلی بخش حل ابھی تک دریافت نہیں ہو پایا۔
اس ضمن میں ایک مثال مزید پیش کرتا ہوں۔فرض کیجیے میں ایک ایونٹ آرگنائز کر رہا ہوں اور اس سلسلے کے اگلے ایونٹ کے انعقاد کے لیے مجھے شرکا کی تعداد کا علم ہونا ضروری ہے تاکہ میں اگلی بار ہال یا بڑے کمرے کو بک کرا سکوں۔ میرا کارندہ میرے پاس آکر مجھے بتاتا ہے کہ شرکا کی کل تعداد 78 ہے۔ جس سے میں نتیجہ نکالتا ہوں کہ یہ تعداد 40 سے زائد ہے کہ جس تعداد میں میں دلچسپی لے رہا تھا تا کہ اگلی بار بڑی جگہ بک کرا سکوں‘ لیکن اصل میں شرکا کی کل تعداد 78 نہیں 77 تھی۔ اس صورت میں میں نے جو نتیجہ نکالا وہ درست ہے۔ اس کا حوالہ یعنی چالیس سے زائد بھی درست ہے۔ لیکن جس معلومات کی بنا پر میں نے ایسا کیا وہ غلط ہے۔ یعنی میں نے غلط معلومات سے درست مطلوبہ نتیجہ برآمد کیا۔ جسے علم نہیں کہا جا سکتا۔
ممکن ہے کہ اس مثال کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ میرے نتیجے کو درست قرار دینے کے لیے متعدد تاویلات پیش کرنا چاہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ میرا نکالا ہوا نتیجہ علم کی شرائط پر پورا نہیں اترتا ۔اس صورتحال سے اس بات کی تحریک ہوتی ہے کہ ہم اس میں ایک اور شرط عائد کریں جسے پروبیبلٹی کہا جا سکتا ہے۔ اس تاویل سے میرے نکالے گئے نتیجے کو درست کہا جا سکتا ہے کہ بہت زیادہ امکان ہے کہ میرا نکالا گیا نتیجہ درست ہے جس سے ہمارے سامنے ایک اور مسئلہ آ کھڑا ہوتا ہے جسے اصطلاحاً لاٹری پیراڈوکس کا نام دیا گیا ہے۔ فرض کیجیے ایک لاٹری میں ایک ارب ٹکٹ ہیں۔میں سوچتا ہوں کہ وہ ٹکٹ جس پر سارے ہندسے صفر ہیں اس کے جیتنے کے امکانات نہیں۔ پھر یہی گمان اس سے اگلے ٹکٹ اور اس سے اگلے حتیٰ کہ تمام ٹکٹس کے بارے میں ہے۔
اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس بات کا اغلب امکان ہے کہ تمام ٹکٹس کے بارے میں میرا یہ گمان درست ہے یا بہت زیادہ غالب امکان یہی ہے کہ فرداً ہر ٹکٹ کے بارے میں میں یہ کہتا ہوں کہ یہ لاٹری نہیں جیت سکتا لیکن آخر ایک ٹکٹ کو لاٹری جیتنا ہے۔ ایسی صورت میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پروبیبلٹی کے مطابق میراکہا درست ہے لیکن میرا گمان علم نہیں ہے۔اس مثال کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم یہ نکتہ نظر اختیار کر سکتے ہیں کہ یہ پروبیبلٹی نہیں حادثات کے ظہور کے امکان کو خارج کرنے کا مسئلہ ہے۔ علم کے یقینی ہونے کے لیے ہمیں ایسے حادثات کے ظہور کو روکنا ہے جو تشکیک کو جنم دیں۔
ہم پروبیبلٹی پرنسپل میں موجود خلا کو کور کرنے کے لیے اس میں حادثات کے امکانات کے خاتمے کی بات کر رہے ہیں۔ میں نے سوچا کہ ایک مرد کو ملازمت ملنے والی ہے جس میں ایک حادثے نے میرے علم میں خلا پیدا کر دیا۔ ایسے حادثات سے بچنے کا کوئی طریقہ کار ہونا ضروری ہے تا کہ علم کی ٹھوس صورت ممکن ہو۔ جیسے سراب کی سمت میں نخلستان کی موجودگی کا اتفاق؛ ایسے اتفاقات سے بچ پانا ہی مسئلے کا درست حل معلوم ہوتا ہے لیکن عملاً یہ صورت نہایت مشکل ہے۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے میری کار کا سپیڈو میٹر زنگ آلود ہے اور زنگ کے باعث دو کلو میٹر کے فرق کے ساتھ سپیڈ بتاتا ہے اور میری عادت یہ ہے کہ میں ہمیشہ حدِ رفتار کے دو کلو میٹر اندر رہ کر کار چلاتا ہوں‘ جیسے اگر حدِ رفتار 40 کلو میٹر ہے تو 38 کی رفتار سے گاڑی چلانا میری عادت ہے۔ اب میری لاعلمی کے باوجود کارکا مقررہ حدِ رفتار کے اندر ہونا ایک اتفاق ہے لیکن کیا اس اتفاق کے نتیجے میں میرا ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی سے بچے رہنا بھی اتفاق ہے ؟ نہیں ! یہ اتفاق نہیں ہے۔ سپیڈو میٹر کا مجھے حدِ رفتار کے اندر رکھنا میری خوش قسمتی ہے لیکن اس کے نتیجے میں میرا محفوظ رہنا اتفاق نہیں ہے۔
اسی طرح تصور کیجیے کہ میں اشیا اور تصورات کے متعلق ہیلوسینیشن کا شکار ہوتا رہتا ہوں۔ کیا اس کا مطلب یہ اتفاق ہے کہ میرا موجودہ نکتہ نظر یا تیقن ہیلوسینیشن نہیں ہے ؟
اسی طرح کا ایک اور مسئلہ ان ساری شرائط کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔ وہ ہے تناظر کا مسئلہ؛ عملی زندگی میں ہم لفظ علم کو جس تناظر میں استعمال میں لاتے ہیں کیا یہ وہی تناظر ہے جس کے مطابق ہم ایپسٹمولوجیکل نکتہ نظر کے مطابق علم کو دیکھنا چاہتے ہیں ؟
تصور کیجیے کہ آپ شمال کی طرف جانے والی ٹرین میں سفر کرنا چاہتے ہیں۔ میں روزانہ اس ٹرین میں سفر کرتا ہوں لہٰذا میں آپ کی رہ نمائی کرتے ہوئے آپ کو بتاتا ہوں کہ ٹرین پانچ بج کر چھتیس منٹ پر پلیٹ فارم سے چھوٹے گی۔ آپ جس میٹنگ میں شرکت کرنے جا رہے ہیں وہ بہت اہم ہے۔ آپ تصدیق کی غرض سے مجھ سے پوچھتے ہیں کیا مجھے واقعتا یقین ہے کہ ٹرین پانچ بج کر چھتیس منٹ پر پلیٹ فارم چھوڑے گی۔ سو میں ویب سے چیک کرکے اپنی بات کی مزیدتصدیق کرتا ہوں لیکن آپ بہت زیادہ متوحش ہیں اور آپ مجھ سے کہتے ہیں کہ کیا میں واقعتا، واقعی جانتا ہوں کہ ٹرین متذکرہ وقت پر چھوٹے گی؟ سو میں ریلوے کاؤنٹر سے جا کر اس بات کی مزید تصدیق بہم کرتا ہوں۔ حتیٰ کہ اس طرح کے مزید پیمانے بھی موضوع اور مضمون کی اہمیت کے لحاظ سے شامل کیے جا سکتے ہیں۔ یعنی ہم علم کی تعریف کے پیمانے اس کی اہمیت کے پس منظر میں متعین کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ علم مطلق قدر نہیں ہے بلکہ اپنے تناظر کے لحاظ سے ریلیٹو قدر کا حامل تصور ہے اور شخصی ضروریات کے تناظر پر منحصر ہے۔
فرض کیجیے آپ ایک ڈرامے کا ایک ڈائیلاگ سنتے ہیں:
’’کیا وہ جانتی ہے کہ اس کا شوہراس سے بے وفائی کر رہا ہے ؟‘‘
اس کا ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ کیا اسے یقین ہے کہ اس کا شوہر اس سے بے وفائی کر رہا ہے ؟ اسی ایک جملے کو اس تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ’ شاید‘ اس کا شوہر اس سے بے وفائی کا مرتکب ہو رہا ہے اور یہ دونوں سوال اس کے علم یعنی ایپسٹمولوجیکل حالت کے بارے میں نہیں بلکہ اس کے تیقن کے بارے میں ہیں۔اسی طرح اسی ایک جملے میں ایک اور کیس کا اضافہ ممکن ہے۔فرض کیجیے اس عورت کے شوہر پر کوئی الزام لگا رہا ہے کہ وہ بے وفائی کا مرتکب ہو رہا ہے مگر میں پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو؟ کہ وہ بے وفائی کا مرتکب ہو رہا ہے؟ اس کیس میں میں کیس کی حقیقت بارے متفکر ہوں کہ ’اصل ‘معاملہ کیا ہے۔
آپ ایک مثال یہ بھی لے سکتے ہیں کہ ایک ٹرین حادثے کا شکار ہو جاتی ہے جس میں میرا کوئی عزیز بھی سوار تھا۔ اس صورت میں میرا یہ پوچھنا کہ میرا عزیز ٹھیک ٹھاک ہے ؟ ایپسٹمولوجیکل نکتہ نظرسے نہیں بلکہ میں صرف یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ میرا عزیز خیریت سے ہے ‘سو میں صرف فیکٹ میں دلچسپی رکھتا ہوں۔عمومی اور عملی زندگی میں اشیا کے بارے میں ایپسٹمولوجیکل نکتہ نظر سے سوالات کرنا نہایت غیر معمولی طرز عمل ہے۔ عموماً جب ہم کسی سے سوال پوچھ رہے ہوں تو ہمارے سوال کا عمومی تعلق اس کے تیقن کی حالت یا حقائق جاننے کے نکتہ نظر سے ہوتا ہے اور صرف فلسفی ہی متعلقہ گہرائی اور کرید کے اس عمل میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
اگر انہی نکات کو مد نظر رکھا جائے تو کوئی ایک ایسا مستقل بیان جسے علم قرار دیا جا سکے‘ حاصل ہونا نہایت مشکل نتیجہ ہے۔ تو کیا اس نکتے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں لفظ علم کو اس کے مختلف پیش و پس منظر میں دیکھنا چاہیے ؟ یہ نہایت اہم سوال ہے۔ اس پورے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ویٹکن اسٹائین نے ایک بہت اہم کتاب تصنیف کی ہے جس کا نام ’‘فلاسوفیکل انوسٹی گیشن ’‘ ہے۔
تشکیک‘ ایکسٹرنل ازم اور ایقان کی اخلاقیات
فرض کیجیے‘ پچھلے تمام بحث کے مطالعے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہم لفظ علم کو اس کے عام استعمال کے معنی میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اس بات کو جائز ٹھہراناچاہتے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ ٹرین 5 بج کر 36 منٹ پر پلیٹ فارم چھوڑ رہی ہے‘ چاہے میں پیرا نائیڈ ہوں یا خواب دیکھ رہا ہوں‘ اور ہم تناظر پسندوں کی بات کو بھی وزن دینا چاہتے ہیں جو علم کی قدر اس کے پس منظر کے لحاظ سے متعین کرنا چاہتے ہیں۔یہ تو یقینی ہے کہ ہم ان تعقل پسندوں کی بات نہیں ماننے والے جو جاننے کی سخت شرائط کے حامی ہیں۔ اس کے لیے سو فیصد یقین کے علاوہ جسٹی فکیشن کا ایک مضبوط نظام چاہتے ہیں بلکہ اس کے عین بر عکس ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ کہہ سکیں کہ کتا اور بلی بھی علم رکھتے ہیں اور ایک بالکل عام آدمی جس کے ہوش و حواس درست کام کر رہے ہیں‘وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ کچھ چیزیں اس کے علم میں ہیں چاہے وہ کسی فلسفی کی طرح اپنے علم کی وضاحت پیش نہ کر سکے۔
یہ ساری بحث ہمیں فطری طور پر ایکسٹرنل ازم کے نکتہ نظر پر واپس لے آتی ہے اور ایکسٹرنل ازم کا علم کا حوالہ پرکشش معلوم ہونے لگتا ہے۔یہ نکتہ نظر مجھے اس قابل بناتا ہے کہ میںیہ دعویٰ کر سکوں کہ یہ میرا ’ہاتھ‘ ہے جس سے میں درج شدہ تحریر لکھ رہا ہوں۔چاہے میں اس دعوے کو ثابت نہ بھی کر سکوں اور یہ بھی ممکن نہ ہو کہ میں اس جانکاری کے جاننے کے عمل کو جان سکوں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ اشیا میرے ذہن کے باہر کیسے وجود رکھتی ہیں۔ مختلف وجوہاتی ارتباط جو بیرونی دنیا اور میرے حواس میں ہیں جب تک درست کام کر رہے ہیں‘ مجھے ادراک / علم کا ہونا ممکن ہے۔مجھے اس کی حقانیت جاننے کے لیے کوئی ماہر فلاسفر یا انسانی حواس کا ماہر ہونے کی ضرورت نہیں۔ مگر تشکیک میرے ارد گرد ہی کہیں موجود ہے۔
فرض کیجیے‘ جو کچھ میں نے ابھی بیان کیا‘ ہم اسے درست تسلیم کر لیتے ہیں۔ لفظ علم جیسا کہ ہم عام استعمال کرتے ہیں اسی طرح کے ایکسٹرنلسٹ اکاؤنٹ کے ساتھ لگا کھاتا ہے اور مختلف ڈھیلے ڈھالے انداز میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ شک کو رفع کرنے کے قابل نہیں۔ کیونکہ مشکک کہہ سکتا ہے کہ دیکھو جو کچھ تم کہتے ہو اگر درست ہے‘ اگر تمہارا یقین فی الواقعی سچ ہے تو میں یہ تسلیم کر لوں گا کہ تم وہ سب جانتے ہو جو تم نے ابھی بیان کیا۔ مگر میں پھر بھی تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ بیان کردہ یقین غلط ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ گر ایک مشکک کے تمام سوالات کے جواب ایک بیرونی آنکھ کے نقطۂ نظر سے جیسے (خدا کی آنکھ ) دے بھی دیے جائیں اور خدا نیچے دیکھتے ہوئے یہ قرار بھی دے دے کہ عاکف کے حواس درست کام کر رہے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ میں ہاتھ سے درج شدہ تحریر لکھ رہا ہوں‘ تو بھی اس کی اندرونی تصدیق ممکن نہیں ہے‘ اور یہ تشکیک میں خود بھی سمجھ سکتا ہوں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا تشکیک کے ان سوالات کا جواب ممکن بھی ہے یا نہیں۔ حیرت انگیز طور پر جو ممکنہ جوابات سامنے آتے ہیں۔ ان میں سے ایک کا ماخذ زبان کا عمومی تجزیہ ہے۔فرض کیجیے میں اپنے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ یہ ہاتھ ہے اور اس سے میں یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ یہ ایک اور اس کے ساتھ دوسرا ہاتھ یعنی یہ دو ہاتھ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ ’ہاتھ‘ ہیں ؟ مشکک اعتراض کرتا ہے۔ فرض کرو تم فقط مشین میں رکھے ایک دماغ ہو اور جو کچھ تم دیکھ رہے ہو وہ ایک کمپیوٹر سٹیمولیشن‘ تو تم حواس کی درستی کو کیسے ثابت کرو گے؟ تم کیسے ثابت کرو گے کہ تم فقط خواب ہی نہیں دیکھ رہے ؟
ٹھیک ہے جواباً میں فرض کر لیتا ہوں کہ میں مشین میں رکھا ایک دماغ ہوں اور میں ہاتھ کو دیکھتا ہوں اور پھر دوسرے ہاتھ کو دیکھتا ہوں۔مجھے خیال آتا ہے یہ کوئی چیز ہے جو متحرک ہے اور میں اسے ہاتھ کہہ کر پکارتا ہوں جبکہ درحقیقت جو میرے دماغ کو دکھایا جا رہا ہے وہ ہاتھ نہیں ہاتھ کا عکس ہے تو جب میں نے لفظ ہاتھ استعمال کیا تو اس سے مرادوہ اصلی ہاتھ تھے یا ان کا عکس جو کچھ بھی مجھے دکھایا گیا۔ تو اس کا مطلب یہی ہے کہ جس چیز کی طرف میں نے اشارہ کیا وہ ہاتھ ہی ہیں۔ ای ایم موئر کے الفاظ میں میں کہہ سکتا ہوں ’ یہ ہے ایک ہاتھ اور یہ رہا دوسرا ہاتھ‘ اور اگر یہ صورت ہے تو مشکک کی تشکیک کو شکست دینا ممکن نظر آتا ہے۔ یا کم از کم مجھے اس چیز کی فکر نہیں کہ جس چیز کو میں نے بطور ہاتھ کے مینشن کیا وہ کوئی اور شے ہے۔ یہ وہ اپروچ ہے جو ہیلری پٹنم نے تجویز کی تھی۔ مگر آپ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ اتنے بڑے مسئلے کا اتنا سادہ حل؟ یہ کچھ زیادہ ریڈی میڈ سا حل نہیں ہو گیا ؟ اور مشکک کی نظر میں تو یہ جواب قطعی غیر تسلی بخش ہو گا۔
اس کی ایک وضاحت یوں بھی ممکن ہے کہ جب میں اپنے ہاتھ کی طرف دیکھتا ہوں تو میں کسی شے کو متحرک دیکھتا ہوں جو خالی جگہ میں متحرک ہے اور یہ حرکت میرے حواس سے سسٹے میٹکلی جڑی ہوئی ہے۔ یہ جڑت اس طرح کی ہے کہ میرا ادراک قابل بھروسا اشارہ دیتا ہے کہ میرا ہاتھ کہاں ہے۔ میرے پاس اس کاسوئل انٹرایکشن کا آئیڈیا ہاتھ کی حرکت‘ روشنی اور سایے کے اثرات اور رنگ بدلنا‘ ان کے میری آنکھ میں عکس بنانے سے آتا ہے۔ اور یہ سب مجھے یقین دلاتا ہے کہ میں اپنے ہاتھ کو متحرک دیکھ رہا ہوں۔ یہ تصور اس تصور سے بالکل مختلف ہے جو کسی پاگل سائنس دان کے میرے سر سے دماغ نکال کر مشین میں رکھنے اور اسے کمپیوٹر سٹیمولیشن دکھانے کے ایک کامیاب تعلق سے بنتا ہے۔ دونوں تصورات کے ملانے سے ایسا کچھ خیال ذہن میں آتا ہے کہ ممکن ہے کہ میں خدا کی آنکھ سے ایک تصور قائم کر پاؤں کہ میں جسے ہاتھ کا نام دے رہا ہوں وہ ہاتھ جیسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ا س صورت میں ہیلری پٹنم کا نکتہ نظر چیلنج ہو جاتا ہے۔ اس تصور کے ساتھ یہ نتیجہ نکالنا ممکن نہیں رہتا کہ یہ سو فیصد میرا ہاتھ ہی ہے کیونکہ ممکن ہے وہاں کچھ بھی نہ ہو‘ سوائے اس پاگل سائنس دان کی کمپیوٹر سٹیمولیشن کے جو وہ مجھے دکھا رہا ہے۔ اسی طرح ہیلری پٹنم کے نکتہ نظر میں ایک مزید مسئلہ بھی ہے۔
ہم مشین میں رکھے دماغ سے کچھ دیر کے لیے واپس حقیقی زندگی کی طرف لوٹتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ہاتھ کیا ہے اور اسی ہاتھ سے لکھتے لکھتے اٹھ کر باہر جاتا ہوں کسی چھوٹے موٹے کام کی بجا آوری کے لیے۔ اس دوران مجھے اغوا کر لیا جاتا ہے اور میری لا علمی اور بے ہوشی کی حالت میں میرے سر سے دماغ نکال کر مشین میں فٹ کر دیا جاتا ہے جہاں سائنسی ذرائع سے مجھے میرے ہاتھ کے عکس سے بنی کمپیوٹر سٹیمولیشن دکھائی جاتی ہے‘ جسے میں اپنا ہاتھ ہی سمجھ کر اسے ہاتھ کا نام دیتا ہوں حالانکہ وہ ہاتھ نہیں ہاتھ کا عکس ہے‘ ایک ورچوئل امیج۔ ایسی صورت میں بھی ہیلری پٹنم کی تجویز کردہ اپروچ ناکام ہو جاتی ہے۔ سو کہنے کی ضرورت نہیں کہ پٹنم کی دی گئی وضاحت کے باوجود تشکیک کا اونٹ واپس خیمے میں گھس آیا ہے۔
جیسا کہ اکثر ہوتا ہے‘ تشکیک کے اس جن سے جان چھڑانے کے لیے جادو کی کوئی گولی میسر نہیں اور بالیقین ہمیں پٹنم ایسا کوئی حل فراہم نہیں کرتا۔ تصور کیجیے‘ اور یہ تصور میں نے آج سے پانچ سال پہلے مسلم سکیپ ٹکس فورم میں بھی استعمال کیا تھا کہ ہم کسی فور ڈائمنشنل سطح جیسا کہ لوح محفوظ سے بہت بڑی تھری ڈی فلم یا میٹرکس یا وڈیو گیمیں پلے ہو رہے ہیں۔ اس صورت میں ہم سب کے دماغ مشین میں رکھے دماغ جیسے ہی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ میں اس میٹرکس زندگی میں اپنی زندگی سے بھرپو انداز میں لطف اندوز ہوتا ہوں۔دوستوں کے ساتھ محفل کرتا ہوں۔ فیس بک استعمال کرتا ہوں کہیں ملازمت یا کاروبار کرتا ہوں‘ میٹرکس کھانا کھاتا ہوں۔ غرض یہ کہ تسکین کے بہت سے ذرائع میرے استعمال میں ہیں تو میرے لیے یہ سوال کیوں اہم ہے کہ درحقیقت جو کچھ میں سوچ رہا ہوں وہ خواب ہے یا حقیقت ؟ یا مجھے حقیقت میں اتنی دلچسپی ہی کیوں ہے؟ ممکن ہے اس صورت میں آپ مجھے پچھلے مضامین سے یاد کرتے ہوئے میری اخلاقی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرنا چاہیں لیکن فی الوقت وہ سب ایک طرف کیجیے۔ تو اس دلیل سے ورٹیکل تشکیک یعنی ڈی ڈکشن پروبلم یا شے کو فی الذات جاننے کی الجھن تو دور ہو جاتی ہے لیکن اس سے انڈکٹو ریزننگ کا مسئلہ سامنے آتا ہے۔
اب تک جو ہوتا آیاہے وہ عین ممکن ہے بالکل درست ہولیکن یہ کیسے یقین کر لیا جائے کہ مستقبل میں بھی ایسا ہی ہو گا؟ یعنی اب تک ماضی کے حساب سے دی گئی شرائط کے ساتھ ایک جیسے نتائج نکلتے رہے لیکن اگلی بار ان کا یقینی ہونا تشکیک کی زد میں ہے۔ یہ مسئلہ دونوں تصورات یعنی حقیقی دنیا اور ورچوئل دنیا کے تصورات میں قائم رہتا ہے بلکہ عمودی تشکیک کی بہ نسبت انڈکٹو افقی تشکیک زیادہ تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ اور یہ مسئلہ ہمیں ہیومن انڈکشن کی طرف رجوع کے لیے مجبور کرتا ہے، جس کا حل ہمیں یقین کی اخلاقیات کے نظریے میں ملتا ہے کہ ہمیں کن باتوں پر یقین کرنا چاہیے اور کن پر نہیں۔
ڈیکارٹ نے اپنی تشکیک کا اظہار اس نکتہ نظر کے ساتھ کیا تھا کہ ہر وہ بات جو سو فیصد یقینی نہیں ہے اس پر یقین نہیں کرنا چاہیے اور علم اور تشکیک کے متعلق اس بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ اگر ہم سو فیصد یقین کے معیار پر اصرار کریں تو عین ممکن ہے کہ ہم کسی بات کو علم یا یقینی قرار نہ دے سکیں۔
لیکن ہمیں کیوں خود کو اتنے سخت معیار علم کا پابند کرنا ہے ؟ ہر یقین کو رد کرنا ہمارے لیے ممکن نہ ہو گا۔ اس سوال پر بہت سے فلاسفرز ہیوم کا ساتھ دیں گے جو کہتا ہے کہ ’جس طرح سے ہم بنے ہیں کچھ چیزوں پر ہمارا یقین کرنا عین فطری ہے اور ممکنہ طور پر یہ ایک اچھی ’عادت‘ ہے کیونکہ اگر ہم ایسے نہ ہوتے تو ہم سب شدید مشکلات کا شکار ہو جاتے ‘۔ آپ اس سے اتفاق کریں گے کہ ہیوم کی یہ سوچ جدید ایکسٹرنل ازم کے نظریات کے ساتھ لگا کھاتی ہے۔ سوچ یہ ہے کہ ہم اپنے تمام ایقانات اندرونی طور پر سو فیصد جسٹیفائی نہیں کر سکتے۔ ہمیں اپنے ایقانات کی سو فیصد اندرونی جسٹی فکیشن شے فی الذات کو جاننے کے نکتۂ نظر سے دینے کی ضرورت نہیں‘ ہمیں اپنی فطرت پر انحصار کرنا ہے جو ہمیں لا محالہ کچھ چیزوں پر یقین رکھنا سکھاتی ہے اور ہمیں بتاتی ہے کہ ہم اپنے حواس پر اعتماد رکھیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جسٹیفائیڈ اور اَن جسٹیفائیڈ میں فرق کو نظر انداز کر دیں۔بہرحال اگر ہمیں تشکیک کے خلاف علم کا دفاع کرنا ہے تو ہمیں ’ایبسولیوٹ ‘ سے کم معیار کو قبول کرنا ہو گا۔
یہ مضمون اجراء میگزین کراچی میں شائع ہوا۔